Zahran Mamdani made history in Urdu Magazine by Shekh Javed Ashraf books and stories PDF | سائنسی نظر، رُوح کیا ہے؟پارٹ:-4

Featured Books
Categories
Share

سائنسی نظر، رُوح کیا ہے؟پارٹ:-4

ظہران ممدانی نے تاریخ رقم کی 

 مشہورکہاوت ہے کہ ”محنت اتنی خاموشی سے کروکہ تمہاری کامیابی دھوم مچادے۔“یہ کہاوت نیویارک کے نومنتخب میئر ظہران ممدانی پر پوری طرح صادق آرہی ہے۔اس وقت پوری دنیا میں ان کے نیویارک کا میئر منتخب ہونے کی دھوم ہے۔اسی مفہوم کا ایک ہندوستانی نغمہ بھی ان کی کامیابی کے موقع پر گایا گیا ہے۔ظاہر ہے جو نوجوان کل تک دنیا کے لیے اجنبی تھا،آج اس کے اگلا امریکی صدر منتخب ہونے کی پیشین گوئیاں کی جارہی ہیں۔ دراصل نیویارک کے میئر کا عہدہ امریکی صدر کے بعد دوسرا بڑا منصب ہے اور وہ ایک ایسے نوجوان کو ملا ہے، جسے ہرانے کے لیے صدر ٹرمپ سمیت بڑی بڑی طاقتیں سرگرم تھیں۔نیویارک امریکہ کا سب سے بڑا اور امیرترین شہر ہے۔ اس کی رنگینیاں اور رعنائیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔تقریبا ً 90 لاکھ آبادی والے اس شہر میں امریکہ کے تمام بڑے سرمایہ دار قیام کرتے ہیں۔دوٹریلین ڈالر سے زیادہ کی جی ڈی پی کا یہ شہر اگر آزاد ملک ہوتا تو دنیا کی آٹھویں سب سے بڑی معیشت ہوتا۔ نیویارک میں تقریباً آٹھ لاکھ ہندوستانی مقیم ہیں اور یہ امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ظہران ممدانی کے نیویارک کا میئر چنے جانے کے بعد جہاں ایک طرف امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں میں خوشی کی لہر ہے تو یہاں ہندوستان میں بھی ان کی اس کامیابی کا خیر مقدم کیاگیا ہے۔ ظہران ممدانی نے اپنی کامیابی کے بعد بنانگ دہل یہ کہا ہے کہ ”میں ایک مسلمان ہوں اور مجھے اپنی اس شناخت پر فخر ہے۔“ حالیہ انتخاب میں ممدانی کے علاوہ جن دودیگر ہندوستانی نژاد مسلمانوں نے وہاں کامیابی حاصل کی ہے، ان میں ڈیموکریٹک لیڈر غزالہ ہاشمی ورجینا کی لیفٹیننٹ گورنر اور آفتاب پوریوال دوسری بار سنسنا ٹی شہر کے میئر چنے گئے ہیں۔

ظہران ممدانی نیویارک کے میئر کا انتخاب جیتنے والے پہلے مسلمان ہیں۔ 34 سالہ ممدانی کی والدہ میرا نائر مشہور فلم ساز ہیں جبکہ ان کے والد محمود ممدانی پروفیسر ہیں۔ ظہران کی پیدائش کمپالا میں ہوئی، مگر وہ سا ت سال کی عمر سے نیویارک میں مقیم ہیں۔ یوں تو ظہران ممدانی نے یہ مثالی کامیابی آزاد امیدوار اینڈرویو کومو اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلوا کو شکست دے کر حاصل کی ہے،لیکن اگر غور سے دیکھا جائے توانھوں نے اصل شکست بڑبولے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو دی ہے جنھوں نے ظہران کو ہرانے کے لیے ایڑی سے چوٹی تک زور لگا رکھا تھا اور یہاں تک دھمکی دی تھی کہ اگر ظہران جیت گئے تو وہ نیویارک شہر کے بجٹ میں زبردست کٹوتی کریں گے۔ظہران کو ہرانے کے لیے ٹرمپ نے ہی اپنے گھوڑے نہیں کھول رکھے تھے بلکہ انھیں ایلن مسک سمیت متعدد کارپوریٹ گھرانوں اور طاقتور اسرائیلی لابی کی جارحانہ مخالفت کا بھی سامنا تھا، لیکن ممدانی خدااعتمادی اور خود اعتمادی کے راستے پر چلتے رہے اور انھوں نے مخالفین کی سازشوں اور پروپیگنڈے کا پوری ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا۔

