Memories and Hopes - 1 in Urdu Love Stories by Abu Shaydad books and stories PDF | یادیں اور امیدیں - 1

Featured Books
  • یادیں اور امیدیں - 2

      یادیں اور امیدیںتحریر۔ ابوشہداد یہ کہانی ایک ایسی عورت کے...

  • یادیں اور امیدیں - 1

     تحریر۔ ابوشہداد یہ کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے جو...

  • پیارا پیغام

    بدلتا ہوا موسم خوشگوار بدلتا ہوا موسم ایک خوبصورت پیغام لے ک...

  • پرانی کتاب

    تیری یادیں۔ تنہائی میں یادیں اکثر آپ کے دل کو بہلاتی ہیں۔ بے...

  • ٹوٹا ہوا دل

    ٹوٹا ہوا دل   زندگی ایک حسین اور پیچیدہ سفر ہے، جس میں خوشیو...

Categories
Share

یادیں اور امیدیں - 1

 
تحریر۔ ابوشہداد

یہ کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے جو اپنی زندگی کے کچھ اہم حصوں کو کھو چکی ہے، یا شاید وقت کے دھند میں انہیں بھلا بیٹھی ہے۔ یہ "گمشدہ حصے" علامتی طور پر اس کے ماضی کے تجربات، یادوں، یا شاید اس کے اپنے وجود کے ان پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں وہ نظر انداز کر چکی ہے۔ اچانک اس کی ملاقات  ایک بزرگ ہوتی ہے وہ  بزرگ  اس کی مدد کرتے ہیں، اور روحانی علاج کے بعد، اس کے اندر ایک گہری تبدیلی آتی ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف اس کی زندگی کو بدل دیتی ہے، بلکہ کہانی کو بھی ایک نئی سمت دیتی ہے۔

قسط ۱

کہانی کا آغاز ایک تیز دھوپ اور چمکتی دوپہر سے ہوتا ہے، جب ایک ٹیکسی عورتوں کی مشہور کپڑے مارکیٹ کے سامنے رُکتی ہے۔ اس سے ایک ۲۵ سے ۳۰ سال کی جوان عورت، جس کے چہرے پر ایک پراسرار سی گہری چھاپ ہے، باوقار انداز میں باہر قدم رکھتی ہے۔ وہ ڈرائیور کو رقم ادا کرتی ہے، اور پھر تیزی سے بازار کے ہلچل بھرے راستوں میں گم ہو جاتی ہے، جیسے کوئی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی ہو۔

وہ عورت مختلف دکانوں کو غور سے دیکھتی ہوئی، گلی کے کونے پر واقع ایک چھوٹی سی دکان میں داخل ہوتی ہے۔ دکان کے اندر، ایک نوجوان دکاندار، جس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں تجسس ہے، اس کا استقبال کرتا ہے۔ وہ ادب سے جھک کر پوچھتا ہے، "کیا میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں؟" اس کی آواز میں نرمی اور توجہ کا احساس ہے۔

وہ عورت ایک کرسی پر بیٹھتی ہے، جیسے اس کے پاس وقت کی کوئی قید نہیں۔ وہ اپنی چادر کے پلوں میں سے ایک باریک تیلی نکالتی ہے، جس پر ایک مخصوص رنگ کی جھلک ہے۔ نوجوان دکاندار کی طرف دیکھتے ہوئے، وہ واضح اور ٹھوس لہجے میں کہتی ہے، "مجھے بالکل اسی رنگ کے دوپٹے چاہئیں۔" نوجوان تیلی کو احتیاط سے لیتا ہے، جیسے یہ کوئی قیمتی خزانہ ہو، اور دکان کے کونے کونے میں موجود کپڑوں کے ڈھیروں میں سے ہم رنگ تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔

اسی دوران، ایک بزرگ شخص، جس کے چہرے پر عمر کے نشانات اور آنکھوں میں ایک پراسرار چمک ہے، دکان میں داخل ہوتا ہے۔ وہ سلام کرتا ہے، اور خاموشی سے کیش کاؤنٹر کے پاس بیٹھ جاتا ہے، جیسے وہ کسی انتظار میں ہو۔ اس کی موجودگی دکان کے ماحول میں ایک نئی پراسراریت بھر دیتی ہے۔

بزرگ سب سے بے نیاز ہو کر اپنی تسبیح پڑھتا رہتا ہے اور کچھ دیر بعد ایک نظر عورت پر ڈال کر دوبارہ سر نیچے کر کے  تسبیح  جاری رکھتا ہے مگر ایک لمحے کے بعد چونک جاتا ہے بزرگ اپنی تسبیح پڑھتے ہوئے پھر عورت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ وہ عورت کے چہرے اور اس کے رویے سے اس کی پریشانی کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس کی یہ بصیرت اس کے روحانی تجربے اور انسانوں کو سمجھنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہےبزرگ نے اپنی تسبیح کے دانوں کو تھامے ہوئے ایک گہری سانس لی اور عورت کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک پراسرار چمک تھی، جیسے وہ عورت کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کے رازوں کو پڑھ رہا ہو۔ اس نے نرمی سے  کہا۔  بیٹی ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟

