Part 3 Marriage of choice in the light of Islamic teachings in Urdu Spiritual Stories by Shekh Javed Ashraf books and stories PDF | 3 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی

Featured Books
Categories
Share

3 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی

 

عورتوں کے لیے پسند کی شادی کی شرعی حیثیت:-
شریعت اسلامیہ نے جس طرح مرد کو پسند کی شادی کا اختیار دیا ویسے ہی عورت کو بھی دیا ہے کہ وہ شادی کے لئے ایسے مرد کا انتخاب کرسکتی ہے جس سے نکاح شرعاً حرام اور ناجائز نہیں ہے
قرآن مجید میں متعدد مقامات پر نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے ارشاد بانی ہے:-

حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ
’’یہاں تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے۔ ‘‘

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:-
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُن
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پس وہ اپنی عدت تمام کر چکیں تو اب انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو‘‘

چنانچہ ان آیات کے پیش نظر فقہاء احناف کی یہ رائے ہے کہ عاقلہ و بالغہ عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے
اسی طرح احادیث مبارکہ بھی اس مسئلہ کو واضح کرتی ہے کہ عورتوں کی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کا نکاح کیا جائے اور بالغہ عورت سے بغیر اس کی اجازت کے نکاح کرنے سے منع کیا گیا ہے
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے نبی کریمﷺ نے فرمایا:-
لا تُنْکَحُ الْأَیِّمُ حَتَّی تُسْتَاْمَرَ وَلَا تُنْکَحُ الْبِکْرُ حَتَّی تُسْتَأْذَنَ قَالُوا یَارَسُولَ اللَّہِ وَکَیْفَ اِذْنُھَا قَالَ أَنْ تُسْکُتَ
’’شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے اور نہ کنواری کا بغیر اس کی اجازت کے
صحابہؓ نے پوچھا یا رسول اللہﷺ! کنواری کی اجازت کس طرح معلوم ہوسکتی ہے؟ فرمایا کہ اس کا خاموش رہنا ہی اس کی اجازت ہے‘‘
بلکہ ایک دفعہ حضور اکرمﷺ کے دور مبارک میں ایک عورت کا نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا، اس نے آپﷺ سے عرض کیا تو آپﷺ نے اس کا نکاح فسخ کر دیا
عَنْ خَنْسَایَ بِنْتِ خِدَامٍ الْأَنْصَارِیَّۃِ أَنَّ أَبَاھَا زَوَّجَھَا وَھِيَ ثَیِّب ُْ‘ فَکَرِھَتْ ذَلِکَ فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَرَدَّ نِکَاحَھا(36)

