Part 2 Marriage of choice in the light of Islamic teachings in Urdu Spiritual Stories by Shekh Javed Ashraf books and stories PDF | 2 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی

Featured Books
Categories
Share

2 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی

Part 2

 

پسند اور نجی معاملہ کے نام پر غیر فطری عمل اختیار کیے جا رہے ہیں ان کی شرعی حیثیت درج ذیل ہے
1۔ مرد کی مرد کے ساتھ شادی:-
مغربی ممالک میں مرد کی مرد کے ساتھ شادی کا رواج عام ہے
مگر چونکہ اس قسم کے تعلق سے مقصود عیش و عشرت ہے، عفت و عصمت و بقائے نسل انسانی و دیگر مقاصد پیش نظر نہیں ہوتے اس لئے شریعت اسلامیہ نے اس قسم کے تعلقات پر کڑی پابندی لگائی ہے
قرآنی شہادت کے مطابق مرد کی دوسرے مرد کے ساتھ جنسی تعلق کی ابتداء حضرت لوطؑ کی قوم سے ہوئی
اور جب وہ اس جرم عظیم سے باز نہ آئی تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور زمین کو اُلٹ کر ان پر پھینک دیا گیا
اس فعل قبیح کی سزا بیان کرتے ہوئے ارشاد باری تعالی ہے:-

وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا
’’تم میں سے جو دو مرد بدکاری کریں ان کو ایذا دو‘‘

اور اسی طرح حدیث میں ہے :-
مَنْ وَجَدْ تُمُوہُ یَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِہِ
’’تم جس کو قوم لوط کا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو ‘‘
2۔ عورت کی عورت سے شادی:-
عورت کا عورت سے شادی کرنا جیسا کہ یورپ میں اس قسم کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں لیکن افسوس کہ مشرق میں بھی ایسے بدذات دیکھنے لگے ہیں
اسلام میں اس قسم کے تعلقات بھی مذموم و ممنوع ہیں
حدیث میں ہے:-
َلایَنْظُرُ الرَّجُلُ اِلَی عَوْرَۃِ الرَّجُلِ وَلَا الْمَرْ أَۃُ اِلَی عَوْرَۃِ الْمَرْأَۃِ وَلَا یُفْضِی الرَّجُلُ اِلَی الرَّجُلِ فِی ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَلَا تُفْضِی الْمَرْأَۃُ اِلَی الْمَرْ أَۃِ فِی الثَّوْبِ الْوَاحِدِ
’’کوئی مرد کسی مرد کا ستر نہ دیکھے اور نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کا ستر دیکھے اور نہ ہی کوئی مرد ایک کپڑے میں دوسرے مرد کے ساتھ لیٹے اور نہ ہی کوئی عورت ایک کپڑے میں دوسری عورت کے ساتھ لیٹے‘‘
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (م۔ 1176ھ) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-
اقول: ذلک لان النظر الی العورۃ یھیج الشہوۃ، والنساء ربما یتعا شقن فیما بینھن وکذالک الرجال فیما بینھم ولاحرج فی ترک النظر الی السوء ۃ، وایضا فستر العورۃ من اصول الارتفاقات لا بد منھا۔
