Memories and Hopes - 2 in Urdu Love Stories by Abu Shaydad books and stories PDF | یادیں اور امیدیں - 2

Featured Books
  • یادیں اور امیدیں - 2

      یادیں اور امیدیںتحریر۔ ابوشہداد یہ کہانی ایک ایسی عورت کے...

  • یادیں اور امیدیں - 1

     تحریر۔ ابوشہداد یہ کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے جو...

  • پیارا پیغام

    بدلتا ہوا موسم خوشگوار بدلتا ہوا موسم ایک خوبصورت پیغام لے ک...

  • پرانی کتاب

    تیری یادیں۔ تنہائی میں یادیں اکثر آپ کے دل کو بہلاتی ہیں۔ بے...

  • ٹوٹا ہوا دل

    ٹوٹا ہوا دل   زندگی ایک حسین اور پیچیدہ سفر ہے، جس میں خوشیو...

Categories
Share

یادیں اور امیدیں - 2

 

یادیں اور امیدیں
تحریر۔ ابوشہداد

یہ کہانی ایک ایسی عورت کے گرد گھومتی ہے جو اپنی زندگی کے کچھ اہم حصوں کو کھو چکی ہے، یا شاید وقت کے دھند میں انہیں بھلا بیٹھی ہے۔ یہ "گمشدہ حصے" علامتی طور پر اس کے ماضی کے تجربات، یادوں، یا شاید اس کے اپنے وجود کے ان پہلوؤں کی نمائندگی کرتے ہیں جنہیں وہ نظر انداز کر چکی ہے۔ اچانک اس کی ملاقات  ایک بزرگ ہوتی ہے وہ  بزرگ  اس کی مدد کرتے ہیں، اور روحانی علاج کے بعد، اس کے اندر ایک گہری تبدیلی آتی ہے۔ یہ تبدیلی نہ صرف اس کی زندگی کو بدل دیتی ہے، بلکہ کہانی کو بھی ایک نئی سمت دیتی ہے۔

قسط ۱

کہانی کا آغاز ایک تیز دھوپ اور چمکتی دوپہر سے ہوتا ہے، جب ایک ٹیکسی عورتوں کی مشہور کپڑے مارکیٹ کے سامنے رُکتی ہے۔ اس سے ایک ۲۵ سے ۳۰ سال کی جوان عورت، جس کے چہرے پر ایک پراسرار سی گہری چھاپ ہے، باوقار انداز میں باہر قدم رکھتی ہے۔ وہ ڈرائیور کو رقم ادا کرتی ہے، اور پھر تیزی سے بازار کے ہلچل بھرے راستوں میں گم ہو جاتی ہے، جیسے کوئی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی ہو۔

وہ عورت مختلف دکانوں کو غور سے دیکھتی ہوئی، گلی کے کونے پر واقع ایک چھوٹی سی دکان میں داخل ہوتی ہے۔ دکان کے اندر، ایک نوجوان دکاندار، جس کے چہرے پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں تجسس ہے، اس کا استقبال کرتا ہے۔ وہ ادب سے جھک کر پوچھتا ہے، "کیا میں آپ کی کوئی خدمت کر سکتا ہوں؟" اس کی آواز میں نرمی اور توجہ کا احساس ہے۔

وہ عورت ایک کرسی پر بیٹھتی ہے، جیسے اس کے پاس وقت کی کوئی قید نہیں۔ وہ اپنی چادر کے پلوں میں سے ایک باریک تیلی نکالتی ہے، جس پر ایک مخصوص رنگ کی جھلک ہے۔ نوجوان دکاندار کی طرف دیکھتے ہوئے، وہ واضح اور ٹھوس لہجے میں کہتی ہے، "مجھے بالکل اسی رنگ کے دوپٹے چاہئیں۔" نوجوان تیلی کو احتیاط سے لیتا ہے، جیسے یہ کوئی قیمتی خزانہ ہو، اور دکان کے کونے کونے میں موجود کپڑوں کے ڈھیروں میں سے ہم رنگ تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔

اسی دوران، ایک بزرگ شخص، جس کے چہرے پر عمر کے نشانات اور آنکھوں میں ایک پراسرار چمک ہے، دکان میں داخل ہوتا ہے۔ وہ سلام کرتا ہے، اور خاموشی سے کیش کاؤنٹر کے پاس بیٹھ جاتا ہے، جیسے وہ کسی انتظار میں ہو۔ اس کی موجودگی دکان کے ماحول میں ایک نئی پراسراریت بھر دیتی ہے۔

بزرگ سب سے بے نیاز ہو کر اپنی تسبیح پڑھتا رہتا ہے اور کچھ دیر بعد ایک نظر عورت پر ڈال کر دوبارہ سر نیچے کر کے  تسبیح  جاری رکھتا ہے مگر ایک لمحے کے بعد چونک جاتا ہے بزرگ اپنی تسبیح پڑھتے ہوئے پھر عورت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ وہ عورت کے چہرے اور اس کے رویے سے اس کی پریشانی کو محسوس کر لیتا ہے۔ اس کی یہ بصیرت اس کے روحانی تجربے اور انسانوں کو سمجھنے کی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہےبزرگ نے اپنی تسبیح کے دانوں کو تھامے ہوئے ایک گہری سانس لی اور عورت کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک پراسرار چمک تھی، جیسے وہ عورت کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کے رازوں کو پڑھ رہا ہو۔ اس نے نرمی سے  کہا۔  بیٹی ایک بات پوچھ سکتا ہوں؟

عورت نے سر اٹھایا اور بزرگ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی تھی، جیسے وہ کسی اندرونی جنگ میں الجھی ہوئی ہو۔ اس نے ہلکے سے سر ہلایا اور بولی،
"جی بلکل۔"
بزرگ نے اپنی آواز میں نرمی اور ہمدردی پیدا کی، جیسے کوئی شفیق باپ اپنی بیٹی کے درد کو سمجھ رہا ہو۔ اس کے لہجے میں ایک ایسی مٹھاس تھی جو دل کو چھو جاتی تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک گہری تسلی تھی، جیسے وہ عورت کے اندر کے طوفان کو سمجھ رہا ہو۔ اس نے آہستہ سے کہا، "بیٹی، آپ کو کس بات سے پریشانی ہے؟"
اس کی آواز میں ایسی تاثیر تھی کہ عورت کا دل کرنے لگا کہ وہ اپنا سب کچھ کہہ دے، اپنے دل کا ہر بوجھ ہلکا کر دے۔ مگر پھر بھی، اس کے لبوں پر لرزش تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک خوف تھا، جیسے وہ اپنے رازوں کو کھولنے سے ڈر رہی ہو۔
عورت نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر بولی، "کوئی پریشانی نہیں ہے۔" مگر اس کی آواز میں لرزش تھی، اور اس کے لہجے میں وہ جھوٹ جھلک رہا تھا جو وہ خود اپنے آپ سے بھی چھپا نہیں پا رہی تھی۔حالانکہ وہ جانتی تھی کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے، مگر اس کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ وہ اپنی پریشانی کو بیان کر سکے۔یہ اس کی اندرونی کشمکش اور شرمندگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ببزرگ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، جیسے وہ اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہو۔  اور اپنی آواز کو مزید نرم کرتے ہوئے کہا، "بیٹی، میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے دل پر ایک بہت بڑا بوجھ ہے۔ اگر آپ اسے مجھ پر ظاہر کریں، تو انشاء اللہ آپ کو سکون ملے گا۔"
بزرگ کی آواز میں نرمی اور ہمدردی صرف الفاظ نہیں تھی، بلکہ ایک ایسی روحانی طاقت تھی جو عورت کے دل کو چھو رہی تھی۔ اس کا لہجہ، اس کی آنکھوں کی چمک، اور اس کے الفاظ سب مل کر عورت کو یہ یقین دلا رہے تھے کہ وہ ایک محفوظ جگہ پر ہے، جہاں اس کی پریشانیوں کو سنا جائے گا اور ان کا حل تلاش کیا جائے گا۔
۔"
عورت نے ایک لمحے کے لیے بزرگ کی طرف دیکھا، جیسے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تیار ہو، مگر پھر اس کی نظر نوجوان دکاندار کی طرف گئی، جو کونے میں کھڑا تھا۔ اس نے ہچکچاہٹ محسوس کی اور خاموش ہو گئی۔ کیونکہ وہ نوجوان دکاندار کی موجودگی کی وجہ سے اپنے دل کی بات کہنے سے گریز کرتی ہے۔
3. عورت نے ایک لمحے کے لیے بزرگ کی طرف دیکھا، جیسے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے تیار ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ اپنے اندر کے طوفان کو باہر نکالنے کے لیے بے تاب ہو۔ مگر پھر اس کی نظر نوجوان دکاندار کی طرف گئی، جو کونے میں خاموشی سے کھڑا تھا۔ اس کی موجودگی نے عورت کے دل میں ایک نئی رکاوٹ کھڑی کر دی۔
اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی لہر دوڑ گئی، جیسے وہ اپنے آپ سے لڑ رہی ہو۔ اس کے ہونٹوں پر لرزش تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک خوف تھا، جیسے وہ اپنے رازوں کو کھولنے سے ڈر رہی ہو۔ وہ جانتا تھا کہ نوجوان دکاندار کی موجودگی میں وہ اپنی پریشانی کو بیان نہیں کر سکتی۔ اس کی ہچکچاہٹ اس کے چہرے پر عیاں تھی، جیسے وہ اپنے دل کی بات کہنے کے لیے تیار ہو، مگر کسی نادیدہ طاقت نے اس کے منہ پر تالا ڈال دیا ہو۔

بزرگ نے اس کی ہچکچاہٹ کو محسوس کیا۔ وہ جانتا تھا کہ عورت کو اپنی بات کہنے کے لیے پرائیویسی چاہیے۔ اس نے نوجوان دکاندار کی طرف دیکھا اور نرمی سے کہا، "جنید بیٹا، تم جا کر نماز پڑھو اور کھانا کھا لو۔"

نوجوان نے سر ہلایا اور عورت کے کپڑے اسے واپس کر کے دکان سے باہر نکل گیا۔ اب دکان میں صرف بزرگ اور عورت تھے، اور ایک گہری خاموشی تھی جو دونوں کے درمیان فاصلے کو کم کر رہی تھی


نوجوان کے دکان سے نکل جانے کے بعد، بزرگ نے عورت کی طرف دیکھا اور نرمی سے کہا، "بیٹی، آپ کیش کاؤنٹر کے پاس کرسی پر بیٹھ جائیں۔"

عورت نے ہلکے سے سر ہلایا اور کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اردگرد کا جائزہ لیا، جیسے وہ یقین کرنا چاہتی ہو کہ اب کوئی ان کی بات نہیں سن رہا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی بے چینی تھی، جیسے وہ اپنے دل کے رازوں کو کھولنے سے پہلے ایک آخری بار یقین کرنا چاہتی ہو کہ وہ محفوظ ہے۔ جب وہ پوری طرح مطمئن ہو گئی، تو اس نے ایک گہری سانس لی اور بزرگ کی طرف دیکھا۔

بزرگ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، جیسے وہ اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہو۔ اس نے نرمی سے کہا، "بیٹی، اب آپ آرام سے اپنی بات کہہ سکتی ہیں۔"

عورت نے ایک لمحے کے لیے سوچا، پھر اپنی آواز میں لرزش کے ساتھ بولی، "مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اپنی زندگی کا ایک حصہ بھول چکی ہوں۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ میری پہلی شادی کب ہوئی تھی، یا وہ کون تھا۔ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میری بیٹی کا باپ کون ہے۔ میں نے یا کسی اور نے کبھی نہیں کہا، مگر پھر بھی میری بیٹی میرے شوہر کو اپنا باپ تسلیم نہیں کرتی۔ وہ کہتی ہے کہ یہ گھر ہمارا نہیں ہے، اور نہ ہی یہاں کے لوگ ہمارے ہیں۔"

اس کی آواز میں ایک درد تھا، جیسے وہ اپنے اندر کے زخموں کو چھو رہی ہو۔ وہ رک گئی، جیسے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو، پھر بولی، "جب میں اپنے لوگوں سے اپنی پہلی شادی کے بارے میں پوچھتی ہوں، تو وہ مجھے جواب دیتے ہیں کہ پرانی باتیں بھول جاؤ، اور نئی یادیں بناؤ۔ مگر میں کیسے بھول سکتی ہوں؟ میرے اندر ایک خلا ہے، جو مجھے ہر وقت کھائے جا رہا ہے۔"

عورت اپنے ماضی کے بارے میں الجھن میں ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ اس کی یادداشت کیوں غائب ہو گئی ہے، اور وہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ کہیں اس کی بیٹی کو مستقبل میں کوئی تکلیف نہ ہو۔

اُس نے ایک گہری سانس لی، جیسے اپنے دل کے اندر چھپے ہوئے خوف کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہی ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ اپنے ماضی کے اندھیروں میں گم ہو رہی ہو۔ اس نے آہستہ سے کہا، "میں سوچتی ہوں، کیا میرے پہلے شوہر نے میرے اوپر جسمانی تشدد کیا تھا، جس سے میری یادداشت چلی گئی ہے؟ مگر نہ میرے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں، اور نہ ہی کوئی میڈیکل ہسٹری۔"

اس کی آواز میں ایک بے بسی تھی، جیسے وہ اپنے آپ سے سوال کر رہی ہو کہ آخر ہوا کیا تھا۔ وہ رک گئی، جیسے اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہو، پھر بولی، "میں یہ سوچ کر پریشان ہوتی ہوں کہ اگر میری بیٹی جوان ہو کر اپنی کسی سوتیلی بھائی سے ملے اور..."