عورت نے سر اٹھایا اور بزرگ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی تھی، جیسے وہ کسی اندرونی جنگ میں الجھی ہوئی ہو۔ اس نے ہلکے سے سر ہلایا اور بولی،
"جی بلکل۔"
بزرگ نے اپنی آواز میں نرمی اور ہمدردی پیدا کی، جیسے کوئی شفیق باپ اپنی بیٹی کے درد کو سمجھ رہا ہو۔ اس کے لہجے میں ایک ایسی مٹھاس تھی جو دل کو چھو جاتی تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک گہری تسلی تھی، جیسے وہ عورت کے اندر کے طوفان کو سمجھ رہا ہو۔ اس نے آہستہ سے کہا، "بیٹی، آپ کو کس بات سے پریشانی ہے؟"
اس کی آواز میں ایسی تاثیر تھی کہ عورت کا دل کرنے لگا کہ وہ اپنا سب کچھ کہہ دے، اپنے دل کا ہر بوجھ ہلکا کر دے۔ مگر پھر بھی، اس کے لبوں پر لرزش تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک خوف تھا، جیسے وہ اپنے رازوں کو کھولنے سے ڈر رہی ہو۔
عورت نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر بولی، "کوئی پریشانی نہیں ہے۔" مگر اس کی آواز میں لرزش تھی، اور اس کے لہجے میں وہ جھوٹ جھلک رہا تھا جو وہ خود اپنے آپ سے بھی چھپا نہیں پا رہی تھی۔حالانکہ وہ جانتی تھی کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے، مگر اس کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ اپنی پریشانی کو بیان کر سکے۔یہ اس کی اندرونی کشمکش اور شرمندگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ببزرگ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، جیسے وہ اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہو۔  اور اپنی آواز کو مزید نرم کرتے ہوئے کہا، "بیٹی، میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے دل پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ اگر آپ اسے مجھ پر ظاہر کریں، تو انشاء اللہ آپ کو سکون ملے گا۔"
بزرگ کی آواز میں نرمی اور ہمدردی صرف الفاظ نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی روحانی طاقت تھی جو عورت کے دل کو چھو رہی تھی۔ اس کا لہجہ، اس کی آنکھوں کی چمک، اور اس کے الفاظ سب مل کر عورت کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ وہ ایک محفوظ جگہ پر ہے، جہاں اس کی پریشانیوں کو سنا جائے گا اور ان کا حل تلاش کیا جائے گا۔
۔"
عورت نے ایک لمحے کے لیے بزرگ کی طرف دیکھا، جیسے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تیار ہو، مگر پھر اس کی نظر نوجوان دکاندار کی طرف گئی، جو کونے میں کھڑا تھا۔ اس نے ہچکچاہٹ محسوس کی اور خاموش ہو گئی۔ کیونکہ وہ نوجوان دکاندار کی موجودگی کی وجہ سے اپنے دل کی بات کہنے سے گریز کرتی ہے۔
3. عورت نے ایک لمحے کے لیے بزرگ کی طرف دیکھا، جیسے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تیار ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ اپنے اندر کے طوفان کو باہر نکالنے کے لیے بے تاب ہو۔ مگر پھر اس کی نظر نوجوان دکاندار کی طرف گئی، جو کونے میں خاموشی سے کھڑا تھا۔ اس کی موجودگی نے عورت کے دل میں ایک نئی رکاوٹ کھڑی کر دی۔
اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی لہر دوڑ گئی، جیسے وہ اپنے آپ سے لڑ رہی ہو۔ اس کے ہونٹوں پر لرزش تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک خوف تھا، جیسے وہ اپنے رازوں کو کھولنے سے ڈر رہی ہو۔ وہ جانتا تھا کہ نوجوان دکاندار کی موجودگی میں وہ اپنی پریشانی کو بیان نہیں کر سکتی۔ اس کی ہچکچاہٹ اس کے چہرے پر عیاں تھی، جیسے وہ اپنے دل کی بات کہنے کے لیے تیار ہو، مگر کسی نادیدہ طاقت نے اس کے منہ پر تالا ڈال دیا ہو۔

بزرگ نے اس کی ہچکچاہٹ کو محسوس کیا۔ وہ جانتا تھا کہ عورت کو اپنی بات کہنے کے لیے پرائیویسی چاہیے۔ اس نے نوجوان دکاندار کی طرف دیکھا اور نرمی سے کہا، "جنید بیٹا، تم جا کر نماز پڑھو اور کھانا کھا لو۔"

