From a scientific perspective, what is the soul? Part 3 in Urdu Spiritual Stories by Shekh Javed Ashraf books and stories PDF | سائنسی نظر، رُوح کیا ہے؟پارٹ:-3

Featured Books
Categories
Share

سائنسی نظر، رُوح کیا ہے؟پارٹ:-3

ایک سائنسی نظر، رُوح کیا ہے؟

ویسَئلونک عَنِ الرّوح قُلِ الرُّوح مِن اَمرِ ربّی وماَ اوُتیتُم مِنَ العِلمَ اِلَّا قَلیلا ً(۱۷:۸۵)
اور یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دو کہ روح میرے پروردگار کا حکم ہے اور جو تمہیں علم دیا گیا ہے وہ بس تھوڑا سا ہی علم ہے

ربّ کائنات واضح کرتا ہے کہ روح کا علم انسان کو کم دیا گیا یہ اعلان دائمی بھی ہوسکتا ہے اور وقتی بھی کیونکہ یہ نہیں کہا گیا کہ روح کا علم نہیں دیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ محدود علم مل بھی سکتا ہے یعنی ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں انسان اپنے جسم میں موجود کسی اچھوتے مظہر کی اتنی جانکاری حاصل کرلے کہ وہ کس طرح انسان کے اندر مختلف نظام ہائے اعضاء کو کنٹرول کرتا ہے اور اندرونی معمّوں یعنی شعور، جذبات، نیند، خیالات وغیرہ وغیرہ کی آفرینش کا ذمّہ دار بھی ہے
اگر ایسا ہوا تو وہ وقت یقیناً انسان کو ان نشانیوں کے قریب کردے گا کہ جس کا وعدہ قرآن میں کیا گیا ہے کہ انسان کو اس کے اندر اور کائنات میں ایسی نشانیاں دیکھا دی جائیں گی کہ وہ کہہ اٹھے گا کہ یہ ہی سچ ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

"انہیں اپنی نشانیاں کائنات میں بھی دیکھائیں گے اور خود ان کے اپنے وجود میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ یہی حق ہے کیا تمہارے ربّ کی یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز کا گواہ ہے؟ یاد رکھو کہ یہ لوگ اپنے ربّ کا سامنا کرنے کے معاملے میں شک میں پڑے ہیں یاد رکھو کہ وہ ہر چیز کو احاطے میں لیے ہوئے ہے" (۴۱:۵۳۔۵۴)