وہ رک گئی، جیسے اس کے الفاظ اس کے گلے میں پھنس گئے ہوں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے، اور اس کے ہونٹوں پر لرزش تھی۔ وہ وہ بات نہیں کہہ سکی جو اس کے ذہن میں تھی، مگر اس کی خاموشی ہی سب کچھ کہہ رہی تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں، جیسے اپنے آپ کو ایک دردناک خیال سے بچانے کی کوشش کر رہی ہو۔

پھر اس نے آہستہ سے کہا، "قیامت کے دن، اللہ تعالیٰ کے روبرو میں کیسے کھڑی رہوں گی؟"

یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی، جیسے اس کے دل کا ہر لفظ کہہ چکی ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اور اس کے چہرے پر ایک گہرا دکھ تھا، جیسے وہ اپنے اندر کے طوفان کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو۔

کیا عورت کی بے یقینی سے ختم ہوسکتی ہے؟۔ کیا واقعی اُس کے سوالوں کے جواب ملنے کے امکانات ہیں؟ کیا وہ اپنے گمشدہ ماضی کو واپس پا سکتی تھی؟ کیا بزرگ کی روحانی کرامات کچھ کام کرسکتے ہیں؟ اگلی قسط ضرور پڑھ لینا۔

 

 

 

 

قسط ۲

بزرگ نے عورت کی آنکھوں میں چھپے درد کو محسوس کیا اور نرمی سے کہا، "اللہ تعالیٰ آپ کو جلد اس پریشانی سے دور فرمائے۔" اس کے الفاظ میں ایک ایسی طاقت تھی جو عورت کے دل کو تسلی دیتی تھی، جیسے وہ اس کے اندر کے طوفان کو تھام لے۔ اس کی آواز میں ایک ایسی مٹھاس تھی جو دل کو چھو جاتی تھی، اور اس کی آنکھوں میں ایک گہری تسلی تھی، جیسے وہ عورت کے اندر کے خوف کو سمجھ رہا ہو۔

پھر بزرگ نے عورت کی طرف دیکھا اور پوچھا، "بیٹی، کیا آپ کے پاس پانی کی بوتل ہے؟"

عورت نے ہاں میں سر ہلایا، جیسے بزرگ کے ہر حکم کو بغیر کسی سوال کے ماننے کے لیے تیار ہو۔ اس نے اپنی بیک سے ایک پانی کی بوتل نکالی، جو آدھی بھری ہوئی تھی۔ بوتل کو دیکھ کر عورت کے ہاتھوں میں ایک ہلکی سی لرزش تھی، جیسے وہ کسی بڑے عمل کے لیے تیار ہو رہی ہو۔

بزرگ نے نرمی سے کہا، "بیٹی، بوتل کا ڈکن ہٹا دو اور اسے اپنے سامنے رکھو۔"

بزرگ کے الفاظ اور ہدایات میں ایک ایسی روحانی طاقت تھی جو عورت کو یقین دلاتی تھی کہ اس کی پریشانی کا حل قریب ہے۔ اس کا لہجہ نرم تھا، مگر اس میں ایک ایسی تاثیر تھی جو دل کو چھو جاتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک گہری بصیرت تھی، جیسے وہ عورت کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہو۔

عورت نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بوتل کا ڈکن ہٹا دیا اور اسے اپنے سامنے رکھ دیا۔عورت نے بزرگ کے ہر حکم کو بغیر کسی سوال کے مان لیا، جو اس کے بزرگ کے ساتھ اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ بزرگ اس کی مدد کرنے کے لیے ہیں۔ اس کا یہ اعتماد بزرگ کی روحانی طاقت اور اس کے کردار کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے ہاتھوں میں ایک ہلکی سی لرزش تھی، جیسے وہ کسی بڑے عمل کے لیے تیار ہو رہی ہو۔ بوتل کے سامنے رکھتے ہوئے، اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی، جیسے وہ کسی روحانی تجربے کے لیے تیار ہو رہی ہو۔

بزرگ نے عورت کی طرف گہری نظر سے دیکھا، جیسے وہ اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر کر اس کی تکلیف کو محسوس کر رہا ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک پراسرار چمک تھی، جیسے وہ کسی روحانی طاقت سے جڑا ہوا ہو۔ اس نے اپنی آواز میں نرمی اور طاقت بھر کر کہا، "میری بات غور سے سنو۔"

عورت نے سر ہلایا، جیسے وہ بزرگ کے ہر لفظ کو توجہ سے سننے کے لیے تیار ہو۔ بزرگ نے واضح اور ٹھوس لہجے میں ہدایات جاری کیں:

"سات بار 'بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ' پڑھو۔ سات بار درود شریف پڑھو۔ ایک بار سورہ فاتحہ پڑھو، اور چاروں قل پڑھو۔ پھر مجھے سر کا اشارہ کرو۔ میں ایک آیت پڑھوں گا، اور تم میرے ساتھ اس آیت کو پڑھنا۔ اس کے بعد بوتل پر دم کرو، اور ایک سانس میں بوتل کا سارا پانی پی جاؤ۔ پھر اپنی آنکھیں بند کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ سارے پردے ہٹا دے۔"

بزرگ نے ایک لمحے کے لیے رک کر عورت کی طرف دیکھا، جیسے وہ یقین کرنا چاہتا ہو کہ وہ اس کی ہدایات کو سمجھ چکی ہے۔ پھر اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا، "کیا آپ میری ساری بات سمجھ گئی ہو؟"

عورت نے مختصر جواب دیا، "جی۔"

اس کے لہجے میں ایک عجیب سی طمانیت تھی، جیسے وہ بزرگ کے ہر لفظ پر یقین رکھتی ہو۔ اس کی آنکھوں میں ایک عزم تھا، جیسے وہ اپنی پریشانیوں سے نجات پانے کے لیے تیار ہو۔

 

 قرآنی آیتیں پڑھے ہر لفظ اس کے دل میں اتر رہا تھا، جیسے وہ اپنے اندر کے بوجھ کو ہلکا کر رہی ہو۔ جب وہ بزرگ کے بتائے ہوئے عمل کو مکمل کر چکی، تو اس نے سر ہلایا، جیسے وہ بزرگ کو اشارہ دے رہی ہو کہ وہ تیار ہے۔

بزرگ نے عورت کے سر کے اشارے کو دیکھا اور آیت پڑھنا شروع کیا۔ عورت نے بھی بزرگ کے ساتھ آیت کو دہرایا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سی طاقت تھی، جیسے وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے اللہ سے مدد مانگ رہی ہو۔

آیت پڑھنے کے بعد، عورت نے بوتل پر دم کیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی لرزش تھی، جیسے وہ اپنے دل کے ہر لفظ کو بوتل میں منتقل کر رہی ہو۔ پھر اس نے ایک سانس میں بوتل کا سارا پانی پی لیا۔ پانی کے ہر قطرے کے ساتھ، اسے ایسا لگا جیسے اس کے اندر کا بوجھ ہلکا ہو رہا ہو۔

اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اس کی دعا میں ایک عجیب سی گہرائی تھی، جیسے وہ اپنے دل کا ہر راز اللہ کے سامنے رکھ رہی ہو۔ اس نے اللہ سے مانگا کہ وہ اس کے سارے پردے ہٹا دے، اور اسے سچائی تک پہنچائے۔

جب اس نے آنکھیں کھولیں، تو اسے ایسا لگا جیسے اس کے اوپر سے ایک بہت بڑا وزن اٹھ گیا ہو۔ اس کا دل ہلکا تھا، اور اس کے چہرے پر ایک عجیب سی روشنی تھی، جیسے وہ ایک نئی زندگی میں داخل ہو گئی ہو۔

اس نے بزرگ کی طرف دیکھا اور حیرت سے پوچھا، "یہ مجھے کیا ہو گیا تھا؟"

بزرگ نے اپنی آنکھوں میں ایک گہری چمک کے ساتھ جواب دیا، آپ کے اوپر کالا جادو کیا گیا تھا، جو بہت طاقتور تھا۔ مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کتاب کی آیات کے سامنے سامری اور اس کی طاقت کی کیا مجال؟

عورت کی آنکھوں میں ایک اور سوال چمکا۔ اس نے پوچھا، "میرے اوپر یہ جادو کس نے اور کیوں کیا؟"

بزرگ نے نرمی سے مسکرا کر کہا، "ان شاء اللہ، جلد ہی آپ کو سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ ابھی آپ سیدھا گھر جائیں، مکمل غسل کریں، اور دو رکعت شکرانہ کی نماز پڑھ لیں۔ اور جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ سارے پردے ہٹا دے گا، تو اپنی حیثیت کے مطابق غریبوں کو کھانا کھلائیں۔ یہ خریداری پھر کسی اور دن کر لینا۔"

.  بزرگ کی آواز میں ایک گہری حکمت تھی، جو عورت کے دل میں سکون اور اطمینان کی لہر پیدا کر رہی تھی۔ ان الفاظ میں ایک ایسی طاقت تھی جو اسے اس کی پریشانیوں سے آزاد کرنے کے لئے کافی تھی۔

عورت مزید کچھ پوچھنا چاہتی تھی، لیکن بزرگ نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا۔ اس کے اشارے میں ایک ایسی طاقت تھی جو عورت کو خاموش کرنے کے لیے کافی تھی۔ عورت نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا، اپنی تھیلی اٹھائی، اور دکان سے باہر نکل گئی۔

 

کیا بالآخر راز فاش ہوگا؟ کیا عورت پر یہ ظلم اپنوں نے ڈھایا، یا کسی غیر کی سازش تھی؟

وہ کون تھا جس نے اس کی زندگی کو تاراج کیا؟ کیسے ان کے درمیان جدائی کی تلخ داستان رقم ہوئی؟کیا وقت کے دھند میں گمشدہ یادیں پھر سے روشن ہو پائیں گی؟ کیا بزرگ کی روحانی بصیرت اس معمہ کو حل کر سکتی ہے؟

جاننے کے لیے اگلی قسط کا انتظار کیجیے

 

قسط ۳

عورت کا گھر ایک سادہ مگر صاف ستھرا تھا، جس میں معمولی سا فرنیچر رکھا ہوا تھا، لیکن اس کی سادگی میں بھی ایک خاص قسم کی آرام دہ اور پر سکون فضا تھی۔ نماز کے بعد، اس پر نیند کا غلبہ ہوتا ہے اور وہ نماز کی جگہ پر ہی سر جھکاتی ہے، جیسے دل و دماغ کا سکون اسے فطری طور پر اپنی جگہ پر لے آتا ہے۔

خواب کی دنیامیں وہ غرق ہو جاتی ہے۔ خواب میں وہ ایک خوبصورت اور پراسرار منظر دیکھتی ہے جہاں روشنی کا ایک بے شمار منظر اس کے سامنے تھا۔ جیسے کوئی ان کہی حقیقت اس سے روبرو ہو، اور اس کی آنکھوں کے سامنے ایک نئی حقیقت کھل رہی ہو۔ وہ خواب میں ایک عظیم طاقت کا احساس کرتی ہے، جیسے اس کی تقدیر کا راز اب اس کے قریب آ گیا ہو۔

ایک بہت ہی شاندار گھر کا منظر تھا۔ صبح کی نرم روشنی کھڑکیوں سے اندر آ رہی تھی۔ ایک نوجوان، عماد، ہال کے کونے میں بیٹھا قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ اس کی آواز میں سکون اور محبت تھی۔ الفاظ ایسے لگ رہے تھے جیسے پورے گھر میں برکت کی بارش ہو رہی ہو۔

ہال کے دوسرے کونے میں دروازے سے ایک جوان عورت، افشاں، نکلی۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ آنکھوں میں ایک انوکھا نور تھا، جیسے کوئی بہت بڑی خوشخبری دل میں لیے بیٹھی ہو۔ وہ چند قدم چل کر عماد کے پیچھے، تھوڑے فاصلے پر رک گئی۔ پھر محبت بھری آواز میں کہا:

"بابا جانی!"

عماد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ کے اشارے سے صبر کرنے کو کہا اور تلاوت مکمل کی۔ آخر میں ہاتھ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے انہیں یہ خوبصورت زندگی عطا کی۔

تلاوت ختم ہوتے ہی عماردنے پلٹ کر افشاں کی طرف دیکھا، جو اب بھی مسکراتی کھڑی تھی۔

"خیر تو ہے؟ بابا جانی؟" اس نے حیرانی سے پوچھا۔

افشاں نے نرمی سے آگے بڑھ کر ایک چھوٹا سا پیکٹ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ وہ حمل ٹیسٹ کٹ تھی، جس میں دو گلابی لکیریں واضح تھیں۔

عماد کی آنکھیں خوشی سے پھیل گئیں۔ اس نے بے ساختہ کہا:

"ارے، اس میں تو امی جی بھی ہے!"

