Part 1
اسلام ایک کامل و مکمل دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے اسلام کا نظام نکاح ایک ایسا مرتب ادارہ ہے جو انسانی اجتماعیت کی بنیاد ہے
اگر اس میں کوئی سقم یا نقص نہ ہو تو معاشرہ ہر قسم کے فساد سے محفوظ رہے گا
لیکن اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہوگئی تو اس کے اثرات و نتائج پورے معاشرہ پر مرتب ہوں گے
اسی لئے اسلامی تعلیمات شادی بیاہ کے بارے میں اس قدر مفصل اور عمدہ ہیں کہ اگر ان کو اپنا لیا جائے تو عصر حاضر میں پیش آنے والے بعض ایسے مسائل جو بظاہر حل ہوتے نظر نہیں آرہے وہ سب خود بخود درستگی کی راہ پر آجائیں گے
اسلام نے مرد و عورت کے تعلق کو معاشرتی قدر کے طور پر قانونی اور اخلاقی تحفظ دے کر نکاح سے موسوم کیا ہے اور ایسے آداب سکھائے ہیں جو اس رشتہ کو مضبوط تر بنانے میں اور اس کے اہم مقاصد کے حصول میں مم دو معاون ثابت ہوتے ہیں اور ایسی جذباتیت سے منع کیا جو شریعت کی نظر میں غیر ضروری ہے
قرآن و حدیث میں معاشرتی پاکیزگی کی فضاء قائم کرنے کے لئے عفت و عصمت کی بنیاد بنا کر مرد و عورت کے جنسی تعلق کو قانونی شکل دینے کی اہم وجہ جنسی آسودگی کے ساتھ، حفاظت نسب اور زندگی کے تسلسل کو باقی رکھنا ہے
انسان جب حدود قیود سے باہر نکل کر سوچتا ہے تو اس کا نفس اسے جنسی آوارگی اور بے راہ روی پر آمادہ کرتا ہے جس سے اخلاقی بندشیں ختم ہو جاتی ہیں اور بہیمی قوتیں اسے انسانیت سے گرا کر حیوانیت کی سطح پر لے آتی ہیں
جو اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی فضیلت کو داغدار بنا دیتی ہیں
اسلام نے نفس کی سرکشی اور بہیمانہ خواہشات کو فطری اور جائز راستہ نکاح کی صورت میں دیا تاکہ انسان اعتدال و توازن کے ساتھ زندگی گزارے اور ناجائز تعلقات و منفی راستوں سے بچے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کے اندر جو طبعی تقاضے رکھے گئے ہیں ان میں عورتوں کی طرف رغبت ایک فطری بات ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ
’’لوگوں کو مرغوب چیزوں کی محبت نے فریفتہ کیا ہوا ہے جیسے عورتیں‘‘
لوگوں کی عورتوں میں رغبت اور ان کی طرف قلبی میلان فطرتاً ان میں ودیعت رکھ دیا گیا ہے اپنی پسند اور محبت کا قرب حاصل کرنے کے لئے انسان غلط راستہ کا انتخاب کرسکتا ہے جو اس کے لئے شرعاً و عقلاً جائز نہیں ہے اور اگر اسے کہا جائے کہ وہ اپنی خواہشات کو قابو میں رکھے اور عورتوں کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو تو یہ بھی ممکن نہیں ہے
اسلام نے راہ اعتدال کو اختیار کرتے ہوئے مرد و عورت کے درمیان ایک قانونی رشتہ نکاح کی صورت میں قائم کیا
آج کل نجی زندگی اور پسند کے نام پر مغربی دنیا میں غیر فطری عمل اختیار کیے جا رہے ہیں
زیر نظر مضمون میں ان کا شرعی جائزہ لیا گیا ہے اور عصر حاضر میں چونکہ پسند کی شادی کا رجحان بہت زیادہ بڑھ رہا ہے اس لیے مرد و عورت کے لیے پسند کی شادی کی شرعی حیثیت پر تفصیلی بحث کی گئی ہے
شادی کی اہمیت قرآن وسنت کی روشنی میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً
’’تو جو عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو‘‘