ان نشانیوں کا ہمیں پتہ نہیں لیکن قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بہت سے کائناتی معمّوں اور مذکورہ بالا اسرار کی (جن کا جواز آج کے سائنسدان ڈھونڈنے سے قاصر ہیں) حقیقت کا پتہ چلنا ہی اللہ کے عرفان کی طبعی اور علمی آگاہی کے دروازے کھولے گا بادی النظر میں روح ہی کوئی سپرسوفٹ وئیر یا اس جیسا مظہر ہے جو انسان اور اس میں موجود بہت سے غیر حل شدہ معمّوں کے حل فراہم کرتا ہے یعنی انسان جسم اور روح کا مجموعہ ہے روح وہ جوڑنے والا مظہر ہے جو انسانی جسم اور توانائی کو اس طرح یکجا کیے رکھتا ہے کہ انسان ایک ذی نفس کی طرح چلتا پھرتا، دیکھتا سنتا، ہنستا روتا، سوچتا فکر کرتا اور بڑھتا ہے ہمارے دماغ میں اس کی سرایت ہی سے شعور، خیالات اور جذبات جنم لیتے ہیں یہ کنٹرولنگ سسٹم انسان پر نیند طاری کرتا ہے اور خواب بھی دیکھیں ریڈرز درخت بھی ایک زندگی ہے جس کی شاخیں بےترتیب بڑھتی ہیں لیکن انسان کے دو ہاتھ اور دو پیر بالکل ایک طرح بڑھتے ہیں، ان کے بڑھنے کو کیا کہیں سے کنٹرول نہیں کیا جاتا؟
انسانی اعضاء جیسے دل، دماغ، گردے، جگر وغیرہ مختلف کام کا قرینہ کہاں سے سیکھتے ہیں؟ روح عین اسی طرح انسان کے اندر سرایت رکھتی ہے جیسے ہیومنائڈ روبوٹ میں اس کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سوفٹ وئیر گویا روح ایسا انجانا مظہر یا اجنبی سپر سوفٹ وئیر ہے جو ان گنت ڈائمنشن رکھتے ہوئے پورے انسانی جسم میں سرایت رکھتا ہے اور جسم کے ہر حصّے اور عضوء کی کارکردگی کے حوالے سے نہ صرف کمانڈ رکھتا ہے بلکہ اس کے توانائی کے نظام کو کنٹرول کرتا ہے
انسانی حیات کے قائم رہنے میں غذا کا بدن کا جز بننا ہی بنیادی عنصر ہے اور بظاہر یہی میٹابولزم یا توانائی کا پیداواری عمل روح اور جسم کو جوڑے رکھتا ہے بُڑھاپے میں عمر کے ساتھ انسان کا میٹابولزم کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے، سیل زیادہ تیزی سے مرنے یا فنا ہونے لگتے اور جب سیل مردہ ہونے سے میٹابولزم کا عمل رک جاتا ہے تو روح جسم سے الگ ہوجاتی ہے یعنی روح، جسم اور طاقت تینوں مثلث کی دیواروں کی طرح ایک دوسرے کو تھامے حیات کا تانا بانا جوڑے رکھتے ہیں روح زندگی کی وہ غیر مرئی کڑی ہے جو بہت سے معمّوں کو حل کرنے والی چابی رکھتی ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مصنوعی ذہانت کا حامل روبوٹ بھی نہیں جانتا کہ کس سسٹم یا سوفٹ ویئر کی وجہ سے وہ کام کرتا ہے یعنی وہ بھی لاعلمی کے ایک بھنور میں ہوتا ہے الّا یہ کہ اس کا خالق انسان ہی اس پرکچھ ظاہر کرنا چاہے
یہاں خالق کی اپنی علمی صلاحیت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ وہ کس حد تک اپنے ہونے کا احساس اپنی تخلیق میں ودیعت کر سکے
سائنس ابھی تک روح کی موجودگی کو مادّی پیرایوں میں ڈھونڈ نہیں پائی لیکن سائنس کی وقتی ناکامی کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم انسان میں موجود کسی سپر سائنسی مظہر کا انکار کریں بلکہ سائنسدانوں کو اس کی کوئی نہ کوئی مناسب منطقی تشریح تو کرنی پڑے گی کیونکہ روح ہی حیات کے پزل کا گمشدہ رکن ہے جس کو قبول کرنے سے جسم کے نظام کی سائنسی تشریح آسانی سے ہوسکتی ہے
انسان کیا ہے؟*
روح ہی انسان کی شخصیت ہے جو جسم کے ذریعے خود کو عیاں کرتی ہے روح اور جسم کا آمیزہ ہی انسان ہے انسان کے جسم کو موت ہے لیکن روح یعنی شخصیت کو موت نہیں روح ہی وہ انجانا مقناطیس بھی ہوسکتا ہے جو انسان کے اعمال کا کوئی عکس اپنے اندر جذب کرتا رہتا ہے اور انسان کی موت کے ساتھ تمام اعمال کے ڈیٹا بینک کا ایک بیک اپ لیکر خالق کی طرف روانہ ہوتا ہے جو

