Murda Khat in Urdu Fiction Stories by Insha noor books and stories PDF | Murda Khat

Featured Books
  • Murda Khat

    صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ سفید دیوار پر لگی گھڑی کی سوئیاں تھک...

  • پاپا کی سیٹی

    پاپا کی سیٹییہ کہانی میں نے اُس لمحے شروع کی تھی،جب ایک ورکش...

  • Khak O Khwab

    خاک و خواب"(خواب جو خاک میں ملے، اور خاک سے جنم لینے والی نئ...

  • پھٹے کپڑے

    زندگی بس یہی ہے۔   جینا تو یہی ہے، یہ نصیحت بھی لکھی ہے...

  • رنگین

    سفر کا مزہ سفر سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ اپنے دل کے مواد سے لط...

Categories
Share

Murda Khat

صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ سفید دیوار پر لگی گھڑی کی سوئیاں تھکی تھکی سی چل رہی تھیں۔ زہرہ نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند کیں اور لمبی سانس لی۔ اس کی پلکیں بھاری تھیں، جیسے رات بھر کے جاگنے نے ان پر کوئی بوجھ رکھ دیا ہو۔وہ ایمرجنسی وارڈ کے باہر نیلے رنگ کی پلاسٹک کرسی پر بیٹھی تھی۔ اس کا سفید کوٹ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا، اور اس کا اسٹیتھو سکوپ گردن میں یونہی لٹک رہا تھا۔ بال ایک سادہ سی کلپ میں بندھے تھے، مگر کچھ لٹیں چہرے کے پاس آ گری تھیں، جنہیں وہ ٹھیک کرنے کی ہمت نہیں رکھتی تھی۔زہرہ بظاہر پرسکون دکھائی دیتی تھی، مگر اس کا اندر جیسے تھکن کی آندھیوں سے بھرا ہوا تھا۔ آنکھوں کے نیچے ہلکے، پیشانی پر درد، اور جسم میں وہ خاموشی جسے صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو رات بھر جاگا ہو۔زہرہ، لاہور کی بیٹی تھی۔ اس نے میڈیکل کے امتحان جیتے، ہر سال میں نمایاں رہی، اور دو سال پہلے جب اسے نیوزی لینڈ کی اسکالرشپ ملی، تو وہ ایک لمبی دعا کے ساتھ رخصت ہوئی تھی۔اب، دو سال بعد، وہ نیوزی لینڈ کے ایک بڑے اسپتال میں کام کر رہی تھی۔ جہاں ہر طرف خاموشیاں، سفید روشنی، تیز قدم، اور مشینوں کی بیپ بیپ تھی۔زہرہ نے دیوار کا سہارا لیتے ہوئے آنکھیں بند کیں ہی تھیں کہ ایک ہنستی ہوئی آواز نے خامشی کو توڑ دیا۔"السلام علیکم، میری عظیم دوست!"زہرہ نے آنکھ کھولے بغیر پہچان لیا — ریان۔ریان بھی ڈاکٹر تھی۔ چھوٹے چھوٹے سنہرے بال، بڑی گول عینک، اور ہر روز الگ الگ موزے پہننے کا شوق۔ آج اس کے موزوں پر چھوٹے چھوٹے پیزا کے ٹکڑے بنے ہوئے تھے۔زہرہ نے تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ ایک آنکھ کھولی۔ "تم شور مچاتی ہو۔"ریان ڈرامائی انداز میں بولی، "میں شور نہیں مچاتی، یہ دنیا ہے جو بہت خاموش ہو گئی ہے۔"پھر اس نے ناک سکیڑی، "اور میرا خیال ہے کہ میں تین دن پرانی کافی کی طرح بُو دے رہی ہوں۔"زہرہ نے سر ہلایا۔ "میں اس وقت اسپتال کی بدبو سے بھی زیادہ خراب محسوس کر رہی ہوں۔"ریان نے ہونٹ بھینچے۔ "تم ٹھیک ہو؟""نہیں۔" زہرہ نے سادگی سے جواب دیا، "میرا دماغ دو گھنٹے پہلے بند ہو چکا ہے۔ اور میرے پاؤں، جیسے پتھر ہو گئے ہوں۔"ریان نے اثبات میں سر ہلایا۔ "مجھے لگ رہا ہے میں ہوا میں تیر رہی ہوں۔""تم یہاں ہو۔ اور تم نے پیزا والے موزے پہنے ہیں۔" زہرہ نے یاد دلایا۔"بالکل۔ اور اسی لیے میں اب بھی ایک پروفیشنل ہوں۔"دونوں ایک لمحے کے لیے ہنس پڑیں۔ ایسی راتوں میں، تھوڑی ہنسی بھی نعمت بن جاتی ہے۔پھر اچانک، ایک نرس تیزی سے ان کی طرف آئی۔"ڈاکٹر زہرہ، ڈاکٹر ریان، کمرہ نمبر سات میں ایک نیا مریض آیا ہے۔ حالت نازک ہے۔"زہرہ نے ایک لمحے کے لیے ریان کی طرف دیکھا۔ ریان نے فوراً دونوں ہاتھ اٹھا دیے۔ "آج نہیں۔ میری روح ابھی جسم چھوڑ کر جا چکی ہے۔"زہرہ نے آہستہ سے سر ہلایا۔ "میں بھی نہیں کر سکتی۔ ہم چوبیس گھنٹے سے کام کر رہے ہیں۔"نرس رکی۔ "کیا آپ واقعی جانا چاہتی ہیں؟"زہرہ نے کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا، "جی۔ کوئی اور دیکھ لے گا۔ ہم مشینیں نہیں ہیں۔"ریان اس کے ساتھ چل دی۔ "اگر میں یہاں ایک اور منٹ رکی، تو میں کسی کی فائل پر رونا شروع کر دوں گی۔"نرس خاموشی سے پیچھے ہٹ گئی۔زہرہ اور ریان اسپتال سے باہر نکل آئیں۔ ہوا میں ہلکی سی ٹھنڈک تھی۔ آسمان پر ہلکا سا دھندلا پن، اور کہیں دور پرندے چہک رہے تھے۔لیکن اسپتال کے اندر, کمرہ نمبر سات میں، مریض کی حالت مزید بگڑ گئی تھی۔ اور دونوں ڈاکٹرز… جا چکی تھیں۔$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$اسپتال کی کینٹین چھوٹی تھی، خاموش اور تقریباً خالی۔زہرہ ایک کونے کی میز پر بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے چائے کا کپ رکھا تھا، جو اب ٹھنڈا ہو چکا تھا۔اس نے ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا۔بس خالی نظروں سے کپ کو دیکھے جا رہی تھی۔اس کا دل بیٹھا بیٹھا سا لگ رہا تھا۔فون کی اسکرین روشن ہوئی۔> ڈاکٹر زہرہ اور ڈاکٹر ریان، صبح دس بجے بورڈ روم میں حاضر ہوں۔اہم میٹنگ ہے۔کسی قسم کی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔زہرہ نے فون میز پر رکھ دیا۔اسے پہلے ہی اندازہ تھا۔یہ ہونے والا تھا۔تھوڑی دیر بعد ریان کینٹین میں داخل ہوئی، ایک ہاتھ میں کیلا، دوسرے میں موبائل، اور چہرے پر حسبِ معمول شرارت بھری مسکراہٹ۔"بُری خبر سنو؟ ہم پھنَس گئے ہیں!"ریان کرسی پر بیٹھتے ہی بولی۔زہرہ نے نظریں نہیں اٹھائیں۔"انہیں پتہ چل گیا ہے،" وہ دھیرے سے بولی۔ریان نے اثبات میں سر ہلایا۔"ہاں۔ مریض کی حالت خراب ہو گئی ہے۔ آئی سی یو میں ہے۔ نرس نے رپورٹ دے دی ہے۔"زہرہ نے آنکھیں موند لیں۔"مجھے معلوم تھا۔ ہم نہیں بچیں گے۔""ہم نے کیا سمجھا تھا؟ کہ چُپکے سے نکل جائیں گے اور کوئی پوچھے گا بھی نہیں؟"ریان نے کیلا چباتے ہوئے کہا۔"اب دیکھو نا۔ اب پوری فلم لگنے والی ہے۔"دونوں خاموش ہو گئیں۔چند لمحوں بعد، ریان بولی،"رونا ابھی شروع کریں یا میٹنگ کے بعد؟"زہرہ نے تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا۔"بعد میں بہتر رہے گا۔ ہو سکتا ہے ہمیں سارے آنسو چاہیے ہوں۔"---ٹھیک دس بجے، وہ دونوں بورڈ روم کے دروازے کے سامنے کھڑی تھیں۔دروازے پر سنہری حروف میں لکھا تھا:"بورڈ روم — صرف عملے کے لیے"ریان نے آہستہ سے سرگوشی کی،"مجھے لگ رہا ہے جیسے ہم کسی عدالت میں جا رہے ہوں۔"زہرہ نے ایک گہرا سانس لیا اور دروازہ کھولا۔اندر، ایک لمبی میز تھی، اور اس کے ارد گرد چھ افراد بیٹھے تھے — تین مرد، تین عورتیں۔سب کے چہروں پر سختی، لباس میں سنجیدگی، اور نظروں میں سوالات تھے۔درمیان میں بیٹھے تھے ڈاکٹر الفریڈ گرانٹ — اسپتال کے ڈائریکٹر۔لمبے قد، پتلے چشمے، اور چہرے پر بے تاثر سی سنجیدگی۔انہوں نے بغیر مسکرائے کہا،"بیٹھیں۔"وہ دونوں خاموشی سے بیٹھ گئیں۔کمرے میں خاموشی چھا گئی۔پھر ڈاکٹر گرانٹ نے گلا صاف کیا۔"آپ جانتی ہیں کہ آپ دونوں یہاں کیوں ہیں؟"زہرہ نے سر ہلایا۔"جی، سر۔""کہیے،" ڈاکٹر گرانٹ نے کہا۔زہرہ نے نگاہیں جھکاتے ہوئے کہا،"ہم نے ایک مریض کو دیکھنے سے انکار کیا۔""آپ چلی گئیں،" بورڈ میں سے ایک عورت بولی، جس کی لپ اسٹک تیز سرخ رنگ کی تھی۔"ایک نازک حالت میں آئے مریض کو چھوڑ کر آپ گھر چلی گئیں۔"ریان نے فوراً کہا،"ہم چوبیس گھنٹے سے کام پر تھے، بغیر نیند، بغیر کھانے کے۔ ہم خود مریض بننے والے تھے۔""آپ ڈاکٹرز ہیں۔ آپ نے حلف لیا ہے۔"ایک اور رکن نے کہا۔"ہم انسان بھی ہیں،" زہرہ نے آہستگی سے کہا۔پھر ایک اور خاموشی۔ڈاکٹر گرانٹ نے ان دونوں کی طرف دیکھا۔"آپ دونوں ذہین ہیں، محنتی ہیں، لیکن یہ غلطی معمولی نہیں تھی۔"زہرہ نے ہولے سے سر ہلایا۔"مریض اب مستحکم ہے، لیکن وہ مر بھی سکتا تھا۔"ریان نے نیچے دیکھا۔ زہرہ نے ہونٹ کاٹ لیے۔ڈاکٹر گرانٹ سیدھے ہو کر بیٹھے۔"اس لیے آپ دونوں کے لیے ایک فیصلہ کیا گیا ہے۔"ریان نے سانس روک لی۔"آپ دونوں کو دوسری جگہ بھیجا جائے گا۔"زہرہ نے چونک کر پوچھا، "کہاں؟""ایک شہر کے سرکاری اسپتال میں،" انہوں نے کہا۔"جہاں سب سے نازک، سب سے مجبور، اور قریب المرگ مریض ہوتے ہیں۔"ریان نے حیرانی سے کہا،"اور ہم وہاں کیا کریں گے؟"ڈاکٹر گرانٹ بولے،"آپ وہاں مریضوں کے آخری خطوط لکھوائیں گی۔"کمرے میں ایک لمحے کے لیے جیسے ہوا بھی رُک گئی ہو۔"آخری... خطوط؟"ریان نے آہستہ سے دہرایا۔"جی۔""وہ مریض جن کے پاس وقت نہیں ہوتا، وہ اپنے پیاروں کو یا اپنے دشمنوں کو ایک آخری پیغام دینا چاہتے ہیں۔ آپ ان کے ساتھ بیٹھیں گی۔ ان کی بات سنیں گی۔ اور ان کے الفاظ لکھیں گی۔"زہرہ خاموش رہی۔ اس کے دل میں ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی۔ڈاکٹر گرانٹ نے کہا،"آپ کل صبح نو بجے سٹی مرسی ہسپتال رپورٹ کریں گی۔"زہرہ نے سر جھکا لیا۔"ہم سمجھ گئی ہیں، سر۔"---کمرے سے باہر نکلتے ہوئے راہداری میں ایک گہری خاموشی تھی۔ریان نے دھیرے سے کہا،"ہم جا رہے ہیں ایک ایسی جگہ، جہاں سب مرنے والے ہوتے ہیں... اور ہمیں ان کے آخری الفاظ لکھنے ہیں؟"زہرہ نے بس سر ہلایا۔ریان نے ہنسی دباتے ہوئے کہا،"یہ تو کوئی ناول لگ رہا ہے۔"زہرہ نے آگے دیکھتے ہوئے کہا،"ہو سکتا ہے، یہ ہمارا ناول ہو۔"$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$صبح کا آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ہلکی بارش، دھوئیں جیسی ہوا میں گرتی تھی — جیسے شہر خود رو رہا ہو۔زہرہ اسپتال کے باہر کھڑی تھی۔اس کا سفید کوٹ بارش سے بھیگا ہوا تھا۔اس کی سانسیں دھیمی تھیں، دل میں الجھن، اور آنکھوں میں خاموشی۔اس کے ساتھ ریان کھڑی تھی، ایک پرانا سا چھتری ہاتھ میں تھامے، جو آدھی ٹوٹی ہوئی تھی۔"تو بس... یہی ہے؟" ریان نے اوپر دیکھتے ہوئے کہا۔"ہمارا نیا گھر؟"زہرہ نے سامنے دیکھا۔یہ اسپتال، اُن اسپتالوں جیسا بالکل نہیں تھا، جہاں وہ اب تک کام کرتی آئی تھیں۔عمارت بوڑھی لگ رہی تھی۔دیواریں مٹیالے رنگ کی، کھڑکیاں چھوٹی اور گرد آلود۔دروازے پر صرف ایک سادہ سی تختی تھی، جس پر لکھا تھا:"سٹی مرسی اسپتال"یہ عمارت تھکی ہوئی لگتی تھی۔جیسے برسوں سے مسکراہٹوں سے زیادہ آہیں سنی ہوں۔وہ دونوں اندر داخل ہوئیں۔دروازہ چھوٹا اور پرانا تھا۔