Qaydi number 107 in Urdu Fiction Stories by Ali Mahmood books and stories PDF | قیدی نمبر ٣٠٧

Featured Books
  • ذہن کی گوگل کتاب

    ایمان کے ساتھ زندگی گزارنا آسان ہو جاتا ہے۔ غم کے دنوں میں ہ...

  • زندہ لاش

    زندہ لاش کی لمبی عمر کی دعا نہ کریں۔ تمہیں پوری سزا مل چکی ہ...

  • ساجن کا خط

    محبت بھرا خط لکھنے میں وقت لگتا ہے۔ کچی کلیوں کو کھلنے میں و...

  • REVENGE

    CHAPTER 1: THE RIVALRY BEGINS Ek baar Pakistan ke sheher Kar...

  • دل کی بات

    اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ رکھیں ہمت کو ذہن میں رکھیں   صرف...

Categories
Share

قیدی نمبر ٣٠٧

📚 *افسانہ :قیدی نمبر 307*

 

✍🏻 *قلم کار: دانش حماد جاذب*

 

صبح صبح علقمہ کے گھر کے باہر بھیڑ لگی تھی ابھی تھوڑی دیر قبل ہی فجر کی جماعت ہوئی تھی مشکل سے ڈیڑھ صف بھی نمازی نہ تھے پھر دو تین سو لوگ کہاں سے جمع ہوگئے۔ ہر ایک کی زبان پر سوال تھا۔ 

کیسے ہوا؟ 

کب ایسا کرلیا؟ 

اتنا بڑا قدم کیسے اٹھا لیا؟ 

گھر کے کچھ افراد احوال بتارہے تھے۔ 

کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے یہ تو بزدلی کا کام ہے۔ 

ایسے لوگوں کے جنازے پر اہل علم کا جانا بھی صحیح نہیں ہے 

ہر ایک کی زندگی میں کچھ نہ کچھ پریشانی، دشواری ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی جان لینے کا فیصلہ کرلے۔ خودکشی حرام ہے اور وہ اس جرم کا ارتکاب کیسے کرسکتی ہے ابھی تو شادی کے دو سال ہی ہوئے تھے اور بڑی محبت سے اسے افضل بیاہ کر لایا تھا دونوں کی محبت میں کمی نہ تھی پھر اچانک یہ خبر تو پوری طرح حیران کرنے والی تھی۔ 

 

تیزی کے ساتھ چار کاریں گھر کے پاس آکر رکی اور بارہ پندرہ افراد کار سے اتر کر گھر کی طرف دوڑ پڑے ان میں چند لڑکیاں اور ایک تندرست فربہ خاتون بھی تھی جو دھاڑیں مارتی ہوئی چلاتی ہوئی کار سے اتری اور بھاگتی ہوئی گھر میں داخل ہوئ۔ 

مجمع میں کسی نے پوچھا یہ لوگ کون ہیں 

کسی نے کہا: یہ علقمہ کے میکے والے ہیں 

گھر کے اندر کا ماحول بالکل الگ تھا کھپریل کا گھر روم کے اندر اوپر عین وسط میں موٹی لکڑی کا رول جس سے پنکھا لٹکا ہوا تھا دروازہ ٹوٹا ہوا اوپر سے چند کھپریل ہٹے ہوئے تھے جہاں سے آسمان نظر آرہا تھا پنکھے سے لگا دوپٹہ اور دوپٹے میں لپٹی علقمہ کی گردن ایک درناک منظر دیکھ کر ہر کسی کی آنکھوں میں آنسو آجاتے کمزور دل والے زیادہ دیر اس کمرے میں ٹھہرتے بھی نہ تھے۔موٹی خاتون جو علقمہ کی ماں تھی افضل کا گریبان پکڑ کر بار بار اس سے سوال کررہی تھی کیسے ہوگیا افضل یہ؟ میری کلی اتنی بزدل نہیں تھی کیسے اس نے یہ فیصلہ کرلیا؟ 