افشاں نے شرماتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا، مگر اس کی آنکھیں خوشی سے دمک رہی تھیں۔

عماد نے بے اختیار اللہ کا شکر ادا کیا، افشاں کا ہاتھ تھاما، دونوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ انہوں نے دعا کی:

"یا اللہ! ہمیں صحت مند، کامل اور عقل و شعور والا نیک اولاد عطا فرما۔"

دعا کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کو خوشی سے گلے لگا لیا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے ڈاکٹر سے ملنے کے لیے وقت لے لیا تاکہ اپنے اس نئے سفر کو خوبصورت انداز میں شروع کر سکیں۔

اپارٹمنٹ کے دروازے کی گھنٹی بجتی ہے۔ ایک چلبلی نوجوان لڑکی، شبانہ، دروازہ کھولتی ہے۔ اس کا چہرہ کھلتا ہوا، شوخی بھری مسکراہٹ لیے، کہتی ہے:

"عماردبھائی! آپ کے اپنے گھر میں خوش آمدید۔ مگر یہ آپ کا گھر ہے، آپ ہمیشہ گھنٹی کیوں بجاتے ہیں؟"

عماردبھی مسکراتے ہوئے کہتا ہے:

"تمہارا مسکراتا چہرہ دیکھنے کے لیے۔ اور تاکہ تم خوشی سے یہ جان کر گھر جا سکو کہ تمہاری باجی اکیلی نہیں ہیں، وہ محفوظ ہیں، اور تم آزاد ہو۔"

تین مہینے بعد کا منظر

عماد گھر میں داخل ہوتا ہے۔ افشاں کو سلام کرتا ہے، جو ایک آرام دہ صوفے پر بیٹھی ہے۔ تین ماہ کے حمل نے اس کے چہرے پر ایک الگ سا تقدس، ایک ماں کی سی چمک پیدا کر دی تھی۔

شبانہ شرارت سے کہتی ہے، "باجی، میں گھر جا سکتی ہوں؟"

افشاں مسکرا کر کہتی ہے، "نہیں ابھی نہیں، پہلے میں تمہارے بھائی سے دو دو ہاتھ کر لوں۔"

عماد، افشاں کے سامنے بیٹھ جاتا ہے۔ افشاں چٹکی کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کرتی ہے۔

افشاں: "چٹکی کی اماں اس کی شادی کروانا چاہتی ہیں۔"

عماد مسکراتا ہے: "چٹکی، بہت بہت مبارک ہو۔ اپنے ابا سے کہو کہ مجھ سے ملیں، تمہاری شادی کا سارا خرچہ میری طرف سے ہوگا۔"

افشاں فوراً بول پڑی: "واہ رے امیر زادہ! تم نے تو حاتم طائی کو بھی مات دے دی۔ چٹکی کو تمہاری خیرات کی ضرورت نہیں۔"

عماد نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔

معاف کرنا، بتاؤ، میں کیا کر سکتا ہوں؟ عماد نے معافی والے انداز میں کہا۔

افشاں نے گہری سانس لی اور کہا: "چٹکی، میں نے کہا تھا نا کہ لمبے آدمی کی عقل گھٹنوں میں ہوتی ہے، ان کو سمجھنے میں وقت لگتا ہے۔"

چٹکی ہنستے ہنستے دہری ہو گئی، اور عمار بھی قہقہہ لگا بیٹھا:

"اگر تم نے بھی اپنی باجی کی طرح میرا مذاق اڑایا تو، میں تمہارے ابا کے ساتھ مل کر فوراً تمہاری شادی کروا دوں گا۔"

افشاں کا لہجہ اچانک سنجیدہ ہو گیا: "میں چاہتی ہوں کہ چٹکی پڑھ کر ڈاکٹر بنے۔ میں اسے سفید کوٹ میں دیکھنا چاہتی ہوں، اس کے گلے میں سٹیتھوسکوپ ہو۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو، خود مختار ہو۔ میں اور کچھ نہیں جانتی، یہ خواب پورا کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ تم اس کے ابا اور نانا سے بات کرو

عماد حیران ہو کر چٹکی سے پوچھتا ہے، "وہ تو ٹھیک ہے، مگر چٹکی، تم خود کیا چاہتی ہو؟ تمہاری خواہش کیا ہے؟"

افشاں فوراً بولتی ہے، "چٹکی چاہتی ہے کہ اپنی فرسٹ ایئر کا مارک شیٹ اپنے بھائی کو دکھائے۔"

چٹکی مسکراتے ہوئے مارک شیٹ عماد کی طرف بڑھاتی ہے۔ عماد مارک شیٹ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ ہر مضمون میں 85 فیصد سے کم نمبر نہیں ہیں۔

عماد حیرت سے کہتا ہے، "چٹکی، تم تو تعلیم میں ایک ستارہ ہو! یہ کمال ہے۔ پھر تمہیں یہ سلسلہ کیوں روکنا ہے؟ تمہیں تو آگے پڑھنا چاہیے!"

چٹکی نیچی نگاہوں سے جواب دیتی ہے، "میں پڑھنا چاہتی ہوں، عماد بھائی۔ لیکن گھر والے چاہتے ہیں کہ میں شادی کر لوں۔ میڈیکل کی تعلیم کے اخراجات ہمارے بس سے باہر ہیں۔ اور ہمارے خاندان میں کسی نے بھی اتنی تعلیم حاصل نہیں کی۔"

عماد پُرزور انداز میں کہتا ہے، "رشتہ داروں کو چھوڑو، چٹکی۔ تمہارا مستقبل تمہارا ہے۔ بتاؤ، کیا تم واقعی اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہو؟"

افشاں فوراً بولتی ہے، "چٹکی چاہے یا نہ چاہے، میں چاہتی ہوں کہ ہماری چٹکی ڈاکٹر بنے۔ میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ میری اگلی ڈلیوری ڈاکٹر چٹکی ہی کرے، لیکن میں اتنا انتظار نہیں کر سکتی۔"

چٹکی پُراعتماد لہجے میں مسکراتے ہوئے کہتی ہے، "باجی، اس بار تو نہیں، لیکن ان شاء اللہ اگلی بار میں ہی آپ کی ڈاکٹر ہوں گی۔"

عماد فیصلہ کن انداز میں کہتا ہے، "ٹھیک ہے، میں کل چٹکی کے نانا سے بات کرتا ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو اس کے ابا سے بھی بات کروں گا۔"

افشاں سخت لہجے میں کہتی ہے، "تمہیں صرف بات نہیں کرنی، عماد۔ تمہیں چٹکی کے تعلیمی اخراجات کا بندوبست بھی کرنا ہے۔"

عماد مزاحاً کہتا ہے، "جی حضور، جو حکم آپ کا! میں شاور لے کر آتا ہوں۔ آج آپ کی ڈاکٹر کا ٹائم ہے، اور پھر باہر کھانا کھا کر دیر سے واپس آئیں گے۔"

افشاں چٹکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے، "مگر چٹکی نے تمہارے لیے بریانی بنائی ہے۔"

عماد چٹکی کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے، "چٹکی، دیک کے ساتھ بریانی تم لے جاؤ۔"

افشاں چڑچڑاہٹ سے کہتی ہے، "مگر چٹکی کے پاس پہلے ہی بہت سامان ہے۔ تم اسے اس کے گھر چھوڑ آؤ۔"

عماد مزاحاً کہتا ہے، "میں اس کی اماں کا غلام ہوں کیا؟ غلام سے یاد آیا، اس کی اماں کا اصل غلام نیچے ڈیوٹی پر تھا، ابھی بلاتا ہوں۔"

عماد موبائل کا نمبر ملاتا ہے اور سخت لہجے میں بات کرتا ہے۔ "مسٹر شکور، ابھی اوپر آ جاؤ۔"

افشاں ناراضگی سے کہتی ہے، "یہ کون سا طریقہ ہے شکور بھائی سے بات کرنے کا؟"

عماد چٹکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے، "اس کے ابا کو لگے کہ اس نے کوئی غلطی کی ہے اور وہ جلدی آ جائے۔"

منظر 2: عماد کا آفس

ایک لگژری آفس کے اندر، جہاں تمام ملازمین اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ ریسپشنسٹ کو اس کے باس کا فون آتا ہے کہ چاچا عبدالرحمن کو کیبن میں بلایا جائے۔ کچھ دیر بعد چاچا عبدالرحمن باس کے کمرے میں داخل ہوتا ہے۔ باس عماد اپنی کرسی کے بجائے صوفے پر بیٹھا ہوا ہے اور چاچا کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔

عماد کہتا ہے، "چاچا، میں نے سنا ہے کہ آپ اپنی نواسی شبانہ کی شادی کا ارادہ رکھتے ہیں۔"

چاچا جواب دیتا ہے، "جی صاحب، اس کے والد کے رشتہ داروں میں ایک لڑکے کا رشتہ آیا ہے۔ لڑکے کی اپنی ٹیکسی ہے اور وہ اچھا کماتا ہے۔ اور شبانہ اب ماشاء اللہ بڑی ہوگئی ہے، کچھ مہینوں میں اس کے امتحان بھی ہوجائیں گے۔"

عماد پوچھتا ہے، "مگر چاچا، شبانہ تو اور پڑھنا چاہتی ہے۔ اتنی جلدی اس کی شادی کیوں؟"

چاچا کہتا ہے، "صاحب، شبانہ اور پڑھ کر کیا کرے گی؟ آپ تو ہمارے حالات جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ ہم چاہتے ہیں کہ شبانہ اور پڑھے، مگر پھر یہ سوچ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اگر وہ پڑھ بھی لے تو پھر اس کی شادی ہماری برادری میں نہیں ہوگی۔ ہماری برادری میں زیادہ پڑھائی کا رواج نہیں۔"

عماد کہتا ہے، "مگر چاچا، آپ کی چھوٹی بی بی چاہتی ہے کہ شبانہ ڈاکٹر بنے۔"

چاچا کہتا ہے، "اللہ چھوٹی بی بی کی زبان مبارک کرے، مگر ایسا ممکن نہیں۔ یہ ہماری اوقات نہیں۔"

عماد کہتا ہے، "چاچا، یہ آپ کی چھوٹی بی بی کی خواہش بھی ہے اور حکم بھی کہ شبانہ کی شادی اس کے ڈاکٹر بننے کے بعد ہوگی۔"

چاچا کہتا ہے، "صاحب، یہ کیسے ممکن ہوگا؟ آپ ہمارے گھر کے حالات تو جانتے ہیں۔ ورنہ خواہش ہماری بھی ہے کہ ہماری شبانہ ڈاکٹر بنے۔"

عماد فون اٹھاتا ہے اور ایک نمبر ڈائل کرتا ہے۔ "جی آر بلوچ، کیا آپ میرے کیبن میں آسکتے ہیں؟"

دوسری طرف سے جواب سن کر عماد فون رکھ دیتا ہے۔ کچھ دیر بعد ایک 35 سے 40 سال کا مسکرانے والا شخص کیبن میں داخل ہوتا ہے اور سلام کرتا ہے۔ عماد اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے۔

عماد کہتا ہے، "جی آر، کیا اس سہ ماہی میں عطیہ کے پیسے جاری کیے ہیں؟ یا آپ نے کسی کو زبان دی ہے؟ کیونکہ آپ بلوچوں کے ہاں جان تو جائے، مگر زبان نہیں۔"

جی آر جواب دیتا ہے، "سر، آپ کی بات بالکل صحیح ہے۔ زبان جان سے زیادہ قیمتی ہے۔ ابھی تک کوئی پیسے جاری نہیں کیے ہیں اور نہ ہی کسی کو یقین دہانی۔"

عماد کہتا ہے، "میرے ذہن میں ایک پروجیکٹ ہے۔ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اس سال ہم اپنے سارے عطیہ تعلیم پر خرچ کریں؟"

جی آر کہتا ہے، "کیوں نہیں سر، جیسے آپ کا حکم ہو۔"

عماد کہتا ہے، "آپ ایسا کریں کہ حساب لگائیں کہ ایک طالب علم کو گریجویشن مکمل کرنے کے لیے کتنی رقم درکار ہے۔ جس میں کالج کی فیس، کتابوں کا خرچ اور عام ضروریات شامل ہوں۔"

جی آر کہتا ہے، "جی بہتر، مگر سر ہر کالج، ہر یونیورسٹی اور ہر پروگرام کے اخراجات مختلف ہوں گے۔"

عماد کہتا ہے، "اچھا، آپ ایسا کریں کہ پہلے میڈیکل یونیورسٹیوں کے خرچ کا حساب کریں۔ اور جو بھی کل خرچ ہو، پھر کسی بینک سے بات کریں کہ بینک اکاؤنٹ میں کتنی رقم جمع ہو، جس سے بینک براہ راست طالب علم کو منافع دیتا رہے۔"

عماد مزید کہتا ہے، "ٹھیک ہے، ایک ہفتے میں آپ ساری معلومات میرے ساتھ شیئر کریں۔"

جی آر کے جانے کے بعد، عماد چاچا سے کہتا ہے، "چاچا، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے کوئی راستہ پیدا کرے کہ ہماری شبانہ ڈاکٹر بن جائے۔"

چاچا کہتا ہے، "انشاء اللہ، ہماری اور چھوٹی بی بی کی خواہش پوری ہوگی۔"

ایک ہفتے بعد، جی آر مکمل رپورٹ کے ساتھ عماد کے سامنے موجود ہوتا ہے۔

جی آر کہتا ہے، "سر، ہم سال میں 4 یا 5 طالب علموں کی مالی مدد کرسکتے ہیں۔ کوئی میڈیکل کالج یا انجینئرنگ کالج میں۔ میں نے مختلف بینک کے منیجرز سے بات کی ہے۔ پہلے چھ مہینوں میں طالب علم کو کچھ نہیں ملے گا۔،  مگر اس کے بعد اس کو تعلیمی اخراجات کے ساتھ ساتھ اسے ذاتی اخراجات کے لیے بھی کچھ رقم دی جائے گی۔ "

عماد نے کانفرنس روم میں نظر دوڑائی اور اعتماد سے بولنا شروع کیا، "تو ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ سیشن شروع ہونے سے چھ ماہ قبل طالب علم کا بینک اکاؤنٹ کھولیں اور مطلوبہ رقم بینک میں جمع کروائیں۔"

جی آر نے فائل بند کرتے ہوئے سوال کیا، "مگر سر، ہم طالب علم کا انتخاب کیسے کریں گے؟"

عماد مسکرایا، "اس پائلٹ پروجیکٹ کے لیے، میں نے پہلے ہی ایک طالب علم کا انتخاب کرلیا ہے۔ دوسرے طلباء کے لیے، آپ اسٹیئرنگ کمیٹی بنائیں۔ جی آر صاحب، آپ کمیٹی کی قیادت کریں گے۔ دوسرے ممبران کے بارے میں ہم بعد میں فیصلہ کریں گے۔ ایک لڑکی آپ کو فون کرے گی، اس کا نام شبانہ شکور ہے۔ آپ یا آپ کے سیکشن کا کوئی دوسرا عملہ اس کے ساتھ بینک اکاؤنٹ کھولنے کے لیے جائے گا۔ پھر آپ بینک اکاؤنٹ میں رقم جمع کرسکتے ہیں۔"

 

میٹنگ ختم ہونے کے بعد، عماد اپنے اپارٹمنٹ کی عمارت میں داخل ہوا۔ دروازے پر کھڑے سیکیورٹی گارڈ سے پوچھا، "شکور کہاں ہے؟"

گارڈ نے رسمی انداز میں جواب دیا، "سر، وہ آج چھٹی پر ہے۔"

عماردنے سر ہلایا اور لفٹ کی طرف بڑھا۔ چند لمحوں بعد، وہ اپنے فلیٹ کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اس نے گھنٹی بجائی۔ دروازہ کھلا، اور افشاں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ سلام کیا۔

عماد نے شوخی سے پوچھا، "چینو منو کیسا ہے؟"

افشاں کی نظر فوراً عماد کے ہاتھ میں پکڑی مٹھائی کے ڈبے پر گئی۔ وہ حیرانی سے بولی، "تم نے دوسری شادی کرلی؟"

عماد نے قہقہہ لگایا، "ہائے، ہماری ایسی قسمت کہاں!"

افشاں نے چوٹ کی، "بلی کے خواب میں چِھیچْھڑے!"

