So this is God's last message in the age in Urdu Spiritual Stories by MUHAMMED ABUSAIF SIDDIQUI books and stories PDF | تو زمانہ میں خدا کا آخری پیغام ہے

Featured Books
  • کاغذ

    زندگی کا کورا کاغذ پڑھ سکتے ہو تو پڑھ لو۔ اگر چند لمحوں کی م...

  • خواہشات کا سمندر

    خواہشوں کا سمندر دور دور تک پھیل گیا ہے۔ ایک خواہش نے زمین و...

  • ادا کیا

    آنکھیں بند کر کے پینے کی ممانعت کیوں ہے؟ شراب پینے کی کوئی م...

  • پناہ

    تباہ حال شہروں میں گھر تلاش کرنے کی بجائے۔ لوگوں کے چہروں کا...

  • سرد موسم

    خوشگوار نشہ آور موسم دل کو مائل کر رہا ہے۔ رنگ برنگے پھولوں...

Categories
Share

تو زمانہ میں خدا کا آخری پیغام ہے

تو زمانہ میں خدا کا آخری پیغام ہے

یہ گردیش کرتی ہوئی  دنیا میں بے شمارمخلوق ہیں، اور ان تمام مخلوق میں افضل واشرف مخلوق صرف و صرف بشر انسان ہیں، کیونکہ یہ جہاں اس کے لے سجائگي  ہیں، یہ شجروہجر یہ برور بحر یہ جمادات یہ فلکیات یہ ارضیات یہ سب کچھ اس کے لے بنائگي  ہیں،  یہ خوبصورت سا جانور اس کی سواری ہے۔ اس جانور سے نکلا ہوا دودھ اس کے لے مشرب ہے، اس کا مزبوت بدن اس کے لے مطعم ہے، یہ صبح آنکھیں کھولتا ہے تو سورج اپنے روشنی کے آغوش میں رکھ  لیتا ہے،  سورج غروب ہوتے ہی چاند اپنی حاضری دیتا ہے، ہر پل ہر دم اس کی ہر ارزوں سوچھنے سے پہلے وہ ہر چیزوں کوپوری کردیتا ہيں،اور اس کہ ہر کام کو آسان بنا دیتا ہیں، 

    اور ان تمام چیزوں کو دیکھ کر انسان اسیے اپنا معبود سمجھ بیٹھا تو کوئی سورج کی عبادت کرنے لگا تو کو‏‏ئی چاند کو اپنا معبود سمجھ بیٹھا تو کوئی آگ کی تو کوئی جھارڑپودوں کی عبادت کرنے لگا،  

یہ بشر انسان ہوکے بھی اسے خد کا انداز نہیں  تھا، اس کی حیثیت کیا ہے اس پتہ نہیں یہ ہے کون اسے یہ بھی پتہ نہیں  ؟  اپنا منازل مقصود کیا ہے اسے کس لے پیدا کیا گیا ہے یہ تمام چیزوں سے وہ انجان تھا ، جانورں کی طرح وہ بھی اپنی زندگي بس یوں ہی بسر کررہا تھا،

انسان تو انسان ہوکر انسان کے گلیے چیررہا تھا سگہ باپ اپنی بٹی کو درگور  کرنے میں فخر محسوس کررہا تھا مائيں دنیا کی منڈیاں میں بکتی تھی ، بیواہ عورتوں کو یوں ہی چالس دنوں تک ایک قید خانہ میں بند کیا جاتا تھا،  جہاں پر کھانا پینا اور تمام ضروریات وہی پر ادا  کرنی پڑتی تھی ، چھوٹی جھوٹی باتوں پر چالس چالس سال تک جنگ چہیڑ جاتی تھی، عورتوں کو کوئی مقام حاصل نہیں تھا ، کسی گھر میں بـچہ  کی جگہ بچی پیدا ہوجائے تو لوگ اس گھر کو ذللت ورسوائی نگاہوں سے دیکھا کرتے تھیں ، زمانہ میں اتنی جہالت تھی کہ شراب نوشی زنا یہ تمام چیزیں عام تھی ، باپ کو خد پہ ناز تھا کے وہ اپنی زندہ بیٹی کو دفناتا جو ہے، ،

                             گویا یہ تمام چیزوں کو کس کا انتظار تھا عرب کہ ریگستانوں میں دبی ہوئی معصوم بچیوں کہ سسکتیے آنسوں اور اس کے روتی آنکھیں کس کو پکار رہی تھی بیواہوں کے چیخیے فریاد کر کر کے کس کہ منتظر تھیں، یتیم کس کو ڈھونڈ رہے تھے، زمانہ فرش بیچھائیں کس انتظار کر رہا تھا، ہر کوئی منتظر تھا، کوئی ہاتھ پھیلا کے مانگ رہا ہے( رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا

) زمانہ منتظر تھا پوری دھرتی پوری کائینات کس کا انتظار کررہی تھی

یہ تمام صدائں آسمان کو ہوتے ہو‏ئے عرش الہی تک جا پہنچی، تو خدا کو دکہی انسان پر رحم آیا ،  اور آمنہ کے آغوش  میں محمد عربی تشریف لائں ، آپ ایسے ماحول میں تشریف لائں جو ماحول جہالت سے لت پت تھا بجیوں کی یوں ہی دفنا دیا جاتا تھا، آپ آتے ہی لوگوں میں آعلان کردیا کے عورت کا ایک عالی مقام ہیں، عورت ایک عزت کی جگہ ہیں،  آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کو جنت چاھیں تو ما‏‏وں کے قدموں میں ڈھوںڈوں ، آپ نے سب سے پہلے توحید الی اللہ کی طرف لوگوں کو بولایا ، پھر دین اسلام کی طرف رغبت دیلایا، اور آپ نے یہ ثابت کر دیکھایا کے لوگوں تم جسے اپنا معبود سمجھتے ہوں وہ تہمارے معبود نہیں بلکہ وہ تہمارے ہی لے بنائں گے ہیں،

آپ انگلی اٹھاتے چآند کے دو تکڑئں ہوجاتے، آپ اشارہ کرتے تو ڈوبا ہوا سورج واپس لوٹ کر آتا ، آپ اجازت دیتے تو درخت جڑ سمیٹے سلام کہتا ، آپ کو دیکھ کر موٹھی سے کنکر گواہی دینے لگتا ،

      انسان کو خدا سے ملاقات تو اس وقت ہوئی جب حضور تشریف لائں ، حق اور باطل میں فرق کیا ہے یہ تو اس وقت معلوم ہوا جب حضور آئیں ، ساری کائنات کو چلانے والا ایک ہی ہے یہ تو اس وقت معلوم ہوا جب حضور تشریف لائیں،

     ایک شخص ایمان لانے کے بعد آپ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یارسول اللہ زمانہ جاہلت کی دو باتیں یاد آتی ہیں اس میں سے ایک بات یاد جب یاد آتی ہے تو ہنسی نہیں روکتی ، اور جب دوسری بات یاد آتی ہے تو آنسو نہیں تھمتے، کہنے لگا یارسول اللہ ہنسی اس بات پر آتی ہے کہ ایک مرتبہ میں سج کر تمام ضروریات سے فارغ ہوکر میں سفرمیں نکلا ، اور میرے ہاتھ میں ایک معبود بھی تھا جس کی روزانہ عبادت کرتا تھا،  اور دوران سفرمیں اسکی میں پوجا کرتا رہا ، خیر دوران سفرمیں میرا توشہ ختم ہوگیا ، اور میرے پاس کھانے کے لے کچھ بھی باقی نہ رہا ، تو میں نے اپنی جھولی سے اپنا معبود کو نکالا جسے میں خد اپنے ہاتھوں سے بنایا ہوا تھا ، اور اس پر پانی ڈالنا شروع کردیا پھر اسےپھوڑا اور اسے گوندنا شروع کردیا پھر میں نے ایک آگ جلائی اور اس کو ایک گرم گرم روٹی کی شکل دی اور اپنے پیٹ کو بھرا،  پھر میں اپنے معبود سے کہا کہ اب کام نہیں اؤں گیں تو کب کام آؤں گے ؟

تو مجھے ہنسی آتی ہے ایسے معبود پر جو خود کی حفاظت نہيں کر سکتا تو وہ اپنے بندوں کا کیا خیال رکھے گا ،

    اور جب دوسری بات یاد آتی ہے تو آنسوں نہیں تھمتے ، وہ بات یہ ہے کے زمانہ جاہلیت تھا میں سفرمیں تھا سفر کافی طویل ہوگیا اور بہت دنوں کے بعد میں اپنے گھر کی طرف لوٹا ، گھر کی دہلیز پر پہنچتے ہی میں نے ایک چھوٹی بچی کو کھلتا ہوا دیکھا جو میرے دونوں پیروں کو پکڑکر ابوجاں کی صدائیں لگا رہی ہیں ، مجھے تو اپنی بیوی پر غصہ آرہاتھا جو بےشرم اسے سیکھا کر رکھی تھی کے یہ تہمارئیں ابا جان ہے اسکی  تتلاتی زبان سے وہ کہ رہی تھی ابوجان کیسے ہوں ؟؟

ایک دن آیا میں اس صحراؤں میں لیکرکرچلے گیا ، اسکی نہنی انگلی جو میرے ہاتھوں کو پکڑی تھی اور پورا دوران صحرا وہ مجھسے بات کرتی رہی اسکی تتلاتی زبان سے وہ ہر لفظ کی شروعات ابوجان سے کررہی تھی ، آخرکار ایک چٹھیل زمیں آگي اور میں اسے بیٹھا دیا اور میں ایک زوردارپھوڑے سے اسکی قبر کھودنے لگآ وہ کپڑوں کے تکڑیں سے میرا پسینا پوچھتی رہی ، پھر بھی مجھے اس کی پیار پر ترس نہیں آیا، اور میں یوں ہی اسکی قبر کھودتا رہا ، ایک لمبی قبر کھودنے کے بعد میں اس کےدونوں ہاتوں پکڑ کر اسے قبر میں گرا دیا ، اور اس پر مٹی ڈالنا شروع کردیا ، وہ مجھے ابو ابو کہتی رہی اور میں نے ایک نا سونی اور اسے زندہ دفنادیا ،

  آج جب میں اسلام لایا ہوں تو مجھے اس کی چیخے رات بھر سونے نہیں دیتی ، اسکی ہر ادائیں اس کا پیار مجھے صحیح سے رہنے نہیں دیتا ، آج دنیا کا سب سے بڑا ظالم میں خود کو سمجھتا ہوں ، کیونکہ یہ میرے دوھاتوں نے بہت گناہ کے ہیں ، شاید ہی مجھسا کوئی دوسرا میلے ،

               پھر آپ نے توحید الی اللہ کی طرف بولایا اور دین اسلام کا جھڈا گاڑ دیا ، اور آپ کے بعد دین اسلام کا جھنڈا آپ کے صحابہ لیکر دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گیں ، صحابہ کے بعد وہ جھنڈا  تابعین نے لہرانا شروع کردیا ، پھر تبع تابعین نے لہرانا شروع کردیا ، جب جب بھی دین اسلام کا چراغ بوجھنے لگا تو کوئی نہ کوئی ولی نے جنم لیا اور اسے بوجھنے سے روکا اور تمام دنیا بھر میں اس چراغ کو روشن کردیا

  اور ہم تو خوش نصیب لوگ ہيں جو پیدا ہوتے ہی ہماریں والد گرامی گھر میں مؤذن کوبولا کر لائں ، اور مؤذن نے کہا کے خوش نصیب ہوں دنیا میں تم محمد کے غلام ہوکر آرہے ہوں ، تو یہ امت محمدیہ میں پیدا ہونا ہماريں اور نبی کا غلام بننا اس سے بڑ کر کوئی اور بات تو ہوں ہی نہیں سکتی ،

تو ہماری زیمداری ہیں کے ہماری طرف سے جتنا ہوسکے اس دیں اسلام کی حفاظت کریے، اور اسے جتنا ہوسکے اس کی خدمت گزار بنے  ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے( بلغوا عني ولو آية) کے تہماری جانب سے ایک ایت بھی کیوں نا ہوں اسے دوسروں تک پہنچآنے کی کوشش کروں ،

تو اللہ سے دعا ہيں کےاللہ ہماریں صغیرا کبیرا گناہوں کم معاف فرمائں ، اور مرتے دم تک اس دین اسلام کی چادر میں رہنے کی توفیق عطا فرمائیں ، وما علینا الا :البلغ

عنوان: : تو زمانہ میں خدا کا آخری پیغام ہے

ازقلم : محمد ابوبکر صدیقی 

طالب علم: جامعہ دارالہدی اسلامیہ

پتہ : بھیونڈی ، مہارشٹرا

نمبر: 9890435486

gmail:masrabubakar@gmail.com