From a scientific perspective, what is the soul? Part 2 in Urdu Spiritual Stories by Shekh Javed Ashraf books and stories PDF | سائنسی نظر، رُوح کیا ہے؟پارٹ:-2

Featured Books
Categories
Share

سائنسی نظر، رُوح کیا ہے؟پارٹ:-2

ایک سائنسی نظر، رُوح کیا ہے؟

انسان میں زندہ رہنے کے لیے ایک زیادہ ترقی یافتہ نیم خودکار نظام بہت منظم سطح پر روبہ عمل ہے جس میں انرجی کے لیے ایندھن باہر سے آتا ہے یعنی سانس اور غذا کے ذریعے بیرونی دنیا میں انسان کی غذا خام اور تیّار دونوں حالتوں میں موجود ہوتی ہے اور انسان اپنی خواہش پر غذا کھا کر جسم کے نظام ہضم میں پہنچاتا ہے جہاں سے یہ انزائم اور ایسڈ کی کیمیا ترکیبی کے بعد کاربوہائیڈریٹس میں تبدیل ہو کر خون کے ذریعے سیل میں پہنچتی ہے جہاں اس کو توانائی میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اس توانائی سے انسان اپنے کام کرتے ہیں خون کی گردش ایندھن کی متحرّک سیّال کارگو cargo بیلٹ ہے جو ایندھن سے لدی جسم میں گردش کرتی ہے مختلف اسٹیشنوں پر ایندھن اتارا جاتا ہے اور استعمال شدہ ایندھن کا فضلہ اُٹھایا جاتا ہے اب سوال یہی ہے کہ: کیا توانائی کی فراہمی بغیر کسی ہدایات اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے ہوسکتی ہے؟ اوراسی تناظر میں کیا انسان کے تمام اندرونی سسٹم کوئی مرکزی کنٹرول نہیں رکھتے جو غذائی توانائی کو مربوط طور پر کام میں لائے یعنی فیصلہ کرے کہ غذا سے حاصل کل توانائی کا استعمال کس عضؤ میں کس مقدار سے صرف ہونا ہے

یہاں سوال یہ بھی ہے کہ یہ فیصلہ کون کرتا ہے کہ کس جگہ کتنے ایندھن کی ضرورت ہے؟

یہ سوال اس لیے اُٹھا کہ تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں محض تین پاؤنڈ کا دماغ کل انرجی کا بیس فیصد استعمال میں لیتا ہے ظاہر ہے کہ اس کا فیصلہ نہ خلیات خود کرسکتے ہیں اور نہ دماغ؟ اسی طرح انسان کے اندر مختلف انتہائی پیچیدہ نظام مختلف اعضاء میں انسان کی پیدائش کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیتے ہیں لیکن جدید سائنس لاعلم ہے کہ یہ تمام نظام کہاں سے کنٹرول ہوتے ہیں یا کہاں سے احکام لیتے ہیں 

یعنی دل، گردے، پھیپھڑے اور دیگرحواسی اعضاء اپنے اپنے کام کی ہدایت کہاں سے لیتے ہیں؟

ہمیں اسی کمانڈ اینڈ کنٹرول کے کسی نظم کو انسان کے جسم میں تلاش کرنا ہے جو اندرونی عضوء اور عضلاتی نظام کو انسان کے ارادے کے بغیر رواں رکھتا ہے

اس بارے میں انسان سے مشابہ روبوٹ Humanoid Robot انسان کے اندرونی غیر مرئی سسٹم کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ مصنوعی ذہانت کے حامل بھی ہوتے ہیں ان کی نظیر لینے کی ایک ٹھوس وجہ یہ ہے کہ ورلڈ روبوٹک ساکر فیڈریشن نے یہ دعویٰ کر رکھا ہے کہ سال ۲۰۵۰ تک وہ ایسے روبوٹ کی فٹبال ٹیم تیّار کر لیں گے جو ورلڈ چیمپین ٹیم کو ہرانے کی صلاحیت کی حامل ہوگی

یعنی انسان کے مقابل مصنوعی انسان

https://humanoid.robocup.org/

مصنوعی ذہانت کی کارکردگی کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۹۷ میں IBM کمپیوٹر Deep-Blue نے شطرنج کے عالمی چیمپین گیری کسپاروو کو شطرنج میں شکست دی تھی جس سے یہ ثابت ہوا کہ انسان کی بنائی ذہانت فی الوقت کم از کم کسی ایک شعبے جیسے کھیل میں انسان کو زیر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو سکتی ہے

https://chessbee.com/deep-blue-beat-g-kasparov-1997/

https://www.metro.news/deep-blue-vs-kasparov-how-a-chess-match-started-the-big-data-revolution/598948/