عمدر نے بے ساختہ پوچھا، "کہاں ہے ہماری ڈاکٹر چٹکی؟"

افشاں نے ہاتھ باندھ کر طنزیہ انداز میں کہا، "کیوں؟ تم نے کون سا تیر مار لیا؟"

اتنی دیر میں چٹکی کچن سے باہر آئی۔ عماردنے مٹھائی کا ڈبہ افشاں کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا، "میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔"

افشاں نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا، "کیا سچ میں؟ قسم کھاؤ!"

عماد نے سنجیدگی سے جواب دیا، "تم جانتی ہو، میں قسم کبھی نہیں کھاتا۔ میرے نزدیک قسم کھانے والے زیادہ جھوٹے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ تمہاری خواہش اور حکم تھا، کیسے پورا نہ کرتا؟ مگر اب ساری ذمہ داری چٹکی پر ہے کہ وہ ایف ایس سی میں اچھے نمبر لائے اور میڈیکل کالج کے داخلہ ٹیسٹ میں پاس ہو۔"

وہ چٹکی کی طرف متوجہ ہوا، "اور ہاں، چٹکی، تم میرے آفس میں جی آر بلوچ سے وقت لے کر اپنے ابا کے ساتھ بینک چلی جانا۔"

افشاں نے چٹکی کو قریب بلایا، گلے لگایا اور مٹھائی کھلائی۔ چٹکی کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلکنے لگے۔

 

رات کا کھانا میز پر لگ چکا تھا۔ گرم، خوشبو دار سالن کی مہک فضا میں رچی ہوئی تھی۔ عماد چپ چاپ کھانے میں مصروف تھا جب افشاں نے مدھم مگر پُرسوچ لہجے میں کہا،

"عماد، اگلے ہفتے میری خالہ کے بیٹے کی سالگرہ ہے۔ ہمیں پنڈی جانا ہوگا۔"

عماد نے نوالہ توڑتے ہوئے گہری سانس لی، نظریں افشاں پر جمائیں اور نرمی مگر قطعیت سے کہا،

"جان، آپ کو معلوم ہے کہ اگلے ہفتے جمال کا پروجیکٹ شروع ہو رہا ہے۔ میرا جانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔"

افشاں لمحے بھر کو خاموش رہی، پھر ہلکا سا مسکرا کر بولی،

"ٹھیک ہے، میں چلی جاؤں گی۔ شاید امی بھی وہاں آجائیں، تو ان سے بھی ملاقات ہو جائے گی۔"

عماد نے سر ہلایا، *"آپ چٹکی کو ساتھ لے جائیں۔"

افشاں نے سختی سے انکار کر دیا، "نہیں جان، اس کے امتحان سر پر ہیں۔ اس کی پڑھائی ڈسٹرب ہو جائے گی۔"

عماد نے مزید بحث نہ کی۔ دونوں خاموشی سے کھانے کی میز سے برتن سمیٹنے لگے۔ ماحول پر ایک عجیب سی سنجیدگی چھا گئی تھی۔

لیکن کیا واقعی یہ سفر افشاں کے لیے معمول کا ثابت ہوگا؟ یا پنڈی کی یہ مختصر سی مسافت اس کی زندگی کو ایک نیا موڑ دینے والی تھی؟
اور چٹکی؟ کیا وہ اپنے خوابوں کی منزل، میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکے گی؟

جاننے کے لیے پڑھیے، اگلی قسط میں!

قسط ۴

چٹکی، جس کا اصل نام شبانہ شکور تھا، اگلے چند دنوں میں بینک اکاؤنٹ کھلوانے اور مالی معاونت کے تمام مراحل مکمل کر چکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں نئے خواب اور امیدوں کی چمک تھی، جیسے اندھیری رات میں امید کا ایک چراغ روشن ہو گیا ہو۔

مگر دوسری طرف عماد اور افشاں کی زندگی میں ایک قیامت شروع ہو چکی تھی۔ خالہ کے بچے کی سالگرہ میں افشاں کی ملاقات اپنے خالہ زاد کزن عبداللہ سے ہو گئی، جو افشاں سے شادی کی خواہش رکھتا تھا مگر افشاں کو بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ وہ اس سے بات بھی نہیں کرنا چاہتی تھی، مگر رشتہ دار ہونے کے بندھن نے اسے مجبور کر دیا تھا۔

سالگرہ کے دوران عبداللہ نے افشاں سے بہت فری ہونے کی کوشش کی، مگر افشاں نے زیادہ بات نہیں کی اور اسے زیادہ فری ہونے سے منع کر دیا۔ ایک بار تو بہت غصے میں سب کے سامنے اسے ڈانٹ بھی دیا۔ عبداللہ نے اس بات کو اپنی بےعزتی سمجھ کر افشاں کی زندگی برباد کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اگلے دن عبداللہ کسی عامل کے پاس گیا، جو کالا جادو کرنے کے لیے مشہور تھا۔ عبداللہ نے عامل کی ہدایت پر افشاں کا کپڑا، اس کی تصویر اور کافی رقم اس کے حوالے کی۔ عامل کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی، جیسے کسی معصوم کی زندگی سے کھیلنا اس کے لیے کوئی بڑی بات نہ ہو۔ اگلے دن عامل نے ایک چٹکی بھر سفید پاوڈر دیا اور کہا کہ کسی طرح یہ پاوڈر اس لڑکی کے کھانے میں شامل کر لے۔ اس کا اثر بہت آہستہ آہستہ ہوگا، مگر ایک دن وہ زہر اپنی انتہا کو پہنچ جائے گا۔

اسی شام عبداللہ کی دوبارہ ملاقات افشاں سے ہوئی۔ عبداللہ نے اپنے رویے کی معافی مانگ لی۔ افشاں نے خاندان میں مسئلہ پیدا نہ کرنے کے خیال سے معاف کر دیا۔ عبداللہ نے اپنے منصوبے کے مطابق افشاں کی چائے میں وہ پاوڈر شامل کر دیا۔ پاوڈر میں کوئی ذائقہ نہیں تھا، اس لیے افشاں کو معلوم نہیں ہوا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

کچھ دن بعد وہ واپس اپنے گھر آ گئی، مگر اسے خبر نہیں تھی کہ اب اس کی زندگی میں ایک طوفان شروع ہو چکا ہے۔ جسے وہ خوشگوار معمولات سمجھ رہی تھی، وہ دراصل موت کی خاموش چاپ تھی۔

افشان اور عماد کی شادی شدہ زندگی میں ایک دراڑ شروع ہو چکی تھی۔ عماد سمجھاتا تھا کہ شاید حمل کی وجہ سے ہارمون میں تبدیلی کی وجہ سے افشاں کے موڈ میں تبدیلی آئی ہوئی ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اصل بات کچھ اور ہے۔

ایک دن عماد کو ایسا لگا کہ کاش زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دھنس جائے کیونکہ افشاں نے طلاق کا مطالبہ کیا۔ افشاں نے آنکھوں میں آنسو، لرزتی آواز اور بےبسی کے عالم میں کہا، “ورنہ میں حمل کے دوران اپنی جان دے دوں گی۔” یہ الفاظ عماد کے دل کو چھید گئے، جیسے کسی نے تیز دھار چاقو اس کے سینے میں اتار دیا ہو۔

عماد نے دل پر پتھر رکھ کر افشاں کی بات مان لی۔ اس کی آنکھوں میں خوابوں کا گھر ٹوٹتے دیکھ کر نمی تھی، مگر زبان خاموش رہی۔ باقی خاندان والے بار بار سمجھاتے، کبھی محبت سے، کبھی غصے سے، مگر افشاں کے چہرے پر ایک عجیب ضد نے ڈیرہ ڈال رکھا تھا۔ وہ کسی کی بات سننے کو تیار نہ تھی۔

چٹکی کے امتحانات سر پر تھے۔ عماردنے اسے سختی سے کہا کہ وہ صرف پڑھائی پر دھیان دے۔ گھر کی باتوں میں الجھنے کا وقت نہیں۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ ایف ایس سی کے امتحانات میں چٹکی نے شاندار نمبر حاصل کیے۔ جب میڈیکل کالج کے داخلہ ٹیسٹ کا نتیجہ آیا تو وہ کامیاب ٹھہری۔ وہ شہر کے ایک معروف میڈیکل کالج میں داخل ہو گئی۔ اس کی آنکھوں میں خواب اور مستقبل کے خوابیدہ راستے مزید روشن ہو گئے۔

عماردنے سوچا کہ کورٹ کی دہلیز پر جا کر عزت نیلام کرنے کا کیا فائدہ؟ بہتر ہے کہ یہ کڑوا گھونٹ خاموشی سے پی لیا جائے۔ خاندان کے چند بزرگوں نے بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ طلاق بچوں کی ولادت سے پہلے ہو جائے گی، مگر عدت تک افشاں اسی گھر میں رہے گی۔

ڈاکٹروں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ افشاں کے پیٹ میں دو ننھی جانیں پل رہی ہیں۔ فیصلہ ہوا کہ اگر ایک لڑکی ہوئی تو افشاں رکھے گی،اور لڑکا  عمار کو دیا جائے گا۔  اگر دونوں لڑکیاں یا لڑکے ہونے کی صورت میں ایک ایک۔  گویا بچوں کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے نصیبوں کا بٹوارہ ہو گیا تھا۔

عمار نے آخری محبت کا ثبوت یہ دیا کہ گھر افشاں کے حوالے کر دیا۔ جب تک وہ چاہے، وہاں رہ سکتی تھی۔ ساتھ ہی ایک نجی ادارے سے نرسوں کا انتظام کروا دیا تاکہ افشاں اور بچوں کو ہر لمحے دیکھ بھال ملتی رہے۔ خود عمار نے دل پر چوٹ کھا کر اپنا سامان باندھا اور بھائی جمال کے گھر شفٹ ہو گیا۔

دو معصوم جانیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی، اس دنیا میں تو آ گئیں، مگر وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ ان کے والدین انہیں پہلے ہی جدا کر چکے تھے۔ نو مہینے ماں کے بطن میں ایک ساتھ وقت گزارنے والے یہ ننھے پھول، دنیا میں آتے ہی قسمت کے ہاتھوں بچھڑ چکے تھے۔

اب افشاں کی زندگی ایک نئے موڑ پر آ چکی تھی۔ عبداللہ کی سازش اپنے اثرات دکھا چکی تھی، اور اب افشاں ایک انجان راستے پر کھڑی تھی۔ کیا یہ راستہ اس کے لیے آزمائشوں سے بھرا ہوگا یا ایک نئی تقدیر کا آغاز؟

کیا عبداللہ اپنی چال میں کامیاب ہو جائے گا؟ کیا افشاں کی قسمت اس کے ہاتھوں میں سونپ دی جائے گی؟

جاننے کے لیے پڑھیے، اگلی قسط میں!

قسط ۵

افشاں نے بچوں کی پیدائش کے کچھ دن بعد اپنا سامان باندھا اور پنڈی چلی گئی۔ چند ہی مہینوں بعد، عبداللہ سے اس کی شادی افشاں کی زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو چکا تھا، مگر یہ باب کسی حسین خواب کی تعبیر نہیں، بلکہ ایک تلخ حقیقت کی صورت میں کھلا تھا۔

عبداللہ کی سازش کامیاب ہو چکی تھی۔ افشاں کے گھر والوں نے خاموشی اختیار کرلی تھی۔ آخر وہ ایک طلاق یافتہ عورت تھی، اور عبداللہ کو خاندان کے لوگ ہیرو بنا رہے تھے—وہ شخص جس نے ایک بے سہارا عورت کو اپنایا، جس نے اس کی عزت بچائی، اور جس نے ایک "نیک کام" کرکے اپنے مقام کو مزید بلند کرلیا۔ مگر حقیقت کسی کو معلوم نہ تھی۔ کسی کو نہیں پتا تھا کہ افشاں کی طلاق کا اصل ذمہ دار خود عبداللہ تھا، جس نے پس پردہ چالیں چل کر اسے اس حال تک پہنچایا تھا۔

شادی کے کچھ ہی ماہ بعد، افشاں پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ ڈاکٹر کی آواز میں گونجتی وہ الفاظ—جو زچگی کے دوران پیش آنے والی پیچیدگیوں کی وضاحت کر رہے تھے—اس کے کانوں میں سیسہ گھول گئے۔ "

یہ خبر افشاں کے لیے بجلی بن کر گری، جیسے کسی نے اس کی آخری امید بھی چھین لی ہو۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا، دل جیسے کسی نے مٹھی میں دبا دیا ہو۔ مگر جب اس نے عبداللہ کی طرف دیکھا، تو اس کے چہرے پر محض ایک ہلکی سی ناگواری کے سوا کچھ بھی نہ تھا—کوئی افسوس، کوئی دُکھ، کوئی تسلی نہیں۔چند ماہ بعد، عبداللہ نے دوسری شادی کر لی۔ رسمی طور پر اس نے افشاں سے اجازت لی، جیسے وہ کوئی بہت بڑا احسان کر رہا ہو۔ مگر حقیقت تو کچھ اور تھی—عبداللہ پہلے سے شادی شدہ تھا!