’’میں کہتا ہوں یہ ممانعت اس لئے ہے کہ ستر کا دیکھنا شہوت کو برانگیختہ کرتا ہے اور بسا اوقات عورتیں بھی ایک دوسرے پر فریفتہ ہو جاتی ہیں اور اس طرح مرد بھی ایک دوسرے کے عاشق ہو جاتے ہیں اور ستر کی طرف نظر نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نیز ستر کو چھپانا تہذیب کے ان اصولوں میں سے ہے جن کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے‘‘
چنانچہ شریعت اسلامیہ میں مردوں کے مردوں کے ساتھ عورتوں کے عورتوں کے ساتھ اس قسم کے تعلقات سختی سے منع ہیں
3۔ مرد کا غیر عورت کے ساتھ تعلقات قائم کرنا:-
نکاح کے بغیر مرد کا عورت کے ساتھ جنسی تعلقات کبیرہ گناہ ہیں
جس کی سزا شادی شدہ کے لئے رجم اور کنوارے کے لئے سوکوڑے ہیں اور اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ قوم لوط والا عمل کرے تو اس پر بھی بڑی سخت وعید ہے
حضور اکرمﷺ نے فرمایا:-
لایَنْظُرُ اللَّہُ اِلَی رَجُلٍ أَتَی رَجُلًا أَوْ امْرَأَۃً فِی الدُّبُرِ
’’اللہ اس شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو کسی مرد یا عورت سے غیر فطری عمل کرے یعنی پیچھے سے جماع کرے‘‘
واتفق العلماء الذین یعتدبھم علی تحریم وطء المرأۃ فی دبرھا حائضا کانت أوطاھراً لأحادیث کثیرۃ مشھورۃ۔
’’بہت سی احادیث مشہورہ کے پیش نظر قابل اعتماد علماء کا اتفاق ہے کہ عورت سے وطی فی الدبر کرنا حرام ہے خواہ وہ حائضہ ہو یا پاک‘‘
4۔ جانوروں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا:-
مغربی ممالک میں ایک قبیح فعل جانوروں کے ساتھ فحش حرکات میں ملوث ہونا ہے
مگر اسلام میں اس کی بڑی سخت مذمت اور وعید آئی ہے جانوروں کے ساتھ فعل بدکی سخت سزا تجویز کی گئی ہے
حضور اکرمﷺ نے فرمایا:-
مَنْ وَجَدْ تُمُوہُ وَقَعَ عَلَی بَھِیمَۃٍ فَاقْتُلُوہُ وَاقْتُلُوا البَھِیمَۃَ
’’جس کو جانور سے بد فعلی کرتے پاؤ اسے قتل کر دو اور جانور بھی ہلاک کر دو‘‘
بلکہ ایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے حدیث میں ہے :-
مَلْعُونُْ‘ مَنْ أَتَی بَھِیْمَۃً
’’چوپائے سے بد فعلی کرنے والا بھی ملعون ہے‘‘
الغرض یہ کہ نکاح کے پاکیزہ رشتے کے علاوہ باقی جتنی بھی صورتیں ہیں ان میں حفاظت نسب کی کوئی صورت نہیں
جب کی بعض صورتوں میں نسل انسانی کا خاتمہ ہے اور نکاح سے معاشرتی زندگی میں جو فوائد حاصل ہوتے ہیں وہ بھی پس پشت چلے جاتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ وفساد پیدا ہوتا ہے اور سب سے بڑی نقصان دہ بات یہ ہے کہ انسانیت ختم ہو جاتی ہے
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب خواہشات کی تکمیل کے لئے اخلاقی و مذہبی پابندیوں کی رعایت نہ کی جائے تو پھر معاشرہ میں پھیلنے والی انارکی کا تصور ہی لرزا دینے والا ہے