فرش صاف تو تھا، مگر جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا۔فضا میں دوا کی مہک تھی۔لیکن اس سے بھی زیادہ… ایک خاموش اداسی کی خوشبو۔سامنے ریسپشن پر ایک نرس بیٹھی تھی۔اس کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی۔ آنکھوں میں نرمی، لیکن چہرے پر سختی۔"تم دونوں نئی ہو؟"اس نے نظریں اٹھا کر کہا۔"جی، میں ڈاکٹر زہرہ ہوں، اور یہ میری ساتھی ڈاکٹر ریان۔"نرس نے ہلکے سے سر ہلایا۔"میں نرس ماریا ہوں۔ستائیس سال سے یہاں کام کر رہی ہوں۔ہر کمرہ، ہر درد، اور ہر رخصتی جانتی ہوں۔"ریان نے شرارتی انداز میں کہا،"ہمیں آپ سے مل کر خوشی ہوئی، نرس ماریا۔"ماریا کے چہرے پر مسکراہٹ نہ آئی۔"چلو، عملے سے ملو۔ تمہاری پہلی راؤنڈ کا وقت ہو رہا ہے۔"---وہ دونوں ماریا کے ساتھ چلنے لگیں۔اسپتال کے راہداریاں سنسان تھیں۔کمرے چھوٹے چھوٹے، ہر کمرے میں ایک مریض۔کوئی سو رہا تھا، کوئی چھت کو گھور رہا تھا، اور کوئی خود سے باتیں کر رہا تھا۔پھر ماریا نے ایک دروازہ کھولا۔اندر چار لوگ پہلے سے موجود تھے۔"یہ تمہاری ٹیم ہے،" ماریا نے کہا۔"یہ لوگ زیادہ نہیں ہنستے، برا نہ ماننا۔"ایک لمبا، دبلا پتلا شخص کھڑا ہوا۔اس کی آنکھوں میں تھکن اور نظر میں تیزی تھی۔ چشمہ اس کی ناک کے سرے پر ٹکا تھا۔"میں ڈاکٹر ہیریس ہوں، یونٹ کا سربراہ۔یہ اسپتال عام اسپتال نہیں۔ہم یہاں زندگی نہیں بچاتے… ہم رُخصتی کا انتظام کرتے ہیں۔"زہرہ نے نظریں جھکا لیں۔ریان جو ہمیشہ کچھ نہ کچھ بولتی تھی، اس بار خاموش رہی۔ایک جوان لڑکا آگے بڑھا، ہاتھ میں نوٹ بک تھی۔"میں ایڈم ہوں، سوشل ورکر۔کبھی فارم بھر دیتا ہوں، کبھی ہاتھ تھام لیتا ہوں۔ جب کوئی نہیں ہوتا۔"اس کے ساتھ کھڑی تھی ایک نرم مزاج سی عورت، سر پر لمبا سا دوپٹہ۔"میں عمیرہ ہوں۔کاؤنسلر۔آخری کہانیاں سنتی ہوں۔"پھر ایک چھوٹی سی مگر مضبوط نظر آنے والی نرس نے کہا:"میں ٹینا ہوں۔دوائیں دیتی ہوں، اور کبھی کبھار مریض کو گلے بھی لگا لیتی ہوں۔"زہرہ اور ریان نے ایک بار پھر اپنا تعارف دیا۔نہ کوئی خوش آمدید، نہ کوئی مسکراہٹ۔یہ جگہ، وہ نہیں تھی… جہاں خوشی، ہنسی، یا جیت کا جشن منایا جاتا ہے۔---ماریا نے ایک کلپ بورڈ زہرہ کے ہاتھ میں دیا۔"یہ تمہارے پہلے تین مریض ہیں۔ کمرہ نمبر ۱۲، ۱۵ اور ۱۹۔"زہرہ نے کلپ بورڈ تھاما۔ ہاتھ ذرا سا کانپ گیا۔ماریا کی آواز نرم ہو گئی۔"یہاں تمہیں جسم نہیں سنبھالنے… دل سنبھالنے ہیں۔دل جو آخری دھڑکنوں پر ہیں۔"ریان نے ہال وے کی طرف دیکھا۔"یہاں بہت خاموشی ہے۔"عمیرہ نے جواب دیا،"موت شور نہیں کرتی… وہ بس… آہستہ آہستہ کہتی ہے، 'چلو، وقت ہو گیا۔'"زہرہ اور ریان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔یہ وہ دنیا نہیں تھی، جس کی وہ عادی تھیں۔یہاں نہ مشینیں تھیں، نہ دوڑتے ڈاکٹر، نہ روشنیوں میں چمکتی امید۔یہاں صرف خاموشی تھی…اور وہ کہانیاں…جو آخری بار کہی جانی تھیں۔—&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&نرس ماریا فائل ہاتھ میں لیے، آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔اس کے قدم دھیمے تھے، اور چہرے پر وہ خاموشی تھی… جو صرف وہی پہنتا ہے، جو بار بار دل ہار چکا ہو۔زہرہ اور ریان، نرس اسٹیشن کے قریب ایک بینچ پر بیٹھی تھیں۔"تیار ہے وہ،" ماریا نے آہستہ سے کہا۔زہرہ نے نظریں اٹھائیں۔ "کون؟"ماریا نے فائل زہرہ کے ہاتھ میں رکھ دی۔فائل نیلی تھی… جیسے بچوں کی کاپی ہوتی ہے۔زہرہ نے فائل کھولی۔> نام: آنیا احمدعمر: 6 سالحالت: شدید دماغی چوٹ، اندرونی خون بہناخاندان: کار حادثے میں سب جان بحقباقی زندگی: 2 سے 3 دنزہرہ نے پڑھتے پڑھتے لمحے بھر کو آنکھیں بند کر لیں۔ریان، جو اپنی پین گھما رہی تھی، اچانک رک گئی۔"وہ… صرف چھ سال کی ہے؟"ماریا نے سر ہلایا۔"اسے ابھی کچھ نہیں بتایا گیا۔وہ سمجھتی ہے، اس کے ماما بابا ساتھ والے کمرے میں ہیں۔"ریان کی زبان رک گئی۔اب وہ وہی لڑکی نہیں لگ رہی تھی، جو ہر بات پر ہنستی تھی۔زہرہ نے آہستگی سے پوچھا،"وہ کچھ کہنا چاہتی ہے؟"ماریا نے ایک گہری سانس لی۔"وہ کہنا چاہتی ہے… کہ اسے ایک ’نوٹ‘ لکھنا ہے اپنی ماما کے لیے۔اور… ایک پھول بھی بنانا ہے۔"ریان نے بےیقینی سے ماریا کو دیکھا، پھر زہرہ کی طرف۔"پھول؟"زہرہ خاموشی سے کھڑی ہوئی۔ریان بھی اب کھڑی تھی، لیکن آہستہ۔جیسے اس کے قدم بھی کسی دکھ کے بوجھ تلے دب گئے ہوں۔---کمرہ نمبر ۱۲ میں نرم دھوپ بکھری ہوئی تھی۔بیڈ پر ایک چھوٹی سی بچی لیٹی تھی۔چہرہ تھوڑا سا سوجا ہوا، پیشانی پر پٹی، مگر آنکھیں… روشن۔بہت روشن۔اس کے ساتھ ایک ٹیڈی بیئر رکھا تھا، اور اس کی چوٹیوں میں نیلے ربن بندھے تھے۔"کیا آپ وہ آنٹیاں ہیں جو میرے لیے نوٹ لکھیں گی؟"وہ خوش ہو کر بولی۔ریان کچھ کہنے والی تھی، مگر آواز نہیں نکلی۔زہرہ نے ہولے سے سر ہلایا،"ہاں آنیا، ہم تمہاری مدد کریں گی۔"ریان نے نوٹ بک کھولی، قلم نکالا، اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔آنیا نے بہت خوش ہو کر کہا،"مجھے ایک سرخ پھول بنوانا ہے۔ ماما کو سرخ رنگ پسند ہے۔اور میں لکھنا چاہتی ہوں:'ماما، پلیز جلدی آ جاؤ، میں یہاں بور ہو رہی ہوں۔'"ریان نے قلم ہاتھ میں لیا، مگر اس کی انگلیاں کانپ رہی تھیں۔آنیا کا چہرہ روشن تھا، جیسے وہ کسی دن کی چھٹیوں پر ہو۔"اور بابا سے کہنا، ہم نے آئس کریم کھانی تھی نا؟مجھے اس بار اسٹرابیری کھانی ہے۔"ریان کی پلکوں کے نیچے سے آنسو بہہ نکلا۔زہرہ خاموشی سے ایک کونے میں کھڑی تھی۔آنیا اپنے ٹیڈی بیئر کو چوم رہی تھی۔پھر وہ دھیمی آواز میں ایک نظم گانے لگی، وہی جو اس کی امی سنایا کرتی ہوں گی۔ریان کا ہاتھ رُک گیا۔قلم گرا، اور آنکھیں بھیگ گئیں۔اس نے جلدی سے کرسی پیچھے کی، اور بنا کچھ کہے، کمرے سے نکل گئی۔زہرہ نے ایک لمحہ آنیا کو دیکھا، پھر باہر چلی گئی۔---باہر، اسپتال کے زینوں پر ریان بیٹھی تھی۔اس کا چہرہ ہاتھوں میں چھپا ہوا تھا۔وہ رو رہی تھی… کھل کر، ٹوٹ کر… جیسے برسوں کی مسکراہٹوں کے پیچھے کوئی دکھی بچی چھپی تھی۔زہرہ اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔چپ چاپ۔ریان نے روتے ہوئے کہا،"اسے تو پتا بھی نہیں… وہ مرنے والی ہے۔"زہرہ نے آسمان کی طرف دیکھا۔بادل چھائے ہوئے تھے۔ دھوپ کہیں دور کھڑی، بس جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ریان کی آواز کانپ رہی تھی۔"وہ باتیں کر رہی تھی آئس کریم کی، پھولوں کی… اور اسے خبر ہی نہیں کہ اس کے ماں باپ… کبھی واپس نہیں آئیں گے۔"زہرہ خاموش رہی۔ریان نے اپنی آنکھیں پونچھیں۔"میں کبھی نہیں روئی۔ میں تو ہمیشہ مذاق کرتی تھی نا؟ مگر… یہ… میں برداشت نہیں کر پا رہی۔"زہرہ نے پہلی بار کچھ کہا۔بہت دھیرے سے۔"اسے… جینا چاہیے تھا۔"ریان نے اس کی طرف دیکھا۔زہرہ نے نظریں ہٹائے بغیر کہا،"ایسی بچیاں… ایسی زندگیاں… دنیا کو بہتر بناتی ہیں۔مگر بعض بار… وہی سب سے پہلے چلی جاتی ہیں۔"ریان نے سر جھکا لیا۔اور زہرہ بس بیٹھی رہی —خاموش… پر اندر سے ٹوٹی ہوئی۔بارش تھم چکی تھی۔بس درختوں کے پتے بھیگے ہوئے تھے۔ کچھ قطرے ان پر رُکے تھے — جیسے ٹوٹنے سے پہلے کی آخری امید۔ریان خاموش بیٹھی تھی۔آستین سے آنکھیں پونچھ رہی تھی۔سانسیں اُلجھی ہوئی تھیں۔زہرہ اس کے ساتھ بیٹھی تھی۔نہ کوئی لفظ، نہ دلاسہ۔بس وہ خاموشی… جو دکھ کی گواہی دیتی ہے۔پھر… زہرہ نے کہا۔بہت دھیرے سے، لیکن بہت واضح انداز میں۔"ابھی سب ختم نہیں ہوا۔"ریان نے چونک کر اسے دیکھا۔"کیا مطلب؟"زہرہ نے اس کی طرف دیکھا، اور کہا:"وہ ہمیں آخری خطوط لکھوانے کے لیے بھیجتے ہیں۔لیکن اگر… ہم ایسا خط لکھنے ہی نہ دیں؟"ریان کی آنکھیں کچھ لمحوں کے لیے خالی ہو گئیں۔"مگر آنیا… مر رہی ہے۔"زہرہ نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا۔"وہ کہہ رہے ہیں تین دن باقی ہیں۔تو اس کا مطلب ہے، ہمارے پاس تین دن ہیں۔کچھ بدلنے کے لیے۔"وہ اب کھڑی ہو گئی۔اس کی آواز میں وہ تھکن نہیں تھی… جو کل تھی۔آج… اُس میں کچھ اور تھا —یقین۔"ہمیں ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھنے کا حکم نہیں ملا،تو ہم کیوں نہ ہاتھ بڑھائیں؟شاید… کہیں کوئی دروازہ کھل جائے۔"ریان کھڑی ہو گئی۔ابھی بھی آنکھیں بھیگی تھیں، پر چہرہ پرسکون۔"مگر ہم ڈاکٹر تو ہیں، مگر سرجن نہیں۔ ہم صرف… الفاظ لکھنے آئے ہیں۔"زہرہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:"تو کیوں نہ ہم الفاظ سے آگے بڑھیں؟کیوں نہ… ایک نیا جملہ لکھیں —’اس بچی کو بچا لیا گیا۔‘"کچھ لمحے خاموشی رہی۔پھر ریان نے سانس گہری کھینچی۔"چلو۔کوشش کرتے ہیں۔جو کچھ ہو سکتا ہے، کرتے ہیں۔"بادلوں کے پیچھے سے ایک ہلکی سی روشنی جھانکی —جیسے آسمان نے بھی اس فیصلے پر ہاں کہی ہو۔اب ان کے پاس تین دن تھے۔تین دن —آخری خط لکھنے کے لیے نہیں…زندگی کا دروازہ کھولنے کے لیے۔اور زہرہ… وہ پاکستانی ڈاکٹر، جو کل تک تھکی ہوئی تھی —آج اُس کے اندر ہمت بول رہی تھی۔اور ریان…جو کل تک ہنسی میں چھپتی تھی…آج… آنسوؤں سے صاف ہو چکی تھی۔%%%%%%%%%%%%%%%%%دوپہر کے کھانے کے بعد بادل چھٹ گئے تھے۔روشنی دوبارہ راہداریوں میں آ چکی تھی — نرم، سنہری اور خاموش سی۔نرس ماریا حسبِ معمول ہلکے قدموں سے ان کی طرف آئیں۔"میرے پاس تم دونوں کے لیے کچھ ہے،" اُس نے کہا۔زہرہ اور ریان نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا۔"ایک ٹیم ہے، جس سے تمہیں ملنا چاہیے،" ماریا نے کہا۔"یہ ٹیم دوسری عمارت میں کام کرتی ہے۔""وہ کیا کرتے ہیں؟" ریان نے آہستہ سے پوچھا۔ماریا کی آنکھوں میں نرمی آ گئی۔"وہ اُن مریضوں کے ساتھ کام کرتے ہیں…جو ابھی بھی جی سکتے ہیں۔جن کے پاس زندگی باقی ہے، اور اُسے تھامنے کی ہمت بھی۔"زہرہ کھڑی ہو گئی۔ "تو وہاں… بچانے کی کوشش ہوتی ہے؟"ماریا نے اثبات میں سر ہلایا۔"ہاں۔یہاں سب موت کے قریب نہیں ہوتے۔کچھ ابھی زندگی سے لپٹے ہوتے ہیں۔اور وہاں کے ڈاکٹر… اُسی زندگی کے ساتھ دوڑتے ہیں۔"پھر وہ رکی… اور نرم آواز میں کہا:"تمہیں یہ دیکھنا چاہیے۔تمہیں یاد آنا چاہیے کہ ’امید‘ کیسی لگتی ہے۔"زہرہ اور ریان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔کبھی وہ دونوں بھی اُسی ٹیم کا حصہ تھیں —سفید کوٹ، تیز قدم، پُراعتماد مسکراہٹیں۔