یہ انکشاف کسی دھماکے سے کم نہ تھا۔ عبداللہ کی پہلی بیوی اور اس کا بیٹا پہلے سے موجود تھے، مگر یہ راز اس نے ہر کسی سے چھپائے رکھا تھا۔ دنیا کے سامنے اس نے اپنی بیوی کو بیوہ ظاہر کیا، ہمدردی سمیٹی، اور پھر دوسری شادی کر لی۔ خاندان والوں کو لگا کہ عبداللہ پھر کسی بے سہارا عورت کا سہارا بن گیا ہے۔ اب تو لوگ اسے فرشتہ صفت مرد کہنے لگے تھے۔

عبداللہ کی دوسری بیوی سے تین بیٹے ہوئے، اور آہستہ آہستہ اس کا زیادہ تر وقت دوسری بیوی کے ساتھ گزرنے لگا۔ افشاں کا گھر، جہاں اس نے محبت کی کچھ جھوٹی جھلکیاں دیکھی تھیں، اب ایک سنسان ویرانے میں بدل چکا تھا۔ عبداللہ کبھی کبھار وہاں آتا، جیسے زبردستی یا کسی احسان کے تحت۔ افشاں کے لیے یہ زندگی ایک بے رنگ، بے روح کہانی بن چکی تھی۔ وہ تقدیر سے ہار چکی تھی، یا شاید اپنے فیصلے کے انجام کو قبول کر چکی تھی۔

افشاں کی بیٹی، نایاب، اپنے باپ عبداللہ سے شدید نفرت کرتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں جلتی چنگاریاں، دل میں بھڑکتی آگ تھی۔ عبداللہ جب بھی گھر آتا، نایاب غصے میں گھر کے کسی کونے میں چھپ جاتی، اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کرتی۔

یہ نفرت وقت کے ساتھ گہری ہوتی گئی۔ افشاں چاہتی تھی کہ نایاب اور عبداللہ کے درمیان صلح ہو جائے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی اتنی نفرت لیے جوان ہو۔ مگر نایاب کی ضد، اس کا غصہ، اس کی مایوسی—یہ سب دیوار بن چکے تھے، جو عبداللہ کے لیے نہیں، بلکہ خود نایاب کے لیے خطرہ بنتے جا رہے تھے۔

وہ اب تک عبداللہ کے جادو کے اثر سے مکمل طور پر باہر نہیں نکل پائی تھی۔ ایک ایسا جادو، جو صرف اس کے جسم پر نہیں، بلکہ اس کی روح پر بھی لگ چکا تھا۔ وہ اپنی حقیقت کھو رہی تھی، اپنی یادداشت کا ایک حصہ کہیں چھوڑ چکی تھی۔ اور اسی جادو کا اثر تھا کہ وہ اپنے بیٹے شاہد کو بھول چکی تھی۔

یہ جادو محض ایک سازش نہیں تھی، یہ افشاں کی زندگی کو برباد کرنے کا ہتھیار تھا۔

مگر کیا افشاں ہمیشہ کے لیے اسی جال میں قید رہے گی؟ یا ایک دن وہ اس شکنجے سے آزاد ہو پائے گی؟

کیا نایاب اپنی ماں کی جنگ لڑے گی؟ یا عبداللہ کا سحر ہمیشہ کے لیے ان سب پر حاوی رہے گا؟

جاننے کے لیے پڑھیے، اگلی قسط میں!

قسط ۶

دروازے کی گھنٹی: دروازے کی گھنٹی بجتے ہی افشاں کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ وہ اب سمجھ چکی ہے کہ قسمت نے اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا ہے۔ یہ لمحہ افشاں کے لیے ایک بیداری کا لمحہ ہے، جہاں وہ اپنی زندگی کی حقیقت کو سمجھتی ہے

افشاں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے آنسو پینے کی کوشش کی اور درد کو دل میں دبائے دروازہ کھولا۔ سامنے اس کی ننھی پری نایاب اور پری اسکول کی ایک خاتون اسٹاف کھڑی تھیں۔ افشاں نے جھک کر نایاب کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے، مگر اس نے خود کو مضبوط رکھا۔ سینے میں اٹھنے والے درد کے طوفان کو زبردستی دبا لیا۔ صرف اتنا پوچھا، “اتنی دیر کیوں ہوگئی؟”

اسٹاف کی لڑکی نے قدرے نرمی سے جواب دیا، “یہ آنے کو تیار ہی نہیں تھی۔ سب بچے جا چکے تھے، سارا اسٹاف بھی نکل گیا تھا، مگر نایاب اسکول میں ہی رکنا چاہتی تھی۔”

افشاں نے مسکرا کر سر ہلایا اور شکریہ ادا کیا۔ جب وہ لڑکی جانے لگی تو افشاں نے یکدم اسے روک کر کہا، “پرنسپل میڈم سے کہہ دیجیے گا کہ ہم لوگ کل شہر سے باہر جا رہے ہیں۔ نایاب کل سے اسکول نہیں آئے گی۔ اگر کوئی بقایا فیس یا ادائیگی ہے تو براہ کرم مجھے ای میل پر رسید بھیج دیجیے گا، میں ادا کر دوں گی۔”

لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا اور چلی گئی۔

گھر کے اندر آتے ہی نایاب نے معصومیت سے پوچھا، “مما، کیا سچ میں ہم کہیں جا رہے ہیں؟”

افشاں نے دھیرے سے کہا، “جی ہاں۔”

“پنکی پرامس؟” نایاب نے اپنی چھوٹی سی انگلی اٹھا کر پوچھا۔

افشاں کا دل ایک پل کو رک سا گیا۔ اس کی آنکھوں میں عماد  کی تصویر ابھر آئی۔ وہ بھی خوشی کے موقع پر ہمیشہ یوں ہی کہتا تھا، “پنکی پرامس؟”

افشاں نے دھیرے سے نایاب کی انگلی اپنی انگلی میں پھنسا کر کہا، “پنکی پرامس۔”

پھر وہ نایاب سے بولی، “جاؤ، ہاتھ دھو کر ٹیبل پر رکھے فروٹ کھاؤ۔”

نایاب خوشی خوشی چلی گئی۔ افشاں نے وضو کیا اور نماز میں کھڑی ہوگئی۔ سجدے میں جاتے ہی آنکھوں سے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے۔ آنسو گالوں پر گرنے لگے۔ وہ دیر تک اللہ کے حضور گڑگڑاتی رہی، “یا اللہ! میری بیٹی کے لیے مجھے صحیح راستہ دکھا۔ ہمیں آسانیاں عطا فرما۔”

نماز کے بعد افشاں کو اچانک وہ دن یاد آگیا جب اس نے عماد کا گھر چھوڑا تھا۔ جاتے ہوئے اس نے ایک سرخ رنگ کا بریف کیس ساتھ لیا تھا، جو کبھی کھولا ہی نہیں تھا۔

دل میں ایک بےچینی سی جاگی۔ وہ اسٹور روم گئی۔ کونے میں پڑا سرخ بریف کیس مٹی اور دھول میں لپٹا ہوا تھا۔ افشاں نے اسے باہر نکالا۔ ہاتھوں سے گرد جھاڑی اور لرزتے ہاتھوں سے اللہ کا نام لے کر بریف کیس کھولا۔

اندر مہنگے، قیمتی ملبوسات رکھے تھے۔ ایسے لباس جو شاید کسی زمانے میں افشاں کے خوابوں کا حصہ رہے ہوں، مگر اس وقت ان کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ اس نے کپڑے جلدی جلدی باہر نکالنا شروع کیے۔

اچانک کپڑوں کے نیچے سے ایک زرد مائل لفافہ جھلکا۔

دل کی دھڑکن بے قابو ہوگئی۔ اس نے جھپٹ کر لفافہ نکالا اور کھولا۔ اندر سے چابیوں کا گچھا برآمد ہوا۔ ساتھ ہی کچھ کاغذات بھی تھے۔ غور سے دیکھا تو وہ ایک مکان کے ملکیتی دستاویزات تھے۔

لیکن…!

افشاں کی سانسیں تھم گئیں جب اس نے ایک اور لفافہ دیکھا۔ اس پر صاف لفظوں میں لکھا تھا: “افشاں کے لیے”۔

یہ عماد کی تحریر تھی۔

افشاں کے ہاتھ لرزنے لگے۔ آنکھوں میں دھند سی چھا گئی۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔

یہ خط… کیا اس میں کوئی راز دفن ہے؟

افشاں نے کانپتے ہاتھوں سے لفافہ کھولا۔ اندر ایک خط موجود تھا۔

خط کے الفاظ پڑھتے ہی افشاں کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔ عماد کی آواز کمرے میں گونجتی محسوس ہونے لگی:

“افشاں، اگر تم یہ خط پڑھ رہی ہو تو شاید وہ وقت آ چکا ہے جس کا مجھے ہمیشہ خوف رہا…”

پھولوں کی مانند، دنیا کی سب سے حسین افشاں!

میں تمہیں جان کہنے کا حق کھو چکا ہوں، اسی لیے تمہیں اس پیار بھرے نام سے پکارنے کی ہمت نہیں کرتا۔ مگر یہ حقیقت کبھی نہیں بدلے گی کہ زندگی کے سب سے خوبصورت لمحے میں نے تمہارے ساتھ گزارے ہیں۔ ان لمحوں کی خوشبو میرے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ کوئی بھی ان یادوں کو ہم سے چھین نہیں سکتا۔

مجھے نہیں معلوم کہ ہماری خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی، یا تقدیر نے ہم سے ایسا کیا انتقام لیا کہ ہمارے خواب بکھر گئے۔ میں تو تمہارے ساتھ پوری زندگی گزارنے کا خواب دیکھتا تھا۔ تم میری خوشیوں کی واحد وجہ تھی۔ تمہارے بغیر میری دنیا سنسان ہے، جیسے بہار کے بغیر گلشن۔

وہ گھر، جہاں ہم نے ساتھ مل کر خواب دیکھے، ہنسے، روئے، اور محبت کے پل بنائے، وہ ہمیشہ تمہارا ہے۔ اگر زندگی میں کبھی تمہیں پیسوں کی ضرورت پڑے، تو بلا جھجھک اسے بیچ دینا۔ مگر اگر تم اسے سنبھال کر رکھنا چاہو تو مجھ پر ایک احسان ضرور کرنا۔ جب ہماری گڑیا اٹھارہ برس کی ہو جائے، تو اسے ایک بار اس گھر میں ضرور لے کر آنا۔ تاکہ وہ اپنے بابا جانی کی سانسوں کی خوشبو محسوس کر سکے۔ تاکہ وہ جان سکے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں نے تم دونوں کے خواب بنے تھے۔

اگر زندگی میں کبھی تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو، تو میرے بھائی جمال سے رابطہ کرنے میں ہچکچانا مت۔ وہ ہمیشہ تمہارا سہارا بنے گا۔

اے میری افشاں! یہ زندگی تمہارے بغیر ادھوری ہے، مگر تمہاری خوشی میں ہی میری خوشی پوشیدہ ہے۔ دعاگو ہوں کہ تمہاری دنیا ہمیشہ مہکتی رہے، تمہارے چہرے کی مسکراہٹ کبھی ماند نہ پڑے۔

وسلام تمہارا بدنصیب عماد

افشاں نے اپنے پرانے گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ اس کی زندگی میں ایک نئی شروعات کی علامت ہے۔ وہ اپنی بیٹی نایاب کے ساتھ نئی زندگی کی طرف بڑھ رہی ہے، جہاں وہ اپنے ماضی کے درد اور پریشانیوں سے دور ہو سکتی ہے۔ افشاں نے اپارٹمنٹ کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور جانا کہ یہ گھر پچھلے پانچ سالوں سے بند ہے۔ اسے بتایا گیا کہ کوئی واجبات نہیں ہیں اور سب کچھ ماہانہ بنیاد پر ادا کیا جاتا ہے۔ یہ معلومات افشاں کے لیے اطمینان کا باعث ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ اپنے پرانے گھر میں واپس جا سکتی ہے۔

: نایاب اپنے ناپسندیدہ گھر کو چھوڑ کر نئی منزل کی طرف جانے کے لیے بہت پرجوش ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ اس کی ماں اسے کہاں لے جا رہی ہے، لیکن وہ خوش ہے کہ وہ ایک نئی جگہ کی طرف جا رہی ہے۔ یہ نایاب کے لیے ایک نئی شروعات ہے، جہاں وہ اپنی ماں کے ساتھ نئی زندگی گزار سکتی ہے۔

 افشاں نے اپنا سم کارڈ نکال دیا اور اپنا واٹس ایپ اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر دیا۔ وہ نہیں چاہتی کہ کوئی گھر والے ان سے رابطہ کرے۔ یہ اقدام افشاں کے لیے ایک بڑا فیصلہ ہے، جہاں وہ اپنے ماضی کے تعلقات کو ختم کر کے

کیا افشاں کا پرانے گھر واپس جانے کا فیصلہ اس کے لیے نئی امید لے کر آئے گا یا ماضی کے زخم مزید گہرے کر دے گا؟ افشاں کی زندگی میں کیا کوئی نیا موڑ آنے والا ہے؟ کیا کوئی ایسا شخص اس کی مدد کے لیے آئے گا جس کی وہ توقع نہیں کر رہی؟ کیا افشاں اور نایاب کے لیے آنے والا وقت سکون اور خوشی لے کر آئے گا یا ایک اور طوفان ان کا انتظار کر رہا ہے؟

جاننے کے لیے پڑھیے، اگلی قسط میں

 

قسط ۷

پوری فلائٹ کے دوران نایاب کو ایک پل کے لیے بھی نیند نہیں آئی۔ اس کی آنکھوں میں انجان سا خوف اور دل میں بےچینی تھی۔ وہ بار بار اپنی ماں افشاں سے پوچھتی، “مماں، ہم کہاں جا رہے ہیں؟” مگر ہر بار ماں کے لبوں پر بس وہی مسکراہٹ ہوتی اور وہ نرمی سے کہتی، “صبر کرو، میری جان۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔”

ایئرپورٹ سے باہر قدم رکھتے ہی نایاب نے گہری سانس لی۔ وہ تروتازہ ہوا اور مٹی کی خوشبو کو محسوس کر کے بےساختہ بولی، “مماں، یہ خوشبو کتنی اچھی ہے!” افشاں نے حیرت سے بیٹی کو دیکھا، پھر اسے بانہوں میں بھر کر ماتھے پر بوسہ دیا اور آنکھوں میں نمی لیے بولی، “یہ تمہارا شہر ہے، میری بچی۔ تم یہیں پیدا ہوئی تھیں۔ یہ ہمارا شہر ہے۔”

نایاب نے فوراً سوال کر دیا، “مماں، ہم اس گھر میں واپس تو کبھی نہیں جائیں گے نا؟” اس کی آنکھوں میں خوف اور التجا تھی۔ افشاں کا دل جیسے مٹھی میں آ گیا۔ اس نے بیٹی کو اور قریب کیا اور مضبوط لہجے میں کہا، “کبھی نہیں۔ میں وعدہ کرتی ہوں، کبھی نہیں۔”

افشاں خود نہیں جانتی تھی کہ آگے کیا ہوگا۔ لیکن ایک چیز کا اسے یقین تھا کہ پچھلے پانچ سالوں کے دکھ اب مزید ان کی زندگی میں داخل نہیں ہوں گے۔ اس نے اللہ پر بھروسہ کر لیا تھا۔