اس آیت کریمہ میں نکاح کی ترغیب دی گئی ہے اسی طرح احادیث مبارکہ بھی نکاح کی ترغیب اور حوصلہ افزائی کے سلسلہ میں موجود ہیں ارشاد نبویﷺ ہے:-
وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَیْسَ مِنِّي
’’میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں پس جس نے میری سنت سے رو گردانی کی وہ میرے طریقے پر نہیں ‘‘
ایک اور مقام پر نوجوانوں کو خطاب کرتے ہوئے آپﷺ نے فرمایا:-
یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ الْبَائَ ۃَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَاِنَّہُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ فَاِنَّہُ لَہُ وِجَاءُْ‘
’’اے نوجوانوں کی جماعت ! تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھے وہ شادی کر لے اور جس میں طاقت نہ ہو وہ روزے رکھے روزہ اس کو خصی کر دیتا ہے (شہوت کم کر دیتا ہے)‘‘
بلکہ ایک مقام پر آپﷺ نے شادی کو نصف دین کی تکمیل قرار دیا ارشاد ہے:-
اذا تَزَوَّجَ العَبْدُ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ اللّٰہ في النِّصْفِ الباقِي
’’جب کوئی بندہ (مسلمان) شادی کرتا ہے تو اس نے اپنے نصف دین کو مکمل کر لیا پس باقی نصف کے بارے میں وہ اللہ سے ڈرے ‘‘
مندرجہ بالا مذکورہ آیات و احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح اللہ تعالیٰ اور حضور اکرمﷺ کے حکم کی تعمیل ہے
شریعت اسلامیہ نے ایک طرف نکاح کو جائز قرار دیا تو دوسری طرف زنا سے شدت اور سختی کے ساتھ منع کیا اور عبرت ناک سزا بھی رکھی
ارشاد باری تعالیٰ ہے:-
وَلَاتَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہ کَانَ فَاحِشَۃً وَسَآئَ سَبِیْلاً
’’اور زنا کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بُری راہ ہے‘‘
اور زنا کی سزا کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:-
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ۔ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
’’بدکار عورت اور بدکار مرد سو دونوں میں سے ہر ایک کو سو سو درے مارو اور تمہیں اللہ کے معاملہ میں ان پر رحم نہ آنا چاہیے اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو حاضر رہنا چاہیے‘‘
شادی معاشرتی ستون:-
شادی صرف دو افراد کا ایک سماجی بندھن، شخصی ضرورت، طبعی خواہش اور صرف ایک ذاتی معاملہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دو خاندانوں میں باہمی الفت و ملاپ کا ذریعہ ہے اور معاشرہ انسانی کے بقاء کا ایک بنیادی ستون بھی ہے اور شرعی نقطہ نظر سے ایک خاص اہمیت و فضیلت کا حامل ہے
نکاح کی اہمیت اور اس کی بنیادی ضرورت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت آدمؑ کے وقت سے شریعت محمدیﷺ تک کوئی ایسی شریعت نہیں گزری جو نکاح سے خالی رہی ہو
چنانچہ ہر شریعت میں مرد و عورت کا اجتماع ایک خاص معاہدہ کے تحت شروع رہا ہے اور بغیر اس معاہدے کے مردو عورت کا باہمی اجتماع کسی بھی شریعت و مذہب نے جائز قرار نہیں دیا
البتہ اس معاہدہ کی صورتیں مختلف رہی ہیں اور اس کے شرائط و احکام میں تغیر و تبدل ہوتا رہا ہے