’’حضرت خنسا بنت خدام انصاریہؓ کہتی ہیں کہ میرے والد نے ایک جگہ میرا نکاح کر دیا اور میں ثیبہ تھی اور مجھے وہ نکاح منظور نہ تھا تو میں نے رسول اللہﷺ سے اس کا ذکر کِیا، تو آپﷺ نے میرا نکاح فسخ کر دیا‘‘
اسی طرح کا ایک اور واقعہ ہے :-
’’حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے ایک کنواری لڑکی حضور اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بولی اس کے باپ نے اس کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کر دیا ہے تو آپﷺ نے اس کو اختیا ر دیا(یعنی اگر وہ چاہے تو نکاح کو فسخ کر دے )‘‘
حضرت عروہؓ سے روایت ہے :-
أَنَّ عُمَرَبْنَ الْخَطَابِ قَالَ: یَعْمَدُ أَحَدُ کُمْ اِلَی بِنْتِہِ فَیُزَوِّجُھَا الْقَبِیْحَ اِنَّھُنَّ یُحْبِبْنَ مَاتُحِبُّونَ
’’حضرت عمرؓ بن خطابؓ نے فرمایا تم میں سے کوئی ایک اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کرتا ہے اور اس کی شادی بدصورت آدمی سے کرا دیتا ہے (ایسا نہ کرو) بے شک وہ عورتیں بھی وہی پسند کرتی ہیں جو تم پسند کرتے ہو‘‘
اور حضرت عمرؓ کا یہ قول بھی کتب حدیث میں موجود ہے:-
لَا یُکْرِ ھَنَّ أَحَدُ کُمُ ابْنَتَہُ عَلَی الرَّجُلِ الْقَبِیْحِ فَاِنَّھُنَّ یُحْبِبْنَ مَاتُحِبُّونَ
’’تم میں سے کوئی شخص اپنی بیٹی کو بدصورت آدمی کے ساتھ نکاح کرنے پر مجبور نہ کرے پس بے شک وہ عورتیں بھی وہ پسند کرتی ہیں جو تم پسند کرتے ہو‘‘
علامہ موسیٰ الحجاوی المقدسی (م۔ 968ھ) شیخ الاسلام ابن جوزیؒ (م۔ 597ھ) کی رائے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-
قال ابن الجوزی فی کتاب النساء ویستحب لمن أراد أن یزوج ابنتہ أن ینظرلھا شابا مستحسن الصورۃ ولا یزوجھا دمیما وھوالقبیح۔
’’ابن جوزی نے کتاب النساء میں کہا اس آدمی کے لئے مستحب ہے جو اپنی بیٹی کی شادی کا ارادہ کرے کہ وہ اس کے لئے اچھی شکل و صورت والا نوجوان دیکھے اور اس کی شادی بدصورت آدمی سے نہ کرائے“
معلوم ہوا عورت کے جذبات اور احساسات کی رعایت رکھتے ہوئے اس کی شادی کی جائے
نکاح سے قبل مخطوبہ عورت کے لیے خاطب کو دیکھنے کی اجازت:-
فقہاء نے اس مسئلہ پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ پیغام نکاح دینے والے مرد کو عورت نکاح سے قبل دیکھ سکتی ہے
امام ابواسحاق شیرازیؒ(م۔ 476ھ) لکھتے ہیں :-
ویجوز للمرأۃ اذا أرادت أن تتزوج برجل أن تنظر الیہ لانہ یعجبھا من الرجل ما یعجب الرجل منھا۔ (41)
’’اور جائز ہے عورت کے لئے جب وہ کسی آدمی سے شادی کا ارادہ کرے کہ دیکھے اس کی طرف، اس لئے کہ پسند آئے گی اس کو مرد میں سے وہ چیز جو پسند آتی ہے مرد کو عورت سے ‘‘
فقہاء احناف و مالکیہ اور حنابلہ کی بھی یہی رائے ہے کہ نکاح سے قبل عورت پیغام نکاح دینے والے مرد کو دیکھ لے
معلوم ہوا نکاح سے پہلے عورت کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ پیغام نکاح دینے والے مرد کو دیکھے تاکہ بعد میں ناپسندیدگی ازدواجی زندگی پر اثر اندا ز نہ ہو
ولی کی اجازت کے بغیر عورت کی شادی کا شرعی حکم:-
عصر حاضر میں پسند کی شادی کا رجحان روز بروز بڑھ رہا ہے
بہت سے واقعات ایسے آرہے ہیں کہ جن میں مرد و عورت اپنی پسند سے اپنے اولیاء اور بزرگوں کو اعتماد میں لے کرLove Marriage کر رہے ہیں
یہ ان کا شرعی حق ہے جس کی شریعت تائید کرتی ہے مگر بہت سارے واقعات ایسے بھی ہیں کہ مرد و عورت نے اپنے اولیاء کو اعتماد میں لیے بغیر گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کر لی اور بعد میں پکڑے جانے پر انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا
جیسا کہ آج کل اخبارات میں اس قسم کی خبریں کثرت سے سامنے آ رہی ہیں
اب سوال یہ ہے کہ کوئی لڑکی گھر سے بھاگ کر پسند کی شادی کرتی ہے تو یہ شادی شریعت کی نگاہ میں کیسی ہے؟
اس مسئلہ کو اس طرح سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ عاقلہ و بالغہ عورت اپنا نکاح ولی کے بغیر خود کرسکتی ہے یا نہیں؟
فقہاء کی اصطلاح میں اسے کہتے ہیں ’’حکم النکاح بعبارۃ النساء ‘‘(عورتوں کے ایجاب و قبول سے نکاح کا حکم ) اس مسئلہ میں حنفیہ اور جمہور فقہاء کے درمیان اختلاف ہے
حنفیہ کے نزدیک ’’عبارت النساء ‘‘سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے
جبکہ جمہور فقہاء کے نزدیک ’’عبارۃ النساء‘‘سے نکاح منعقد نہیں ہوتا بلکہ ولی کی’’ تعبیر‘‘ ضروری ہے ائمہ کا تفصیلی موقف درج ذیل ہے
احناف کا موقف:-
امام ابو حنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے نزدیک ظاہر الروایت کے مطابق عاقلہ و بالغہ عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر منعقد ہو جاتا ہے اور امام ابویوسفؒ سے ایک اور روایت ہے کہ ولی کی رضامندی ضروری ہے جبکہ امام محمدؒ کے نزدیک اس قسم کا نکاح ولی کی اجازت پر موقوف ہوگا
اگر ولی اجازت دے گا تو نکاح منعقد ہو جائے گا وگرنہ نکاح منعقد نہیں ہوگا
علامہ مرغینانیؒ (م۔ 593ھ)لکھتے ہیں :-
وینقعد نکاح الحرۃ العاقلۃ البالغۃ برضا ھا وان لم یعقد علیھا ولی بکرا کا نت او ثیبا عند ابی حنیفۃؒ وابی یوسفؒ، فی ظاھر الروایۃوعن ابی یوسفؒانہ لاینعقد الابولی وعند محمدؒ ینعقد موقوفا