ہیومنائڈ روبوٹ humanoid robot انسان کا تیّار کنندہ مشینی انسان ہے جس کی تیّاری میں الیکٹریکل، میکینیکل، کمپیوٹر، ٹیلی کیمونیکیشن اور کچھ دوسری انجینیئرنگ کو سموئے ہوئے علم میکاٹرونکس mechatronics سے مدد لی جاتی ہے اس کا اندرونی نظام بہت پیچیدہ ہوتا ہے یہ روبوٹ مصنوعی ذہانت کا حامل ہونے کی وجہ سے فیصلہ کرنے کی محدود قوّت بھی رکھتا ہے یہ حواس جیسی صلاحیّت اور محدود پیمانے پر انسانوں کی طرح چل پھر کر بہت سے کام کرنے کی صفت بھی رکھتا ہے اس کی تعمیر و ساخت میں بھی مذکورہ تعمیری تکون نظر آتی ہے یعنی ہارڈوئیر، سوفٹ وئیر اور انرجی 

قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہاں سوفٹ وئیر وہ کمانڈ اینڈ کنٹرولنگ مینیجر ہے جس کے ذریعے پروگرامر روبوٹ کے جسم کے ہر حصّے کی کارکردگی کی حدود اور ضروری قواعدکو معیّن کرتا ہے اس کے اندر ایسے ٹرانزسٹر اور مزاحمتی آلات resistants ہوتے ہیں جو اس میں دوڑتے کرنٹ کی مقدار کو مختلف نتائج کے لیے کو کنٹرول کرتے ہیں یہاں غور طلب یہ نکتہ ہے کہ جب ایک مشینی انسان جس کا ہر چھوٹا بڑا جز بغیر الیکٹرانک ہدایات کے کام نہیں کر سکتا تو انسان بغیر کسی سُپرپروگرام کے کس طرح زندہ اور متحرّک ہو سکتا ہے؟

کیا انسان کائنات میں ظاہر ہونے والے مظاہر میں کوئی منفرد مقام رکھتا ہے؟ مگر کیوں؟

الحادی فلسفے کا اصرار ہے کہ کائنات خود بنی اور معیّن قوانین پر چل رہی ہے جو ناقابل تبدیل ہیں یعنی اس کے قوانین اٹل ہوں گے اور ان میں یکسانیت ہوگی اس سے ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ کائنات ایک بےجان مظہر ہے جس میں شعور، عقل و حواس نہیں دوسرا یہ کہ اس نظریہ کے بموجب اگر تخلیقی اور تعمیری اصول و قوانین بھی کائنات کے ساتھ اچانک


ظاہر ہو گئے تو وہ بھی فطرت کا حصّہ ہو گئے اور کائنات میں بننے والی یا ظاہر ہونے والی ہر چیز اِن ہی معیّن اصولوں پرہی بنے گی وضاحت یہ ہے کہ فطرت کی کوئی آنکھ، دماغ یا شعور نہیں کہ وہ ایک ہی طرح کے نتائج دینے والی تعمیر یا تخریب کے لیے مختلف قوانین ترتیب دے ایک جیسی سرشت رکھنے والے مظاہر یا چیزیں ایک ہی اصول پر پیدا ہوں گی ایک جیسی ساخت یا ایک جیسی صلاحیت کے حامل ایک جیسے تخلیقی عمل یا تعمیر کا نتیجہ ہوں گے مثلاً دیکھنے، سننے، چلنے پھرنے اور غوروفکر کے بعد فیصلہ کرنے کی صلاحیت ایک ہی طرح کے فطری نظم میں ہی جنم لے گی، اگر ایسا نہیں ہوگا توکائنات کا وجود اچانک تخلیق spontaneous-creation نہیں بلکہ ذہین تخلیق intelligent-creation ہوگا جو سائنس فی الوقت نہیں مانتی کیونکہ اس کا ماننا الحادی فکر کی شکست ہوگی

اس استدلال سے یہاں ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر کائنات خود بنی اور خود چل رہی ہے تو یہ یکساں لاگو ہونے والے طبعی قوانین کے تحت ہی چلے گی لیکن ایسی صورت میں انسان بھی اِس تعمیری تکون کے فطری قفل سے مبرّا ّ نہیں ہو سکتا ہے کہ جہاں حرکت پذیر چیز کی تعمیر ہوگی وہاں تین عوامل مادّہ، توانائی اور ٹیکنالوجی(علم) لازم ہوں گے، لہٰذا الحادی سائنس اور جدید فکر کے بموجب اس ضمن میں انسان کو استثنیٰ ملنے کا کوئی عقلی جواز نہیں بنتا

ہیومنائڈروبوٹ کیونکہ ایک انسان کی طرح سوچتا اور عمل کرتا مظہر ہے اس لیے انسان کے اندر بھی وہی سسٹم ہونا فطری ہوگا جو روبوٹ میں انسان نے تخلیق کیا 