نوجوان نے سر ہلایا اور عورت کے کپڑے اسے واپس کر کے دکان سے باہر نکل گیا۔ اب دکان میں صرف بزرگ اور عورت تھے، اور ایک گہری خاموشی تھی جو دونوں کے درمیان فاصلے کو کم کر رہی تھی


نوجوان کے دکان سے نکل جانے کے بعد، بزرگ نے عورت کی طرف دیکھا اور نرمی سے کہا، "بیٹی، آپ کیش کاؤنٹر کے پاس کرسی پر بیٹھ جائیں۔"

عورت نے ہلکے سے سر ہلایا اور کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اردگرد کا جائزہ لیا، جیسے وہ یقین کرنا چاہتی ہو کہ اب کوئی ان کی بات نہیں سن رہا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی تھی، جیسے وہ اپنے دل کے رازوں کو کھولنے سے پہلے ایک آخری بار یقین کرنا چاہتی ہو کہ وہ محفوظ ہے۔ جب وہ پوری طرح مطمئن ہو گئی، تو اس نے ایک گہری سانس لی اور بزرگ کی طرف دیکھا۔

بزرگ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، جیسے وہ اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہو۔ اس نے نرمی سے کہا، "بیٹی، اب آپ آرام سے اپنی بات کہہ سکتی ہیں۔"

عورت نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر اپنی آواز میں لرزش کے ساتھ بولی، "مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اپنی زندگی کا ایک حصہ بھول چکی ہوں۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ میری پہلی شادی کب ہوئی تھی، یا وہ کون تھا۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میری بیٹی کا باپ کون ہے۔ میں نے یا کسی اور نے کبھی نہیں کہا، مگر پھر بھی میری بیٹی میرے شوہر کو اپنا باپ تسلیم نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہے کہ یہ گھر ہمارا نہیں ہے، اور نہ ہی یہاں کے لوگ ہمارے ہیں۔"

اس کی آواز میں ایک درد تھا، جیسے وہ اپنے اندر کے زخموں کو چھو رہی ہو۔ وہ رک گئی، جیسے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو، پھر بولی، "جب میں اپنے لوگوں سے اپنی پہلی شادی کے بارے میں پوچھتی ہوں، تو وہ مجھے جواب دیتے ہیں کہ پرانی باتیں بھول جاؤ، اور نئی یادیں بناؤ۔ مگر میں کیسے بھول سکتی ہوں؟ میرے اندر ایک خلا ہے، جو مجھے ہر وقت کھائے جا رہا ہے۔"

عورت اپنے ماضی کے بارے میں الجھن میں ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ اس کی یادداشت کیوں غائب ہو گئی ہے، اور وہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں اس کی بیٹی کو مستقبل میں کوئی تکلیف نہ ہو۔

اُس نے ایک گہری سانس لی، جیسے اپنے دل کے اندر چھپے ہوئے خوف کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ اپنے ماضی کے اندھیروں میں گم ہو رہی ہو۔ اس نے آہستہ سے کہا، "میں سوچتی ہوں، کیا میرے پہلے شوہر نے میرے اوپر جسمانی تشدد کیا تھا، جس سے میری یادداشت چلی گئی ہے؟ مگر نہ میرے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں، اور نہ ہی کوئی میڈیکل ہسٹری۔"

اس کی آواز میں ایک بے بسی تھی، جیسے وہ اپنے آپ سے سوال کر رہی ہو کہ آخر ہوا کیا تھا۔ وہ رک گئی، جیسے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو، پھر بولی، "میں یہ سوچ کر پریشان ہوتی ہوں کہ اگر میری بیٹی جوان ہو کر اپنی کسی سوتیلی بھائی سے ملے اور..."

وہ رک گئی، جیسے اس کے الفاظ اس کے گلے میں پھنس گئے ہوں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے، اور اس کے ہونٹوں پر لرزش تھی۔ وہ وہ بات نہیں کہہ سکی جو اس کے ذہن میں تھی، مگر اس کی خاموشی ہی سب کچھ کہہ رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، جیسے اپنے آپ کو ایک دردناک خیال سے بچانے کی کوشش کر رہی ہو۔

پھر اس نے آہستہ سے کہا، "قیامت کے دن، اللہ تعالیٰ کے روبرو میں کیسے کھڑی رہوں گی؟"

یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی، جیسے اس کے دل کا ہر لفظ کہہ چکی ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اور اس کے چہرے پر ایک گہرا دکھ تھا، جیسے وہ اپنے اندر کے طوفان کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو۔

کیا عورت کی بے یقینی سے ختم ہوسکتی ہے؟۔ کیا واقعی اُس کے سوالوں کے جواب ملنے کے امکانات ہیں؟ کیا وہ اپنے گمشدہ ماضی کو واپس پا سکتی تھی؟ کیا بزرگ کی روحانی کرامات کچھ کام کرسکتے ہیں؟ اگلی قسط ضرور پڑھ لینا۔