افضل ( جو گل جان قریشی سے معروف تھا)روتا ہوا اتنا ہی کہہ پایا تھا : امی سبزی لانے کو لیکر دو دن پہلے چھوٹا سا جھگڑا ہوا تھا دو دن سے ہم دونوں کی بات چیت بند تھی ۔ کل رات بھی یہ عدنان کو لے کر دوسرے کمرے سوئی صبح میں نے اس کو جگانے کی نیت سے دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی آواز نہیں آئی کافی دیر تک کوئی آواز نہیں آئی دروازہ زور زور سے پیٹنے لگا تو بچے کی رونے کی آواز آئی جو ابھی کچھ ماہ کا ہی تھا۔ بچے کی آواز سن کر میں گھبرا یا کہ علقمہ (پیار سے گھر والے کلی پکارتے تھے) کچھ بول کیوں نہیں رہی میں اوپر چڑھ کر کھپریل ہٹاکر اندر آیا تو یہ منظر تھا دروازہ اندر سے بند تھا اور کلی کی لاش پنکھے سے لٹکی تھی۔ 

نہیں گل جان میری کلی ایسا کبھی نہیں کرسکتی آپ کچھ چھپا رہے ہیں ۔  

تھوڑی دیر میں پولیس کی جیپ آپہنچی لاش کو اتارا اور معائنہ کیا اور پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا گیا۔ 

 

 

جیل کے ملازم بھاگتے ہوئے جیلر کے پاس پہنچے اور ہانپتے ہوئے چلانے لگے سر جلدی چلیے قیدی نمبر 307 بے قابو ہوا جارہا ہے اپنا گلا خود دبا رہا ہے کوئی بچاو کے لئے جارہا ہے تو اسے بھی مار رہا ہے۔۔۔ 

جیلر اور اس کے ساتھ چار کانسٹیبل دوڑتے ہوئے اس قیدی کے پاس پہنچے اسے دبوچ لیا اور پکڑ کر باندھ دیا ۔ 

جیلر نے گالی بکتے ہوئے کہا کیوں بے کیوں پریشان کررہا ہے پھانسی تو تجھے ملے گی ہی کچھ دن صبر کرلے۔ سالا بلڈی مڈرر۔ مارو سالے کو اور جیلر کے حکم پر کانسٹیبل شروع ہوگئے مار کھا کر جب وہ نڈھال ہوگیا تو اسے کال کوٹھری میں پھینک دیا گیا۔ جہاں وہ درد سے کراہتا ہوا نیم بے ہوشی کی حالت میں اوندھے منہ پڑا تھا۔ 

 

بڑا بازار قصائی محلہ میں گوشت کی دکانیں صبح تڑکے ہی کھل جاتی تھیں پورے محلے میں ایک قطار سے دونوں جانب گوشت کی دکانیں کھلیں تھیں جس طرح گھروں میں جھومر جھولتے ہیں دکانوں کے آگے گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے جھول رہے تھے۔ سبھی دکانوں میں گراہک موجود تھے مول بھاو خرید و فروخت کا بازار گرم تھا ۔ اختر خان بھی ہاتھ میں موٹی چھری لئے گوشت کا قیمہ کررہا تھا۔ اختر خان قصائی محلے کا بڑا دکاندار تھا۔ لمبے قد کاٹھی کا موٹا انسان جس کے توند بہت زیادہ ہی باہر نکلے تھے کھردرا چہرہ بے سلیقہ داڑھی ہونٹ اور داڑھی کے کچھ بال لال تھے آنکھوں میں سرمہ پیشانی پر پسینے کی چھوٹی چھوٹی بوندیں اس کے چہرے کو اور بھی ہیبت ناک بناتی تھیں۔ بائیں جانب ایک بالٹی رکھی تھی جو پتہ نہیں کس رنگ کی تھی مگر اختر خان کی پچکاریوں نے اسے لال کردیا تھا۔ 

 اختر خان کھدرا کم اور ہول سیل سپلائی زیادہ کرتا تھا اس کے دونوں بیٹے مال کی ڈیلیوری کا کام کرتے تھے یوں اچھی خاصی دکان چل رہی تھی۔ 

