ادھورے خوابوں کا وارث……… رات کے پچھلے پہر، جب ہواؤں میں سردی کا کاٹ تھا اور خاموشی نے پورے شہر کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا، امجد علی ایئرپورٹ سے نکلتے ہوئے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آ بیٹھا۔ باہر سناٹا چھایا ہوا تھا، اور سڑکیں اس سنہرے اندھیرے میں نہا رہی تھیں جو کبھی کبھی ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ دور کہیں سے کسی ٹائر کے سست گھومنے کی مدھم آواز آتی، اور پھر خاموشی لوٹ آتی۔ کبھی کبھار کوئی گاڑی روشنی کا دھواں بنتی ہوئی یوں گزر جاتی جیسے کسی خواب کی ایک دھندلی جھلک ہو۔ تھکن