اسی لیے شریعت اسلامیہ نے ناجائز راستوں پر پابندیاں لگائیں
مذکورہ بحث سے معلوم ہوا کہ شریعت نے پسند کے نکاح کی اجازت دی ہے مگر ناجائز اور غلط طریقوں سے پسند کو اپنانے سے منع کیا ہے
مردوں کے لیے پسند کی شادی کی شرعی حیثیت:-
شریعت اسلامیہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کسی بھی ایسی عورت سے شادی کرسکتا ہے جو نہ اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو اور نہ وقتی کسی عارض کی وجہ سے حرام ہو قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر ہے
ارشاد ربانی ہے:-

فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً
’’ تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو‘‘

بلکہ نکاح سے پہلے مرد کا اس عورت کو دیکھنا جائز ہے جس سے وہ نکاح کر رہا ہے احادیث میں نہایت صراحت کے ساتھ اس کا ذکر ملتا ہے حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے:-
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا خَطَبَ أَحَدُکُمْ الْمَرْأَۃَ فَاِنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَنْطُرَ اِلَی مَا یَدْعُوہُ اِلَی نِکَا حِھَا فَلْیَفْعَلْ قَالَ فَخَطَبْتُ جَارِیَۃً فَکُنْتُ أَتَخَبَّأُ لَھَا حَتَّی رَأَیْتُ مِنْھَا مَا دَعَانِي اِلَی نِکَاحِھَا وَتَزَوُّجِھَا فَتَزَوَّجْتُھَا
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو پیغام نکاح دے تو اگر ممکن ہو اس کو دیکھ لے اس کے بعد نکاح کرے
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک لڑکی کو نکاح کا پیغام دیا اور میں نے اس کو چھپ کر دیکھ لیا یہاں تک کہ میں نے اس میں وہ چیز پائی جو نکاح پر رغبت کا سبب بنی پھر میں نے اس سے نکاح کر لیا‘‘
بلکہ اس مضمون کی اور بھی احادیث ہیں جن میں نکاح سے قبل عورت کی طرف دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے
امام ابن بطالؒ(م۔ 449ھ) لکھتے ہیں :-
ففی ھذہ الأحادیث اباحۃ النظر الی وجہ المرأۃ لمن أرادنکاحھا۔
’’پس ان احادیث میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ جس عورت سے نکاح کا ارادہ ہو اس کے چہرے کی طرف دیکھنا جائز ہے ‘‘
جمہور کی رائے :-
جمہور علماء کے نزدیک قبل از نکاح مخطوبہ عورت کو دیکھنا جائز ہے
امام ابن بطالؒ لکھتے ہیں :-
ذھب جمھور العلماء الی أنہ لابأس بالنظر الی المرأۃ اذا أراد أن یتزوجھا۔
جمہور علماء اس بات کی طرف گئے ہیں کہ جب کسی عورت کے ساتھ شادی کا ارادہ ہو تو اس کی طرف نظر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
محی الدین امام نوویؒ مخطوبہ عورت کی طرف نظر کے جواز والی حدیث نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :-
وفیہ استحباب النظر الی وجہ من یرید تزوجھا وھو مذھبنا ومذھب مالک وأبی حنیفۃ وسائر الکوفیین وأحمد وجماھیرالعلماء۔
’’اور اس حدیث میں ہے کہ عورت کے چہرے کی طرف نظر کرنا اس شخص کے لئے مستحب ہے جو نکاح کا ارادہ رکھتا ہو اور یہی مذہب ہمارا (شوافع کا ) ہے اور (امام )مالکؒ اور (امام) ابوحنیفہ اور تمام کوفہ(کے اہل علم) اور (امام) احمدؒ سمیت جمہور علماء کا ہے۔l ‘‘
امام عبدالرحمن المقدسی الحنبلیؒ(م۔ 682ھ) لکھتے ہیں :-
قال شیخنا لا نعلم بین أھل العلم فی اباحۃ النظر الی المرأۃ لمن أرادنکاحھا خلافا۔
’’ہمارے مشائخ نے کہا کہ ہم نہیں جانتے اہل علم کے درمیان اختلاف واقع ہو اس عورت کی طرف نظر کے جائز ہونے کے بارے میں جس سے کوئی شخص نکاح کا ارادہ رکھتا ہو ‘‘
مخطوبہ عورت کے جن اعضاء کو دیکھنا جائز ہے :-
محدث جلیل مولانا ظفر احمد عثمانیؒ تھانوی(م۔ 1394ھ)باب جواز النظر الی المخطوبہ میں حضرت مغیرہ بن شعبہؓ ، حضرت جابرؓ بن عبداللہ، حضرت محمد بن مسلمہؓ ، حضرت ابو حمید الساعدیؓ کی مخطوبہ عورت کی طرف قبل از نکاح دیکھنے والی روایات ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں جس کا مفہوم درج ذیل ہے:-
’’کہ احادیث مذکورہ اس باب میں نص ہیں کہ یہ نظر صرف ان اعضاء کی طرف ہوسکتی ہے جو ستر میں داخل نہیں ہیں مثلاً چہرہ اور ہتھیلیاں اور جمہور کا یہی مذہب ہے اور اس مسئلہ میں جمہور کی دلیل حضرت جابرؓ کی روایت فَخَطَبْتُ جَارِیَۃً فَکُنْتُ أَتَخَبَّأُ ہے اور راوی جو روایت کرتا ہے وہ اس کو زیادہ پہچانتا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ خاطب لڑکی کے اولیاء سے یہ مطالبہ نہیں کرسکتا کہ لڑکی کو اس کے سامنے لایا جائے
اس لیے کہ اس میں اولیاء کی سبکی ہے اور ایسے مباح کام جن میں کسی کی سبکی ہوسکتی ہو وہ جائز نہیں ہوتے اور نہ ہی عورت کو مطلع کرتے ہوئے دیکھا جائے اس لیے کہ ایسے معاملات میں عورتوں کو حیا آتی ہے اور اس طرح سے اجنبی مرد کی نظر عورت کے دل پر گراں گزرتی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے عورتوں کی جبلت میں غیرت رکھی ہے