ظہران ممدانی کی کامیابی کے امکانات ابتدا ہی میں روشن ہوگئے تھے۔ اسی لیے ٹرمپ ان کی مخالفت میں دیوانے ہوئے پھر رہے تھے۔ انھوں نے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ ”اگر ممدانی نیویارک کے مئیر منتخب ہوئے تووفاقی حکومت کے لیے شہر کو فنڈز فراہم کرنا ایک مشکل معاملہ بن جائے گا۔“ٹرمپ نے ممدانی کی سیاست کو کمیونسٹ نظریات سے جوڑکر کہا تھا کہ”اگر نیویارک میں کوئی کمیونسٹ حکمرانی کرے گا تو وہاں فنڈز بھیجنا صرف پیسوں کا ضیاع ہوگا۔‘‘واضح رہے کہ وفاقی حکومت نیویارک کو سالانہ تقریباً ساڑھے سات بلین ڈالر کی رقم فراہم کرتی ہے۔ٹرمپ نے ممدانی کا موازنہ سابق میئر ڈی بلاسیو سے کرتے ہوئے کہا تھا کہ”بلاسیو ایک ناکام میئر تھا لیکن ممدانی اس سے بھی زیادہ خراب حکمرانی دکھائے گا۔“ممدانی کو شکست دینے اور انھیں ہراساں کرنے کے لیے ٹرمپ کے حامیوں نے عجیب وغریب سروے بھی کرائے تھے۔ برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ کے لیے جے ایل پارٹنرز نے اپنے سروے میں کہا تھا کہ اگر ممدانی نیویارک کے میئر کا چناؤ جیت جاتے ہیں تو تقریبا ً آٹھ لاکھ شہری نیویارک چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یوں بھی کسی مسلمان کا نیویارک جیسے عظیم شہر کا میئر بننا ٹرمپ کو کیسے راس آسکتا تھا۔ مسلمانوں سے ان کی عداوت کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ گزشتہ ستمبر میں جب وہ برطانیہ گئے تھے تو وہاں انھیں شاہی خاندان کی طرف سے ایک عشائیہ دیا گیا تھا۔ پروٹوکول کے حساب سے اس عشائیہ میں لندن کے میئر صادق خان کو بھی شریک ہونا تھا، مگر ٹرمپ نے میزبان ملک سے کہا کہ وہ اس عشائیے میں اسی وقت شریک ہوں گے جب لندن کے میئر صادق خاں کو اس سے دور رکھا جائے گا، لہٰذاصادق خان کو اس عشائیہ میں مدعو نہیں کیا گیا۔ ٹرمپ صادق خان کو دنیا کا بدترین میئر قراردیتے ہیں اور گاہے بگاہے ان پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔ اب قدرت نے خود ان کے سرپر ایک مسلمان میئر مقرر کردیا ہے۔ٹرمپ نے جس انداز میں ظہران ممدانی کی اندھی مخالفت کی اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ وہ کسی بھی طرح دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت کے سربراہ ہونے کے لائق نہیں ہیں۔ ان کا انداز گفتگو اور طرز عمل دونوں ہی سطحی انداز کا ہے۔حالانکہ انھوں نے ممدانی کی کامیابی کے بعد کسی قدر نرم موقف اختیار کیا ہے۔

 بدھ کی صبح جب ظہران ممدانی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا تو ہر طرف جشن کا ماحول تھا۔ ہندوستان میں مثبت سوچ کے حامل افرادنے ہندوستانی نژاد ظہران ممدانی کی کامیابی پر مٹھائیاں بانٹیں۔ حالانکہ اندھ بھکت اس موقع پر بھی اپنی بھڑاس نکالنے سے باز نہیں آئے۔ممدانی نے جب اپنی تقریر میں جواہر لال نہرو کا نام لیا تو بھکتوں کو اور مرچیں لگیں۔مگر ہندوستان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی تھی جنھوں نے ظہران ممدانی کی اس غیر معمولی کامیابی پر انھیں مبارکباد پیش کی۔کامیابی کے بعد ممدانی نے اپنے مداحوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میرے دوستوں ہم نے ایک سیاسی خاندان کو شکست دے دی ہے۔ رائے دہندگان نے انھیں تبدیلی کے لیے ووٹ دیا ہے۔ ان کی کامیابی ان کے ایک لاکھ رضا کاروں کی جیت ہے، جنھوں نے اس مہم کو ایک نہ رکنے والی قوت میں تبدیل کردیا۔“