چنانچہ اس سلسلہ میں اسلام نے جو شرائط مقرر کیں، احکام نافذ کیے اور جو قواعد و ضوابط وضع کیے ہیں وہ قرآن و حدیث اور کتب فقہ میں موجود ہیں
اسلام نے نکاح میں مرد و عورت کو پسند اور ناپسند کا اختیار دیا ہے مگر اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ پسند ایسی نہ ہو جس پر شریعت کی طرف سے ممانعت ہے
یورپ میں جنسی بے راہ روی:-
اسلام میں مرد و عورت کے لئے جنسی لذت کا حصول صرف نکاح میں ہے اس شریفانہ طریقہ کے علاوہ اور کسی صورت کو جائز قرار نہیں دیا گیا
مگر اس وقت مغربی ممالک کی صورت حال اس بارے میں بڑی تشویشناک اور لمحہ فکریہ والی ہے
’’ہر معاشرے میں شادی سے پہلے ہر مرد اور عورت کو جنسی لحاظ سے پاک دامن رہنے کی تلقین کی جاتی ہے
لیکن مغربی معاشرہ اور کچھ دیگر غیر ترقی یافتہ معاشرے مرد و عورت کو جنسی اختلاط کی اجازت دیتے ہیں
مثال کے طور پر پولی نیشیا کے سیموئن قبائل میں ہر بالغ مرد اور عورت سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ شادی سے پہلے جنس کا تجربہ کر چکے ہیں
ان قبائل میں شادی سے پہلے منگیتر کے ساتھ راتیں گزارنا ان کی روایت اور تمدن کا حصہ ہے
اسی طرح کینیا کے ماسی قبائل میں جب ایک لڑکا بالغ ہوتا ہے تو وہ اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر تربیتی کیمپوں میں چلا جاتا ہے جہاں وہ جنگی ماہرین سے جنگ اور لوٹ مار کرنے کے طریقے سیکھتا ہے
اس دوران نزدیکی گھروں میں رہنے والی جوان لڑکیاں ان کی خدمت گزاری کے لئے وقف ہوتی ہیں
جن سے جنسی تعلق قائم کرنا ان جوانوں کا حق ہوتا ہے
’’اہل یورپ چونکہ اپنی مذہبی اقدار سے دور جا چکے ہیں اس لئے مغربی تہذیب ایک بالغ شخص کو کھلی چھٹی دینے کی قائل ہے
کسی قسم کی کوئی بندش یا قید جو اس مرد و عورت کا فاصلہ کرے اس کا کوئی تصور نہیں ہے
ہر طرف جسمانی طور پر لطف اندوزی کا سامان مہیا کیا جا رہا ہے
اخلاقی قدروں کی پامالی اس کا حق آزادی شمار کیا جاتا ہے اور حلال و حرام کی پرواہ کیے بغیر مال کمائے تو یہ اس کا معاشی حق تسلیم کیا جاتا ہے
عورت، مردوں کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرے تو یہ اس کا تمدنی حق سمجھا جاتا ہے اور مرد و عورت بے راہ روی پر اُتر آئیں تو یہ ان کا جنسی حق تسلیم کیا جاتا ہے
معاشرے کی اکثریت اپنی کسی لذت اور خواہش کی تکمیل کے لئے ایک ناجائز کام کو جائز کرانا چاہے تو یہ حق جمہوریت کی رو سے ممکن ہے
الغرض یورپ میں ہر بالغ شخص کو کھلی چھوٹ حاصل ہے کہ وہ جس طریقہ سے چاہے اپنی زندگی گزارے اور جنسی تعلقات پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے
یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک ہم جنس پرستی بھی جائز ہے خواہ وہ مرد کی مرد کے ساتھ ہو یا عورت کی عورت کے ساتھ ہو
بلکہ وہ لوگ تو اس سے بھی آگے بڑھ کر جانوروں کے ساتھ فحش حرکات میں ملوث ہو گئے ہیں
مگر اسلام میں نکاح کے علاوہ تمام صورتیں ناجائز اور حرام ہیں
شریعت نے جہاں مرد و عورت کو پسند سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے وہاں یہ بھی بتا دیا ہے کہ کن افراد کے ساتھ نکاح کیا جا سکتا ہے
مگر یورپ میں آج کل بے راہ روی اپنے عروج پر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