ٹیکسی لے کر وہ رائل ریذیڈنسی پہنچیں۔ راستے بھر نایاب کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہو، کچھ پہچاننے کی کوشش کر رہی ہو۔ افشاں نے بس بیٹی کا ہاتھ تھام رکھا تھا، جیسے یقین دلانا چاہتی ہو کہ وہ تنہا نہیں ہے۔

بلڈنگ کے سامنے پہنچ کر لفٹ سے نکلتے ہی افشاں نے چابی نکالی اور دروازہ کھولنے کی کوشش کی۔ تالا تو کھل گیا مگر دروازہ جیسے اپنی جگہ اٹک گیا تھا۔ افشاں کی پیشانی پر فکر کی لکیریں ابھریں۔ “یا اللہ، اب کیا ہوگا؟” اس نے زیر لب کہا۔

اتنی دیر میں ساتھ والے گھر کا دروازہ کھلا اور ایک مانوس چہرہ باہر نکلا۔ وہ 45-50 سال کی خاتون تھیں۔ افشاں نے ابھی کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ وہ محبت بھری آواز میں بولیں، “افشاں؟”

افشاں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ “جی بھابی پروین۔”

بھابی پروین نے لپک کر افشاں کو گلے لگا لیا۔ برسوں کا بچھڑنا جیسے ان چند لمحوں میں پگھل گیا۔ پھر ان کی نظر نایاب پر پڑی۔ محبت اور حیرت سے کہا، “اگر میں غلط نہیں ہوں تو یہ خوبصورت سی ننھی پری نایاب ہے؟”

نایاب نے ادب سے سر جھکا کر کہا، “السلام علیکم۔”

پروین بھابی کی آنکھوں میں شفقت اتر آئی۔ انہوں نے نایاب کو پیار سے چومتے ہوئے کہا، “وعلیکم السلام، میری بچی۔”

افشاں نے جلدی سے کہا، “بھابی، دروازہ نہیں کھل رہا۔”

بھابی پروین نے پیار بھرے انداز میں تسلی دی، “ارے، گھر پانچ سال سے بند ہے نا۔ چلو، میرے گھر چلو۔ میں کسی کو بلاتی ہوں جو دروازہ کھول دے گا۔”

افشاں کی آنکھوں میں ممنونیت تھی۔ برسوں بعد اپنے لوگوں کے درمیان ہونے کا احساس اسے اندر تک سکون بخش رہا تھا

گھر کے اندر آتے ہی نایاب نے کہا، “آنٹی، آپ کا گھر تو بہت خوبصورت ہے۔” پروین بھابی نے مسکرا کر کہا، “جان، تمہارا گھر اور بھی خوبصورت ہے۔ بس ایک بار صاف ہو جائے۔”

پروین بھابی نے ان کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور فون نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف جواب سننے کے بعد وہ بولیں، “ایک گھر کو صاف کرنا ہے، کچھ لوگوں کو بھیج دو۔”

جواب آیا، “ابھی کوئی ٹیم نہیں ہے، کل صبح ہی گھر کو صاف کیا جا سکتا ہے۔”

پروین بھابی نے سنجیدہ لہجے میں کہا، “اپنے مینیجر سے بات کروائیں۔”

کچھ دیر بعد ایک نوجوان کی آواز آئی، “سلام علیکم آنٹی۔”

“وعلیکم سلام۔ مجھے ایک گھر کی صفائی کروانی ہے۔ آپ کی ٹیم کتنی دیر میں پہنچے گی؟” پروین بھابی نے حکمانہ انداز میں پوچھا۔

“دس منٹ میں، آنٹی،” دوسری طرف سے مودبانہ جواب آیا۔

“جتے رہو،” بھابی پروین نے فون بند کیا اور کچن کی طرف بڑھ گئیں۔

پروین بھابی کی مدد سے افشاں کو اطمینان ہوا کہ ان کا گھر جلد ہی صاف ہو جائے گا۔ یہ منظر افشاں کے لیے ایک راحت کا باعث بنا، کیونکہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ایک صاف ستھرے گھر میں رہنا چاہتی ہے

دس منٹ سے پہلے دروازے کی گھنٹی بجی۔ بھابی پروین نے دروازہ کھولا تو صفائی کرنے والی ٹیم اپنے اوزاروں کے ساتھ موجود تھی۔ انہوں نے پوچھا کہ کون سے اپارٹمنٹ کی صفائی کرنی ہے۔ بھابی پروین نے جواب دیا، “سامنے کا اپارٹمنٹ۔” افشاں اور نایاب بھی باہر آگئیں۔ افشاں نے بتایا کہ دروازہ نہیں کھل رہا۔ ٹیم نے کہا، “کچھ سال پہلے جمال صاحب نے یہاں دیمک سے بچنے کے لیے ایک خاص سپرے کروایا تھا۔ اپارٹمنٹ میں بدبو آ سکتی ہے، براہ کرم اپنا دروازہ بند کریں اور ہمیں چند گھنٹے دیں۔ ہم پوری کوشش کریں گے۔”

ٹیم نے اپنا کام شروع کیا۔ کچھ دیر بعد پھر دروازے کی گھنٹی بجی۔ افشاں نے دروازہ کھولا تو ایک نوجوان اور ایک سکیورٹی گارڈ کھڑے تھے۔ نوجوان نے پوچھا، “یہ اپارٹمنٹ کس نے کھولا ہے؟”

اس سے پہلے کہ افشاں کچھ کہتی، سکیورٹی گارڈ بولا، “سلام علیکم چھوٹی بی بی جی۔”

“وعلیکم سلام... شکور بھائی؟” افشاں نے حیرانی سے پوچھا۔

“جی بی بی جی۔ کیسے ہیں ؟”

“سب اوپر والے کا کرم ہے۔ آپ کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔”

نوجوان نے حیرت سے پوچھا، “آپ انہیں جانتے ہیں؟”

شکور بولا، “یہ پوری سوسائٹی کی مالک ہیں۔”

نوجوان حیران ہوا مگر خاموشی سے واپس چلا گیا۔

 

چند گھنٹوں بعد ٹیم نے صفائی مکمل ہونے کی اطلاع دی۔ افشاں نے چارجز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا، “آپ کو بل ملے گا، آپ دفتر جا کر یا آن لائن ادائیگی کر سکتی ہیں۔” افشاں نے انہیں ٹپ دی اور دعا کی درخواست کی۔

بھابی پروین نے کہا، “اب تم لوگ اپنے گھر چلے جاؤ، سامان بعد میں لے آنا۔” نایاب بھاگ کر جانا چاہتی تھی مگر افشاں نے روکا۔ ننھی پری نے ماں کی بات مان لی۔ دروازے پر رک کر افشاں نے نایاب کا ہاتھ تھاما اور دھیرے سے کہا، "آؤ، میرے ساتھ دعا پڑھو۔" ماں بیٹی نے مل کر دعا پڑھی اور "بسم اللہ" کہتے ہی سیدھا قدم اندر رکھا، جیسے ایک نئے سفر کی دہلیز پار کر رہی ہو۔

ننھی نایاب کے لیے گھر کی وسعت یا سجاوٹ کوئی معنی نہیں رکھتی تھی۔ اس کی نظریں سیدھا ہال میں آویزاں ایک بڑی تصویر پر جم گئیں۔ وہ تیز قدموں سے آگے بڑھی، جیسے کسی ان دیکھے جذبے نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا ہو۔

یہ تصویر… وقت کے کسی اور دور کی گواہ تھی۔ اس میں افشاں مسکراتی ہوئی کھڑی تھی، اس کا ہاتھ عماد کے کندھے پر رکھا ہوا تھا۔ نایاب نے معصوم حیرت سے تصویر کو دیکھا، پھر پلٹ کر ماں کی طرف متجسس نظروں سے دیکھا۔

"مماں، آپ اس تصویر میں کتنی خوبصورت لگ رہی ہیں! یہ بابا جانی ہیں؟"

نایاب کی آواز میں معصومیت تھی، مگر افشاں کے دل پر جیسے کوئی بجلی گری ہو۔ اس کے قدم وہیں جم گئے، سانسیں بے ترتیب ہو گئیں، اور ماضی کی پرچھائیاں ایک لمحے میں آنکھوں کے سامنے ناچنے لگیں…

افشاں کا دل رک سا گیا۔ برسوں بعد عماد کی تصویر دیکھی۔ حیرت ہوئی کہ نایاب نے نہ صرف پہچانا، بلکہ “بابا جانی” کہا، حالانکہ اس نے کبھی ایسا نہیں سکھایا تھا۔

ننھی پری نے کہا، “میں بابا جانی سے ملنا چاہتی ہوں۔”

افشاں کی آنکھیں نم ہو گئیں۔

یہ لمحہ افشاں کے لیے جذبات کا طوفان لے آیا۔ وہ نایاب کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی، جو معصومیت سے اپنے باپ کی تصویر کو تک رہی تھی۔ افشاں نے دھیرے سے پوچھا، "بیٹا، تم نے بابا جانی کو کیسے پہچانا؟"

نایاب نے مسکرا کر کہا، "پتا نہیں مماں، دل نے بس کہہ دیا کہ یہ بابا جانی ہیں۔"

افشاں نے نایاب کو گلے لگا لیا۔ آنسو ضبط کرنے کی کوشش کے باوجود اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ یہ معصوم خواہش، یہ ننھی سی ضد... سب کچھ اس کے دل کو چیر رہا تھا۔

"ان شاء اللہ، بیٹا... ایک دن..." اس نے نایاب کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

نایاب نے خوش ہو کر سر ہلایا، "پکا نا، مماں؟"

افشاں نے مسکراتے ہوئے آنکھوں کی نمی چھپائی، "پکا، میری جان۔"

یہ وعدہ، یہ امید، شاید وقت کے ساتھ ان کی زندگی میں کوئی نیا موڑ لے آئے۔ کیا واقعی ایسا ہوگا؟ افشاں کے دل میں سوالات تھے، مگر نایاب کی خوشی کے آگے اس نے سب سوچیں پسِ پشت ڈال دیں

نایاب نے معصومیت سے چمکتی آنکھوں کے ساتھ پوچھا، "مما، کیا بابا جانی کے خاندان میں اور بھی لوگ ہیں؟ کیا وہ سب ہمارے اپنے ہیں؟"

افشاں نے نایاب کی امید بھری آنکھوں کو دیکھا تو دل جیسے کسی نرم تار کو چھو گیا۔ اس نے گہری سانس لے کر نرمی سے کہا، "ہاں میری جان، تمہارے بابا جانی کا خاندان بہت بڑا ہے۔ وہاں بہت سے لوگ ہیں، تمہارے چچا، پھپھیاں، اور تمہارے ہم عمر کزنز بھی۔"

نایاب کی آنکھیں امید اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے بھر گئیں۔ وہ بے ساختہ بولی، "کیا وہ مجھ سے پیار کریں گے؟ کیا وہ میرے ساتھ کھیلیں گے؟ کیا وہ مجھے اپنے جیسا سمجھیں گے؟"

افشاں کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ ماضی کے دکھ پل بھر میں آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ وہ دن یاد آئے جب نایاب تنہائی میں دبکی رہتی تھی، اجنبی چہروں سے چھپتی پھرتی تھی۔ مگر آج، وہی نایاب اپنے لیے ایک نئی دنیا، نئے رشتے مانگ رہی تھی۔ ماں کا دل جذبات سے لبریز ہو گیا۔

اس نے نایاب کو سینے سے لگایا، اس کی پیشانی چومی اور بھرائی ہوئی آواز میں بولی، "میری جان، سب تم سے بہت پیار کریں گے۔ تم ان کے دلوں کی دھڑکن بن جاؤ گی۔ تمہارے قہقہے ان کے آنگن میں خوشیاں بکھیر دیں گے۔ تمہارے ننھے ہاتھ ان کے دلوں کو چھو جائیں گے۔ تم وہ چمکتا ستارہ ہو، جس کی روشنی سب کی زندگی کو روشن کر دے گی۔"

نایاب کی آنکھوں میں خوابوں کے رنگ بھرنے لگے۔ وہ ایسے مسکرائی جیسے اپنے نئے خاندان کے ساتھ بیتے خوشگوار لمحوں کو دیکھ رہی ہو۔ افشاں نے بیٹی کے خوابوں میں خود کو شامل کر لیا۔ اسے لگا، جیسے نایاب کا چھوٹا سا جہاں اب وسیع ہو رہا تھا، اور وہ اس امید اور خوشی کے رنگ دیکھ کر دل ہی دل میں شکر گزار ہو گئی۔

افشاں نے گھر کا جائزہ لینے کے لیے نظریں دوڑائیں۔ ہر کونا، ہر دیوار جیسے خاموشی سے ان کی کہانی سنا رہی تھی۔ وہ باورچی خانے کی طرف بڑھی، اس کے قدموں کی مدھم چاپ سنسان گھر میں گونجنے لگی۔ دروازہ کھولتے ہی جذبات کا طوفان اس پر ٹوٹ پڑا۔ باورچی خانہ بالکل ویسا ہی تھا—وقت جیسے رک گیا ہو۔

اس کی نظریں چولہے پر جم گئیں، اور اچانک وہ ان حسین لمحوں میں کھو گئی۔ وہ عماد کی کھنکتی ہنسی سن سکتی تھی، اس کے چہرے پر وہی شرارتی مسکراہٹ ابھر آئی تھی جو کھانا بناتے ہوئے اکثر اسے چھیڑ دیا کرتی تھی۔ وہ لمحہ یاد آیا جب وہ اس کا ذائقہ چکھتا اور مذاق میں ناک بھوں چڑھا کر کہتا، 'مزہ تو آیا نہیں، ایک بار اور بنا کر دو۔' اور پھر دونوں ہنس ہنس کر دہری ہو جاتے۔

اسے وہ صبحیں یاد آئیں جب چائے کے کپ تھامے وہ زندگی کے خواب بُنتے تھے، اور وہ شامیں جب مل کر کھانا بناتے تھے۔ عماد سبزی کاٹتے ہوئے خود کو ماہر شیف سمجھتا تھا، مگر اس کے بعد جو کچن کا حال ہوتا، وہ دونوں مل کر صاف کرتے، ہنسی مذاق کے ساتھ۔ ان یادوں کی خوشبو آج بھی کچن میں بسی ہوئی تھی۔