زندگی کی طرف دوڑتی لڑکیاں…اور آج؟بس آخری خطوط کی تحریریں۔مگر آج… دل میں کچھ ہلا تھا۔---دوسری عمارت ایک چھوٹے سے باغ کے پار تھی۔وہ دونوں درختوں کے نیچے سے چلتے ہوئے گئیں۔پتوں سے سورج کی روشنی چھن کر آ رہی تھی۔زمین پر جوتوں کی ہلکی چاپ سنائی دیتی تھی۔جیسے ہی انہوں نے دروازہ کھولا… منظر بدل گیا۔عمارت اونچی تھی، روشن، اور زندہ۔سفید دیواریں، شفاف کھڑکیاں، چمکتا فرش۔ڈاکٹرز تیزی سے چل رہے تھے، ہاتھوں میں چارٹ، آنکھوں میں روشنی۔نرسیں کسی گوشے میں دھیرے سے مسکرا رہی تھیں۔اسکرینیں چل رہی تھیں، مانیٹرز بج رہے تھے۔یہاں موت کی خاموشی نہیں…زندگی کی ہلچل تھی۔ریان نے اردگرد دیکھا۔"اوہ واہ…" اس نے سرگوشی کی۔زہرہ کچھ نہیں بولی۔بس سب کچھ دیکھتی رہی۔سامنے سے ایک بچہ وہیل چیئر پر آ رہا تھا، ہاتھ میں غبارہ تھا۔اس کی ماں ساتھ ساتھ چل رہی تھی… مسکرا رہی تھی۔زہرہ نے اُسے دیکھا،پھر راہداری کی طرف،پھر آہستہ سے ریان کے کان کے قریب جھکی۔"اگر ہم… آنیا کو یہاں لے آئیں…؟"ریان رکی۔اس کی آنکھیں پھیل گئیں — حیرانی سے نہیں… اُمید سے۔پھر اُس کے چہرے پر ایک نرم سی، دل سے نکلی ہوئی مسکراہٹ آئی۔"تو شاید… ہم جیت جائیں۔"اور پھر دونوں وہاں کھڑی تھیں —روشن راہداری میں،نہ کچھ بولیں، نہ کچھ سوچا…بس آہستہ سے مسکرا دیں۔جیسے دو لڑکیاں…جن کے دل میں،اندھیرے کے بیچ… ایک روشنی پلٹ آئی ہو۔&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&جب وہ دونوں واپس اپنے وارڈ میں آئیں —تو دیواریں کچھ اور بھی چھوٹی لگنے لگیں۔کمرے پھر سے مدھم ہو گئے۔ خاموش۔ بوجھل۔مگر…اب اندر کچھ بدل چکا تھا۔زہرہ نے اپنی نوٹ بک مضبوطی سے تھامی ہوئی تھی۔ریان اس کے ساتھ چل رہی تھی —نہ جھکی ہوئی، نہ بےپروا، نہ ہنسی مذاق کرتی ہوئی۔دونوں خاموش تھیں۔مگر یہ وہ پرانی خاموشی نہیں تھی۔یہ وہ خاموشی تھی جس کے پیچھے ارادہ چھپا ہوتا ہے۔بریک روم میں، وہ دونوں ایک چھوٹی سی لوہے کی میز کے گرد بیٹھ گئیں۔ریان نے موبائل کھولا۔"تو… کہاں سے شروع کریں؟"زہرہ نے نرم لہجے میں کہا،"فائل سے۔"اس نے آنیا کی فائل نکالی۔بہت پتلی تھی۔زندگی کے لیے، بہت کم۔"چوٹیں شدید ہیں،" زہرہ نے کہا۔"مگر وہ چھوٹی ہے۔ اُس کا دل ابھی بھی مضبوط دھڑک رہا ہے۔یہی سب سے بڑی امید ہے۔"ریان نے سر ہلایا۔"تین سرجریاں ہو چکی ہیں، پھر بھی وہ زندہ ہے۔مطلب وہ اب بھی لڑ رہی ہے۔"زہرہ تھوڑا آگے جھکی۔آواز مدھم مگر پُرعزم تھی۔"میرا خیال ہے، اُسے ایک اور موقع دینا چاہیے۔ایک دوسرا مشورہ۔ ایک نئی ٹیم۔"ریان نے ماتھا سکیڑا۔"اور وہ موقع کہاں سے آئے گا؟"زہرہ نے پلکیں نہیں جھپکیں۔"دوسری عمارت سے۔"ریان حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔"تم کہہ رہی ہو… ہم اُن سے درخواست کریں؟"زہرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔"وہاں بہتر مشینیں ہیں۔ زیادہ عملہ ہے۔ اور…زیادہ امید ہے۔"ریان نے ہونٹ کاٹ لیے۔"یہ آسان نہیں ہوگا۔"زہرہ نے نظریں اُس کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔"کبھی بھی کچھ قیمتی بچانا… آسان نہیں ہوتا۔"---اسی شام، وہ دونوں دوبارہ اُس باغیچے سے گزریں —اب صرف دیکھنے نہیں…بلکہ دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے۔دوسری عمارت کے استقبالیہ پر وہ رکیں۔ایک نرس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا،"جی، کیا مدد کر سکتی ہوں؟"زہرہ نے آگے بڑھ کر کہا،"ہم ’پیلئیٹیو یونٹ‘ سے ہیں۔ ہمیں سرجیکل کوآرڈینیٹر سے ملنا ہے۔"نرس نے ابرو اُچکائے۔"کیا آپ ریفر کر رہی ہیں؟"زہرہ نے آہستہ سے سر ہلایا۔"ابھی نہیں۔بس… ایک درخواست ہے۔ ایک مریض کے لیے، دوسرا جائزہ۔"نرس نے کچھ لمحے سوچا، پھر فون اُٹھایا۔پانچ منٹ بعد، ایک لمبی، سبز یونیفارم میں ملبوس خاتون آئی۔چہرہ سنجیدہ تھا، مگر سخت نہیں۔"میں ڈاکٹر ایلیز ہوں۔ سرجیکل کوآرڈینیٹر۔ کیس بتائیے۔"زہرہ نے فائل آگے بڑھا دی۔"آنیا احمد۔ عمر: چھ سال۔شدید چوٹیں۔ اس وقت مستحکم ہے، مگر بہتری نہیں ہو رہی۔"ڈاکٹر ایلیز نے فائل کے صفحات پلٹے۔"یہ تو ’اینڈ آف لائف‘ یونٹ میں ہے، ہے نا؟"زہرہ نے سانس لی۔"جی۔ مگر ہمیں لگتا ہے…کہ وہ ابھی بھی بچ سکتی ہے۔"ایک لمحہ خاموشی چھا گئی۔پیچھے راہداری میں لوگ چل رہے تھے، مشینیں بج رہی تھیں،مگر یہ لمحہ… جیسے تھم گیا۔ڈاکٹر ایلیز نے نظریں اٹھائیں۔ان کی آنکھوں میں کوئی وعدہ نہیں تھا…مگر… دلچسپی تھی۔"میں جائزہ لوں گی۔اگر ہلکی سی کھڑکی بھی ہوئی…تو ہم اُسے کھولیں گے۔"زہرہ اور ریان نے ایک دوسرے کو دیکھا۔نہ مسکرائے، نہ خوشی سے اچھلے —بس وہی خاموش امید…جو زور سے نہیں بولتی،مگر کسی دروازے کے پیچھے کھڑی رہتی ہے۔$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$صبح کی روشنی کمرے میں ٹھنڈی اور بےرنگ سی اُتر رہی تھی۔زہرہ اپنے ڈیسک کے سامنے بیٹھی تھی۔چائے کا کپ ہاتھ میں تھا، مگر وہ چائے پئے بغیر گم سم بیٹھی تھی۔ریان آہستہ آہستہ کمرے میں چکر لگا رہی تھی —بازو سینے سے لپیٹے ہوئے، ہونٹوں کو دانتوں میں دبائے،اور اُس کی آنکھیں بار بار دروازے کی طرف جاتی تھیں۔گزشتہ رات سے دونوں خاموش تھیں۔آنیا کی فائل جمع کروا چکی تھیں…اور اب، جواب کا انتظار ختم ہوا۔دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔نرس ماریا اندر آئی۔اُس کے ہاتھ میں ایک سفید لفافہ تھا — سیدھا، سادہ، مگر کنارے سے کچھ مڑا ہوا۔"کوئی زبانی پیغام نہیں،" اُس نے کہا۔"بس یہ دیا گیا ہے۔"وہ لفافہ زہرہ کی میز پر رکھ کر چپ چاپ واپس چلی گئی۔ریان وہیں رک گئی —لفافے کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی فیصلہ آنے والا ہو۔زہرہ نے آہستہ سے لفافہ کھولا۔کاغذ نکالا۔لفظ بہ لفظ پڑھا۔پھر دوبارہ پڑھا۔ریان نے آہستہ سے پوچھا،"کیا لکھا ہے؟"زہرہ نے جواب نہیں دیا۔بس وہ کاغذ میز پر رکھا… اور دھیرے سے اُس کی طرف سرکایا۔ریان نے پڑھنا شروع کیا:> طبی جائزہ — آنیا احمدمریضہ کی مکمل حالت کے جائزے کے بعد یہ نتائج سامنے آئے:دماغ کی چوٹ ناقابلِ علاج ہےاندرونی اعضا شدید متاثر، بحالی کا کوئی امکان نہیںدل کی دھڑکن میں مسلسل کمزوریماضی کی سرجریز کا کوئی مثبت اثر نہیںتجویز:مریضہ کو عمارت ’بی‘ (سرجیکل یونٹ) منتقل نہیں کیا جا سکتاہماری پالیسی کے مطابق صرف وہ مریض منتقل کیے جاتے ہیں جن کے بچنے کا واضح امکان ہوڈاکٹر ایلیز (سرجیکل کوآرڈینیٹر) کا تبصرہ:> "آپ دونوں اس شعبے میں نئے ہیں۔ وقت کے ساتھ سیکھ جائیں گے۔ہمیشہ لڑنا، ہمیشہ بچانا… ڈاکٹر کا کام نہیں ہوتا۔بعض اوقات صرف ’ساتھ کھڑا ہونا‘ ہی کافی ہوتا ہے۔عمارت ’بی‘ ایک امید کی جگہ نہیں —یہ ایک عمل کی جگہ ہے۔وہاں صرف وہ جاتے ہیں…جو زندگی کے لیے ابھی بھی لڑ سکتے ہیں۔"ریان نے خط نیچے رکھ دیا۔وہ میز کے کنارے بیٹھ گئی۔پلکیں بھیگ رہی تھیں، مگر آنسو ابھی نہیں گرے تھے۔"تو بس… یہیں تک؟" اُس نے سرگوشی میں کہا۔زہرہ خاموش تھی۔آنکھیں کاغذ پر تھیں، مگر دل کہیں دور جا چکا تھا۔"انہوں نے تو آخر میں اُس کا نام بھی نہیں لیا،" ریان نے کہا۔"صرف ’مریضہ‘… جیسے وہ پہلے ہی… جا چکی ہو۔"زہرہ نے آہستہ سے نظریں اٹھائیں۔"وہ گئی نہیں،" اُس نے کہا۔آواز سادہ تھی، مگر ٹوٹ کر نہیں نکلی۔ریان نے ہلکی سی ہنسی میں تلخی چھپائی۔"مگر دروازہ تو بند ہو گیا ہے، زہرہ۔"زہرہ نے آہستہ سے سر ہلایا۔"ہر دروازہ کھلنے کے لیے نہیں ہوتا۔یہ جانتی ہوں۔"وہ اب کھڑی ہو گئی۔"مگر…یہ بھی جانتی ہوں کہ جو شخص دستک دیتا ہے —وہ کمزور نہیں ہوتا۔"ریان نے اُس کی طرف دیکھا۔زہرہ کی آنکھوں میں تھکن ضرور تھی…مگر شکست نہیں۔"ہم نے اُسے کھویا نہیں،" وہ کہہ رہی تھی۔"ہم صرف… اُسے منتقل نہیں کر سکے۔"پھر خاموشی چھا گئی۔مگر اب کی بار، یہ خاموشی مایوسی نہیں تھی۔یہ خاموشی…وفا کی تھی۔ایسی وفا… جو ساتھ کھڑی رہتی ہے —چاہے کچھ بھی نہ کر سکے۔لیکن جاتی نہیں۔$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$¢$$اگلی صبح زہرہ اور ریان اسپتال میں داخل ہوئیں تو ان کے قدموں میں ایک عجب سکون تھا۔شاید وہ اب بھی امید سے بندھی ہوئی تھیں۔دروازہ بند ہو چکا تھا،مگر شاید کھڑکی…کہیں نہ کہیں… اب بھی کھلی ہو۔وہ ایک نئی فائل، کچھ نوٹس، اور تھوڑی سی دعا کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھیں۔آج وہ ایک اور ڈاکٹر سے ملنے والی تھیں۔مگر جیسے ہی وہ یونٹ میں داخل ہوئیں —نرس ماریا اُن کا انتظار کر رہی تھیں۔چہرہ اُداس تھا۔قدم تیز۔"ڈاکٹر زہرہ… ڈاکٹر ریان، آئیے۔" اُس نے جلدی سے کہا۔وہ اُسے فوراً فالو کر گئیں۔آفس میں پہنچ کر، ماریا نے دروازہ بند کیا۔پھر اُن دونوں کی طرف دیکھا۔"آج صبح آنیا کی حالت بہت بگڑ گئی ہے،" اُس نے دھیمے لہجے میں کہا۔"بلڈ پریشر گر چکا ہے۔ دل غیر مستحکم ہے۔ ڈاکٹرز نے کہا ہے…وقت بہت کم ہے۔"زہرہ نے پلکیں جھپکیں۔ریان نے ہونٹ کھولے، مگر آواز نہیں نکلی۔ماریا نے سفید کاغذ زہرہ کی طرف بڑھایا۔"آج ہی… اُس کا آخری خط لکھنا ہے۔"ریان کرسی پر بیٹھ گئی۔زہرہ نے دونوں ہاتھوں کو آپس میں جکڑ لیا۔"کل تو وہ… ٹھیک تھی،" اُس نے مدھم آواز میں کہا۔ماریا نے آہستہ سر ہلایا۔"وہ کسی کا انتظار کر رہی تھی شاید۔کسی امید کا۔مگر جسم… ایک حد تک ساتھ دیتا ہے۔"زہرہ نے وہ کاغذ پکڑا۔"وہ تم دونوں کو بلارہی ہے،" ماریا نے نرمی سے کہا۔---جب زہرہ اور ریان آنیا کے کمرے میں داخل ہوئیں —وہ اپنی چھوٹی سی گڑیا گود میں رکھے بیٹھی تھی۔چہرہ زرد تھا، ہونٹ خشک، اور آنکھوں کے نیچے گہرے حلقے۔مگر اُس کی آنکھیں…اب بھی چمک رہی تھیں۔اس نے سر اٹھایا۔"آپ آگئیں،" اُس نے دھیرے سے کہا۔ریان نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔زہرہ اُس کے قریب بیٹھ گئی۔"کیسی ہو میری جان؟"آنیا نے کندھے ہلائے۔"تھکی ہوئی ہوں…مگر ٹھیک ہوں۔"پھر تھوڑا رُک کر بولی:"مجھے پتہ ہے… ماما اور بابا اب نہیں رہے۔"زہرہ کے ہاتھ جم گئے۔"کل نرس کی باتیں سن لی تھیں،" آنیا نے سرگوشی کی۔"پر کوئی بات نہیں…میں نے خواب میں اُنہیں دیکھا تھا۔وہ کہہ رہے تھے کہ جلدی ملیں گے۔"ریان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔اُس نے منہ پھیر لیا۔