قیمہ کوٹنے کا کام ختم کرکے وہ اپنی پشت کی جانب کی کھڑکی کھول کر چلایا 

گل جان! اے گل جنوا! جلدی آو یہاں۔ ہر وقت موبائل میں گیمے(گیم) کھیلتا رہتا ہے 

جی ابو ابھی آیا(اور وہ دوڑتا ہوا باپ کے پاس آکھڑا ہوا) باپ کا خوف ہی ایسا تھا ۔ ۲۳ سالہ جوان لڑکا رنگ گورا تندرست گھنگریالے بال معصوم تو نہیں مگر بھلا معلوم ہوتا تھا۔ والد سے مخاطب ہوا ابو یہ گل جنوا کیا ہوتا ہے گل جان کہیے۔ 

ارے تم لوگ ایک بار میں سنتے کہاں ہو! جاؤ یہ گوشت اور قیمہ زبیدہ خالہ کے یہاں پہچا کر آؤ

جی ابو کہہ کر اس نے بوریا اٹھاکر اسکوٹر پر رکھا اور نکل گیا

 

 دستک سن کر زبیدہ نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ اک جوان لڑکا تھوڑا تھکا ہوا بوریا لئے کھڑا تھا دیکھتے ہی زبیدہ نے پہچان لیا۔ 

اختر بھائی نے بھیجا ہے؟ 

ج۔ جی (جھجکتے ہوئے گل جان نے کہا) 

زبیدہ : لاؤ یہاں رکھ دو کافی دیرکر دی تم نے 

گل جان: جی میں پہلی بار آیا ہوں تو پتہ پوچھتے پوچھتے دیر ہوگئ۔ پہلے بھیا آتے تھے 

زبیدہ : اچھا تو تم اختر بھائی کے بیٹے ہو! آو آؤ اندر بیٹھو پنکھے میں۔ اسے کرسی پر بٹھا زبیدہ نے ٹیبل فین آن کردیا 

گل جان: خالہ پانی ذرا پلادیجئے 

زبیدہ : کلی اے کلی ایک گلاس روح افزا بنا کر لے آؤ اختر بھائی کے بیٹے پہلی بار ہمارے گھر آئے ہیں۔ 

اتنی عزت اور محبت دیکھ کر گل جان تھوڑا مسکرا اور سوچنے لگا یہ لوگ اتنے غریب ہیں مگر کس قدر محبت سے پیش آتے ہیں۔ ابھی وہ محو تخیل ہی تھا کہ ایک لڑکی روح افزا کا گلاس لے کر آئی۔ سانولی سی سڈول سی لڑکی جس کے نین نقش کھڑے تھے بوسیدہ سے کپڑے میں بھی بھلی معلوم ہورہی تھی۔ گل جان کی نگاہیں اٹک سی گئیں۔ اس کے تخیل کو زبیدہ نے توڑا۔ 

لو بیٹا روح افزا پیو اچھا لگے گا 

اپنی اس حرکت پر اسے شرمندگی محسوس ہوئی اور وہ خاموشی سے گلاس لے کر پینے لگا۔ شربت پی کر وہ چلا گیا۔ 

راستے بھر اس کی آنکھوں میں کلی کا چہرہ کا گھومتا رہا اور وہ دبی دبی آواز میں کہتا جارہا تھا۔۔ کلی گل ۔۔ کلی گل۔۔ گل کی کلی 

اس دن کے بعد سے ہر دن صبح سویرے ہی وہ والد کے ساتھ دکان پر من لگا کر کام کرنے لگا اور خاص طور

پر اس کا دھیان اس طرف لگا رہتا 

تھا کہ زبیدہ کا آرڈر نکلے۔ اب ہر روز وہ زبیدہ کا آرڈر لے کر جاتا ۔ ایک ہی شخص کا بار بار آنے جانے سے انسیت پیدا ہوگئی اور اب گل جان گھر کے فرد کی طرح ہوگیا۔ موقع نکال کر وہ کلی سے بھی ملنے کی کوشش کرتا اور یہ ملاقات دھیرے دھیرے محبت میں تبدیل ہوگئی۔ 

اسے اپنی پہلی ملاقات اچھی طرح یاد تھی کہ جب زبیدہ گھر پر نہیں تھی اور کلی نے دروازہ کھولا تھا باتوں باتون میں کلی نے پوچھا تھا آپ کا نام کیا ہے؟ 

نام تو میرا افضل خان ہے پر جو لوگ مجھے پیار کرتے ہیں گل جان بلاتے ہیں (فلمی انداز میں وہ ڈائیلاگ دہرایا تھا) اور تمہارا نام کیا ہے؟ کلی؟ 