افشاں نے لرزتے ہاتھوں سے کاؤنٹر پر ہاتھ پھیرا، ان خراشوں کو محسوس کیا جو ان کی زندگی کے انمول لمحوں کے گواہ تھے۔ اس نے الماری کھولی تو وہی پلیٹیں نظر آئیں، جو ایک ویک اینڈ پر بازار سے ہنستے مسکراتے خریدی تھیں۔ عمدر نے ضد کر کے سنہری کناروں والی پلیٹیں خریدی تھیں کیونکہ اس نے کہا تھا، 'یہ تمہاری آنکھوں جیسی چمک رہی ہیں۔' افشاں کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔

ایک پلیٹ اٹھاتے ہوئے اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ لمحے، وہ قہقہے، وہ محبت—سب پلک جھپکتے سامنے آ گیا۔ یادوں کا بوجھ دل پر پہاڑ بن کر آن بیٹھا۔ وہ اپنے آنسو ضبط نہ کر سکی۔

تبھی، نایاب کی معصوم آواز سنائی دی۔ 'مما؟' اس آواز نے اسے حال میں کھینچ لیا۔ افشاں نے گہری سانس لی، اپنے آنسو پونچھے، اور پلیٹ کو آہستہ سے واپس رکھ دیا۔

عماد اب یہاں نہیں تھا، لیکن اس کی محبت، اس کی خوشبو، ان لمحوں کی حرارت ہر دیوار میں زندہ تھی۔ نایاب کی ہنسی میں، اس گھر کے گوشے گوشے میں۔

باورچی خانے سے نکلتے ہوئے اس نے مدھم آواز میں کہا، 'مجھے تمہاری بہت کمی محسوس ہوتی ہے، عماد۔ لیکن میں آگے بڑھوں گی، ہمارے لیے، نایاب کے لیے۔'

یہ کہہ کر اس نے آنکھوں کی نمی صاف کی اور مضبوط قدموں کے ساتھ باہر نکل گئی۔

نایاب نے اپنی معصوم، بھیگی آنکھوں سے گھر کے دوسرے کونے کی طرف جھانکا۔ اس کی نظروں میں بے یقینی اور خوف کی جھلک تھی۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا، "مما، میں اپنے کمرے میں جانا چاہتی ہوں..." لیکن پھر اس کے الفاظ حلق میں اٹک گئے۔ اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی گھبراہٹ پھیل گئی، جیسے کمرے تک پہنچنے کا راستہ اجنبی ہو، جیسے وہ ڈر رہی ہو کہ وہاں سب کچھ ویسا نہ ہو جیسا وہ سوچتی تھی۔

نایاب نے بےبس نظروں سے پیچھے مڑ کر افشاں کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاموش التجا تھی، جیسے کہہ رہی ہو، 'مجھے اکیلا مت چھوڑنا۔' لرزتی ہوئی آواز میں بولی، "مما... کیا آپ میرے ساتھ چلیں گی؟"

افشاں کا دل بیٹی کی اس سادہ سی فرمائش پر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ صرف ساتھ چلنے کی درخواست نہیں ہے، یہ تحفظ، محبت، اور یقین دہانی کی صدا تھی۔ اس نے جھک کر نایاب کا ننھا سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیا۔ "ہاں میری جان، میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہمیشہ رہوں گی۔ کبھی دور نہیں جاؤں گی۔" اس کی آواز میں ایک ایسا وعدہ تھا جو وقت کی قید سے آزاد تھا۔

دونوں نے آہستہ آہستہ ہال میں قدم بڑھانا شروع کیا۔ نایاب کی چھوٹی انگلیاں افشاں کی ہتھیلی میں گندھی ہوئی تھیں، اور ہر قدم کے ساتھ وہ ایک نئی امید، ایک نئے اعتماد کے ساتھ اپنے کمرے کے قریب جا رہی تھی۔ افشاں کے ذہن میں ماضی کے وہ لمحے روشن ہونے لگے جب نایاب اس کے بطن میں تھی، اور وہ ننھا سا کمرہ محبت سے سجایا تھا۔ دیواروں پر گلابی رنگ، کھلونوں کا ڈھیر، خوابوں سے بھری چھوٹی سی دنیا۔ مگر آج... آج وہی کمرہ کسی بچھڑے ہوئے خواب کی طرح محسوس ہو رہا تھا۔

دروازہ کھولا تو لمحہ بھر کے لیے سانسیں تھم گئیں۔ کمرہ تو وہی تھا، گڑیا، کتابیں، چھوٹی میز... سب اپنی جگہ پر تھا، مگر پھر بھی کچھ بدل چکا تھا۔ دیواروں پر جیسے خاموشی نے بسیرا کر لیا ہو۔ کمرہ بھی شاید نایاب کی ہنسی کا منتظر تھا۔

نایاب نے جھجھکتے ہوئے قدم اندر رکھے۔ اس کے چہرے پر خوشی اور خوف کا ایک ملا جلا رنگ ابھرا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، پھر اپنی نظریں افشاں پر گاڑ دیں۔ اس کی آنکھیں نم تھیں، آواز کپکپائی، "مما... کیا یہ میرا کمرہ ہے؟" جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو کہ یہ سب واقعی اس کے لیے ہے۔

افشاں نے آگے بڑھ کر نایاب کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ اس کا ننھا سا سر سینے سے لگا لیا اور پیار سے کہا، "ہاں میری چاند، یہ تمہارا کمرہ ہے۔ تمہاری چھوٹی سی سلطنت۔ یہاں تم کھیلنا، ہنسنا، خواب دیکھنا۔ اور یاد رکھو، میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں گی۔ کبھی بھی تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گی۔"

نایاب نے آنکھیں بند کر لیں۔ افشاں کے سینے کی گرمی، اس کی بانہوں کی مضبوطی... یہ سب جیسے اس کا قلعہ بن گئے تھے، جہاں کوئی خوف، کوئی درد داخل نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ سکون کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی، جہاں صرف ماں کی محبت کی روشنی تھی۔

کچھ ہی دیر بعد، نایاب چاندنی رات کی نرم و لطیف روشنی کی طرح پرسکون ہو کر، افشاں کی ممتا کی آغوش میں گہری نیند کی وادیوں میں اتر چکی تھی۔ افشاں نے اپنے بیڈروم میں جانے سے پہلے بھابی پروین سے گھر جا کر اپنا اور نایاب کا سامان لا رکھا تھا۔ ساتھ ہی، اس نے بھابی سے قریبی اسٹور کا فون نمبر بھی لے لیا تھا، تاکہ وہ اپنی ضرورت کی چیزیں آسانی سے منگوا سکے۔

کچھ ہی دیر بعد، نایاب چاندنی رات کی نرم، دودھیا روشنی کی مانند سکون میں ڈوب کر، افشاں کے دل کے سائے میں پناہ لے چکی تھی۔ ماں کی مامتا کا لمس پا کر، وہ خوابوں کی حسین وادیوں میں گم ہو گئی تھی۔ افشاں نے اپنے بیڈروم میں جانے سے پہلے، بھابی پروین سے گھر جا کر اپنا اور نایاب کا ضروری سامان لا رکھا تھا۔ جاتے ہوئے، اس نے بھابی سے قریبی اسٹور کا فون نمبر بھی لے لیا تھا تاکہ آئندہ ضرورت کے وقت کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔

جب افشاں اپنے خوابگاہ میں داخل ہوئی، تو در و دیوار جیسے خاموش زبان میں اس کا استقبال کرنے لگے۔ ہر کونا، ہر دیوار، ہر سانس اسے عماد کی محبت کا قصہ سنانے لگا۔ اس کا دل ایک دم یوں دھڑکا جیسے کسی نے بےاختیار اس کا ہاتھ تھام کر، آنکھوں میں جھانک کر کہہ دیا ہو، "تم تنہا نہیں ہو، میں یہیں ہوں۔"

اس لمحے اس کے اندر جذبات کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا۔ آنکھوں کے سامنے وہ حسین دن ایک فلم کی طرح چلنے لگے، جب اس نے اور عماد نے اس کمرے میں خواب بُنے تھے، محبت کی سرگوشیاں کی تھیں، زندگی کو تتلیوں کے پروں پر سجا کر، قہقہوں کی مالا میں پرویا تھا۔ وہ بیڈ کا کونا جہاں عماد سوتا تھا، آج بھی اس کی حدت لیے ہوئے تھا۔ وہ تکیہ، جس میں اس کی سانسوں کی خوشبو رچی بسی تھی، جیسے آج بھی کہہ رہا ہو کہ "میں نے تم دونوں کی محبت دیکھی ہے، میں نے تمہارے خواب سنے ہیں۔"

افشاں کی آنکھوں میں نمی اتر آئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ ابھی باتھ روم کا دروازہ کھلے گا، اور عماد تولیہ کندھے پر ڈالے، شرارت بھری مسکراہٹ لیے باہر آئے گا۔ جیسے پہلے آیا کرتا تھا۔ جیسے ہر روز اس کی نظروں کا محور بن کر، اس کی زندگی کو خوشبوؤں سے بھر دیتا تھا۔

کمرے میں پھیلی ہر چیز میں اس کی موجودگی کی مہک تھی۔ دیواروں پر لگے وہ عکس، جن میں کبھی وہ دونوں ساتھ ہنستے مسکراتے تھے، آج بھی سانس لیتے محسوس ہو رہے تھے۔ پردوں کی ہلکی سی جنبش میں عماد کی آہٹ گونج رہی تھی، فرش پر اس کے قدموں کے نشان چھپے ہوئے تھے، اور ہوا میں اس کے لمس کی گرمی تحلیل تھی۔

افشاں نے تھکے ہوئے وجود کو بیڈ پر ڈالا، مگر یہ تھکن جسم کی نہیں، روح کی تھی۔ اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ دل میں کوئی ٹوٹا ہوا ساز بج اٹھا، اور ہر سُر عماد کے نام سے جڑا ہوا تھا۔ وہ یادیں صرف ماضی کا قصہ نہ تھیں، بلکہ آج بھی اس کی سانسوں میں زندہ تھیں، اس کے دل کی دھڑکنوں میں تحلیل تھیں۔

یہ لمحے افشاں کے لیے کسی خزانے سے کم نہ تھے۔ یہ یادیں، یہ خوشبوئیں، یہ دھڑکنیں… سب کچھ عماد کا دیا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ہر سانس، ہر آہٹ، ہر دھڑکن میں عماد نے اپنا عکس چھوڑ دیا ہو۔ جیسے وہ گیا ہی نہ ہو… بلکہ محبت کی صورت ہر پل افشاں کے دل میں دھڑک رہا ہوافشاں نے وضو کیا، پانی کے ہر قطرے نے جیسے اس کے بوجھل دل کو چھوا اور بہتے ہوئے آنسوؤں میں شامل ہو گیا۔ اس نے مصلے پر کھڑے ہو کر نماز ادا کی، پیشانی سجدے میں رکھی تو دل کے زخم جیسے اللہ کے حضور کھل کر رو دیے۔ اس نے التجا بھری آواز میں دُعا کی:

"یااللہ! مجھے ہمت دے… طاقت دے کہ میں ان طوفانوں کا سامنا کر سکوں، جنہوں نے میری زندگی کو گھیر رکھا ہے۔ میری ننھی پری نایاب کو اس کے اپنوں سے ملوادے، میری گود کو محرومیوں سے بچا لے، اور میرے قدموں کو مضبوطی عطا کر دے!"

الفاظ زبان سے نکل رہے تھے، مگر اصل دعا تو اس کے دل کے ٹوٹے ہوئے ٹکڑے کر رہے تھے۔ لیکن افشاں جانتی تھی، یہ راستہ آسان نہیں تھا۔ یہ کانٹوں سے بھرا سفر تھا، جہاں ہر قدم پر آزمائش تھی، ہر موڑ پر زخم منتظر تھے۔ عبداللہ سے اپنی ذات کو آزاد کروانا، مالی مسائل کی دلدل سے نکلنا، اور زندگی کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو دوبارہ جوڑنا… یہ سب اس کے سامنے چٹان کی مانند کھڑے تھے۔

کیا افشاں اپنی زنجیریں توڑ پائے گی؟
کیا وہ عبداللہ کے سائے سے ہمیشہ کے لیے نکل سکے گی؟
کیا مالی مشکلات کا یہ طوفان اسے بہا لے جائے گا یا وہ اس کے خلاف ڈٹ جائے گی؟
کیا وہ اپنی بکھری ہوئی زندگی کے ٹکڑوں کو جوڑنے میں کامیاب ہو پائے گی؟

یہ سب جاننے کے لیے، پڑھیے اگلی قسط!

 

 

قسط ۸

افشاں کی جیب خالی تھی، آنکھیں خوابوں سے، اور دل وسوسوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے پاس پیسوں کی شدید کمی تھی۔ عبداللہ کے گھر سے نکلتے ہوئے وہ صرف اپنی بچی کو اٹھا لائی تھی، نہ کوئی کپڑے، نہ زیور، نہ کوئی اور سامان۔ زندگی جیسے بس نایاب کے ننھے وجود میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔

دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔ اس نے ہلکے ہاتھوں سے الماری کا دروازہ کھولا۔ اندر پانچ سال پرانے کپڑے، پلاسٹک میں لپٹے، جیسے وقت کی گرد سے بچا کر اس نے اپنے خواب محفوظ رکھے تھے۔ ان کپڑوں کو چھوتے ہی وہ گزرے دن آنکھوں کے سامنے لہرانے لگے—وہ مسکراتی شامیں، وہ محبت بھرے لمحے، عماد کے ساتھ بیتا ہر پل جو اس کے وجود کا حصہ تھا۔

ساتھ والی الماری پر نظر پڑی—عماد کی الماری۔ افشاں کا ہاتھ کانپ گیا۔ سانس رُک سی گئی۔ دل میں عجیب سا کھچاؤ، جیسے زخم پھر سے ہرے ہو گئے ہوں۔ ایک لمحے کو جی چاہا کہ الماری کھول کر عماد کی خوشبو میں کھو جائے، لیکن اگلے ہی لمحے خوف نے آگھیرا۔ اگر اس خوشبو نے اسے مکمل توڑ دیا تو؟ اگر یہ یادیں اس کی ہمت کو ریزہ ریزہ کر گئیں تو؟

افشاں نے اپنے آنسو ضبط کیے، جھجکتے ہوئے اپنے کپڑوں کا ایک جوڑا نکالا، اور کپڑے بدل کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ کمرے کی خاموشی میں، دل کے سوال گونج رہے تھے۔

تب اچانک ایک اور خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوندا—اس کا بینک اکاؤنٹ! وہی اکاؤنٹ جو شادی کے بعد کھولا تھا، جس میں کچھ رقم موجود تھی۔ امید اور خدشے کی ملی جلی کیفیت نے اس کا دل بےچین کر دیا۔ کیا وہ اکاؤنٹ اب بھی فعال ہوگا؟ کیا اس میں رقم باقی ہوگی؟

یہ سوال اس کی بےبسی اور امید کے درمیان جھول رہا تھا۔ مگر اس چھوٹی سی امید نے اس کے اندر ہمت کا دیا جلا دیا۔

افشاں نے آنکھیں موند کر گہرا سانس لیا، آنسوؤں کو پلکوں میں سمیٹتے ہوئے ایک بار پھر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے:

"یااللہ! میرے لیے آسانیاں پیدا کر دے… میری بیٹی کی خاطر… میں ہر مشکل جھیل لوں گی، بس مجھے تھام لے!"

