وہ جو دکھتا نہیں۔۔۔۔ in Urdu Spiritual Stories by Ahmed Baig books and stories PDF | وہ جو دکھتا نہیں۔۔۔۔

Featured Books
  • وہ جو دکھتا نہیں۔۔۔۔

    قسط نمبر 1ایک اندرونی روشنیرات کا اندھیرا اُس کے دل پر بھی چ...

  • ادھورے خوابوں کا وارث

    ادھورے خوابوں کا وارث……… رات کے پچھلے پہر، جب ہواؤں میں سردی...

  • روح کی آواز

    روح کی آواز روح کی آواز ہمیں سیدھا راستہ دکھاتی ہے۔  وہ...

  • خاموش جزبہ

    میں نے اسکے ساتھ ایسی زندگی تصور کی ہوئی ہے۔۔۔میں نے یہ نہیں...

  • نیا دن

    سچائی زندگی کی حقیقت کو جلد سمجھ لینا چاہیے۔ زندگی کو صحیح ط...

Categories
Share

وہ جو دکھتا نہیں۔۔۔۔

قسط نمبر 1
ایک اندرونی روشنی
رات کا اندھیرا اُس کے دل پر بھی چھایا ہوا تھا۔ جوزف اپنی زندگی کے ہر موڑ پر خود کو کھو رہا تھا۔ وہ اپنی پرانی روٹین اور وہی زندگی کے طرزِ عمل سے بےزار تھا۔ وہ کبھی کبھار لمحہ بھر کو ہار مان کر چپ چاپ بیٹھ جاتا۔ جوزف کی زندگی میں غربت عروج پر تھی، اُس کا انجینئر بننے کا خواب بس ایک خواب ہی بن کر رہ گیا تھا۔ وہ ہمیشہ چرچ جاتا، وہاں اپنی خواہشات کا اظہار کرتا، مگر کبھی دل کو سکون نہ ملا۔ وہ ہمیشہ اُداس رہتا، خود کو تھکا ہوا محسوس کرتا۔ اُس کے ذہن میں ایک سوال بار بار گونجتا:

"کیا یہی زندگی ہے؟
کیا مجھے کبھی خوشی نصیب نہیں ہوگی؟"

وہ اپنی زندگی کے حالات سے بخوبی واقف تھا اور اب وہ مایوس ہو چکا تھا۔ ایک دن حسبِ معمول، جب وہ اپنے والدین کے ساتھ کھانے کے لیے بیٹھا — اُس کی ماں جیسمن اور باپ جان تھے — وہ گھر کا درمیانی بچہ تھا، اور والدین کا ناپسندیدہ بیٹا۔ اُس کے والدین اکثر اُسے طعنے دیتے، مگر جوزف پھر بھی اُن سے محبت کرتا۔ اُس کے بھائی بھی اُسے ناپسند کرتے تھے۔

جب وہ کھانے کی میز پر آیا تو:
جیسمن: "لو آ گیا نالائق، ہمارے کلیجے جلانے کے لیے!"
جان: "ہماری زندگی میں تو اب صرف اِس منحوس کا چہرہ ہی دیکھنا باقی رہ گیا ہے۔ اپنے بھائیوں کو دیکھو، کتنے قابل ہیں، اچھی نوکریاں کر رہے ہیں، تمہاری طرح نہیں جو والدین پر بوجھ ہو!"
جوزف: "ڈیڈ! وہ مجھ سے آٹھ سال بڑا ہے، اور دوسرا بھائی جسے آپ نے اتنے فیورز دیے اور خود نوکری دلائی، جبکہ سب جانتے ہیں کہ وہ پڑھا لکھا نہیں ہے!"
جان: "شرم کرو! باپ کے آگے زبان چلا رہے ہو! باپ کو طعنے دے رہے ہو؟ تمیز سے تو بات کرنا بھی نہیں آتی!"
جوزف: "پر ڈیڈ..."
جان (بات کاٹتے ہوئے): "چُپ! دفع ہو جاؤ میری نظروں سے، اور اب شکل مت دکھانا!"

وہ نم آنکھوں سے وہاں سے چلا گیا۔ اُس نے اپنا مذہبی نشان ہاتھ میں پکڑا اور آسمان کی طرف دیکھ کر سوال کیا:
"کیا یہی ہے میری زندگی کا مقصد؟ اپنے والدین سے ذلیل ہونا، بے وجہ طعنے سہنا، کوئی سہارا نہ ہونا؟ اگر زندگی کا مقصد یہی ہے، تو پھر مجھے اپنی زندگی نہیں چاہیے، مجھے سکون چاہیے — جو شاید میرے ختم ہونے کے بعد ہی نصیب ہو۔"

وہ روتے روتے بستر پر سو گیا۔ صبح آنکھ کھلی تو اُٹھ کر اپنے قریبی دوست عثمان کے پاس گیا، اُسے رات کی ساری باتیں بتائیں اور کہا:
"مجھے کہیں سکون نہیں ملتا، نہ چرچ میں، نہ کہیں اور۔ دل پر بڑا بوجھ ہے، بہت بھاری محسوس ہوتا ہے!"
عثمان نے اُسے قرآن کی آیت سنائی: "اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا"
"ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، میرے دوست۔"
جوزف: "یہ کیا سنایا؟ کون سی زبان ہے یہ؟"
عثمان: "یہ قرآن ہے جوزف، اللہ کی نازل کردہ آخری آسمانی کتاب، جو انسانوں کی رہنمائی کے لیے آئی، تاکہ انسان سجدے میں اللہ کے قریب ہو کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکے۔"
جوزف: "عیسائیت میں بھی ہم ایسا ہی کرتے ہیں، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔"
عثمان: "تو پھر تمہارے دل پر اتنا بوجھ کیوں ہے؟"
جوزف: "شاید میں غلط طریقے سے عبادت کرتا ہوں۔"
عثمان: "یا شاید تم اس مذہب کے لیے بنے ہی نہیں۔"
جوزف: "کیا مطلب؟"
عثمان: "گھر جا کر میری بات پر غور کرنا۔"

دوپہر میں جوزف گھر آیا، اور اپنے بستر پر آرام کے لیے لیٹ گیا۔ اُس نے آنکھیں بند کیں اور کچھ کلمات پڑھ کر سو گیا۔

اُسنے خود کو درختوں سے گھری ایک جگہ پر پایا، جہاں وہ ایک ندی پار کر رہا تھا۔ اُس کے گلے میں اُس کا مذہبی ہار تھا۔ اُسے دور ایک شخص نظر آیا، جو سفید شلوار قمیض پہنے تھا، اُس کے سامنے قرآن رکھا تھا۔ اُس نے قرآن بند کیا اور آہستہ سے پیچھے مُڑا۔

جوزف حیرت سے بولا: "تم… میں ہو؟ تم جوزف ہو؟ اور اس لباس میں؟"
وہ شخص نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولا:
"نہیں، میں تم ہوں، تم میں نہیں۔ تم جوزف نہیں ہو۔"
جوزف: "تو پھر میں کون ہوں؟"
اُس نے جوزف کے ہاتھ میں ایک آئینہ تھمایا اور کہا: "اس میں تلاش کرو۔"

جوزف نے آئینہ کھولا، تو اُس میں خود کو سفید لباس میں، چہرے پر نور اور مسکراہٹ لیے دیکھا۔
اُسی لمحے اُسے جھٹکا لگا اور آنکھ کھل گئی۔

وہ ہانپ رہا تھا۔
"ہُہ… یہ ایک خواب تھا؟… کافی عجیب تھا…"


        جاری ہے۔۔۔