وہاں پر کسی رجسٹر میں درج ہمارے اعمال سے قیامت میں منطبق ہوگا کہ انسان اس کو جھٹلا نہیں پائے گا جب انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو روح کو جسم ملے گا وہی پرانا یا نیا اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ سوفٹ ڈیٹا جس مشین میں بھی انسٹال کیا جائے وہ اپنے ہی رنگ لیے ظاہر ہوگا مزید یہ کہ غالباً روح میں محفوظ یہ ہمارے اعمال کی یادداشت ہی ہوگی کہ ہر عضوء خود انسان کی بد اعمالیوں کی گواہی دے گا یعنی روح کے سوفٹ وئیر میں پنہاں کوئی خفیہ کمانڈ کوڈ جو قیامت میں ایکٹیو active ہو کر اعضاء کے اعصاب کو گویائی کی قوّت بھی دے دے گا گویا یہ بھی کبھی ثابت ہونا بعید از قیاس نہیں کہ خلیاتcell حواس بھی رکھتے ہیں تو مشتری ہوشیار باش
اس بحث سے منطقی، علمی، مشاہداتی اور عقلی طور پر ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ انسانی جسم کے متعدّد اندرونی پیچیدہ نظم کی سائنسی وضاحت کی غیر موجودگی میں مذہب کا روح کی بابت بیانیہ ٹھوس عقلی بنیاد رکھتا ہے شعور، خیال، جذبات،نیند ،خواب اور دوسرے عوامل جیسے اعضاء کی کارکردگی روح سے منسلک مظاہر ہیں جن کی موجودگی اور ابھرنے کی بابت انسان اسی وقت جان پائے گا جب روح کے پیرایوں کو جان لے گا ایک بائیولوجسٹ فی الوقت یہ سمجھنے سے قاصر ہوگا کہ فزکس اور روحانیت کا ملاپ بھلا کیسے ممکن ہے اسی طرح ایک مذہبی فکر والا بھی خلجان میں مبتلا ہوگا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب اور سائنس کو جدا کر کے انسان دو گروہوں میں نہ صرف مذہبی و غیر مذہبی طور پر بٹا بلکہ علمی طور پر بھی تقسیم ہوا جو غیر فطری تھا اس طویل رقابت نے طبعیات اور مابعد الطبعیات کے ایک فطری تعلّق کو بظاہر غیر فطری بنایا اور خاص طور پر سائنسی ذہن کو ایک خاص فریم آف مائنڈ کا اسیر کر دیا جس میں احساس برتری کا غلبہ ہوا جبکہ مذہبی فکر بھی ایک دائرے میں محبوس ہوگئی
میرے پیارے ریڈرز انسان تو ایک ہستی ہے جس کی ساخت کئی پہلو رکھتی ہے تو پھر اس ہستی کے پہلوؤں سے منسلک اعمال اور علم جدا کیسے ہوسکتے ہیں یہ ہماری کوتاہ نظری تھی جس نے مختلف وجوہات کی بنا پر علم کے راستے کو تقسیم کر دیا انسان ایک ہستی ہے اور اس سے منسلک تمام علوم کا آپس میں ہم آہنگ ہونا عین فطری اور منطقی ہے لہذا یہ گمان کہ طبعیاتی اور مابعدالطبعیاتی علوم کسی مرحلے پر ہم آہنگ ہوجائیں گے نہ صرف عقلی، منطقی، فطری بلکہ علمی سہارے رکھتا ہے
یہ مضمون علم و ادب سے ہے
انسان یہ جان لے کہ ضروری نہیں کہ زندگی ویسی ہی اشکال میں ہو جیسی ہم جانتے ہیں اس بات کو ایک بڑے کینوس یعنی کائنات پر لاگو کریں تو یہ کائنات بھی ایک زندہ "شے" کا رنگ لیے ہے کائنات ہر لمحہ کسی ترتیب پرپھیل رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں پس پردہ کوئی ارادہ ہے کائنات بھی بے حساب حرکت کرتے سسٹم اور اجسام کو لیے کہیں چلی جا رہی ہے تو بغیر کسی توانائی کے نہیں بلکہ انسان نے جب کھوج لگایا تو چار قوّتوں سے واقف ہوا جو اس نظام کے چلانے کی ذمّہ دار ہیں
یہ قوتیں (ثقل، مقناطیسی اور کمزور و طاقتور ایٹمی) گویا اس کائنات کی روح ہیں لیکن کیا کوئی جان پایا یہ توانائیاں آ کہاں سے رہی ہیں؟ یعنی ہماری تعمیری مثلث میں کائناتی نظام کی مکمّل تشریح اسی وقت ممکن ہوگی جب ہمیں اس علم یا ٹیکنالوجی کا بھی پتہ ہو جو ان قوّتوں کو جنم دے رہا ہے اور ان سے کام لے رہا ہے سائنس نے کائنات کو جاری و ساری رکھنے والے مگر حواس سے ماورا خفیہ سسٹم ڈھونڈ نکالے تو اس کی بنیاد انسان کا تجسسّ تھا جو عقل کے تئیں حواس کی سرحدوں کو عبور کر کے اِن غیر مرئی اشیاء تک جا پہنچا اسی طرح جس دن انسان روح کی طرف متوجّہ ہوا تو اس کے بھی کچھ پیرائے ڈھونڈ سکتا ہے
اب تک کی بحث ہمارے مفروضے کی جانچ کے لیے مناسب شواہد کی نشان دہی کرتی ہے جو روح کے موجود ہونے کی دلیل بنتے ہیں امّید افزا بات یہی ہے کہ سچّائی اپنے آپ کو منواتی ہے وہ وقت اہم موڑ ہوگا جب جنیاتی سائنس انسانی جین میں چھپے ایسے کوڈ دریافت کرلے جو مابعد الطبعیاتی وصف رکھتے ہوں اور روحانیت سے کسی طبعی رابطے کی اساس بنیں اُس سسٹم کی سائنسی توجیہ یا تشریح ہی نہ صرف انسانی جسم کے کسی خفیہ نظم کی نشان دہی کرپائے گی بلکہ کائنات کے کسی بڑے راز کو آشکارہ بھی کر جائے گی غالبا یہی وہ دریافت ہوسکتی ہے جو سائنسدانوں کو حقیقت کبریٰ کی کسی پیمانے پر ایسی سمجھ دے دے کہ ان کے پاس الحاد کو خیر باد کہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے لہذا ہم انتظار کرتے ہیں اس وقت کا کہ جب انسان حیات اور اپنے آپ میں موجود معمّوں کے منبع کی تلاش میں بھٹکتے بھٹکتے روح کی کسی انجانی اور نیم طبعی ڈائمنشن کے دروازے پر دستک دے اور وہ کھل جائے

