ازقلم:محمد ابوسیف صدیقی
جامعہ دارالھدی اسلامیہ
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
واقعہ کربلا، تاریخ کا ایک درد ناک واقعہ ہے۔ یہ ماہ محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو بہت جانیں اللہ کی راہ میں پرواز کر گي۔ آج بہی تاریخ اسلام ان کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ زبانوں سے صیح وہ الفاظ ادا نہیں ہوتے ۔ جن کا دعوی ہے کہ ہم ہی فصیح اللیسان ہے ہم ہی بلیغ اللبیان ہے ، پر اس موضوع کو بیان کرنا ہوں تو زبان پہسل جاتی ہے ،
یہ اقتدار کی جنگ نہیں تھی اقدار کی جنگ تھی دوشخصیت کی لڑائی نہیں تھی دونظریات کا ٹکراؤں تھا ،۔یہ حق اور باطل کا معرکہ تھا یزید ظلم کا استعارہ ہے حسین ابن علی امن کی علامت ہے ، یزید ظلم کا پتلا ہے حسین ابن علی صبر کے پیکر ہے، یزید اپنی بدینیت فطرت اور اپنے تباہ کے باعث دنیا پر ذللت ورسوائی ظلم وجبر کی علامت بن کے ابرھا ،اور حسین ابن علی حق وصداقت بن کے عالم دنیا میں اترے، کربلا کے تپتے ہوۓ صحراؤں میں حسینی اور بزیدی کردار سامنے آتے ہے۔
یہ ماہ محرام الحرام بہت بڑی فضیلت واہمیت کا حامل ہے ۔ ایک حدیث پاک کا خلاصہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ،جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ تشریف لائیے تو یھود کو دیکھا کہ وہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ توانہوں نے کہا یہ ایک اچھا دن ہے کیونکہ اس دن اللہ رب العزت نے حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو ان کے دشمنوں سے نجات دیا ، اورسیدھ راستہ دکھا کر اپنا حکم چلا یا ، پھر انہونے روزہ رکھا یہ ساری بات سن کر حضور نے فرمایاتم سے زیادہ ہم موسی علیہ السلام کے ماننے والے ہے ۔بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی روزہ رکھا۔ اور امت محمدیہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں یہ پھر تاریخ کا جائزہ لئے تو ساری کتابوں میں عنوان کربلا پر بہت ہی اہمیت وفضیلت کا باب ملتا ہے۔ اس درد ناک واقعہ کو پڑھ کر انسان کے روح کانپ اٹھتی ہے ، اسے پڑھ کر انسان اپنی زندگی کا موڑھ بدل سکتاہے۔۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی کتاب (ماثبت با لسنتہ) میں لکھتے ہے کہ ابن جوزی نے ابن عباس سے ذکر کیا کہ ، محرم کی دسویں تاریخ وہ ایک ایسی تاریخ ہےجس میں اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی، یہ وہ ہی تاریخ ہے جس میں اللہ تعالی نے حضرت ادریس کو بلند مرتبہ پر فائز کیا ۔ اسی دن حضرت نوح کی کشتی کو جودی پہاڑ پر ٹھہرادیا۔ اسی دن خلیل اللہ حضرت ابراھیم م کی شعلہ دھارآگ جو آسمانوں سے بات کر رہی تھی وہ بھی ٹھہر گئی۔ اسی دن نبی یوسف قید خانہ سے باہر آئے۔ اسی دن حضرت یونس کو مچھلی نے اپنے پیٹ سے اگلا ۔ اسی دن حضرت یعقوب کی بنائی واپس آئی ۔ اسی دن چشمہ دریا کو بنی اسرائیل کے لئے آغاز کیا گیا۔