آنیا نے زہرہ کی طرف دیکھا:"آپ…میری مدد کریں گی؟ایک خط لکھنا ہے…زندگی کے نام۔"زہرہ نے آہستہ سے سر ہلایا۔نوٹ بک کھولی۔قلم اٹھایا۔اور آنیا نے بولنا شروع کیا…---زندگی کے نام آنیا کا خطپیارے زندگی،معاف کرنا…میں زیادہ دیر تمہارے ساتھ نہ رہ سکی۔تم تھوڑی سی تھی…لیکن بہت خوبصورت۔تم نے مجھے ایک ماما دی، جو ہر رات گانا گاتی تھیں۔ایک بابا، جو بارش میں مجھے کندھوں پر اُٹھاتے تھے۔میرے کمرے میں چھت پر چمکتے ستارے دئیے۔اور میری سالگرہ پر گلابی پھولوں والا کیک۔تم نے مجھے سکول دیا، دوست دیے،ایک نیلی فراک دی، جو مجھے بہت پسند تھی۔اور وہ دن… ساحل پر، جب میں اتنا ہنسی… کہ سانس ہی نہ آ سکی۔میں رہنا چاہتی تھی۔اچھی طرح لکھنا سیکھنا تھا۔بائیسکل چلانی تھی، گِرے بغیر۔ماں کی طرح لمبی ہونا تھا۔مگر شاید… کچھ بچے بڑے نہیں ہوتے۔چھوٹے، نرم، پیارے سے رہتے ہیں…اور پھر چلے جاتے ہیں۔میری ماما اور بابا کا خیال رکھنا، زندگی۔کہنا کہ میں جلدی آ رہی ہوں۔اور یہ بھی کہنا…کہ میں بہادر تھی۔اگر یہ خط کسی کو ملے —تو اُسے کہنا…کہ مجھے یاد کر کے مسکرائے۔کیونکہ میں…بہت مسکراتی تھی۔جب درد ہوتا تھا…تب بھی۔خدا حافظ، زندگی۔تم میری پہلی دوست تھیں۔محبت کے ساتھ،آنیا---زہرہ نے قلم نیچے رکھا۔کمرے میں سکوت تھا۔ریان کرسی پر رخ پھیرے بیٹھی تھی، اُس کے کندھے ہل رہے تھے۔زہرہ نے آنیا کی طرف دیکھا۔وہ آنکھیں بند کیے…مسکرا رہی تھی۔جیسے سب کچھ کہہ دیا ہو…جیسے… اب صرف نیند باقی ہو۔$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$راہداری پہلے سے زیادہ خاموش لگ رہی تھی۔ہوا میں خالی پن تھا۔ایسا سکوت… جو لفظوں سے نہیں، سانسوں سے محسوس ہوتا ہے۔زہرہ آہستہ آہستہ چل رہی تھی۔اس کے ہاتھ میں وہی نوٹ بک تھی —جس کے ایک صفحے پر آنیا کی آخری باتیں ہمیشہ کے لیے لکھی گئی تھیں۔ریان پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔آنکھیں نم تھیں، مگر اب آنسو بہنے بند ہو چکے تھے۔دونوں چپ تھیں۔نہ ماتم، نہ شور —بس وہ خاموشی… جو بتا رہی تھیکہ اب یہ لمحہ… دوبارہ آئے گا۔وہ چھوٹے سے آفس میں واپس آئیں،تو کمرہ کسی یاد کی طرح اداس لگ رہا تھا۔اسی وقت دروازہ بجا۔نرس ماریا اندر آئی۔اُس کے ہاتھ میں ایک کلپ بورڈ تھا،اور چہرے پر وہی تاثر —نہ ہمدردی، نہ سرد مہری،بس حقیقت۔"معاف کرنا،" اُس نے نرمی سے کہا،"مگر اب تم دونوں کو ایک سچ بتانا ضروری ہے۔"زہرہ نے آہستہ سے سر اُٹھایا۔ریان نے اپنی آنکھوں سے نمی صاف کی۔ماریا کرسی پر بیٹھ گئی۔اور اُن دونوں کو بہت غور سے دیکھا۔"تم دونوں کو یہاں سزا کے طور پر بھیجا گیا تھا،" اُس نے کہا۔"ایسا بورڈ نے کہا تھا۔"وہ رُکی۔"مگر یہ جگہ سزا نہیں ہے…یہ ایک آئینہ ہے۔جو انسان کے اندر وہ دکھاتا ہے…جو وہ اکثر خود سے بھی چھپاتا ہے۔"اس نے کلپ بورڈ میز پر رکھا۔زہرہ نے جھانک کر دیکھا۔سات نام لکھے ہوئے تھے۔ماریا نے دھیمے لہجے میں کہا:"سات مریض۔سب کی حالت نازک ہے۔کچھ آج…کچھ کل…چلے جائیں گے۔"ریان نے چونک کر دیکھا۔"روز… ایک آخری خط لکھنا ہوگا،" ماریا نے نرمی سے کہا۔"اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔"ریان نے دُہرایا،"روز؟"ماریا نے سر ہلایا۔"ایک خط۔ایک زندگی۔ہر دن۔"وہ ذرا آگے جھکی۔"یہ وہ کام نہیں جس کے لیے دل تیار ہوتا ہے۔تم کبھی بھی 'عادی' نہیں ہو پاؤ گی۔یہ کبھی آسان نہیں ہوگا۔اور… یہی بات اِسے قیمتی بناتی ہے۔"زہرہ خاموشی سے لسٹ کو دیکھ رہی تھی۔ماریا نے بات جاری رکھی:"کبھی تم رو دو گی۔کبھی کمرے سے نکل کر سوچو گی کہ واپس کیوں گئی تھیں۔کبھی کسی کہانی کو بھول نہ پاؤ گی —ساری عمر۔"ریان آہستہ سے بولی،"پھر ہم کریں کیوں؟"ماریا نے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔"کیونکہ دنیا میں سب رخصت ہوتے ہیں…مگر ہر کسی کے پاس وہ نہیں ہوتا، جو اُن کی بات کو آخر تک سن سکے۔"وہ کھڑی ہو گئی۔"یہ لوگ جا رہے ہیں۔مگر یہ غائب نہیں ہیں۔ان کی آخری آوازیں بھی اہم ہیں۔اور اب…وہ تم ہو، جو اُنہیں لکھ کر بچا سکتی ہو۔"دروازے کی طرف جاتے ہوئے وہ رُکی۔"اور ہاں، تمہیں مضبوط رہنا ہے۔"آواز نرم تھی… لیکن گہری۔"اس لیے نہیں کہ تمہیں کچھ محسوس نہیں ہوتا…بلکہ اس لیے کہوہ جنہیں کچھ لمحے باقی ہیں…اُنہیں کوئی ایسا چاہیےجو اب بھی ان کے لفظوں کو اہم سمجھتا ہو۔"دروازہ بند ہو گیا۔---کمرے میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔پھر زہرہ نے کلپ بورڈ اٹھایا۔پہلا نام پڑھا۔ایک بوڑھی خاتون۔عمر: بیاسی سال۔کینسر کی آخری اسٹیج۔نہ شوہر، نہ بچے، نہ ملاقات کرنے والا کوئی۔ریان نے لمبا سانس لیا۔"چلو،" اُس نے آہستہ سے کہا۔"چلو اُس سے ملتے ہیں۔"زہرہ نے ہاں میں سر ہلایا۔اور یوں…اگلا خط…شروع ہو چکا تھا۔$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$۔جب زہرہ اور ریان کمرے میں داخل ہوئیں — تو ایک عجیب سا سکون اُن کا استقبال کر رہا تھا۔کھڑکی سے آتی روشنی نرم تھی۔ وہی سنہری روشنی… جو دن بھر میں صرف ایک بار آتی ہے۔ جب سورج چھپنے سے پہلے آخری سلام کہتا ہے۔سامنے، ایک سفید چادر میں لپٹی آرام دہ چارپائی پر — وہ خاتون لیٹی تھیں، جن کا نام لسٹ پر سب سے اوپر تھا:الینور مئے عمر: بیاسی سال کینسر کی آخری اسٹیج کوئی عزیز، کوئی ملنے والا نہیںلیکن زہرہ نے… پہلی نظر میں مرض کو نہیں دیکھا۔اس نے خوبصورتی دیکھی۔الینور کا چہرہ بوڑھا تھا — لیکن وہ چہرہ… کسی مٹی کے گلاب جیسا تھا۔ان کی جھریاں… تھکن کی نہیں لگتی تھیں — بلکہ کسی پرانی، پڑھی ہوئی نظم کی طرح… خاموش شاعری لگتی تھیں۔ان کے ہونٹ خشک تھے، مگر قدرتی طور پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے تھے۔اور ان کی آنکھیں…لیونڈر رنگ کی۔نہ مکمل نیلی، نہ مکمل سرمئی۔ وہ آنکھیں… جنہوں نے جنگیں دیکھی ہوں گی… شادیاں، جدائیاں، دعائیں، جنازے، اور خاموش معافیاں۔اور پھر بھی… زندہ تھیں۔زہرہ ایک لمحے کے لیے ٹھٹھک گئی۔ریان بھی وہیں رُک گئی۔الینور نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں، ایک بار پلکیں جھپکیں، پھر تھوڑا سا اور مسکرائیں۔"میں… سوچ رہی تھی،" اُن کی آواز ہوا کی سیٹی کی طرح ہلکی تھی، "کہ تم… کب آؤ گی۔"زہرہ آہستگی سے آگے بڑھی۔"السلام علیکم، میں ڈاکٹر زہرہ ہوں، اور یہ ریان ہے۔ ہم یہاں… آپ سے بات کرنے، اور آپ کا آخری خط لکھنے آئے ہیں۔"الینور نے نرمی سے ان دونوں کی طرف دیکھا۔"خوبصورت نام ہیں،" اُنھوں نے ایسے کہا… جیسے ہر حرف کو چکھ رہی ہوں۔"زہ…رہ۔ ری…اَن۔"ریان نے کرسی قریب کی۔الینور نے کچھ لمحے خاموشی سے اُنھیں دیکھا، پھر آہستہ سے بولیں — ایسے جیسے شہد گھول کر لفظوں میں ڈال رہی ہوں۔"لوگ اکثر… ایک بات بھول جاتے ہیں،" اُن کی آواز رُکی… پھر دھیرے سے چلتی رہی:"وہ بھول جاتے ہیں… کہ دنیا… رُکتی نہیں۔"زہرہ نے تھوڑا سا سر جھکایا۔الینور مسکرائیں۔"جب ہم جوان ہوتے ہیں، ہمیں لگتا ہے… کہ ہمارے آنسو، زمین کو تھما دیں گے۔ کہ درد… وقت کو روک دے گا۔"پھر وہ کھڑکی کی طرف دیکھنے لگیں۔"مگر سورج… ویسے ہی غروب ہوتا ہے۔ چائے… ویسے ہی پکتی ہے۔ ہوا… پھر بھی بالوں میں اُلجھتی ہے… چاہے دل… ٹوٹا ہوا ہی کیوں نہ ہو۔"ریان اُنھیں ایسے دیکھ رہی تھی جیسے کوئی بچہ اپنی دادی کی کہانی سنتا ہے۔زہرہ نے نوٹ بک کھولی۔"کیا آپ… کسی کے لیے کچھ لکھنا چاہیں گی؟" اُس نے نرمی سے پوچھا۔الینور نے ہلکی سی ہنسی ہنس دی — خشک، مگر کسی ساز کی طرح نرم۔"لکھنے کو… کوئی نہیں۔ رہنے والا… کوئی نہیں۔"ایک لمحے کی خاموشی۔"مگر پھر بھی لکھوں گی،" اُنھوں نے آہستہ سے کہا۔"کیونکہ شاید… کہیں کوئی ہو… جسے یہ پڑھنے کی ضرورت ہو۔"زہرہ نے قلم سنبھالا۔اور الینور مئے نے بولنا شروع کیا… دھیمی آواز میں، لیونڈر روشنی سے بھری آنکھوں کے ساتھ۔الینور کی نگاہ کھڑکی پر ٹکی رہی۔مگر وہ باہر کے درخت نہیں دیکھ رہی تھی۔وہ ماضی کی طرف دیکھ رہی تھی —ایک ایسی دنیا کی طرف جو کبھی تھی…اور اب صرف یاد بن چکی تھی۔آواز آہستہ تھی…ایسی جیسے کوئی دل سے دل کو سناتا ہے۔---"مجھے یاد ہے…بارش کے بعد ہم دونوں کیچڑ میں کھیلتے تھے۔کپڑوں کی فکر نہیں ہوتی۔بس ہنسی، دوڑ، چھینٹے…اور کاغذ کی کشتیوں کی دوڑ۔"وہ دھیرے سے مسکرائیں۔"وہ کشتی بناتا… اور میں اُس کے ساتھ دوڑاتی۔کبھی میری کشتی جیتتی، کبھی اُس کی…پر وہ اکثر مجھے جتوا دیتا۔"زہرہ کے ہاتھ سے قلم رُک گیا تھا۔وہ اب صرف سن رہی تھی۔الینور کی آواز ہلکی تھی —جیسے کسی دھوپ والے دن کی گرم سانس۔"ایک دن اُس نے کہا،‘جب ہم بڑے ہوں گے…ہم ایک بڑا سا باغ بنائیں گے،جس میں سیب ہوں گے،سفید پھول ہوں گے،اور تم درخت کے نیچے بیٹھ کر سارا دن کتاب پڑھا کرو گی۔’"ریان آہستہ سے ہنسی۔الینور خاموشی سے یادوں میں بھیگی رہی۔---"ہم دونوں نے ایک خفیہ زبان بنائی تھی۔صرف ہمارے درمیان۔ہم لکڑی کی باڑ پر چاک سے پیغام لکھتے تھے —‘آج مجھے پنکھا ملا ہے۔’یا‘امی آج کیک بنا رہی ہیں۔’"زہرہ کی آنکھوں میں نمی سی آئی۔"ایک بار اُس نے ایک لکڑی کا چھوٹا سا ڈبہ بنایا…جسے ہم نے 'خوابوں کا ڈبہ' کہا۔ہم دونوں نے اپنی خواہشیں لکھیں،کاغذ کو موڑا،اور اُس ڈبے میں بند کر دیا۔"ریان نے دھیرے سے پوچھا،"آپ نے کیا لکھا تھا؟"الینور نے اُسے دیکھا۔اور آہستہ سے بولیں:"میں دنیا گھومنا چاہتی تھی…پر صرف اُس کے ساتھ۔"زہرہ نے نرمی سے پوچھا،"اور چارلس نے؟"الینور کی آنکھیں چند لمحے بند ہوئیں…پھر اُنھوں نے وہی مسکراہٹ دی جو صرف ادھوری محبت رکھنے والے چہروں پر آتی ہے۔"اس نے لکھا تھا…‘میں صرف یہ چاہتا ہوں…کہ وہ خوش رہے۔چاہے جہاں بھی ہو۔’"کمرے میں خاموشی چھا گئی۔$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$صبح کا آسمان بالکل صاف تھا۔ہوا میں نرمی تھی۔اور الینور…وہ بے وجہ مسکرا رہی تھی۔"آج وہ آ رہا ہے…"اس نے آہستہ سے کہا،پھر خود ہی مسکرا دی،جیسے بار بار کہنا… حقیقت کو قریب لا رہا ہو۔---اس نے آج دو بار بال باندھے…پھر کھول دیے۔تین بار کپڑے بدلے…پھر پہلی فراک پہن لی۔امی ہنس کر بولیں:> "بس الینور… وہ چارلس ہی ہے، کوئی بادشاہ تھوڑی آ رہا ہے۔"پر وہ کیا جانتیں…الینور کے لیے تو چارلس ہی بادشاہ تھا۔