’’اور عاقلہ و بالغہ عورت کا نکاح اس کی رضامندی سے منعقد ہو جاتا ہے اگرچہ ولی نے اس پر عقد نہ کیا ہو باکرہ ہو یا ثیبہ امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک ظاہر الروایت میں اور امام ابو یوسف سے (غیر ظاہر الروایت میں )مروی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہ ہوگا اور امام محمدؒ کے نزدیک موقوف ہو کر منعقد ہو گا‘‘
مذکورہ بالا عبارت سے معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک عاقلہ و بالغہ اپنی مرضی سے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرسکتی ہے اور امام محمدؒ کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے بھی شیخین کے اس قول کی طرف رجوع کر لیا تھا
چنانچہ علامہ مرغینانیؒ لکھتے ہیں :-
ویروی رجوع محمدالی قولھما۔
’’اور روایت کیا گیا امام محمدؒ کا رجوع شیخین کے قول کی طرف‘‘
احناف کے دلائل :-
1۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر نکاح کی نسبت براہ راست عورت کی طرف کی گئی ہے
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت اپنا نکاح خود کرسکتی ہے
جیسا کہ دو آیتیں پیچھے گزر گئی ہیں پہلی آیت ہے
حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ
اس آیت کے تحت امام کاسانیؒ (م۔ 587ھ)لکھتے ہیں
انہ اضاف النکاح الیھا فیقتضی تصور النکاح منھا
’’بے شک نکاح کی نسبت عورت کی طرف ہو رہی ہے جو اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ نکاح عورت سے متصور (منعقد )ہوسکتا ہے‘‘
2۔ اور دوسری آیت ہے
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُنَّ
امام کاسانیؒ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-
انہ اضاف النکاح الیھن فیدل علی جواز النکاح بعبارتھن من غیر شرط الولی
’’بے شک نکاح کی نسبت عورتوں کی طرف ہو رہی ہے جو ولی کی شرط کے بغیر عورتوں کے ایجاب و قبول سے نکاح کے جواز پر دلالت کرتی ہے‘‘
3۔ اسی طرح قرآن مجید میں ان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے جن کو نبی کریمﷺ اپنے نکاح میں لا سکتے ہیں ارشاد ربانی ہے :-

وَاَمْرَاَۃً مُّؤْمِنَۃً اِنْ وَّھَبَتْ نَفْسَہَا لِلنَّبِیِّ اِنْ اَرَادَ النَّبِیُّ اَنْ یَّسْتَنْکِحَھَا
’’اور اس مسلمان عورت کو بھی جو بلا عوض اپنے کو پیغمبر کو دیدے بشرطیکہ پیغمبر اس کو نکاح میں لانا چاہیں(وہ بھی حلال ہے )‘‘