اور جو شخص بھی اس دن روزہ رکھا گویا اس نے چالیس سال کا کفارہ ادا کیا اور جس نے بھی عاشورہ کی شب کو عبادت خدا میں گزارا گویا اس نے ساتوں آسمان والوں کے برابر عبادت ادا کی۔۔
واقعہ کربلا اگر یوں ہی بیان کرتا جائے تو صفحات کم پڑ جائیں گے بحر حال مختصرا یہ ہے کے یزید میسون کا ناپاک بیٹا تھا اور حسین محمد عرب فاطمہ کا شہزادہ تھا ۔ یزید دمشق کے اطراف میں سر جون اور جریر اختل جیسوں میں پل کر جوان ہوا ۔ حسین کا گھر دروازہ مسجد نبوی کے اندر کھلتا تھا ۔ یزید نشہ میں ڈوب ڈوب کر نمازیں چھوڑ دیتا ۔ حسین کربلا کے اندر بھی نماز تہجد ان سے قضا نہی ہویئی ۔ یزید ظلم کا دوسرا نام ہے اور حسین امن کی ایک علامت ہے۔ حضرت امام حسین جس ماحول میں پلے تھے جس ماحول میں پرورش پائے تھے وہ ایک پاکیزہ وتقدس ماحول تھا، اور یزید کبھی اطراف دمشق کبھی غوطہ میں کبھی کسی محل میں اور کبھی وادیہ فضا میں ۔بس یوں ہی داد عیش دیتا رہا ،اور اپنی زندگی یوں ہی بسر کرتا رہا ۔ وہ محرمات کو حلال قرار دیتا شراب نوشی اس کے ہڈیوں میں رچی ہوئی تھی اور شریعت اسلام کو وہ مزاق اڑاتا پھرتا۔۔۔
اور حسین ابن علی کی دوستی جن حضرات سے تھی وہ عبداللہ بن عباس تھے ۔ اور عبداللہ بن عمر تھے ۔ یزید تو یوں ہی جوّا کھیلتا رہا ۔ اور تیرانداز کرتا رہا ۔ وہ تو شراب نوشی کرتا رہا۔اور حسین ابن علی مسجد نبوی کے ممبر میں حضور کے پہلو میں بیٹھتے رہے۔۔ زمانہ وہ منظر دیکھا ہے جب سرخ رنگ کے جوڑے پہنے ہوتے حسنین کریمین حجرہ فاطمہ سے نکلتے ہے کم عمر کی وجہ سے کبھی گرتے کبھی سمبھلتے کبھی ادھر کبھی ادھر اور آقا کریم خطبہ ارشاد فرمارہے ہے ۔ خطبہ چھوڑ کرحضور نے شہزادوں کو گود میں اٹھا لیا ،
وہ منظر بھی زمانہ نے دیکھا ہے کہ ، حضرت عبداللہ شداد کہتے ہے کہ حضور سجد میں تھے۔ سجدہ اتنا طویل ہوگیا ہمے لگا کے یا وحی کا نزول ہورہا ہے ۔ یا پھر اللہ کا حکم ہورہاہے۔ لیکن میں جب نظرے اٹھا کر ان آنکھوں سے دیکھا تو کیا منظر تھا ۔ حسین ابن علی حضور کی پشت پر بیٹھے ہے اور میرے آقا سجد کو طول دیں رہے ہے۔ حسنین کریمین کے لئے پیغمبر اپنے سجدہ کو طول دیں رہے ہے ۔ یہ سب دیکھ کر حضرت عمر کہتے ہے واہ واہ کتنی اچھی سواری ہے، تو آقاکریم کہتے ہے سواری دیکھتے ہو ذرا سوار کو بھی دیکھوں،
خیر سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا جسے اللہ اپنا مقرب بندہ بنالیتے ہے اور جو شخص اس چاشنی میں گر جاتاہے۔ جب تک اس چاشنے کا مزہ نہی ملتا جب تک وہ اللہ کے لئے لڑنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے ۔۔۔