---گھر میں چہل قدمی، بےچینی،کبھی کچن، کبھی کھڑکی،تھوڑا سا چائے کا پانی چولہے پر رکھا،تھوڑے سے گلاب ایک پرانے گلدان میں ڈالے۔بھائی سے کہا:> "ذرا شور کم کرو، آج مہمان آ رہا ہے۔"پھر خود ہی شرما کر ہنس دی۔"مہمان"؟نہیں، وہ مہمان نہیں تھا۔وہ تو زندگی کا حصہ تھا۔---دوپہر کے قریب،چار بجے کے وقت،محلے میں اچانک شور ہوا۔بچوں نے دوڑتے ہوئے نعرہ لگایا:"وہ آ گیا!""فوجی واپس آ گیا!""چارلس!"الینور اتنی تیزی سے اُٹھی کہ گلدان گرا دیا۔پانی بکھرا، پھول گِرے…پر اُسے کوئی پروا نہیں تھی۔وہ دروازے کی طرف دوڑی —پھر رُک گئی۔---وہ سڑک پر آ رہا تھا۔وہی لمبا قد،وہی خاموش چال،وہی نرم مسکراہٹ…بس اب وردی میں تھا۔وہ کچھ اور لگ رہا تھا —تھوڑا پختہ، تھوڑا سنجیدہ،تھوڑا وقت سے الگ۔لوگ دروازوں سے باہر نکل آئے۔کسی نے تالیاں بجائیں،کسی نے گلے لگایا۔مگر الینور…بس لکڑی کی باڑ کو دونوں ہاتھوں سے تھامے کھڑی رہی۔---چارلس نے اُسے دیکھا —اور مسکرا دیا۔ایسی مسکراہٹ…جس میں سارا بچپن لوٹ آیا۔نہ اُس نے کچھ کہا،نہ الینور نے۔بات آنکھوں نے کی۔ہوا نے کی۔اور شاید…درمیان کی وہ باڑ بھی، اُس دن چپکے سے مسکرا دی ہو۔---شام کا وقت تھا۔آسمان پر ہلکی نارنجی روشنی پھیل چکی تھی۔الینور نے دو کپ چائے اُٹھائے اور آہستہ سے باہر نکلی۔سامنے باڑ کے پاس…چارلس کھڑا تھا۔بالکل ویسے ہی جیسے برسوں پہلے کھڑا ہوتا تھا —بس اب چہرے پر کچھ سختی تھی،کندھے کچھ سیدھے،اور آنکھیں…اب بھی ویسی ہی تھیں۔---"ہیلو، فوجی صاحب،"الینور نے ہنستے ہوئے کہا۔چارلس مسکرایا۔"میں تو تمہارا انتظار کر رہا تھا۔"الینور نے اسے غور سے دیکھا۔"تم… کچھ بدلے بدلے لگ رہے ہو۔"وہ ہنسا،"اور تم… تمہارے بال؟ تم تو چھوٹے پر والے چوزے لگ رہی ہو۔"الینور نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں،"معاف کیجیے گا؟ تم خود تھکا ہوا شیر لگ رہے ہو!"اور پھر دونوں…برسوں بعد ہنسے۔دل کھول کر۔بے جھجک۔ویسے جیسے کبھی دوری تھی ہی نہیں۔---دونوں سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔چائے کی چسکیاں، ہنسی، اور ایک خاموش سکون۔"میں نے یہ سب یاد کیا،"چارلس نے آہستہ سے کہا۔"چائے؟"الینور نے شرارتی لہجے میں پوچھا۔"نہیں…"اس نے سنجیدگی سے کہا،"تمہیں۔یہ سب کچھ۔یہ سارا محلہ۔تمہاری آواز۔"الینور کی مسکراہٹ آہستہ سی مدھم ہوئی —نرمی میں بدل گئی۔ایک پل کی خاموشی…ایسی خاموشی جو بوجھ نہیں دیتی، بلکہ دلاسہ دیتی ہے۔---پھر چارلس نے نظریں جھکائیں۔"آرمی کی زندگی سخت ہوتی ہے، ایل…زمین پر سونا، وقت پر کھانا نہ ملنا،روز گھر کی یاد آنا…""کبھی اتنی گرمی ہوتی ہے کہ جوتے پگھلنے لگتے ہیں…کبھی اتنی سردی کہ ہاتھوں کی انگلیاں سن ہو جائیں۔"اس کی آواز دھیمی پڑ گئی۔"اور کچھ چیزیں دیکھتے ہیں…جنہیں دل چاہتا ہے کہ کبھی نہ دیکھا ہوتا۔"الینور نے کچھ نہ پوچھا۔بس اس کی طرف نرمی سے دیکھا۔خاموشی سے۔"تم اب گھر واپس آ گئے ہو،"اس نے آہستہ سے کہا۔---"اور تم؟" چارلس نے پوچھا،"اب بھی ٹوسٹ جلایا کرتی ہو؟"الینور نے آنکھیں گھما کر کہا،"براہِ کرم۔ اب تو میں کچن کی رانی ہوں۔""واقعی؟""بالکل۔ کاٹنا، پکانا، برتن دھونا، بھائی کو ڈانٹنا —سب کچھ ایک ساتھ۔میرا اپنا میدانِ جنگ ہے!"چارلس ہنس پڑا۔"تم ہمیشہ سے فائٹر رہی ہو۔"---دونوں ایک ساتھ آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔رات کی چادر اُتر چکی تھی۔کچھ ستارے جھلکنے لگے تھے۔"میں نے سوچا تھا کہ واپس آ کر سب ویسا ہی محسوس ہوگا،"چارلس نے کہا،"مگر کچھ بدل گیا ہے۔سب کچھ… تھوڑا سا بوڑھا لگ رہا ہے۔جیسے وقت میرے بغیر چلتا رہا۔"الینور نے سر ہلایا۔"وقت چلتا ہے…مگر دل یاد رکھتے ہیں۔"چارلس نے اُس کی طرف دیکھا۔"کیا واقعی تمہیں ایسا لگتا ہے؟"الینور مسکرائی۔"ہاں…اسی لیے تو میں اب بھی یہیں ہوں۔"الینور نے چائے کا گھونٹ لیا، مسکرائی، اور بولی:"یاد ہے… تم ایک بار سائیکل سے گرے تھےاور بچوں کی طرح رونے لگے تھے؟"چارلس نے زور سے ہنسا۔"تم نے وعدہ کیا تھا یہ بات کبھی یاد نہیں دلاؤ گی!"الینور نے آنکھیں گھما کر کہا،"میں نے جھوٹ بولا تھا۔"چارلس نے سر ہلایا۔ "تم تب بھی شرارتی تھیں۔""اور تم تب بھی سنجیدہ۔ تم نے کبھی کھیل میں چیٹنگ نہیں کی۔""ابھی بھی نہیں کرتا،" اُس نے فخر سے کہا۔"کتنے بورنگ ہو،" الینور نے منہ بنایا۔چارلس مسکرایا۔"تم ویسی ہی ہو، ایل۔"الینور نے نرمی سے کہا،"اور تم… تھوڑے بدل گئے ہو۔""اچھے؟ یا برے؟""بس… الگ سے۔"---چند لمحے خاموشی کے گزرے۔مگر وہ خاموشی بوجھ والی نہیں تھی —بلکہ سکون والی۔چارلس نے آسمان کی طرف دیکھا۔"کبھی کبھی سوچتا ہوں،اگر میں کبھی گیا ہی نہ ہوتا،تو زندگی کیسی ہوتی؟""تو تم اب بھی سائیکل ٹھیک کر رہے ہوتے،"الینور نے کہا۔"اور تم اب بھی میرا کیک چرا رہی ہوتیں،"چارلس نے جواب دیا۔الینور ہنس پڑی۔"ہاں… قصوروار ہوں۔"---چارلس اُس کی طرف مڑا۔"جانتی ہو… وہاں ہنسی نہیں آتی۔"الینور نے اُس کی آنکھوں میں دیکھا۔"میں جانتی ہوں۔""ایسا لگتا ہے… جیسے دنیا چُپ ہو گئی ہو۔بہت زیادہ چُپ۔""میں خوش ہوں کہ تم واپس آئے ہو،"الینور نے آہستہ سے کہا۔چارلس نے سر ہلایا، "میں بھی۔"---اُسی لمحے باہر سے آواز آئی:"چارلس! کیپٹن بلا رہا ہے! ابھی آؤ!"چارلس فوراً کھڑا ہو گیا۔فرض…ہمیشہ جلدی یاد دلاتا ہے۔اس نے نیچے الینور کی طرف دیکھا۔"مجھے جانا ہوگا۔"الینور بھی کھڑی ہو گئی،اپنی آنکھوں میں چھپی اداسی کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے۔"بالکل… جاؤ۔"چارلس ایک لمحے کو رُکا، پھر آہستہ سے کہا:"میں کل واپس آؤں گا… اگر تم چاہو۔"الینور نے سر ہلایا۔"میں یہیں ہوں گی۔یہی سیڑھیاں،یہی چائے۔"چارلس نے ایک آخری مسکراہٹ دی —پھر مڑ کر رات میں چل دیا۔اور الینور…باڑ کے پاس کھڑی رہی،چائے کا خالی کپ تھامے،بس اُسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی…جیسے پہلے دیکھا تھا۔---—$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$دو ہفتے بعد،الینور پھر سیڑھیوں پر بیٹھی تھی —مگر اس بار کچھ بدل چکا تھا۔اُس کے گال لال تھے۔آنکھوں میں چمک تھی۔امی نے بس ایک جملہ کہا تھا —"تمہاری شادی طے ہو گئی ہے… چارلس کے ساتھ!"الینور پہلے مسکرائی…پھر رونے لگی…پھر ہنسنے لگی۔ایک پل میں سب کچھ بدل گیا تھا۔وہ دوڑتی ہوئی باہر نکلی —اور وہاں وہ تھا…چارلس۔ہمیشہ کی طرح، باڑ کے قریب کھڑا۔---الینور آہستہ آہستہ اُس کی طرف بڑھی،ہاتھ میں ایک چھوٹا سا پھول لیے۔چارلس نے اُسے دیکھا اور بھنویں اُچکائیں۔"یہ چہرہ کیسا ہے؟ یہ پھول مارنے آئی ہو مجھے؟"الینور مسکرائی۔"نہیں… ایک بہت ضروری سوال پوچھنے آئی ہوں۔""پوچھو،" چارلس نے ہنستے ہوئے کہا۔الینور اُس کے سامنے رکی اور کہا:"کیا واقعی… تم مجھے پوری زندگی برداشت کرنے جا رہے ہو؟سوچ لو ایک بار، سپاہی!میں اونچا بولتی ہوں، کیک چُرا لیتی ہوں،برتن سنک میں چھوڑ دیتی ہوں،اور ہر فلم پر روتی ہوں۔"چارلس نے اُسے ایک لمحے کے لیے دیکھا، پھر زور سے ہنسا۔"پوری زندگی؟میں نے آرمی میں تربیت ایسے ہی تو نہیں لی!جنگ دیکھ چکا ہوں، تمہیں بھی برداشت کر سکتا ہوں۔"الینور اتنا زور سے ہنسی کہ پاس بیٹھی بلی بھاگ گئی۔---پھر وہ قریب آئی۔آواز دھیمی ہو گئی۔"ابھی تک یقین نہیں آتا،"وہ بولی۔"اتنا انتظار کیا…اور اب… یہ سب حقیقت ہے۔"چارلس نے سر ہلایا۔اُس کی مسکراہٹ اب نرم ہو چکی تھی۔"جانتی ہو؟وہاں ہر رات جب آنکھ بند کرتا تھا…تو تم یاد آتی تھیں۔تمہاری ہنسی،تمہاری کہانیاں،اور باڑ پر تمہاری بے کار سی لکھائی۔""اوہ!" الینور نے اُس کا بازو مارا،"وہ آرٹ تھا!"دونوں پھر سے ہنس پڑے۔---پھر چارلس کی آواز سنجیدہ ہوئی۔"الینور…""میں مکمل نہیں ہوں۔بہت کچھ دیکھا ہے۔کبھی کبھی لگتا ہے… اندر سے ٹوٹ چکا ہوں۔"الینور نے اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:"تم ٹوٹے نہیں ہو…تم اصل ہو۔اور مجھے کامل انسان نہیں چاہیے…بس تم چاہیے ہو۔"چارلس کی آنکھوں کی سختی نرمی میں بدل گئی۔"میں وعدہ کرتا ہوں،"اُس نے کہا،"جہاں بھی زندگی لے جائے،اب تمہیں میرے لیے کبھی انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔"الینور نے اپنی چھوٹی انگلی آگے بڑھائی۔"پنکی پرامس؟"چارلس ہنسا، اور اپنی انگلی اُس سے مِلائی۔"پنکی پرامس۔"— الینور کا کمرہ کپڑوں، دھاگوں اور پرانے ڈیزائنز سے بھرا ہوا تھا۔ایک مہربان سی عورت آئی تھی — نام تھا مسز لِن وُڈ۔ وہ قصبے کی لڑکیوں کے شادی کے جوڑے سیتی تھیں۔ کئی دلہنوں کو سفید لباس پہنایا تھا… لیکن الینور کے لیے پہلی بار آئیں۔اُنہوں نے نرمی سے ایک ریشمی کپڑا چھوا۔ "یہ ریشم بہت نرم ہے،" انہوں نے کہا۔ "سفید جوڑے کے لیے بالکل موزوں۔"مگر الینور نے فوراً سر ہلا دیا۔"نہیں۔ سفید نہیں۔"مسز لِن وُڈ نے حیرت سے اُسے دیکھا۔ "سفید نہیں؟ لیکن بیٹی… دلہنیں تو سفید ہی پہنتی ہیں نا۔"الینور نے نرمی سے مسکرا کر کہا: "پر میں وہ دلہن نہیں ہوں۔"وہ کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ سورج کی روشنی اُس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں روشن تھیں، مگر آواز میں ایک عجیب سی خاموشی بھری پختگی تھی۔"مجھے کچھ اور چاہیے،" الینور نے کہا۔ "کچھ گرم سا… جیسے شام کے وقت آسمان کا رنگ۔ نرم آڑو جیسا… یا گہرا گلابی۔ پر سفید نہیں۔"مسز لِن وُڈ نے آہستہ سے پوچھا، "کیوں؟ سفید تو محفوظ ہے… خوبصورت ہے… روایت ہے۔"الینور نے کپڑے کو چھوا، اور بہت دھیمی آواز میں کہا:"کیونکہ میری شادی… دوسروں جیسی نہیں ہے۔"مسز لِن وُڈ خاموش ہو گئیں۔ الینور کی آواز میں کچھ تھا… جو سمجھ سے آگے تھا۔الینور نے کہنا شروع کیا:"میں نے اُسے کسی تقریب میں نہیں دیکھا۔ وہ میرا ہمسایہ تھا۔ میرا دوست۔ میرا بچپن۔""میں نے اُس کا انتظار کیا… خاموش دنوں میں… اونچی راتوں میں… خطوں کے بغیر… یادوں کے ساتھ۔"پھر اُس نے گلابی کپڑا ہاتھ میں لیا۔ "یہ رنگ… امید کا رنگ ہے۔ یہ وہ رنگ ہے… جو میری کہانی کو چھپاتا نہیں، دکھاتا ہے۔"مسز لِن وُڈ نے نرمی سے مسکرا کر کہا: "اور تم… ایک الگ دلہن ہو۔"الینور ہنس دی، "میں ہمیشہ تھوڑی الگ تھی۔"پھر کپڑے کی ناپ لی گئی۔ کندھوں، بازوؤں، لمبائی کی پیمائش ہوئی۔ لیس اور دھاگے پر بات ہوئی۔ مسز لِن وُڈ نے ڈیزائن سنبھالا۔ اور الینور… بس کھڑی رہی، دل کی آنکھوں سے وہ دن دیکھتی ہوئی — وہ دن، جب جوڑا نہیں، بلکہ سارا سفر اُسے چارلس کی نظروں میں خوبصورت بنائے گا۔الینور خاموش ہو گئی تھی۔اُس کی آواز جیسے ہوا میں گھل گئی ہو۔چہرہ ساکت،آنکھیں کہیں بہت دور۔رائن نے آہستہ سے پوچھا:"پھر کیا ہوا، الی؟"الینور نے نظریں نیچی کیں،پھر لمبا سانس لیا۔اور دھیمی آواز میں بولی:---"مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے… جیسے کل کی بات ہو۔"دھوپ نرم تھی،ہوا میں خوشبو تھی۔میرے ہاتھوں میں تازہ سرخ پھول تھے —جنہیں میں نے خود چُنا تھا۔میرا لباس وہی تھا…جیسے خواب میں دیکھا تھا۔نرم، آڑو کے رنگ جیسا،جیسے شام کے آسمان کا سایہ۔زیور ہلکے تھے،بالکل ویسے جیسے میں نے ہمیشہ چاہا تھا۔ویسے جیسے… اُسے پسند تھا۔گھر والے ہنس رہے تھے،کمرے میں ہلکی سی موسیقی چل رہی تھی۔اور میں…میں بس اُس کا انتظار کر رہی تھی۔---دروازے کے قریب کھڑی تھی —ہر آہٹ پر دل دھڑکتا تھا۔اور پھر…خاموشی چھا گئی۔میں نے دیکھا…کچھ فوجی اندر آ رہے تھے۔ان کے چہروں پر مسکراہٹ نہیں تھی۔اُن کے ہاتھوں میں ایک تابوت تھا۔---لکڑی کا تابوت۔قومی پرچم میں لپٹا ہوا۔ساکت، خاموش، بھاری۔پھر میری نظر گئی…اُس تختی پر…جس پر لکھا تھا:چارلس۔میرا چارلس۔وہ جو باڑ کے پاس کھڑا رہتا تھا،جو میری چائے پر ہنستا تھا،جس نے بچپن کی ہر دوپہر میرے ساتھ گزاری تھی…آج…خاموش تھا۔اور واپس آیا تھا…مگر… ایسے نہیں۔---میری سانس بند ہو گئی۔ہوا رک گئی۔زمین گھومنے لگی۔اور پھر…سب کالا ہو گیا۔میں بے ہوش ہو گئی۔---تاریکی میں صرف ایک آواز گونجی —اُس کی آخری بات۔"میں واپس آؤں گا، ایل…میں وعدہ کرتا ہوں…ہماری شادی والے دن میں تمہارے پاس ہوں گا۔"اور میں نے اُس کا یقین کیا تھا۔دل سے۔---الینور کی آواز کانپنے لگی تھی۔مگر اُس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے —بس ایک خالی پن تھا۔وہ جیسے آج بھی اُسی دروازے کے پاس کھڑی ہو…پھولوں کو تھامے،آخری دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے۔رائن نے اُس کا ہاتھ پکڑا۔نرمی سے۔ خاموشی سے۔الینور نے آہستہ سے کہا:"وہ وعدے کے مطابق آیا تھا…بس… ویسے نہیں،جیسے میں نے خواب دیکھا تھا۔"کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔زہرا الینور کے ساتھ بیٹھی تھی۔نرمی سے اُس کا ہاتھ تھامے۔رائن بھی خاموش تھی۔کوئی ہمدردی کے لفظ نہیں،بس… خاموشی تھی۔زہرا نے آہستہ سے پوچھا:"پھر… آپ کے گھر والے؟آپ کی زندگی پھر کیسے گزری؟"الینور نے گہرا سانس لیا۔اُس کی آواز دھیمی تھی۔---"میں نے دوبارہ کبھی شادی نہیں کی،" اُس نے کہا۔"کیسے کرتی؟"اُس نے نظریں نیچے کر لیں۔"میرا بھائی…وہ باہر چلا گیا۔پتہ نہیں کیوں۔بس چلا گیا۔کبھی پلٹ کر نہیں آیا۔نہ فون، نہ خط،نہ کوئی وجہ۔"زہرا کے دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی۔الینور کی آواز ٹوٹنے لگی۔"ماں بابا…کچھ سال بعد دنیا سے چلے گئے۔بڑھاپا، خاموشی…اور شاید چارلس کی کمی۔"اُس نے ایک چھوٹی سی، بھری بھری مسکراہٹ دی۔"اور میں…اکیلی رہ گئی۔بس میں،اور ایک گھر جو یادوں سے بھرا ہوا تھا۔"---زہرا کی آنکھوں میں نمی آ گئی۔مگر وہ کچھ بول نہ سکی۔الینور نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔بادلوں سے آسمان ڈھکا ہوا تھا۔ہوا پردے کو ہلا رہی تھی۔پھر اُس نے بہت نرمی سے کہا:"شاید…اب وقت آ گیا ہے چارلس سے ملنے کا۔"زہرا نے چونک کر اُسے دیکھا۔الینور کے چہرے پر غم نہیں تھا۔بلکہ سکون تھا۔ایک ٹھہرا ہوا سکون —جیسے دل برسوں سے تھاما ہوا ہو…اور اب وہ تھکن اُتار دینا چاہتا ہو۔—$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$$---کمرے میں خاموشی تھی۔الینور کھڑکی کے پاس بیٹھی آسمان کو دیکھ رہی تھی۔وہ کچھ نہ بولی،مگر اُس کی آنکھیں کچھ کہہ رہی تھیں۔زہرا نے آہستہ سے نظریں رایان کی طرف گھمائیں۔رایان پہلے ہی اُسے دیکھ رہی تھی…اور اُن دونوں کے درمیان،کسی لفظ کی ضرورت نہ تھی۔وہ جان گئی تھیں —الینور تیار ہے۔---زہرا آہستہ سے اُٹھی،ایک کاغذ کا ٹکڑا ہاتھ میں تھاما،اور الینور کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔پھر بہت نرمی سے بولی:"ہم نے اب تک صرف ایک چھوٹا سا خط جمع کیا ہے…ایک بچے کا، زندگی کے نام۔اب… ہم چاہتی ہیں کہ ایک اور خط ہو۔آپ کی طرف سے… زندگی کے نام۔"الینور نے حیرت سے اُس کی طرف دیکھا۔زہرا مسکرا دی۔"دُکھ کی بات نہیں لکھنی۔کوئی الوداعی لفظ نہیں۔بس… جو دل کہے، وہ لکھ دیجیے۔زندگی کے لیے۔"رایان آہستہ سے بولی:"اداس نہ ہو۔سچ لکھو۔بس… خود کو لکھو۔"الینور نے کاغذ کو تھاما۔خاموشی سے۔اور پھر قلم اُٹھایا…اور لکھنا شروع کیا۔---زندگی کے نام — الینور کی طرف سےزندگی…تم نے کبھی کوئی وعدہ نہیں کیا تھا۔نہ کہا تھا کہ آسان ہو گی،نہ کہا تھا کہ منصف ہو گی۔تم نے صرف مجھے صبحیں دی تھیں…ایک کے بعد ایک۔اور میں…اُٹھنا سیکھ گئی۔کئی دن ایسے آئے…جب تم بہت بھاری لگیں،جیسے سردیوں کی ایک لمبی رات۔مگر پھر،تم نے مجھے حیران کر دیا —اک موسم سے ہٹ کر کھلا پھول،خاموشی میں اُبھرنے والی ہنسی،یا گلی کے اُس پار سے ہاتھ ہلاتا بچہ۔تم نے سب کچھ نہیں دیا۔مگر کچھ دیا…اور وہی میرے لیے کافی تھا۔تم نے مجھے محبت دی۔شاید ہمیشہ کی نہیں،شاید ویسی نہیں جیسے خواب میں ہوتی ہے…مگر سچی۔نرم…اور گہری۔تم نے مجھے وقت دیا۔زیادہ نہیں…مگر اتنا ضرور،کہ میں یاد رکھ سکوں۔اور تم نے مجھے کہانیاں دیں۔کچھ میں نے جِی لیں،کچھ دل میں سمیٹ لیں۔اب جب شام میرے دروازے پر آ پہنچی ہے…تو میں صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں:شکریہ۔اچھے دنوں کا نہیں،برے لمحوں کا بھی نہیں،بلکہ اُس موقع کا،جو تم نے دیا…محسوس کرنے کا،امید رکھنے کا،انتظار کرنے کا،سانس لینے کا،خاموشی سے جینے کا۔شکریہ کہ تم کامل نہیں تھیں،مگر پھر بھی تم میری تھیں۔میں جِی۔میں نے محبت کی۔اور اب جا رہی ہوں…بغیر کسی افسوس کے۔— الینورالینور کے کمرے سے نکلتے وقتزہرا اور رایان…بالکل خاموش تھیں۔نہ کوئی بات،نہ کوئی نظریں،بس خاموش قدم اور تھکے ہوئے دل۔وہ سیدھا اسپتال کے پچھلے باغ کی طرف چلیں۔وہاں ایک پرانا سا بینچ تھا۔وہ دونوں جا کر بیٹھ گئیں۔ہوا تھوڑی تھوڑی چل رہی تھی۔درخت ہلکے سے جھوم رہے تھے۔آسمان پر بادل تھے —بلکل ویسے جیسے اُن کے دلوں پر چھائے ہوئے ہوں۔کچھ لمحوں تک خاموشی رہی۔پھر رایان نے آہستہ سے کہا:"یہ وہ کام نہیں جس کے لیے ہم یہاں آئے تھے۔"زہرا نے اُس کی طرف دیکھا،مگر کچھ نہ بولی۔رایان نے بات جاری رکھی:"ہم نے خود کو مضبوط بنانے میں بہت وقت لگایا تھا۔اتنی محنت، اتنی پڑھائی،تاکہ لوگوں کو بچا سکیں،انھیں اُمید دے سکیں۔"وہ رُک گئی۔"اور اب… ہم بس یہ کہہ رہے ہیں:'زندگی کو الوداع کہنے کے لیے ایک خط لکھ دو۔'"وہ ہلکے سے مسکرائی،مگر وہ مسکراہٹ ٹوٹی ہوئی تھی۔"کتنا عجیب ہے نا…ہم جو ڈاکٹر بنے تھے،اب صرف خاموشی کے درمیان کاغذ اور قلم دے رہے ہیں۔"زہرا نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔پھر بہت نرم آواز میں بولی:"ہم ڈاکٹرز تھے…ہم دوائیاں دیتے تھے،حوصلہ دیتے تھے،دعا دیتے تھے۔"اُس کی آواز ہلکی سی لرز گئی۔"اور اب…ہم لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ…زندگی کو آخری بار کچھ کہہ دو،پھر چلے جانا۔"رایان خاموشی سے سن رہی تھی۔زہرا نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا،اور کہا:"یہ کام غلط نہیں ہے…مگر بہت بھاری ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے ہم ٹوٹنے لگے ہیں۔"رایان نے سر ہلایا۔"ہمیں تو سکھایا گیا تھا موت سے لڑنا…مگر یہاں…ہمیں سکھایا جا رہا ہے موت کو چپ چاپ قبول کرنا۔"زہرا نے آسمان کی طرف دیکھا۔اور آہستہ سے کہا:"شاید…اس جگہ کو ڈاکٹرز کی نہیں،بس ایسے لوگوں کی ضرورت ہےجو خاموشی میں بیٹھ کر،دوسروں کے درد کو صرف سن لیں۔"رایان نے آہستہ سے اپنے چہرے کو صاف کیا۔پھر وہ دونوں…بس وہیں بیٹھی رہیں۔خاموش۔تھکی ہوئی۔کبھی کبھی،مضبوط ہونے کا مطلب صرف یہ ہوتا ہےکہ ہم ٹوٹ کر بھی…احساس کرنا نہ چھوڑیں۔فضا میں ایک خاموش بوجھ سا تھا۔زہرا آہستہ آہستہ بینچ سے اُٹھی۔رایان بھی اُس کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔وہ دونوں تھکی ہوئی تھیں —مگر ٹوٹی ہوئی نہیں۔زہرا نے اُس کی طرف دیکھا اور کہا:"ایک وعدہ کرتے ہیں۔اب ہم دوبارہ نہیں روئیں گے۔"رایان نے سر ہلایا:"ہاں۔موت کو روکا نہیں جا سکتا۔مگر ہم یہاں رونے کے لیے نہیں آئے۔ہم یہاں مضبوط رہنے آئے ہیں۔اور ہم رہیں گے۔"زہرا نے ایک تھکی ہوئی سی مسکراہٹ دی:"ہم جلدی واپس جائیں گے۔اُس کمرے میں۔نئی کہانیوں کی طرف۔نئے لوگوں کی طرف۔"کچھ لمحے خاموشی میں گزرے۔پھر وہ دونوں دوبارہ مریضوں والے حصے کی طرف چل پڑیں۔ایک نرس وہاں اُن کا انتظار کر رہی تھی۔اُس کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔"میں چاہتی ہوں آپ کسی سے ملیں،" اُس نے کہا۔"وہ پچھلے پانچ مہینے سے یہاں ہے۔ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ جلد مر جائے گی…مگر وہ اب تک زندہ ہے۔"زہرا نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔رایان نے پلکیں جھپکیں:"ابھی تک زندہ؟""ہاں،" نرس نے سر ہلایا۔"کوئی علاج کام نہیں کرتا۔وہ حرکت نہیں کر سکتی۔ٹھیک سے کھا بھی نہیں سکتی۔آہستہ بولتی ہے…مگر زندہ ہے۔""اُس کا نام؟" زہرا نے پوچھا۔"رون،" نرس نے کہا۔"عمر ستائیس سال ہے۔"---وہ نرس کے پیچھے چلتی رہیں، ایک لمبا راہداری پار کرتے ہوئے۔چاروں طرف خاموشی تھی۔کمرہ مدھم روشنی میں ڈوبا ہوا تھا۔بستر سفید تھا۔اور وہ…رون تھی۔دبلی۔زرد چہرہ۔بہت کمزور۔مگر اُس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔وہ اُن دونوں کو دیکھ رہی تھی۔رایان رُک گئی۔ساکت۔جیسے اُس کے چہرے میں کچھ ایسا تھا —نہ خوبصورتی،نہ اداسی —بس ایک گہری خامشی،جو لفظوں سے زیادہ کچھ کہہ گئی۔رایان آہستہ آہستہ کمرے میں واپس داخل ہوئی۔رون کی کمزور، مگر جاگتی آنکھیں اُس پر جم گئیں۔