اس کے لیے اب زندگی کا واحد مرکز نایاب تھی۔ اس ننھی جان کے لیے وہ ہر طوفان سے لڑنے کو تیار تھی، چاہے اس راہ میں اسے خود کو کتنی ہی بار توڑنا کیوں نہ پڑے۔

افشاں کو یہ یاد نہیں تھا کہ وہ کب نیند کی وادی میں خوابوں کی چادر اوڑھ کر اُتر گئی تھی۔ بس اتنا محسوس ہوا کہ پلک جھپکی اور وقت نے پر لگا لیے۔ صبح دروازے کی گھنٹی نے اس کی پرسکون نیند کو جھنجوڑا تو وہ ہڑبڑا کر جاگ اٹھی۔ سانسیں ذرا تیز، دل کی دھڑکن بے ترتیب، مگر ماں کی جبلت نے فوراً اسے اپنے حال میں واپس کھینچ لیا۔ اس نے دوپٹہ سنبھالا، کپڑوں کی شکنیں درست کیں، اور بستر سے اُٹھ کر باہر نکلی تو ننھی نایاب کو ہال میں کھیلتے دیکھ کر لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔

دروازہ کھولا تو سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی، سفید کوٹ میں ملبوس، لیکن چہرہ ایک نوٹ بک کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ نوٹ بک کے نیچے سے جھانکتا اسٹیتھوسکوپ گویا اس کے وقار اور محنت کی گواہی دے رہا تھا۔ افشاں نے ایک پل کو حیرت سے دیکھا، پھر دل نے چہک کر صدا دی، "چٹکی!"

چٹکی نے نوٹ بک ہٹائی، اور جیسے ہی دونوں کی نظریں ملیں، وقت پیچھے پلٹ گیا۔ آنکھوں میں یادوں کی بارش ہوئی، اور دونوں  ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔  پرانی یادیں سب پل بھر میں تازہ ہو گئیں۔ خوشی کے آنسو ضبط کی دیوار توڑ کر گالوں پر پھسلنے کو بے تاب تھے۔

اسی لمحے شکور صاحب اپنی بیوی کے ساتھ لیفٹ سے نکلے، سلام دعا ہوئی، اور سب گھر کے اندر آ گئے۔ افشاں نے نایاب کو آواز دی۔ ننھی نایاب دوڑتی ہوئی ماں کے پاس آئی اور سب کو مؤدبانہ سلام کیا۔ چٹکی فرش پر بیٹھ گئی، نظریں محبت سے لبریز، اور ہاتھ پھیلا کر بولی، "آؤ، مجھ سے گلے لگو۔"

نایاب نے جھجک کر ماں کی طرف دیکھا۔ افشاں نے حوصلہ دیا، "یہ تمہاری باجی شبانہ ہے، بیٹا۔" نایاب نے معصومیت سے کہا، "یہ میری باجی شبانہ نہیں ہے، یہ تو دی شبو ہے!"

افشاں اور چٹکی دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ انہیں یاد آیا کہ ایک بار عمادنے مذاق میں کہا تھا، "چٹکی جب ڈاکٹر بن جائے گی تو اسے چٹکی نہیں، 'دی شبو' کہا جائے گا۔"

چٹکی کی ماں محبت سے بھرا ناشتہ لے کر آئی تھیں۔ نوالے میں ماں کی محبت کی خوشبو رچی بسی تھی۔ کھانے کے دوران شبانہ نے بتایا کہ وہ میڈیکل کالج کے آخری سال میں ہے اور ہسپتال میں سینئر ڈاکٹروں کے ساتھ کام بھی کرتی ہے۔ گفتگو کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ جمال نے رائل ریذیڈنسی خرید کر اس کا نام 'نایاب رائل ریذیڈنسی' رکھا ہے۔ شکور کو چیف سیکیورٹی گارڈ مقرر کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ جمال نے چٹکی اور اس کے گھر والوں کو اپنے پراجیکٹ میں ایک فلیٹ بھی دیا ہے، مگر شرط رکھی ہے کہ جب تک چٹکی ڈاکٹر بن کر اچھی نوکری نہیں کر لیتی، کرایہ نہیں لیا جائے گا۔

افشاں کا دل کچھ بجھ سا گیا۔ وہ جذباتی ہو کر بولی، "کیا جمال کو پیسوں کی ضرورت ہے کہ وہ تم لوگوں سے کرایہ لے گا؟ جس فلیٹ میں تم رہ رہی ہو، وہ تمہارا ہی رہے گا۔ نہ کرایہ ہوگا، نہ کوئی واپسی کی شرط۔ یہ گھر تمہارا ہے، ہمیشہ کے لیے۔"

چٹکی کا دل بھر آیا۔ اس نے آنکھوں میں چمکتے آنسو چھپانے کی کوشش کی، مگر مسکراہٹ ان آنسوؤں کا لباس بن گئی۔ اس نے افشاں کا ہاتھ تھام کر کہا، "باجی، تمہاری موجودگی کے بغیر سب کچھ ادھورا تھا۔ تمہارے واپس آنے سے میری زندگی مکمل ہو گئی ہے۔"

افشاں نے چٹکی کے سر پر ہاتھ رکھا، محبت اور فخر کے جذبات سے لبریز ہو کر کہا، "میں نے ایک خواب دیکھا تھا، اور تم میری اس امید کا روشن چراغ ہو۔ میں تم پر فخر کرتی ہوں، چٹکی!"

نایاب نے اپنی معصوم بانہوں میں چٹکی کو جکڑ لیا اور کھلکھلا کر بولی، "دی شبو! تم سپرمین نہیں، سپر وومن ہو!"

سب کے قہقہے گھر کے ہر گوشے میں گونجنے لگے۔ خوشی، محبت، اپنائیت... یہ گھر ایک بار پھر زندہ ہو گیا تھا۔ افشاں نے گہری سانس لی، دل ہی دل میں دعا کی کہ یہ خوشیاں کبھی ماند نہ پڑیں۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ لمحہ اس کے لیے کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں۔ اس کی دنیا پھر سے آباد ہو گئی تھی، اور دل میں محبت اور سکون کا دیا جل رہا تھا

 

ناشتے کے بعد افشاں نے دھیمے مگر پُرتاثیر لہجے میں دریافت کیا، "آج تم ہسپتال جاؤ گی یا کالج کا رخ کرو گی؟"

شبانہ نے نرم مسکراہٹ کے ساتھ، مگر آنکھوں میں خلوص کی چمک لیے جواب دیا، "نہیں، آج کا دن میں نے صرف آپ سب کے لیے مخصوص کر رکھا ہے۔"

رخصت ہونے سے قبل، افشاں نے قدم روک کر شکور پر گہری نگاہ ڈالی اور ٹھہرے ہوئے مگر قطعی لہجے میں کہا، "شکور بھائی، ہمارے معاملے پر جمال یا کسی اور سے کوئی بات نہ چھیڑنا، یاد رہے؟"

شکور نے سر جھکا کر مؤدبانہ لہجے میں کہا، "جی چھوٹی بی بی جی، آپ اطمینان رکھیے۔"

کچھ لمحے بعد، افشاں نے شبانہ کی جانب رخ کیا اور نرمی مگر عزم بھری آواز میں کہا، "مجھے چند ضروری اشیاء خریدنی ہیں، کیا تم میرے ساتھ مارکیٹ چلو گی؟"

شبانہ نے خوش دلی سے مسکراتے ہوئے کہا، "کیوں نہیں باجی، میں تو ہمیشہ آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔"

افشاں کی نظر پھر نایاب پر جا ٹھہری۔ ایک مانوس سی شرمیلی مسکراہٹ لبوں پر سجائے، قدرے جھجھکتے ہوئے بولی، "کیا دی شبو تمہیں تیار کر سکتی ہے؟ میں جانتی ہوں، آج تک تم نے کبھی کسی کو اپنے لیے یہ فریضہ انجام دینے نہیں دیا۔"

نایاب نے بغیر کسی توقف کے، چمکتی آنکھوں سے جواب دیا، "ہاں، کیوں نہیں! میں فوراً تیار ہو جاتی ہوں۔"

افشاں چند لمحے حیرت اور خوشگوار استعجاب کے عالم میں ننھی نایاب کو دیکھتی رہی، جو دی شبو کا ہاتھ تھامے پہلے ہی جانے کو مچل رہی تھی۔ اس پل، افشاں کے دل میں تشکر اور محبت کی ایک گرم لہر دوڑ گئی—ایسی لہر جو اس کے وجود کو اندر سے سیراب کر گئی۔

تیار ہونے کے بعد افشاں نے دراز کھولی، انگلیاں چیک بک پر جم گئیں۔ اسے پرس میں رکھتے ہوئے اس کے دل میں ایک اضطرابی دعا ابھری کہ خدا کرے اکاؤنٹ میں اتنی رقم ہو کہ زندگی کے ناگزیر اخراجات کی چکی میں پِسنے سے بچ جائے۔ وہ بینک کی طرف قدم بڑھانے لگی، ساتھ شبانہ اور نایاب سائے کی طرح ہم قدم تھے۔

بینک پہنچ کر شبانہ اور نایاب انتظار گاہ میں دبک کر بیٹھ گئیں، جبکہ افشاں نے مضبوط قدموں کے ساتھ لائن میں جگہ بنائی۔ چند لمحے گزرے، جیسے وقت بوجھل ہو گیا ہو۔ بالآخر اس کا نمبر آیا۔ اس نے چیک بک کیشئیر کے آگے رکھی اور پرسکون مگر پُر اضطراب لہجے میں بولی، "میرا اکاؤنٹ بیلنس چیک کر دیں۔" کیشئیر نے چیک بک پر ایک سرسری نگاہ ڈالی، اور بے زاری سے کہا، "یہ تو بہت پرانی ہے، آپ کو منیجر سے رجوع کرنا ہوگا۔

"

اگر افشاں کا بینک اکاؤنٹ فعال ہوتا ہے اور اس میں کچھ رقم موجود ہوتی ہے، تو یہ اس کے لیے امید کی ایک کرن ثابت ہوگی۔ وہ فوری طور پر ضروری اشیاء خریدنے، رہائش اور اپنی بیٹی نایاب کے اخراجات کے بارے میں سوچ سکتی ہے۔

لیکن اگر اس کا اکاؤنٹ بند ہو چکا ہو یا اس میں رقم نہ ہو، تو یہ اس کے لیے ایک نیا امتحان ہوگا۔

 

اگلی قسط میں۔۔۔

قسط ۹

افشاں نے منیجر کے کمرے کی طرف قدم بڑھایا، لیکن سیکورٹی نے اسے روک کر کہا، "معاف کیجئے، آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔" وہ قریب کی کرسی پر بیٹھ گئی اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگی کہ آج اس کا کام ہو جائے

بالآخر منیجر نے اسے اندر بلایا۔ افشاں کی نگاہوں میں امید کی جھلک تھی، مگر منیجر کے الفاظ نے گویا اس کی روح کو چیر دیا۔ "نئی چیک بک کے لیے چند ہفتے انتظار کرنا ہوگا۔" افشاں کا دل یکدم ڈوب گیا۔ ایسا لگا جیسے اس کی آخری امید بھی ہوا میں تحلیل ہو گئی ہو۔

منیجر نے توقف کے بعد کہا، "ایک صورت ہے، عارضی اے ٹی ایم کارڈ۔ مگر... روزانہ کی رقم نکالنے کی حد صرف دس ہزار ہے۔" افشاں نے اثبات میں سر ہلایا، مگر اندر ہی اندر اندیشے اسے گھیرنے لگے۔ کیا واقعی اس کے اکاؤنٹ میں کچھ رقم ہے بھی یا نہیں؟

اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا، "پانچ سال بعد آئی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرا اکاؤنٹ ابھی فعال بھی ہے یا سب کچھ ختم ہو چکا؟"

منیجر نے تسلی دی، "کوئی مسئلہ نہیں، مگر آپ کے شناختی کارڈ اور فنگر پرنٹس سے تصدیق درکار ہوگی۔" افشاں نے شناختی کارڈ دکھایا، مگر ایڈریس پر مسئلہ تھا۔ منیجر نے پیشہ ورانہ اعتماد سے کہا، "ہم بائیومیٹرک تصدیق سے آپ کا معاملہ دیکھ لیتے ہیں۔"

چند لمحوں بعد تصدیق مکمل ہوئی۔ منیجر نے کاغذ پر ایک نمبر لکھا اور افشاں کے سامنے رکھا۔ افشاں نے بے یقینی سے نمبر دیکھا، پھر دوبارہ دیکھا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ سات ملین سے زائد رقم؟ وہ بے ساختہ بولی، "یہ کس نے میرے اکاؤنٹ میں جمع کرایا ہے؟" منیجر نے اسکرین پر نظر دوڑائی، کمپنی کا نام لیا۔

افشاں کا دماغ جھماکہ ہوا—عماد کی کمپنی! اس کا مطلب تھا کہ عماد نے پچھلے پانچ سالوں میں ہر ماہ اس کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی تھی، بنا کسی اطلاع، بنا کسی احسان جتائے۔

افشاں نے لرزتے ہاتھوں سے عارضی اے ٹی ایم کارڈ لیا اور مستقل کارڈ و چیک بک کے لیے درخواست دی۔ اے ