ادھورے خوابوں کا وارث
………
رات کے پچھلے پہر، جب ہواؤں میں سردی کا کاٹ تھا اور خاموشی نے پورے شہر کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا، امجد علی ایئرپورٹ سے نکلتے ہوئے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آ بیٹھا۔ باہر سناٹا چھایا ہوا تھا، اور سڑکیں اس سنہرے اندھیرے میں نہا رہی تھیں جو کبھی کبھی ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ دور کہیں سے کسی ٹائر کے سست گھومنے کی مدھم آواز آتی، اور پھر خاموشی لوٹ آتی۔ کبھی کبھار کوئی گاڑی روشنی کا دھواں بنتی ہوئی یوں گزر جاتی جیسے کسی خواب کی ایک دھندلی جھلک ہو۔
تھکن نے اس کی پلکوں پر بوجھ ڈال دیا تھا، اور سفر کی گونج ذہن میں ایک مدھم شور بن گئی تھی۔ نیند کی نیم تاریکی میں، وہ اپنی سوچوں میں کھو گیا۔ اچانک گاڑی کے رکنے سے جھٹکا لگا، اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اپنی منزل پر تھا۔
فلیٹ کے ہال میں قدم رکھتے ہی ایک انجانی سرد مہری نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ ہوا میں معلق ایک بلب کی زرد روشنی دیواروں پر لرزتے سائے بُن رہی تھی—ایسے سائے جو کسی پرانے خواب یا بھولی ہوئی یاد کی صورت میں تعاقب کرتے ہیں۔ ہر کمرہ بند، ہر دروازہ خاموشی میں ڈوبا ہوا، سوائے ایک کے۔ ایک دروازے کے نیچے سے چھن چھن کر آتی روشنی اس کی توجہ کھینچنے لگی۔ دل میں ایک ان کہی سی خلش اٹھی—یہ سجاد کا کمرہ تھا، اس کا چھوٹا بیٹا۔
"اتنی رات گئے؟" ذہن میں سوالوں کی لہریں اٹھنے لگیں۔
اس نے آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔ کوئی جواب نہ آیا۔ اس کے ہاتھ نے خود بخود ہینڈل کو تھاما، اور دروازہ ہلکے سے کھل گیا۔ جو منظر اس کے سامنے تھا، وہ لمحہ بھر کو ساکت ہو گیا۔
سجاد اپنے بستر پر بیٹھا، ہیڈ فون کانوں میں لگائے کسی ویڈیو کال میں محو تھا۔ اس کی نظریں لیپ ٹاپ اسکرین پر مرکوز تھیں، اور چہرے پر ایک عجیب سی سنجیدگی اور انہماک۔ امجد علی نے نرمی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ سجاد چونک کر پیچھے مڑا، اور باپ کو دیکھ کر خوشی سے مسکرا اٹھا۔
"بابا جان؟" اس نے لپک کر گلے لگایا۔
امجد نے بیٹے کو قریب سے محسوس کیا، لیکن اس کی نظریں بے اختیار لیپ ٹاپ اسکرین کی طرف مڑ گئیں… اور سانس جیسے کہیں اٹک گیا۔
وہ چہرہ۔۔۔۔
وہی گہری بادامی آنکھیں، جیسے کسی رازدار جنگل کے پرسکون تالاب۔ وہی گلابی رخسار، جیسے صبح صادق کی پہلی کرن میں کھلے پھول۔ وہی کان کے نیچے چھوٹا سا تل—جیسے ایک تصویری شاہکار پر خالق کی آخری نازک چھاپ۔ مسکراہٹ ایسی کہ دل کو چھو جائے، اور بالوں کی وہی سجی سنوری ترتیب، جو برسوں پہلے کسی اور چہرے پر دیکھی تھی… ایک ایسا چہرہ، جو وقت کی گرد میں کہیں کھو گیا تھا۔
اور اب، وہی عکس—اس کے بیٹے کے لیپ ٹاپ پر، زندگی کی اسکرین پر اچانک نمودار ہو گیا تھا۔
یہ کون ہے؟ دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔ کیا یہ…؟
وہ اس چہرے کو کیسے بھول سکتا تھا؟
پہلی محبت کا چہرہ…
جس دن اُس کی آفریں سے پہلی ملاقات ہوئی تھی، وہ بالکل ایسے ہی دکھتی تھی — وہی معصوم آنکھیں، وہی بھولا سا انداز، اور آج… تیس سال بعد، ایک بار پھر وہی چہرہ اس کے سامنے تھا۔ لمحے کے لیے وقت تھم سا گیا۔
دل بے چینی سے دھڑکا۔
دماغ میں ایک سوال کوند گیا، جیسے بجلی کا کڑکا ہو:
"کیا یہ آفریں کی بیٹی ہے؟ یا محض ایک حیرت انگیز مشابہت؟"
اس نے دھیرے سے اضطراب بھرے لہجے میں بیٹے کی جانب دیکھا۔
سجاد نے باپ کی نظروں میں چھپی حیرت اور الجھن کو بھانپ لیا۔ مسکرا کر بولا:
"پاپا، یہ میری دوست ہے۔ چند ہفتے پہلے اسلام آباد میں ایجوکیشن ایکسپو کے دوران ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ تب سے ہم اچھے دوست ہیں۔"
امجد نے ایک لمحے کو خود کو روکا، جیسے دل میں چلتی طوفانی لہر کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر ہچکچاتے ہوئے کہا:
"بیٹا… اگر تم اجازت دو تو… میں اپنی اس مہربان مہمان سے تھوڑی سی بات کرنا چاہتا ہوں۔"
سجاد نے فورا دوست کی طرف دیکھا۔ لڑکی کا چہرہ لمحہ بھر کے لیے گھبراہٹ سے مرجھا گیا، مگر اُس نے خود کو سنبھالا، گردن ہلائی، اور دھیمے لہجے میں کہا:
"جی… ضرور۔"
امجد نے ابھی لب کھولنے ہی تھے کہ لڑکی نے مؤدبانہ لہجے میں سلام کیا۔
"السلام علیکم، انکل!"
امجد کے چہرے پر ایک دُھندلی سی مسکراہٹ ابھری۔
"وعلیکم السلام، بیٹی… تمہارا نام کیا ہے؟"
"انشال۔"
لڑکی نے صاف اور پُراعتماد لہجے میں جواب دیا۔
امجد کا دل ایک بار پھر دھڑکا۔
اس نے نرم مگر گہرے انداز میں سوال کیا:
"کیا تم آفریں اور عمر کی بیٹی ہو؟"
انشال کی آنکھیں ایک لمحے کو پھیل گئیں۔
چہرے پر حیرت اور الجھن کا ملا جلا رنگ چھا گیا۔ آواز میں بےاختیاری تھی:
"آپ کو… کیسے معلوم؟ آپ میرے مما اور پاپا کو کیسے جانتے ہیں؟"
"ہاں بیٹا، میں تمہارے ماں باپ کو جانتا ہوں..."
امجد کی آواز میں ایک غیر مرئی لرزش تھی، جیسے ماضی کی کوئی بھولی پرچھائیں گلے میں آ کر اٹک گئی ہو۔
کمرے کی فضا ایک پل کو منجمد ہوگئی، جیسے وقت نے سانس لینا چھوڑ دیا ہو۔
مگر اُس نے خود کو سنبھالا۔
"تمہاری نانی کیسی ہیں؟"
انشال نے تھوڑا سا توقف کیا، پھر دھیمے لہجے میں جواب دیا:
"وقت اور بیماری نے کمزور کر دیا ہے، مگر آج بھی سب پر اُن کا حکم ہی چلتا ہے۔"
امجد کے چہرے پر ماضی کی ایک ہلکی سی مسکراہٹ ابھری، جیسے یادوں کا در کھل گیا ہو۔
"سچ کہتی ہو، اُس کے آگے تو پہلے بھی کسی کی ایک نہیں چلتی تھی۔
اور تمہارے تینوں ماموں؟ دو نے تو شاید ابھی تک شادی بھی نہیں کی، ہے نا؟"
انشال کی آنکھوں میں حیرت لہرا گئی۔
"مگر آپ کو یہ سب کیسے پتا ہے؟"
اس کے لہجے میں تجسس بھی تھا اور ہلکی سی بےچینی بھی۔
امجد ہنس پڑا، ایک ایسی ہنسی جس میں محبت، دکھ، اور راز چھپے تھے۔
"بیٹی… میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم دو بہنیں اور ایک بھائی ہو۔
اور تمہیں پہچاننا مشکل نہیں تھا، تم تو بالکل اپنی ماں کی فوٹو کاپی ہو۔"
انشال نے نظریں جھکا لیں، ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر ابھری جو احترام اور حیرت سے ملی جلی تھی۔مگر وہ حیران ہے کہ یہ اجنبی شخص اسے اور اس کے خاندان کو اتنے قریب سے کیسے جانتا ہے۔
امجد نے نرمی سے پوچھا،
"اب کیا کر رہی ہو؟ پڑھ رہی ہو یا کام کر رہی ہو؟"
"جی، پڑھائی مکمل ہو چکی ہے۔ اب ایئر ہوسٹس بننے کے لیے تیاری کر رہی ہوں۔"
انشال نے شائستگی سے جواب دیا۔
امجد کا ماتھا تھوڑا سا سکڑا، جیسے کسی ان دیکھے خدشے نے دل کو چھو لیا ہو۔
"ایئر ہوسٹس؟" اُس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا،
"پائلٹ کیوں نہیں؟"
"پائلٹ بننا… وہ تو میرا خواب تھا…"
انشال نے آہستگی سے کہا، جیسے کوئی اندر کا ٹوٹا ہوا خواب لفظوں کی صورت باہر آ گیا ہو۔
"مگر… پائلٹ بننے کے لیے بہت پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔"
اس کی آواز میں اک دبی ہوئی حسرت چھپی تھی۔
امجد چونک سا گیا۔ یادوں کی گرد ایک بار پھر ذہن میں جاگ اٹھی۔
"مگر… تمہارے ابو کے پاس تو بہت پیسہ تھا۔"
وہ بےاختیار بول اٹھا، جیسے ماضی کی ایک کڑی ابھی بھی واضح تھی — آفرین کی عمر سے شادی بھی تو اسی وجہ سے ہوئی تھی… پیسہ، طاقت، کاروبار۔
انشال نے نظریں جھکا لیں، چہرے پر ہلکی سی شرمندگی چھا گئی۔
"ابو کے سارے کاروبار ختم ہو چکے ہیں انکل… ہم پر وقت بہت سخت آ گیا ہے۔
اسی لیے میں جلد از جلد جاب کرنا چاہتی ہوں، تاکہ گھر والوں کی مدد کر سکوں۔"
کمرے کی فضا پھر ایک بار خاموشی سے بھر گئی۔
امجد نے گہری سانس لی، پھر پوچھا:
"تو تم نے اسکالرشپ کے لیے کوشش نہیں کی؟"
"کوشش تو بہت کی… مگر پائلٹ بننے کے لیے کوئی اسکالرشپ دینے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔
انشال کی آواز میں اب تلخی نہیں، صرف تھکن تھی۔ جیسے وہ لڑتے لڑتے تھک گئی ہو۔
امجد کچھ لمحے خاموش رہا۔ اس کی نگاہیں دور خلا میں گم تھیں، جیسے وہ کسی فیصلے کے دہانے پر کھڑا ہو۔
پھر اُس نے دھیرے سے پوچھا:
"اگر فرض کرو… تمہیں اسکالرشپ مل جائے… تو کیا تم اب بھی پائلٹ بننا چاہو گی؟"
انشال کی آنکھوں میں ایک دم روشنی سی بھر آئی، جیسے ایک بجھتا چراغ اچانک جل اٹھا ہو۔
"ہاں! کیوں نہیں؟"
پھر جیسے خواب کی حقیقت پر یقین نہ آیا ہو، سوالیہ نظروں سے دیکھا:
"مگر یہ… ممکن کیسے ہوگا انکل؟"
امجد مسکرایا، مگر کوئی جواب نہ دیا۔
اس کی نظر سجاد پر پڑی، جو خاموشی سے یہ سب منظر دیکھ رہا تھا۔
امجد نے بیٹے کی طرف رخ کرتے ہوئے کہا:
"بیٹا… کیا تمہاری یہ دوست… تمہارے کالج میں ایڈمیشن لے سکتی ہے؟"
سجاد کے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔
"کیوں نہیں، پاپا۔ میں خود اُس کا انٹرویو شیڈول کروا سکتا ہوں۔"
امجد نے ایک لمحے کے توقف کے بعد دوبارہ انشال کی طرف رخ کیا۔
اس کے چہرے پر اب وہی شفقت اور اعتماد تھا جو صرف کوئی باپ، کوئی سچا دوست یا کوئی بےغرض محسن دکھا سکتا ہے۔
"بیٹا، تیاری کر لو... تمہارا خواب اب صرف خواب نہیں رہے گا... وہ پورا ہونے والا ہے۔"
انشال نے بےیقینی سے امجد کو دیکھا، جیسے اس کے کانوں نے کوئی معجزہ سن لیا ہو۔
"تمہاری اسکالرشپ منظور ہو چکی ہے… وہ بھی سو فیصد۔"
امجد کے الفاظ جیسے اس کے دل میں امید کے دیپ جلا گئے۔
"اپنے دوست سے رابطہ کرو، داخلے کی کارروائی شروع کرو، اور جتنے بھی ضروری کاغذات ہیں، فوراً اسے بھیج دو۔"
پھر اس نے ایک لمحے کے لیے رُک کر گہری نظر انشال پر ڈالی، اور نرم لہجے میں بولا:
"بس ایک گزارش ہے… پلیز اپنی ماں کو میرے بارے میں مت بتانا۔"
امجد نے آہستگی سے اپنے بیٹے کو ہیڈفون واپس کیے، جیسے زندگی کا ایک اور بوجھ اس نے خاموشی سے اٹھا لیا ہو۔
پھر وہ سجاد کی طرف متوجہ ہوا:
"بیٹا، اپنی دوست کا داخلہ اپنے کالج میں کروا دو۔
تمام فیس میرے اکاؤنٹ سے ادا کر دینا۔
اور کسی اچھے ویزا کنسلٹنٹ سے رابطہ کرو… تاکہ اس کا ویزا بھی جلد از جلد لگ جائے۔"
سجاد کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
"کیا سچ میں، پاپا؟"
وہ بےاختیار ہو کر اپنے والد کے گلے لگ گیا۔
امجد نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا، لیکن اپنی نمی بھری آنکھوں کو چھپانا مشکل ہو گیا۔
اس سے پہلے کہ آنسو اُس کی کمزوری کو ظاہر کرتے، وہ تیزی سے بیٹے کے کمرے سے نکل گیا۔
دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اُس نے اپنی پشت دروازے کی طرف کی،
اور کوریڈور کے ایک گوشے میں جا کر دیوار سے ٹیک لگا لی۔
پھر آنکھیں بند کر لیں،
اور ایک ٹوٹے ہوئے دل، لیکن مکمل دعا سے لبریز دل سے کہا:
"اے اللہ… ہماری قسمت میں اگر ایک ساتھ جینا نہیں لکھا تھا…
تو ہمارے بچوں کو وہ خوشیاں عطا فرما، جو ہم کبھی نہ پا سکے۔"