خْلِقَ الاِنسَانْ مِن عَجَل ٍ سَاْوریکِْم اٰیاتی فَلَا تَستَعجِلْونِ(الانبیاء: آیت۳۷)
''انسان جلد بازی کی خصلت لے کر پیدا ہوا ہے۔ میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھلادوں گا، لہٰذا تم مجھ سے جلدی مت مچاؤ''

*روح کی حقیقت کے بارے میں مختلف مذاہب کی رائے*
1۔اسلام
رب کائنات کی کتاب قُرآن مجید میں روح کے لیے دو الفاظ استعمال ہُوئے ہیں”روح اور نفس” اور خالق کائنات سورہ بنی اسراعیل میں فرماتا ہے،مفہوم
”اور آپ سے سوال کرتے ہیں روح کے متعلق، کہدیجیے روح اللہ کا امر ہے اور انسانوں کو اسکا علم نہیں دیا گیا مگر بہت کم”

اسلام کی روایات کے مُطابق روح اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا امر ہے جسکا تعلق دل کیساتھ ہے یہ انسان کے جسم میں ماں کے پیٹ میں ہی داخل ہوتی ہے اور جب اللہ تعالٰی اپنا یہ امر واپس لے لیتا ہے تو جسم کی موت ہوجاتی ہے
2۔کرسچینز
عام مسیحی عقیدے کے مُطابق جب جسم کی موت ہوجاتی ہے تو روح کو رب کائنات کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جہاں اُسکا حساب ہوتا ہے اچھے اعمال شاہانا زندگی اور بُرے اعمال عذاب میں لے جاتے ہیں اور کُچھ کرسچینز کے مُطابق جہنم میں گناہگار کی روح اور جسم دونوں فنا ہوجائیں اور وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہیں گے
مسیحی لوگوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ روح جسم کی پیدائش سے پہلے پیدا کر دی گئی تھی اور موجود تھی اور جسم کی پیدائش پر اسے جسم عطا کر دیا جاتا ہے اور جسم کی موت کے بعد روح کو واپس بلا لیا جاتا ہے جہاں اس کا حساب لیا جائے گا
3۔ہندومت
ہندو مت میں روح کو آتما کا نام دیا جاتا ہے اور آتما سنسکرت زبان کا لفظ ہے جسکے معنی اندر کی ذات یا روح ہے، ہندو مذہب میں روح جب جسم کو چھوڑتی ہے تو بھٹکنا اُس کا نصیب بن جاتا ہے مگر اگر اُس نے اچھے کام کیے ہیں تو ایسی آتما کو مُکتی مل جاتی ہے اور "مُکتی” کے معنی ہندومت، بُدھ مت، جین مت، سکھ مت میں تقریباً ایک ہی ہے یعنی کامیابی، آزادی
4۔یہود
ہیبرو زُبان میں روح کے لیے نفس کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور یہودیوں کی کتاب جینسس میں لکھا ہے ” تب لارڈ گاڈ نے آدم کو زمین کی دھول سے پیدا کیا اور اس کی ناک میں روح پھونکی اور آدم زندہ ہوگیا”
یہودی مذہب میں بھی روح کی بہت اہمیت ہے اور اس مذہب کے مطابق جب کوئی یہودی اپنے رب کا حکم مانتا ہے تو اُسکی روح کو ایک درجہ ترقی عطا ہوتی ہےاور اس طرح ہر حکم ماننے کے ساتھ ساتھ بندہ رب کے قریب سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے اور یہودی مذہب میں جسے رب کے قریب سمجھا جاتا ہے اُسے تذدک کا لقب دیا جاتا ہے
نمبر 5 سکھ مت
سکھ مذہب کے مُطابق جسم میں روح رب کا حصہ ہے اور بابا گُرو نانک کی کتاب گرنتھ صاحب میں لکھا ہے ” رب روح میں ہے اور روح رب میں”
ہندو اور سکھ مت کے مطابق روح جسم کے اندر ایک لائٹ ہے سپارک ہے جس سے جسم کو زندگی عطا ہوتی ہےاور اس سپارک یا لائٹ کے جانے سے جسم کی موت واقع ہوجاتی ہے
6۔جین مت
جین مت کے ماننے والوں کے مُطابق زمین پر موجود ہر چرند پرند درند اور انسان میں روح کی وجہ سے زندگی پائی جاتی ہے اور جین مت کے مُطابق روح کی دو قسمیں ہیں نمبر 1 آزاد روح، یہ وہ روح ہے جس نے آزادی یعنی موکشا حاصل کر لی اور جسے دوبارہ زندگی کے سائیکل کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور نمبر 2 غیر آزاد روح، یہ وہ روح ہے جو دُنیا میں موجود ہے یا انسانی جسم میں ، کسی جانور وغیرہ کے جسم میں، جہنم میں یا سورگ میں۔۔۔۔۔۔۔