Part 4 Marriage of choice in the light of Islamic teachings in Urdu Spiritual Stories by Shekh Javed Ashraf books and stories PDF | 4 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی

Featured Books
Categories
Share

4 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی


امام کاسانیؒ لکھتے ہیں:-
فالایۃ الشریفہ نص علی انعقادالنکاح بعبارتہا
’’پس آیت مبارکہ عورتوں کے ایجاب و قبول سے نکاح منعقد ہونے پر صریح ہے‘‘
4۔ شمس الائمہ سرخسیؒ (م۔ 483ھ)نے حضرت علیؓ کے ایک فیصلہ کو ذکر کیا ہے جو اس مسئلہ میں حنفیہ کی مضبوط دلیل ہے
ان امراء ۃ زوجت ابنتھا برضا ھا فجاء اولیاؤ ھما فخاصموھاالی علیؓ فا جاز النکاح وفی ھذا دلیل علی ان المراء ۃاذا زوجت نفسھا اوامرت الی غیر الولی ان یزوجھا فزوجھا جاز النکاح وبہ اخذ ابو حنیفۃؒسواء کانت بکرا ًاو ثیبا ًاذا زوجت نفسھا جاز النکاح فی ظاہر الروایۃ
’’ایک عورت نے اپنی بیٹی کی شادی اس کی رضامندی سے کر دی تو اس کے اولیاء مقدمہ لے کر حضرت علیؓ کے پاس آئے تو آپ نے اس نکاح کو جائز قرار دیا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب عورت نے اپنی شادی کی یا غیر ولی کو حکم دیا کہ وہ اس کی شادی کرا دے اور اس نے شادی کرا دی تو نکاح جائز ہوگا
اسی کو امام ابو حنیفہؒ نے لیا ہے عام ازیں اپنا نکاح کرنے والی عورت باکرہ ہو یا ثیبہ جب اس نے خود شادی کر لی تو اس کا نکاح جائز ہو گا ظاہر الروایت کے مطابق۔ ‘‘
5۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے :-
لَیسَ لِلوَلِّی مَعَ الثَیِّبِ اَمر’‘
’’ثیبہ کے معاملہ میں ولی کو کوئی اختیار نہیں ہے‘‘
امام کاسانیؒ لکھتے ہیں :-
وھذاقطع ولایۃ الولی عنھا
’’اور یہ حدیث ولی کی ولایت کو عورت سے ختم کر رہی ہے ‘‘
6۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:-
الْأَیِّمُ اَحَقُّ بِنَفسِھَا مِن وَلیِّھَا
بے نکاحی عورت اپنی ذات کی ولی سے زیادہ حقدار ہے
شمس الائمہ سرخسیؒ لکھتے ہیں :-
والایم اسم لامراء ۃ لازوج لھا بکراً کانت او ثیباً وھذا ھوا لصحیح عند اھل اللغۃ
’’اور ایم اس عورت کو کہتے ہیں جس کا شوہر نہ ہو، خواہ وہ باکرہ ہو یا ثیبہ، اور یہی مطلب اہل لغت کے ہاں صحیح ہے ‘‘
یہ حدیث حنفیہ کے موقف پر بڑی وزنی دلیل ہے
7۔ عقلی دلیل:-
عاقلہ و بالغہ عورت کے اپنی مرضی سے کیے گئے نکاح کے جائز ہونے کی عقلی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے حق میں تصرف کیا ہے اور اس کو یہ اختیار حاصل ہے
اس لیے کہ وہ عقل و شعور سے مالامال ہے اور غلط و صحیح میں امتیاز کرسکتی ہے
یہی وجہ ہے کہ اس کو اپنے مال میں تصرف کا اختیار ہے وہ جیسے مرضی استعمال کرے اسی طرح زندگی اس نے گزارنی ہے تو اسے شوہر کو پسند کرنے کا بھی اختیار ہو گا
علامہ مرغینانیؒ لکھتے ہیں :-

