ارتداد اسلام کی نظر میں ان چند سخت ترین نافرمانیوں اور نا ہنجاریوں میں سے ایک ہے جس کی سزا اسلامی ریاست میں قتل ہے
دور نبوی و بعد ازیں کے بیشتر واقعات کتبِ تاریخ میں بھرے پڑے ہیں کہ مرتدین کو قتل کیا جائے
جس طرح اسلام کے صدر اول میں باطل طاقتیں کمزور مسلمانوں کو ان کے دین سے پھیرنے کی گوناگوں کوششیں کیا کرتی تھیں اسی طور آج بھی یہ ایک طبقۂ مخصوصہ کی جانب سے جاری ہے
مگر فرق یہ ہے کہ اس بار خالص لڑکیوں اور خواتین کو نشانہ بنایا جارہا ہے
بعض اوقات یہ کارستانیاں نفسانی و بدنی عیش کوشی پر موقوف ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات بلکہ اکثر اس میں ملوث مرد و خواتین کو دین سے کلی بازگشت کی طرف لے جاتی ہیں
اول تو ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ کسی غیر مسلم لڑکے سے مسلم لڑکی کے تعلق کو جس طرح ناروا اور غیر اسلامی سمجھتے ہیں بالکل اسی طرح ہم کسی مسلمان لڑکے کا غیر مسلم لڑکی سے تعلق کو بھی صریح غلط اور حکم خداوندی سے بغاوت گردانتے ہیں
یہاں بات غور طلب یہ ہے کہ "بھگوا لو ٹریپ" (Bhagwa love trap) کی شروعات کچھ بنیادوں پر ہوئی
جس میں دو بنیادیں اہم ہیں جن کو ہم یہاں بیان کرنا چاہتے ہیں
اولا تو اس تحریک کے سربراہوں نے دو باتیں کہیں :-
١ : کہ مسلمان نوجوانان غیر مسلم لڑکیوں کو عشق و محبت فریب میں الجھا کر ان کو مسلمان کر رہے ہیں ، ہمیں اس کا بدلہ لینا ہے
٢ : ہم کو اس قوم کو کمزور کرنا ہے اور ان کو ختم کرنا ہے سو بظاہر غیر سیاسی طریقہ یہ اپنایا جائے کہ ان کی لڑکیوں کو دامِ محبت کا شکار کیا جائے اور ان سے شادی کی جائے بعد ازاں جو بن پڑے سو کرلیں ہم اس پر خاموش ہیں
یہ دو بنیادی وجوہات رہیں اس تحریک کے شروع ہونے میں
اگر غور کریں گے تو آپ کو مزید اس کی وجوہ مل جائیں گی مگر ہمیں یہاں ان سے بحث نہیں
اب آپ اس پر توجہ دیں کہ یہ دونوں بنیادیں منتقمانہ اور مدافعانہ حیثیت رکھتی ہیں
ہندو بنیاد پرستوں نے یہ بات تقریبا ١٠٠ سال سے اپنے حلقے میں رائج کی ہوئی ہے کہ مسلمان یہاں کے اول درجے کے شہری نہیں چونکہ وہ باہر سے آئے تھے اور ہم پر مسلط ہیں
سو اس کے آگے ان کے کیا کیا کارہائے نمایاں انجام پذیر ہوئے وہ کسی سے مخفی نہیں
اس وقت مسلم لڑکیوں کے ارتداد کا مسئلہ زوروں پر ہیں اس کے کرنے والے کھلے بندوں اس کو کر رہے ہیں مگر ہماری توجہ اجتماعی سطح سے اس پر بالکل نہیں ہے
ہم "پدرم سلطان بود" کے نشے میں مست اپنے ارد گرد کے حالات سے بے خبر زمانے کی رو پر بہتے چلے جارہے ہیں
اب ہم یہاں مسلم لڑکیوں کے اس درجہ متأثر ہوجانے اور اس پر شدت اختیار کر جانے کی چند وجوہات بیان کریں گے ، جو ہماری نظر میں بنیادی ہیں بلکہ وہی بنیادی ہیں
واللہ اعلم بالصواب
١ :- اعتقادی مسائل پر گھروں میں اور مکاتب میں اس زور سے بات نہ ہونا جس زور سے حجاب ، نماز ، قرآن پڑھنا وغیرہ پر بات ہوتی ہے
٢ :- شرک و کفر کو جس شدتِ بیان کے ساتھ اللہ غلاظت سے تعبیر کرتا ہے ، اس زور اور شدت کے ساتھ اس کو نہ سمجھنا اور نہ سمجھانا
٣ :- غیر مسلموں کے تعلق سے بنا ایک عام ذہن کہ سب بھائی بھائی ہیں ، کسی سے دلی دوستی روا رکھنا نہ یہ کہ بالکل جائز ہے بلکہ مستحسن ہے
٤ :- اپنی اولاد سے اس کے دوستوں کے بارے میں لا علمی اختیار کرنا کہ وہ کون ہیں اور کیا ہیں ؟
٥ :- اپنی اولاد کو زمانے کی رفتار کا "لحاظ" کرتے ہوئے اور اس کی آب و ہوا کے زیر اثر "مکمل آزادی" (absolute freedom) مہیا کرنا
میرے نزدیک یہ پانچ بنیادی وجوہ ہیں جن کی بنا پر لڑکیاں اس راہِ بے منزل کی جانب چل پڑتی ہیں اور پھر اس دیوار سے ٹکرا کر چور ہوجاتی ہیں کہ جس کا اندازہ بھی ان کو نہیں ہوتا
یہاں ایک بنیادی غلطی اور ہے جو کہ اجتماعی غلطی ہے اس کو ہم انفرادی غلطیوں میں شامل نہیں کر سکتے
وہ یہ کہ اس طرح کے جتنے بھی مسائل ہمارے سامنے آتے ہیں وہ ٩٠ فیصد نچلے درمیانی طبقے ( lower middle class) سے تعلق رکھتے ہیں
جہاں ایک اہم مسئلہ پیسوں کا ہوتا ہے
نچلا درمیانی طبقہ عموماً دیگر طبقات کی بنسبت اس چکاچوند سے جلد متأثر ہوتا ہے
جو ایسے میں دیکھائی جاتی ہیں ، یہاں غلطی یہ ہے کہ جب تک ہم اس طبقے کی نصرت ہر طریقے سے نہیں کرتے تب تک یہ واقعات تو بند ہونے سے رہے
لیکن اب افسوس کہ بڑے طبقہ کی لڑکیاں اس میں صف اول میں نظر آتی ہیں
اسلام میں زکوٰۃ اور فطرے کا جو نظام ہے اس کی مصالح بھی تقریباً یہی ہیں ، سو ہماری ذمہ داری اور دنوں کے بالمقابل ان دنوں اِس لحاظ سے دوگنی اور چوگنی ہوجاتی ہے کہ ہمیں اس طبقے کا خاص خیال رکھنا پڑے گا اگر من حیث القوم کچھ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