ارشاد نبی ہے کہ : (افضل الجھاد من قال کلمۃ حق عند سلطان )سب سے بہتھرین جھاد وہ ہے کہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہیں ۔ اور خدا بہت کم ہی لوگ کو اس کی توفیق دیتا ہے۔۔
خیر کوفہ والوں نے آپ کی طرف بہت خطوط لکھیں اور عرض کیا آپ جلد سے کوفہ تشریف لائیں تاکہ ہم دست مبارک پر بیعت کریں ۔ اگر آپ تشریف نہ لائیں تو ہم کل قیامت میں خدا کے دربار میں پیش کریں گے کے ہم باطل میں تھے لیکن ہمیں حق کی طرف دعوت دینے والا کوئی نہیں تھا۔ امام عالی مقام جوش میں آجاتے ہے اور پختا عزم کرتے ہے اب کسی نہ کسی طریقہ سے جانا ہے اور باطل کا ڈٹ کے مقابلہ کرناہے۔
الفرض باطل کو اس کے ہستی سے مٹا نے کے لئے امام حسین اپنے اہل وعیال کے ہمراہ مکہ سے حرم کو پیش نظر رکھتے ہوے 8 ذواحجہ کو کوفہ کی طرف روانہ ہوے ،اور سفر طے کرتے ہوے 2 محوم الحرام کو پہنچے ،اور خیمہ لگا دیا بدبخت ظالم نے دنیا کی لالچ میں اہل بیت عظام سے جنگ کرنے پر اتر گیا ۔ دوسرا بیعت کرنےپر مجبور کیا آپ نے بیعت کرنے سے انکار کردیا ۔ اور وہ کیسے باطل کو اپنا سکتے تھے جن کی رگوں میں خاتون جنت فاطمہ وحضرت علی شیرخدا کا خون گردش کردہا ہوں وہ کیسے باطل پر بیعت کرسکتے ہے
الفرض جنگ کا آغاز ہوگیا : اہل بیت کے علاوہ جوجو بھی آپ کے ساتھ آتے تھے وہ ایک ایک کر کے شہادت کا جام نوش کرتے گيں ۔ پھر امام حسین کے صاحب زادے جو اٹھارہ سال کے نوجوان تھے ،اور ایک ایک کے سر کو قلم کرتے ہوے آگے بڑھے، حضرت علی اکبر اپنی شمشیر اسطرح سے چلانا شروع کردیے، جس طرح سے گاجر کاٹا جارہا ہو اور سپاہی دور دور تک چھٹنے لگے یہ ایمانی حرارت تھا ،خیر یزید نے تیرکی بارش شروع کردی جس سے اسلام کاچراغ دھیرے دھیرے بجھ نے لگا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔۔۔
اہل بیت نبوت کے افراد جب ایک ایک کر کے جام شھادت نوش کرتے گيں ۔ تو امام حسین نے میدان میں اپنا قدم جمایا ، ان کی بھادوری اور شجاعت دیکھ کر لشکرے یزید ڈر کر بھاگ نے لگے ۔
خیر آپ بہت دیر تک بدبختوں کا مقابلہ کر تے رہے ۔ بدبختوں نے ہر طرف سے تیروں کی بارش شروع کردی، آپ کا ہر اعضاء انور جسم و اطہر تیر سے زخم ہوگیا ۔ آپ اپنی سواری روح ارض کی طرف بڑھ گیں ۔اور آپ کی روح پرواز کر گی . اس عنوان پر اگر اور بھی لکھتا جاؤں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ قلم کی سیاہی کی جگہ خون بہنے لگ جايں ۔
اللہ سے دعاء ہے کہ اللہ ہمے اہل بیت کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا فرماۓ۔ اور عصر حاضر کے تمام نوجوانو کو اس واقعہ سے ایمان تازہ کر نے کی توفیق عطاء فرماۓ۔
ازقلم:محمد ابوسیف صدیقی
طالب : جامعہ دارالھدی اسلامیہ