گزشتہ دنوں جب ظہران ممدانی دنیا کے سب سے رنگین اور اونچی عمارتوں والے قابل دیداور قابل داد شہر نیویارک کے میئر کے چناؤ کے لیے میدان میں اترے تھے تو سب کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ ظہران ممدانی آخر کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟لوگوں کو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ممدانی کا تعلق ایک ہندوستانی نژاد خاندان سے ہے۔ ان کی والدہ مشہور فلم ساز میرا نائر ہیں جو امریکی شہری ہیں۔ ان کے والد محمود ممدانی کا تعلق ممبئی سے ہے اور وہ کولمبیا یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ان کی والدہ چونکہ ایک مشہور فلم ساز ہیں، اس لیے ان کا پہلا تعارف یہی ہوا کہ وہ میرا نائر کے بیٹے ہیں، لیکن اب میرا نائر کی شناخت ان سے ہورہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ میرا نائر ظہران ممدانی کی ماں ہیں۔ ظہران ممدانی1991 میں یوگانڈا میں پیدا ہوئے۔ وہ سات سال کی عمر میں امریکہ منتقل ہوئے۔ ممدانی کی بیوی 28/سالہ رما دواجی کا تعلق سیریا سے ہے اور وہ پیشے سے ایک فنکار ہیں۔ممدانی نے بھی اپنا کیرئیر ایک فنکار کے طورپر شروع کیا تھا۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ظہران ممدانی کی جتنی زیادہ مخالفت کی گئی، انھیں اتنی ہی زیادہ عوامی حمایت حاصل ہوئی۔ اس بار میئر کے الیکشن میں ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ 2001کے بعد میئر کے انتخاب میں دوملین سے زیادہ ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا۔ظہران ممدانی سے صدر ٹرمپ کی مخاصمت کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا کہ وہ صہیونی مظالم کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں ایک مضبوط آواز تصور کئے جاتے ہیں۔ٹرمپ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ”ظہران ممدانی کی یہودی مخالفت ان کے بیانوں سے ثابت ہے۔شاید ہی کوئی یہودی انھیں ووٹ دے گا۔“ممدانی نے اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو کے بارے میں جو کچھ بھی کہا ہے وہ فلسطینیوں کے خلاف ان کے بدترین مظالم کے پس منظر میں کہا ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ اگر وہ نیویارک کے میئر کا چناؤ جیت گئے اور اس دوران عالمی عدالت انصاف کو مطلوب جنگی مجرم اسرائیلی وزیراعظم نیویارک آئے تو وہ انھیں گرفتار کرادیں گے۔ 

ظہران ممدانی کی انتخابی مہم کا موازنہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر باراک اوبامہ کے تاریخی دور سے کیاجارہا ہے۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ممدانی ان کے نقش قدم پر چل کر وائٹ ہاؤس تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔ ظہران ممدانی 2018میں امریکی شہری بنے ہیں ۔ وہ پیدائشی امریکی نہیں ہیں۔ موجودہ قانون کے مطابق کسی شخص کے امریکی صدر یا نائب صدر بننے کے لیے پیدائشی طورپر امریکی شہری ہونا ضروری ہے۔تاہم ممدانی کو امریکہ کا اگلا صدارتی امیدوار تصور کیا جارہا ہے۔ہوسکتا ہے کہ ان کی مقبولیت اور ہردلعزیزی کے پیش نظر قانون میں کوئی تبدیلی کی جائے۔ممدانی امریکی صدر بنیں یا نہ بنیں مگر انھوں نے طاقتور امریکی صدر کی شدید مخالفت اور مخاصمت کے باوجود نیویارک کے میئر کا چناؤ جیت کر سب کو حیران کردیا ہے اور یہی ان کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