بہرکیف چپکے اور خفیہ طریقے سے مخطوبہ عورت کو دیکھنا جائز ہے اور اس قسم کی نظر میں چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھی جا سکتی ہیں
مخطوبہ عورت کو نکاح سے قبل دیکھنے کی اجازت میں شریعت کی حکمت:-
شریعت اسلامیہ کا قبل از نکاح مخطوبہ عورت کی طرف دیکھنے کو جائز قرار دینے کا مقصد یہ ہے کہ پیغام نکاح دینے والے مرد کے دل میں الفت و محبت کے جذبات پیدا ہوں اور وہ اس عورت کو اپنی پسند اور رضا سے اپنائے تاکہ بعد میں ناپسندیدگی کی وجہ سے ندامت و شرمندگی کا سامنا نہ ہو
علامہ ابن نجیمؒ (م۔ 970ھ) لکھتے ہیں :-
ونظرہ الی مخطوبتہ قبل النکاح سنۃ فانہ داعیۃ للألفۃ۔
’’اور مخطوبہ عورت کی طرف نکاح سے قبل دیکھنا سُنت ہے پس بے شک یہ دیکھنا محبت کی طرف داعی ہے‘‘
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں :-
السبب فی استحباب النظر الی المخطوبۃ ان یکون التزوج علی رویۃ وان یکون أبعد من الندم الذی یلزمہ ان اقتحم فی النکاح ولم یوافقہ۔
’’مخطوبہ عورت کی طرف دیکھنے کے مستحب ہونے کا سبب یہ ہے کہ شادی غور و فکر سے ہو اور وہ اس ندامت سے دور رہے جو اس کو نکاح کرنے کے بعد لاحق ہو گی
اگر وہ شادی اسے موافق نہ آئی‘‘
مذکورہ بالا حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ نکاح سے عورت کو دیکھنے کی اجازت دینا اسی لئے تاکہ اس کی محبت میں اضافہ ہو اور زندگی پرسکون و خوشگوار گزرے
اور اہم بات یہ کہ جمہور فقہاء کے نزدیک مخطوبہ عورت کو دیکھنے کے لئے اس کی رضا مندی ضروری نہیں ہے بلکہ چپکے سے اس کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر اطلاع کیے دیکھا جا سکتا ہے
اس لئے کہ احادیث میں بھی عورت کی اجازت کے ساتھ دیکھنے کا ذکر نہیں ہے اور اس کی حکمت یہی ہوسکتی ہے کہ اگر اس کو اطلاع کیے بغیر دیکھ لیا اور وہ پسند نہ آئی تو اسے ٹھکرائے جانے پر تکلیف اور اذیت نہیں ہو گی
مندرجہ بالا اہل علم کے اقوال سے معلوم ہو رہا ہے کہ نکاح سے قبل مرد کو عورت کے چہرے کی طرف نظر کرنے کی اجازت دینا اسی لئے ہے تاکہ وہ پسند کی شادی کرسکے اور بعد میں ناپسندیدگی کی تلخیاں اس کی زندگی میں زہر نہ گھول سکیں
شریعت اسلامیہ چاہتی ہے کہ رشتہ نکاح ایک پائیدار رشتہ ہو اس لئے وہ ابتداء ً ہی ناپائیداری کے تمام دروازوں کو بند کر دیتی ہے
اس لئے اس لڑکی کو نکاح سے قبل دیکھنے کی اجازت دی گئی
بلکہ آپﷺ نے اس کی ترغیب فرمائی کہ جس کو پیغام نکاح دیا جائے پہلے اس کو دیکھ لیا جائے
لیکن مغربی تہذیب تو اس بات کی اجازت دے رہی ہے کہ مرد و عورت کو نکاح سے قبل ایک دوسرے کے ساتھ ایک عرصہ تک وقت بھی گزارنا چاہیے اور باہم پیار و محبت کے تعلقات رکھنے چاہییں تاکہ اچھی طرح ایک دوسرے کی طبیعت اور مزاج کا علم ہو جائے
مگر اسلام اس طرح کے تعلقات کو بے حیائی اور کبیرہ گناہ قرار دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