نہیں نہیں، کلی تو گھر والے پکارتے ہیں اصل نام تو علقمہ فردوس ہے۔ 

علقمہ کلی، کلی علقمہ 

کلی۔ ی۔ ی۔ ی زور سے چیخ کر اٹھا تھا وہ 

کانسٹیبل نے بالٹی بھر پانی اس کے منہ پر مارا تھا۔ 

ابے اوے 307 چل عدالت تیرے فیصلے کا وقت آگیا۔ اور وہ سر جھکا ئے کانسٹیبل کی اتباع کرنے لگا۔ 

عدالت میں بھیڑ بہت تھی گل جان کے گھر والے اس کی طرف دیکھ رہے تھے اس کے سسرال والے بھی موجود تھے مگر وہ ہر کسی سے بے نیاز خیالوں کی دنیا میں گم سر جھکا ئے ہلکے قدموں سے چل کٹگھر ے میں جا کھڑا ہوا۔ 

عدالتی کاروائی شروع ہوئی گواہوں کے بیان سنے گئے اور ثبوت ، پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھے گئے۔ تمام باتوں پر غور کرنے کے بعد جج نے سوال کیا:

افضل خان عرف گل جان کیا تم اس جرم کا اقرار کرتے ہو کہ تم نے اپنی بیوی علقمہ کا گلا گھونٹ کر قتل کردیا؟ 

خاموش کھڑا گل جان تو اب بھی ماضی میں گم تھا۔ کلی سے گفتگو کررہا تھا۔ 

کلی دیکھنا بہت جلد تمہیں اپنے گھر لے جاؤں گا۔ اب بس تم شادی کی تیاری کرو۔ 

کلی :ہم غریب ہیں کیا تیاری کریں گے

ارے کم از کم خود کو تو سنوار سکتی ہو۔ کلی شرما کر دوسرے کمرے میں چلی گئی 

گل جان نے اپنے گھر میں ضد مچا دی کہ وہ کلی سے ہی شادی کرے گا گھر والے اس کی ضد کے آگے ہار گئے اور کلی نے بھی زبیدہ کو بتا دیا کہ وہ گل کے آنگن میں ہی کھلے گی۔

دونوں کے گھر والوں نے نکاح کا ایک دن مقرر کیا اور گل جان بارات لے گر زبیدہ کے گھر آ پہونچا۔ 

اسٹیج میں بڑے حروف میں لکھا تھا "گل کی کلی" لوگ مبارک باد دے رہے تھے سہیلیاں کن انکھیوں سے شرارتی گفتگو کررہی تھیں اور کلی کو چھیڑ رہی تھیں ۔ 

نکاح کا وقت بھی آیا جب امام صاحب نے قران کی چند آیتوں کی تلاوت کی ہر سو خاموشی چھاگئی اور امام صاحب نے بلند آواز میں کہا" میں بحیثیت قاضی علقمہ فردوس بنت زہیر حمزہ کو بعوض دس ہزار روپئے دین مہر مع نان و نفقہ آپ کی زوجیت میں دیتا ہوں کیا آپ نے قبول کیا؟ جی میں نے قبول کیا (دھیرے سے بدبدایا تھا وہ) 

 

اس بار جج نے قدرے چیخ کر کہا۔ افضل خان کیا تم یہ جرم قبول کرتے ہو؟ 

دبی چیخ کے ساتھ گل جان نے کہا : جی میں نے قبول کیا

عدالت میں سبھی حیران تھے خاص طور پر گل جان کے گھر والے 

 

جج صاحب نے بلند آواز میں کہا کہ تمام ثبوت اور شواہد ملزم افضل خان عرف گل جان کے خلاف جاتے ہیں اور ملزم نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا ہے۔اس لئے تعزیرات ہند دفعہ 307 کے تحت انہیں سزائے موت دی جاتی ہے"

اک شور پوری عدالت میں ہوا مگر اس شور سے بے نیاز گل جان سر جھکا ئے سیدھا وین میں جاکر بیٹھ گیا۔ وہ تو اب بھی گم تھا۔ 