ووجہ الجواز انھا تصرفت فی خالص حقھا وھی من اہلہ لکونھا عاقلۃ ممیزۃ ولھذا کان لھا التصرف فی المال ولھا اختیار الازواج
اور جواز کی وجہ یہ ہے کہ اس عورت نے خالص اپنے حق میں تصرف کیا ہے اور وہ تصرف کی اہل بھی ہے اس لیے کہ عاقلہ ممیزہ ہے اور اسی وجہ سے اسے مال میں تصرف کا اختیار ہے تو اسے شوہروں کو پسند کرنے کا بھی اختیار ہے
چنانچہ ان مذکورہ بالا دلائل کے پیش نظر فقہائے احناف کے نزدیک عاقلہ و بالغہ عورت کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر منعقد ہو جائے گا
ولی کی وساطت:-
امام حنفیہ نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ عورتوں کے لیے مستحب ہے کہ وہ ایسے اقدامات خود کرنے کی بجائے اولیاء کی وساطت سے طے کریں تاکہ عورتوں کی طرف بےحیا ئی منسوب نہ ہو
کیونکہ عورتوں میں اللہ تعالی نے شرم و حیاء کا مادہ مردوں سے زیادہ رکھا ہے ان کو مردوں کی محافل اور مجالس میں اس قسم کی گفت و شنید میں حیاء آئے گی اور اگر وہ جرات کر کے ایسا کر لیں تو لوگ ان کو بے حیا کہیں گے جو کہ نسوانیت کے وقار کے خلاف ہے
چنانچہ علامہ ابن نجیمؒ مصری لکھتے ہیں :-
وانما یطالب الولی بالتزویج کیلاتنسب الی الوقاحۃ ولذا کان المستحب فی حقھا تفویض الامر الیہ۔
’’اور بے شک مطالبہ کیا جاتا ہے ولی سے نکاح کرنے کا تاکہ اس عورت کی طرف بے حیائی کی نسبت نہ ہو اور اسی لیے عورت کے حق میں مستحب ہے کہ اس کا معاملہ ولی کے سپرد کیا جائے‘‘
کفو کا لحاظ:-
ابو حنفیہ کے ہاں عاقلہ و بالغہ عورت کا اپنی پسند سے کیا ہوا وہی نکاح منعقد ہوگا جو اس نے اپنے ’’کفو‘‘ میں کیا ہوگا تاکہ اس کے اولیاء کے لیے باعث ذلت و عار نہ ہو
اگر اس نے ’’غیر کفو ‘‘میں نکاح کیا تو وہ منعقد نہیں ہو گا
امام زیلعیؒ(م۔ 743)لکھتے ہیں :-
وعن أبی حنیفۃ وأبی یوسف أنہ لایجوز فی غیر الکفء لأن کثیرا من الأشیاء لایمکن دفعہ بعد الوقوع واختار بعض المتأخرین الفتوی بھذہ الروایۃ لفساد الزمان
’’اور امام ابو حنیفہؒ اور ابو یوسفؒ سے روایت ہے کہ غیر کفو میں نکاح جائز نہ ہوگا اس لئے کہ بہت سے ایسے معاملات ہیں واقع ہوجانے کے بعد جن کا حل کرنا ممکن نہیں ہوتا اور بعض متاخرین نے زمانہ کے فساد کی وجہ سے اسی روایت پر فتویٰ دیا ہے‘‘
علامہ ابن نجیم مصریؒ (م۔ 970ھ) لکھتے ہیں :-
ان کان الزوج کفؤا نفذ نکاحھا والا فلم ینعقد أصلا وفی المعراج معزیا الی قاضی خان وغیرہ والمختار للفتوی فی زماننا
’’اگر عورت کا شوہر اس کے ہم پلہ ہو تو اس کا نکاح نافذ ہو جائے گا وگرنہ بالکل نکاح سرے سے منعقد ہی نہیں ہو گا اور معراج میں قاضی خان وغیرہ کی طرف سے نسبت کرتے ہوئے ہے ہمارے زمانہ میں فتویٰ کے لئے یہی بات پسندیدہ ہے‘‘
البتہ اگر لڑکی کے اولیاء اس غیر کفو میں نکاح سے رضا مند ہوں تو پھر وہ نکاح صحیح ہے
احناف کے اس موقف کی روشنی میں جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ درج ذیل ہیں
1۔ عاقلہ و بالغہ عورت ولی کی اجازت کے بغیر اپنی مرضی سے خود نکاح کرسکتی ہے بشرطیکہ وہ اس کے ’’کفو‘‘ میں ہو
2۔ غیر کفو میں کیا ہوا نکاح بالکل منعقد ہی نہیں ہوگا
3۔ غیر کفو میں اگر اولیاء اپنی رضامندی سے نکاح کر دیں تو وہ درست ہوگا
4۔ عورتوں کے لیے مستحب یہ ہے کہ وہ خود ایسے اقدام نہ کریں بلکہ اولیاء کو واسطہ بنائیں تاکہ ان کی طرف بے حیائی منسوب نہ ہو
جمہور کا موقف:-
جمہور فقہاء کے نزدیک اس قسم کا نکاح جو ولی ’’کی تعبیر ‘‘کے بغیر ہو درست نہ ہوگا
اس لیے کہ نکاح سے مقصود مقاصد نکاح ہوتے ہیں اگر ان کو عورتوں کے حوالے کر دیا جائے تو ان میں خلل واقع ہو گا اور وہ پوری طرح حاصل نہ ہوں گے
اس مسئلہ میں جمہور کا موقف تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے
مالکیہ کا موقف
علامہ ابن رشدؒ الجد (م۔ 520ھ)لکھتے ہیں :-
ان النکاح لایصح الابولی ولا ینکح المراۃ الا ولیھا
’’ولی کے بغیر نکاح صحیح نہ ہوگا اور عورت نکاح نہ کرے مگر اپنے ولی کے ذریعے ‘‘
شوافع کا موقف
امام ابو اسحاق شیرازیؒ لکھتے ہیں :-
لایصح النکاح الابولی فان عقدت المراۃ لایصح
ولی کے بغیر نکاح صحیح نہ ہوگا پس اگر عورت نے عقد کر لیا تو صحیح نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