یہاں ہم پھر یہی زور دیتے ہیں کہ جیسا کہ ہم نے جانا کہ خود فطرت شعور سے نابلد ہے، اس لیے فطرت میں حیات اور مصنوعی حیات کے لیے جدا اصول نہیں ہوں گے اگر تقریباً ہر حیوانی زندگی شعور، حواس، ارادے اور عمل کے رنگ لیے ہوگی تو یہی"باشعور حیات" کی بقا کا فطری قانون ہوگا، اور اس کے بموجب ہر مصنوعی باشعور حیات بھی ایسے ہی معیّن پیرایوں میں عمل انگیز ہوگی دیکھیے زندہ رہنے کے لیے انسان و حیوان کے اندر مطلوب توانائی خاص راستوں یعنی شریانوں میں سفر کرتی ہے تو اسی اصول پر روبوٹ کے جسم میں بھی الیکٹرک باریک تاروں میں دوڑتی ہے اسی طرح انسان کی ساخت میں اگر کئی طرح کی سپرانجینئرنگ ہے تو روبوٹ میں بھی ایسا ہی کرنا پڑا

*خودکاردّعمل:*

انسان کا ہر عمل شعور اور حواس کے بموجب تکمیل پاتا ہے لیکن انسان کے اندر بے اختیاری ردّعمل reflex-action کا خودکار نظم ایک ایسا متوازی اندرونی نظام ہے جو انسانی شعوری اور حواسی ردعمل سے قبل محدود پیمانے پر انسان کی فوری حفاظت کرتا ہے کسی خطرے کی صورت میں اچانک حفاظتی ردعمل بغیر کسی سسٹم کے نہیں ہو سکتا کیونکہ اس میں دماغ کے بجائے ریڑھ کی ہڈّی کے مہرے سے ایک اضطراری قوس reflex-arc عضلات کو فوری ردعمل پر اُکساتی ہے اس لیے انسان میں شعور سے اوپر کسی بہت ترقی یافتہ نظم کی موجودگی سے انکار عقل کے تقاضوں کے منافی ہوگا

ابھی ہم نے روبوٹ میں دیکھا کہ ایک سوفٹ وئیر پروگرام ہے جو غیر مرئی ہوتے ہوئے روبوٹ کے سارے سسٹم کو کنٹرول کرتا ہے تو پھر انسان کے اندر ایسا کیا ہے یا ہوسکتا ہے جو تعمیری یا تخلیقی تکون کے نظم میں سوفٹ وئیر کی جگہ لے سکے؟ نتیجہ یہی اخذ ہوتا ہے کہ انسانی جسم کے فعّال ہونے میں انسان کے اندر کسی انجانے کنٹرولنگ مظہر کا ہونا عین فطری اور سائنسی ضرورت ہے اسی لیے یہ سوال اہم ہیں کہ انسان کا اپنا اندرونی مینیجنگ اینڈ کنٹرول سسٹم کہاں ہے؟

کیا ہے؟

یہی وہ دوراہا ہے جہاں زندگی اور روح کے حوالے سے مذہب اور لادینیت کا علمی وعقلی ٹکراؤ ہے روح کے لیے آئن اسٹائن نے کہا: کیونکہ ہمارے اندرونی تجربات ہمارے حواس کے مجموعی تاثرات کا حاصل ہوتے ہیں اس لیے جسم کے بغیر روح کا تصوّر لایعنی نظرآتا ہے یعنی اگر جسم نہیں تو روح نہیں

(http://www.eoht.info/page/Einstein+on+the+soul)

سائنس روح کے الگ تشخّص کو مسترد کر کے ہی نہ صرف انسانی زندگی بلکہ مختلف حیاتیاتی صفات جیسے شعور و جذبات کی تشریح سے قاصر رہی جبکہ یہاں پر مذہب ایک عقلی نقطۂ نظر کا حامل ہوتے ہوئے سائنس پر غلبہ دیکھاتا ہے مذہب عقلی اور منطقی وضاحت دیتا ہے کہ انسان کے اندر اس کے جسمانی نظام کو چلانے والی ایک انجانی شے ہے جو روح ہے یعنی یہ کسی سپر سائنس کی سپر ٹیکنالوجی ہے جس کے فنکشن کو انسان جان تو نہیں پایا مگر یہی انسان کی زندگی اور موت کا ذریعہ ہے جس طرح کسی کمپیوٹر میں اس کا آپریٹنگ سسٹم جیسے ونڈوز ان انسٹال کر دی جائے تو وہ مردہ ہو جاتا ہے اسی طرح اگر روح جسم سے الگ ہو جائے تو انسان مردہ ہوجاتا ہے یعنی روح کا ہونا فطری اور سائنسی ضرورت بھی ہے ورنہ انسان کے اندر موجود کئی اَسرار کی وضاحت ممکن نہیں اب اگر سائنس مذکورہ بالا اندرونی عوامل کو چکرادینے والے معمّے کہہ کر ان کی توجیہ سے دست کش ہوتی ہے تو ہم ان کو مذہب کی تشریح پر ہی جانچیں گے

لہٰذا اب ہم قرآن کے حوالے سے بات کرتے ہیں جس میں خالق روح کے حوالے سے مخاطب ہے۔۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