حجلہ عروسی میں پہلی شب کتنی خوش کن تھی دونوں نے مل کر زندگی کی پلاننگ کی تھی بہت سے خواب سجائے تھے۔ اور ایک سال بعد ہی عدنان کلی سے پھوٹ کر نکلا ۔ گھر میں خوشی ہی خوشی تھی عدنان سے کھیلتے دونوں کا وقت گزر رہا تھا۔ 

پھر اس دن کیا ہوا تھا؟ کلی نے صرف سبزی لانے پر بحث کی تھی کہ آپ کو سبزی کی خریداری نہیں آتی ۔ اور بحث لڑائی میں تبدیل ہوگئی اور لڑائی ہاتھا پائی تک پہنچ گئی ۔ اور پھر۔ اور پھر اس نے سر کو جھٹکا تاکہ خیالوں کا تسلسل ٹوٹے ۔ 

کانسٹیبل سمجھا کہ یہ شرارت کررہا ہے دھکیل اسے جیل میں اسی کوٹھری میں بند کردیا اور قہقہ لگاتے ہوئے کہا کہ اب یہیں اپنی موت کی گھڑی کا انتظار کرو۔ 

اس کی زندگی کی آخری رات تھی رات بھر وہ سو نہیں پایا تھا ۔ سحر کے وقت لوگ قیدی نمبر 307 کو لینے آئے اسے نہلایا صاف کپڑے پہنائے اور ایک دوسری کوٹھری میں بٹھا دیا۔فجر کے اذان کی صدائیں بلند ہوئیں جیل کے قریب ہی مسجد تھی جس میں جماعت ہورہی تھی اور وہ صاف سن رہا تھا اس نے پانی طلب کیا دو رکعت نماز ادا کی اور اپنے گناہوں کی مغفرت مانگی۔ پھر سر جھکا کر مقتل کی کانسٹیبل کی اتباع کرتے ہوئے چلنے لگا اس کے سر اور منہ کو کالے کپڑے سے ڈھک دیا گیا۔ یکایک اندھیرا چھا گیا اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس دن بھی اس کی آنکھوں کے آگے ایسا ہی اندھیرا چھا گیا تھا۔ 

گل اور کلی کی لڑائی مار پیٹ تک پہنچ گئی غیر ارادی طور پر اس کا ہاتھ کلی کے گلے تک پہنچا تھا۔ جانوروں کو ذبح کرتے وقت وہ اتنی زور سے جانوروں کو پکڑتا اور دبائے رکھتا تھا کہ اسے احساس بھی نہ ہوا کہ اس کے نیچے انسان ہے یا جانور اور تھوڑی ہی دیر میں کلی دم توڑ چکی تھی جب اس کا بدن ڈھیلا پڑگیا تب گل جان کو ہوش آیا اور اس کی آنکھوں کے سامنے بالکل اندھیرا چھا گیا۔ کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی محبت کا گلا گھونٹ دیا۔ اس کی جان لے لی جس پر جان چھڑکتا تھا مگر اب افسوس بے کار تھا پھر اس نے اپنے بچاو کے لئے طریقہ سوچا جلدی جلدی اس کے گلے میں دوپٹہ پھنسا کر پنکھے سے باندھ دیا۔ اندر سے کنڈی لگا کر خود اوپر کے کھپریل ہٹاکر باہر نکل گیا۔۔۔ 

موقع پر پولیس نے ان باتوں کو نوٹ کیا کہ کلی کا پاؤں بیڈ پر لگ رہا ہے تو یہ جھولی کیسے ۔ اس کی گردن پر بھی دو انگلیوں کے گہرے کالے نشان تھے جس سے گل جان کا جرم ثابت ہوتا تھا۔ 

میں نے اپنی محبت کا خون کیا آج میرا بھی انجام وہی ہے چلو اچھا ہے میں بھی اسی کے پاس جارہا ہوں اس سے معافی بھی مانگ لوں گا اس کے لبوں پر ہلکی مسکان آگئی۔ 

جیل کی گلیوں سے گزرتے ہوئے فجر کے بعد امام صاحب کے درس قران کے الفاظ صاف کانوں میں پڑ رہے تھے "اور ہم نے تورات میں ان پرلازم کردیاتھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت ( قصاص لیا جائے گا) "