وہ چہرہ جو زندگی سے خالی ہو چکا تھا —اب ایک پرانی آشنائی دیکھ کرذرا سا زندہ لگ رہا تھا۔رایان نے چند قدم اور بڑھائے۔رون کے لب ہلے۔آواز بہت ہلکی تھی…مدھم، بوجھل، اور دکھ سے بھری ہوئی۔"تم بھاگ گئی، لڑکی…"وہ ہلکے سے مسکرائی،ایک تلخ سی مسکراہٹ۔"کیوں؟کیا اس لیے کہ میں بدصورت لگنے لگی ہوں؟یا اس لیے کہ میں مر رہی ہوں؟"رایان کی سانس رک گئی۔رون کی آواز جیسے اندر تک اُتر گئی۔"بولو نہ…بھاگ گئی تھی، کیونکہ اب میں ویسی نہیں رہی؟"رایان کی آنکھیں بھر آئیں۔پھر… وہ ایک دم آگے بڑھی،بستر کے پاس بیٹھ گئی،اور رون کو گلے لگا لیا۔زور سے۔خاموشی سے۔جیسے وقت کو تھامنا چاہتی ہو۔"رون… یا اللہ، رون…"اُس کی آواز کانپنے لگی۔"تمہیں کیا ہو گیا؟کہاں چلی گئی تھی؟کیوں کچھ نہیں بتایا؟دو سال… رون… دو سال!"وہ اُس کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئی۔"میں کتنی بری دوست نکلی، رون۔مجھے کچھ بھی نہیں پتا تھا۔ان دنوں نے تو جیسے ہمیں توڑ کر رکھ دیا ہے۔"وہ رونے لگی —بے آواز آنسو،دل سے بہتے ہوئے۔رون نے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔"تم ویسی ہی ہو…جلدی رونے والی، پرانی رایان۔"رایان ہنس دی،آنسوؤں میں بھی،کسی پرانے پل میں واپس جا کر۔"بتاؤ مجھے…کیا ہوا تمہیں؟کیا بیتا ان دو سالوں میں؟"رون نے آہستہ سے سر ہلایا۔"بتاتی ہوں…سب بتاتی ہوں۔"اور پھر اُس نے بتانا شروع کیا۔دھیرے دھیرے،سانس لیتے ہوئے،تھکی ہوئی آواز میں۔کیسے اُس کی طبیعت بگڑنے لگی تھی۔کیسے پہلے وہ نظرانداز کرتی رہی۔پھر درد بڑھتا گیا۔پھر اسپتال،پھر ٹیسٹ،پھر تنہائی…اور پھر خاموشی۔کمرے میں ایک اور وجود تھا —زہرا۔وہ بس کھڑی تھی،خاموش،بےآواز،سُن رہی تھی۔نہ کچھ کہا،نہ کچھ ٹوکا۔بس سُن رہی تھی،دو دوستوں کی بچھڑی ہوئی قربت کودوبارہ جڑتے ہوئے۔اس چھوٹے سے کمرے میںنہ صحت واپس آئی،نہ مکمل امید —لیکن ایک تعلق واپس آیا تھا۔اور کبھی کبھار…بس یہی کافی ہوتا ہےکسی کو تھوڑا اور زندہ رکھنے کے لیے۔رایان ابھی تک رون کے پاس بیٹھی تھی،اُس کا کمزور ہاتھ تھامے ہوئے۔کمرے میں خاموشی تھی —بس وہ دونوں…اور دروازے کے قریب کھڑی زہرا،جو خاموشی سے سُن رہی تھی۔کافی دیر گزرنے کے بعد،رایان نے نرمی سے پوچھا:"رون…تمہارے ماں باپ؟کیا اُنہیں پتا ہے تم کس حال میں ہو؟"رون نے چھت کی طرف دیکھا،پھر آہستہ سے کہا:"نہیں۔انہیں کچھ بھی نہیں پتا۔"رایان نے حیرت سے کہا:"کیوں؟کیا اُنہیں حق نہیں ہے جاننے کا؟کیا اُنہیں تمہارے قریب نہیں ہونا چاہیے اس وقت؟"رون نے ایک ہلکی، تھکی ہوئی مسکراہٹ دی:"وہ بہت غریب لوگ ہیں، رایان۔اس ملک کا ٹکٹ تو اُن کے خواب سے بھی باہر ہے۔اور اگر وہ جان بھی جائیں…تو آ نہیں سکیں گے۔"رون کا سانس کچھ بھاری ہو گیا۔اُس کی آواز مدھم ہو گئی۔"اور میری ماں…وہ تو میرے ذرا سے بخار میں گھبرا جاتی تھی۔یہ حال… وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتی۔وہ ٹوٹ جائے گی۔"رایان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔"لیکن…تم نے اتنا بڑا سچ کیسے چھپا لیا؟کیسے برداشت کیا؟"رون نے پلکیں بند کیں۔چند لمحے خاموش رہی۔پھر دھیرے سے بولی:"میں نے اپنے بھائی کو ایک میسج کیا۔میں نے لکھا —میں تھک چکی ہوں تم سب کو پیسے بھیجتے بھیجتے۔میری بھی ایک ذاتی زندگی ہے۔مجھے اکیلا چھوڑ دو۔خود کماؤ، اپنے ماں باپ کو سنبھالو۔"اُس نے آنکھیں کھولیں۔"شاید وہ اب مجھ سے نفرت کرتا ہے…مگر رایان…نفرت، اُس درد سے بہتر ہےجو ایک بیٹی کی موت دے سکتی ہے۔"وہ چند لمحے خاموش رہی۔پھر بہت نرمی سے کہا:"وہ کبھی نہیں جان پائیں گے…کبھی بھی نہیں۔نہ اتفاق سے، نہ غلطی سے۔"اُس نے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔"بس…اُنہیں یہی لگے کہ میں خوش ہوں،کہیں اچھی جگہ ہوں…زندہ ہوں۔اور وہ سکون سے جی سکیں۔"رایان خاموشی سے اُس کا ہاتھ پکڑے بیٹھی رہی۔اُس کے لب ہلے، مگر کچھ کہا نہیں۔اور زہرا…زہرا نے اپنا چہرہ تھوڑا سا موڑ لیا،کیونکہ بعض اوقات،ڈاکٹر بھی اپنے آنسو روک نہیں پاتے۔زہرا خاموشی سے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔دیکھ رہی تھی اُن دونوں کو —ایک بیڈ پر لیٹی،دوسری اُس کا ہاتھ تھامے بیٹھی۔پھر زہرا آہستہ سے آگے بڑھی۔رایان کے قریب ہو کراُس کے کان میں کچھ کہا۔رایان جیسے سُن کر ساکت ہو گئی۔اُس نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا۔"نہیں…ابھی نہیں۔"زہرا نے اُسے دیکھا،اور خاموشی سے پیچھے ہٹ گئی۔رایان نے آہستہ آہستہ رون کی طرف دیکھا،اور سرگوشی میں پوچھا:"تم یہاں کیسے آئیں؟اس اسپتال میں؟"رون ہلکے سے مسکرائی،جیسے کوئی لمبا تھکا سفر یاد آ رہا ہو۔"پانچ مہینے پہلے لائے تھے۔کہا تھا ایک ہفتہ بھی نہیں نکالو گی۔مگر دیکھو…ابھی تک زندہ ہوں۔"رایان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔پھر زہرا نے خاموشی توڑی:"رون…وقت آ گیا ہے۔زندگی کو آخری خط لکھنے کا۔"رایان ایک دم چونکی۔"نہیں!"آواز اونچی ہو گئی۔"وہ خط نہیں لکھے گی۔وہ مر نہیں رہی!وہ بچے گی!"زہرا نے نظر جھکا لی۔رون خاموش رہی،پھر ایک آہ بھری، اور دھیرے سے بولی:"شاید…شاید میں بس تم سے ملنے کے لیے زندہ رہی تھی، رایان۔"رایان کا دل جیسے رک سا گیا۔"ایسا مت کہو۔تم بچو گی۔میں تمہیں لے جاؤں گی یہاں سے۔یہ سارا اسپتال ہلا دوں گی۔مگر تمہیں خط لکھنے نہیں دوں گی۔"رون نے اُس کا ہاتھ تھاما۔کمزور مگر مطمئن سی گرفت۔"میں خط لکھنا چاہتی ہوں، رایان۔"رایان کے لب کانپے:"کیوں؟کیوں مان رہی ہو ہار؟"رون نے نرم لہجے میں کہا:"یہ ہار نہیں ہے۔بس…الوداع کہنا چاہتی ہوں۔اپنے الفاظ میں،اپنے طریقے سے۔"رایان خاموش ہو گئی۔بس اُس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔کمرے میں خاموشی چھا گئی۔دو سہیلیاں۔ایک تلخ سچ۔اور ایک خاموش وعدہ۔کہ جو الفاظ زباں نہیں کہہ سکتے…وہ قلم کہے گا۔---رایان میز پر بیٹھی تھی،کاغذ ہاتھ میں،قلم اُس کی انگلیوں میں کانپ رہا تھا۔رون بہت تھکی ہوئی تھی،قلم تھامنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔"تم لکھو…"رون نے آہستہ سے کہا۔"لیکن لفظ میرے ہوں گے…میری طرف سے زندگی کو۔"رایان نے آنسو پونچھے،اور سر ہلا کر لکھنے لگی۔---"پیارے زندگی،تم نے میرے ساتھ کچھ خاص اچھا نہیں کیا۔تم عجیب تھی… بہت عجیب۔کبھی مجھے خوبصورت لوگ دیے…پھر مجھ سے چھین لیے۔مجھے خواب دیے،پر اُنہیں پورا کرنے کا وقت نہیں دیا۔میں بچپن میں اُستانی بننا چاہتی تھی۔پھر ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھا۔پھر بس کسی کے چہرے کی مسکراہٹ بننا چاہا۔لیکن تم نے مجھے…مریض بنا دیا۔میں ہنستی تھی، زور زور سے۔بارش میں ننگے پاؤں دوڑتی تھی۔سوچا تھا میرا ایک گھر ہوگا،زرد رنگ کی دیواریں،کھڑکی کے پاس گلاب۔لیکن تمہارا کوئی اور ہی منصوبہ تھا۔چلو…کوئی بات نہیں۔میں تمہیں معاف کرتی ہوں۔حالانکہ تم نے بار بار مجھے توڑا۔حالانکہ میں بھیڑ میں بھی اکیلی محسوس کرتی تھی۔حالانکہ میں نے ہسپتال کے بستر پر چپکے چپکے رویا…پھر بھی — میں تمہیں معاف کرتی ہوں۔میں سوال نہیں کروں گی۔غصہ بھی نہیں کروں گی۔کیونکہ اب مجھے یقین ہے…شاید تم آخری منزل نہیں ہو۔شاید اصل جواب…میرے رب کے پاس ہے۔میں اُس سے پوچھوں گی۔کیوں میں ماں کو الوداع نہ کہہ سکی؟کیوں سچ چھپانا پڑا؟کیوں محبت اور زندگی ایک ساتھ کبھی نہیں آئیں؟اور شاید…وہ مسکرائے گا،مجھے گلے لگائے گا،اور کہے گا: ‘میں تو ہمیشہ تمہارے ساتھ تھا۔’”**---رایان کا ہاتھ کانپنے لگا۔کاغذ پر اُس کے آنسو گرنے لگے۔رون کی آواز مدھم ہو رہی تھی۔مگر وہ…اب بھی مسکرا رہی تھی۔ہلکی سی…ٹوٹتی ہوئی مسکراہٹ۔"اور آخر میں…"رون نے سرگوشی کی،"میں سب سے اہم بات کہنا چاہتی ہوں…"رایان اُس کے قریب ہو گئی۔"کیا؟"رون نے آنکھیں بند کر لیں۔ہونٹ ہلے۔"لا الہ الا اللہمحمد رسول اللہ…"آواز کمزور ہو گئی…رفتہ رفتہ…اور پھر… بند۔قلم رایان کے ہاتھ سے گر گیا۔"رون؟"اُس نے ہلایا۔"رون!"کوئی حرکت نہیں ہوئی۔سینہ نہیں اُٹھا۔اور پھر…رایان چیخ پڑی۔ایک چیخ…جو ہسپتال کی دیواروں سے ٹکرا گئی۔وہ آگے جھکی،رون کا چہرہ تھاما،سر ہلایا:"نہیں!نہیں، تم نہیں جا سکتی!تم نے وعدہ کیا تھا تم خط مکمل کرو گی!تم مجھے یوں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی!"لیکن کمرہ خاموش تھا۔جسم گرم تھا…روح جا چکی تھی۔رایان اُسے گلے لگا کر روتی رہی۔بے آواز،بے حد۔وہ خط اُس نے لکھا تھا…مگر الوداع —رون نے اپنی سانس سے لکھا تھا۔کمرے میں مکمل خاموشی تھی۔نہ کوئی ہنسی،نہ روشنی،نہ کوئی آواز —بس خاموشی… اور ایک بوجھل سا خالی پن۔رایان اپنے بستر کے کنارے بیٹھی تھی۔آنکھیں کھلی تھیں،لیکن جیسے کہیں دور دیکھ رہی ہوں —کسی ایسے لمحے کو، جو اب لوٹ کر نہیں آئے گا۔زہرا آہستہ قدموں سے کمرے میں داخل ہوئی۔کچھ دیر وہ کچھ بولی نہیں۔بس کھڑی رہی،رایان کو دیکھتی رہی۔پھر آہستہ سے بولی:"رایان…کچھ کھا لو، پلیز۔"رایان نے کوئی جواب نہ دیا۔نہ پلکیں جھپکیں،نہ نظریں ہلیں۔زہرا اُس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔"مجھے پتہ ہے،بہت تکلیف ہے۔مجھے بھی اُس کی کمی محسوس ہو رہی ہے…وہ روشنی جیسی تھی۔"رایان کے ہونٹ ہلکے سے لرزے۔"وقت…وقت اُسے مجھ سے چھین کر لے گیا،" اُس نے سرگوشی میں کہا۔"میری مسکراہٹ بھی ساتھ لے گیا، زہرا۔اب کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا۔"زہرا نے اُس کا ہاتھ تھاما۔"تم ابھی ہو،اور تمہیں جینا ہے۔رون چاہتی کہ تم مضبوط رہو۔اُسے تمہارا یہ حال کبھی پسند نہ آتا۔"رایان نے چہرہ دوسری طرف موڑ لیا۔"ہم نے کل اُسے دفنایا،زہرا…میں کھڑی دیکھتی رہی…جب وہ مٹی میں اُتر گئی۔ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا۔وہ اس قابل نہیں تھی۔"زہرا نے گہری سانس لی،پھر دھیرے سے کہا:"کچھ لوگ کم عمر میں دنیا چھوڑ جاتے ہیں،لیکن وہ ایسی یادیں چھوڑ جاتے ہیںجو پوری زندگی کے برابر ہوتی ہیں۔رون کی ایک حصہ اب تمہارے اندر ہے۔اور تمہیں اُسے زندہ رکھنا ہے۔"رایان نے پہلی بار زہرا کی طرف دیکھا۔اُس کا چہرہ زرد،آنکھیں سوجی ہوئی۔"مگر…اُٹھوں کیسے؟"زہرا ہلکی سی اداس مسکراہٹ کے ساتھ بولی:"بس… اُٹھ جاؤ۔رو لو،سانس لو،اور ایک چھوٹا سا قدم بڑھاؤ۔یہی زندگی ہے۔"چند لمحوں کی خاموشی چھا گئی۔پھر رایان نے آہستہ سے پوچھا:"آج کون سا دن ہے؟"زہرا نے دیوار پر گھڑی دیکھی۔"پیر ہے۔ہمیں ایک گھنٹے میں اسپتال پہنچنا ہے۔"رایان نے گہری سانس لی۔"دنیا…کسی کے لیے نہیں رُکتی، ہے نا؟"زہرا نے سر ہلایا۔"نہیں…لیکن ہم ایک دوسرے کے لیے رُک سکتے ہیں۔"رایان آہستہ سے اُٹھی۔ہاتھ کانپ رہے تھے،پاؤں لڑکھڑا رہے تھے —مگر وہ کھڑی ہو گئی۔آئینے کے پاس جا کر بال باندھے۔مسکراہٹ ابھی بھی غائب تھی،مگر وہ کھڑی ہو چکی تھی۔زہرا نے اُس کا کوٹ اُٹھایا،اور اُسے تھمایا۔دونوں آہستہ آہستہ باہر نکلیں۔باہر کی ہوا بوجھل تھی،جیسے دنیا نے بھی کوئی اپنا کھو دیا ہو۔لیکن وہ پھر بھی چل پڑیں۔کیونکہ غم انسان کو روک تو سکتا ہے،مگر ختم نہیں کر سکتا۔---آسمان پر بدلی چھائی ہوئی تھی۔بادل جیسے رونے کے بعد خاموش کھڑے ہوں۔زہرا اور رایان اسپتال کی طرف جا رہی تھیں۔دونوں چپ…اپنے اپنے خیالوں میں گم۔راستہ جانا پہچانا تھا،لیکن آج ہر قدم بھاری لگ رہا تھا۔اچانک زہرا کا فون بجا۔اسکرین پر نام چمک رہا تھا:"ڈاکٹر کولن"وہی سینئر ڈاکٹر…جنہوں نے انہیں یہاں بھیجا تھا۔زہرا نے کال اٹھائی۔"ہیلو، سر۔"رایان نے اُس کی طرف دیکھا،چہرے پر تھکن،آنکھوں میں اُداسی۔کال پر صرف چند لمحے گزرے،زہرا کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے۔پھر اُس نے آہستہ سے کہا:"جی سر، سمجھ گئی…ہم کر لیں گے۔"فون بند ہوا۔رایان نے فوراً پوچھا:"کیا ہوا؟"زہرا نے گہری سانس لی۔"ڈاکٹر کولن تھے۔کہہ رہے تھے…اگر ہم دس اور 'آخری خطوط' جمع کر لیں…تو ہم واپس اپنی پرانی پوسٹ پر جا سکتے ہیں۔"رایان ایک دم رک گئی۔"کیا؟"آواز میں لرزش تھی۔"خط؟ پھر سے؟کیا ہم صرف آخری الفاظ لکھنے والی مشینیں بن گئے ہیں؟"زہرا خاموش رہی۔رایان کی آواز بلند ہو گئی:"انہیں کیا پتہ…کہ مرتے ہوئے انسان کے ساتھ بیٹھنا کیسا ہوتا ہے؟کیا وہ جانتے ہیں یہ سب ہمیں اندر سے کیسے توڑ دیتا ہے؟بس خط… خط… خط!"زہرا نے نرمی سے کہا:"مجھے معلوم ہے،یہ آسان نہیں…مگر ہم نے وعدہ کیا تھا کہ مضبوط رہیں گے۔"رایان نے چہرہ دوسری طرف کر لیا۔"زہرا…مجھے اب مضبوط بننے سے نفرت ہو گئی ہے۔مجھے مسکرانے سے نفرت ہو گئی ہے۔مجھے زندگی کے فریب سے نفرت ہو گئی ہے۔"زہرا خاموش رہی۔کیونکہ بعض اوقات،دکھ کو بولنے دینا ضروری ہوتا ہے —تاکہ وہ دل سے نکل کر ہلکا ہو سکے۔کچھ دیر بعد رایان نے آہستہ سے کہا:"دس خط؟دس الوداعی لفظ؟"زہرا نے ہاں میں سر ہلایا۔"ہاں…دس اور…پھر ہم واپس جا سکتے ہیں۔"رایان نے آسمان کی طرف دیکھا۔بادل وہیں کے وہیں تھے۔سورج کہیں نہیں تھا۔مگر وہ دونوں آگے بڑھتی رہیں۔کیونکہ بعض اوقات،انسان کو اُس وقت بھی چلنا پڑتا ہے…جب اُس کا دل رک چکا ہو۔---—کمرہ چھوٹا سا تھا،ایک کھڑکی آسمان کی طرف کھلتی تھی۔بستر کے پاس ایک گلدان تھا…جس میں مرجھائے ہوئے پھول پڑے تھے۔وہ عورت بیٹھی ہوئی تھی — لیٹی نہیں۔دیوار سے سر ٹکائے،آنکھیں آدھی کھلی،جسم نڈھال…لیکن چہرہ؟چہرہ غصے سے بھرا ہوا تھا۔زہرا اور رایان آہستہ قدموں سے اندر آئیں۔عورت نے آہستگی سے سر موڑا،نظریں سیدھی زہرا پر گاڑ دیں۔عمر تقریباً چونتیس سال…لیکن آنکھیں جیسے صدیوں کی تھکن لیے ہوئے تھیں۔زہرا نے نرمی سے کہا:"السلام علیکم… میں ڈاکٹر زہرا ہوں،یہ رایان ہے۔ہم ایک چھوٹا سا کام کرتے ہیں۔"عورت نے کوئی جواب نہ دیا۔رایان نے آگے بڑھ کر کہا:"ہم مریضوں سے ان کی زندگی کے آخری خط لیتے ہیں…ایسا خط، جو وہ زندگی کو کہنا چاہیں۔کوئی بھی بات۔"عورت نے ایک طنزیہ ہنسی ہنس دی۔"زندگی کو؟"اُس نے جملہ دہرایا۔"تم چاہتی ہو میں زندگی کو کچھ لکھوں؟"زہرا نے دھیرے سے سر ہلایا۔عورت نے ناک سے ہوا کھینچی،چہرے پر کڑواہٹ:"تو سنو… لکھو پھر!"رایان نے قلم تھاما۔عورت بولی — اُس کی آواز کٹی ہوئی، تیز اور زخمی:---**"پیارے زندگی،مجھے تجھ سے نفرت ہے۔میں تجھ سے آج بھی نفرت کرتی ہوں،اور مرتے دم تک کرتی رہوں گی۔تو… کچھ بھی نہیں ہے۔صرف ایک مذاق۔ایک سزا۔تو نے مجھ سے سب کچھ چھین لیا،اور بدلے میں کچھ نہیں دیا۔میں تو تجھ پر ایک لفظ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی۔"**---رایان کا ہاتھ رک گیا۔زہرا نے خاموشی سے عورت کی طرف دیکھا۔نرمی سے پوچھا:"اگر زندگی کو برا لگ گیا تو؟اگر زندگی کو دکھ ہوا…؟"عورت نے فوراً جواب دیا:"تو ہو جائے!مجھے اُس کی کوئی پروا نہیں۔زندگی جتنی جلدی ختم ہو،اتنا بہتر ہے!"کمرہ خاموش ہو گیا۔زہرا نے گہری سانس لی۔کوئی دعا نہیں تھی،کوئی اُمید نہیں تھی۔یہ عورت،زندگی سے نہیں —بس اپنے درد سے بات کر رہی تھی۔کمرہ خاموش تھا،سامان آدھا پیک ہو چکا تھا۔رایان اپنی جیکٹ تہہ کر رہی تھی۔زہرا رپورٹ فائل بند کر رہی تھی۔خاموشی تھی —مگر وہ پہلے جیسی بھاری نہیں تھی۔رایان نے دھیرے سے مسکرا کر کہا:"اللہ کا شکر ہے،ہم نے بیس خطوط مکمل کر لیے۔اب ہم واپس جا سکتے ہیں۔"زہرا نے سر ہلایا،لیکن ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں آئی۔اُس کی نظر اُس موٹی براؤن فائل پر پڑی،جس پر لکھا تھا:"آخری خطوط — بغیر دل کے مت کھولنا"وہ آہستگی سے فائل اُٹھا کر بیڈ پر بیٹھ گئی۔اُس نے فائل کھولی۔دس خطوط اس میں پڑے تھے۔دس الوداعی جملے۔دس زندگیاں جو اب نہیں رہیں۔وہ پڑھنے لگی۔---1. پیارے محبوب،(ایڈورڈ ہال، 63 سال)میں کبھی الوداع کہنا نہیں سیکھا…اس لیے اب لکھ رہا ہوں۔اگر تم یہ پڑھ رہی ہو،تو میں آخری ٹرین پکڑ چکا ہوں۔میں نے تمہیں تینتالیس سال چاہا۔ہر چائے کا کپ، ہر سلی ہوئی جرسی…تم میرا گھر تھیں۔اپنے نواسوں کو بتانا…دادا خوش ہو کر گیا۔ہمیشہ کا،ایڈورڈ---2. پیاری زندگی،(اینا بلیک، 19 سال)تم نے مجھے صرف اُنیس سال دیے —مگر کیا خوب سال تھے!میری روم میں موسیقی،کھڑکی پر بارش،نئی کتابوں کی خوشبو،اور وہ خفیہ ڈائری جو کسی کو نہیں دکھائی…مجھے اب ڈر نہیں لگتا۔شاید جنت ایک بڑی لائبریری جیسی ہو…محبت کے ساتھ،اینا---3. پیارے محبوب،(تھامس ریڈ، 45 سال)میں اُسے چاہتا تھا۔کبھی بتایا نہیں۔دنیا سے ڈرتا تھا۔اب لگتا ہے،شاید اُسے کبھی دیکھ نہ سکوں۔اگر وہ کبھی یہ پڑھے…تو بتانا…ہر پیر کو وہ نیلا ٹائی میں نے صرف اُس کی مسکراہٹ کے لیے پہنی تھی۔مجھے معاف کر دینا…میں نے تمہیں دل سے چاہا۔تھامس---4. پیاری زندگی،(مارگریٹ روز، 70 سال)تم شروع میں سخت تھیں،مگر آخر میں نرم ہو گئیں۔میں نے بچے کھوئے،شوہر کھویا،مگر سکون پایا…ایک چھوٹے باغ میں،اور سورج کے نیچے ایک کپ چائے میں۔شکریہ زندگی،ان چیزوں کے لیے جو تم چھوڑ گئیں۔الوداع کے ساتھ،مارگریٹ---5. پیاری زنرگی،(کرسٹوفر ینگ، 28 سال)میں ہمیشہ اُڑنا چاہتا تھا،مگر کبھی جہاز پر نہ چڑھا۔اب جا رہا ہوں —ایسے راستے پر جس کی توقع نہ تھی۔امی ابو سے کہنا…میرے خالی بستر پر نہ رونا،آسمان پر دیکھنا…اب میں اُڑ رہا ہوں۔ہمیشہ تمہارا،کرس---6. پیاری زندگی،(ایملی بروکس، 39 سال)میں تمہیں سب کچھ معاف نہیں کرتی،مگر اُس دن کے لیے معاف کرتی ہوں…جب میں روم کی ایک پل پربغیر جوتوں کےسرخ لپ اسٹک لگا کر ہنسی تھی۔بس وہی کافی تھا۔الوداع،ایملی---7. پیاری گرل،(جوناتھن پرائس، 60 سال)تم ہمیشہ چاہتی تھیں کہ میں کہوں…تو لو:میں تمہیں چاہتا تھا۔تمہاری وہ ضد،وہ کپ کے نشان میری کتابوں پر،وہ معافی نہ مانگنے کی عادت —سب کچھ خوبصورت تھا۔الوداع… تم میری خوبصورت طوفان۔جوناتھن---8. پیاری زندگی،(لیلی ایوینز، 22 سال)میں بوڑھی نہیں ہو سکی،مگر بڑی ہو گئی۔اور شاید یہی کافی ہے۔جہاں میری قبر ہو…وہاں ایک گلابی درخت لگا دینا۔ہر بہار وہ کھلے…تاکہ میں دوبارہ جی سکوں۔لیلی---9. پیاری زندگی،(ہنری والش، 52 سال)ہماری بیٹی کو کہنا…میں نے اُسے معاف کر دیا ہے۔اور تم…تم کبھی "زیادہ" نہیں تھیں۔تم ہمیشہ "کافی" تھیں۔محبت کے ساتھ،ہنری---10. پیاری زندگی،(سوفیہ کارٹر، 33 سال)میں نے بہت دیر میں جانا…کہ بہادری کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ آنکھ نہ روئے۔بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آنکھ روتے ہوئے بھی صبح کھل جائے۔میں نے بہت کچھ کھویا۔مگر …………۔الوداع زندگی…تم عجیب تھیں۔مگر تم میری تھیں۔سوفیہ---زہرا نے فائل بند کی۔ہاتھ کانپ رہے تھے…مگر دل مطمئن تھا۔"یہ لوگ صرف مرے نہیں…یہ جیے بھی تھے۔"زہرا نے آہستہ سے کہا۔رایان پاس آ کر بیٹھ گئی۔"اور ہم…ہم نے اُن کے آخری لفظوں کو سنا۔"فائل ان کے سامنے تھی۔کاغذ نہیں تھا وہ…وہ درد تھا،محبت تھی،خاموش چیخیں،اور بند آنکھوں کے خواب۔یہ وہ 20 خطوط تھے…جنہیں وہ اب ہمیشہ کے لیےاپنے دلوں میں لے جا رہی تھیں۔ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔سات خاموش دن۔سات گہری راتیں۔بیس آخری خطوط…اور بہت سے زخم دل میں سمیٹ کر،وہ دونوں واپس آگئی تھیں۔اب وہ اُس اسپتال میں تھیں…جہاں لوگ اب بھی جینے کی جنگ لڑتے تھے۔جہاں وارڈز میں امید کی سانسیں گونجتی تھیں،جہاں در و دیوار نے الوداعی آہیں نہیں،بلکہ بچ جانے کی دعائیں سنی تھیں۔صبح کے پانچ بجے تھے۔آسمان نیلا ہو رہا تھا،اور کھڑکی سے سرد ہوا اندر آ رہی تھی۔زہرا گوشے میں کھڑی تھی،سینے پر اسٹیتھاسکوپ،چہرے پر تھکی ہوئی مسکراہٹ۔رایان آئینے کے سامنے کھڑی،اپنے بکھرے بال سنوار رہی تھی،اور بے دھیانی میں کوئی بے سُرا گانا گنگنا رہی تھی۔ایک ہفتہ بعدسب کچھ پھر معمول پر آ رہا تھا۔زہرا نے انگڑائی لی،اور آہستہ کہا:"ایک اور لمبی نائٹ ڈیوٹی…!"رایان نے آنکھیں گھمائیں:"اور میں تو پیرس کے کیفے اور گرم کروسان کا خواب دیکھ رہی تھی!"دونوں ہنس دیں —آہستہ، مگر دل سے۔اچانک دروازہ کھلا۔نرس ایمیلی اندر آئی —سانس پھولی ہوئی، آواز تیز:"ڈاکٹر زہرا، ڈاکٹر رایان — روم 206 — مریض کی حالت بہت خراب ہو رہی ہے،مرنے کے قریب ہے۔"کمرے میں خاموشی چھا گئی۔زہرا اور رایان نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔دونوں کی آنکھوں میں خوف بھی تھا،اور ہنسی بھی۔ایک لمحہ…اور دونوں بغیر کچھ کہے دوڑ پڑیں۔وہ دونوں آگے بڑھنے لگے —ایک اور کمرے کی طرف،ایک اور کہانی کی طرف،اور ان دلوں کے ساتھجو پیچھے رہ جانے والوں سے کبھی خالی نہیں ہوتے۔–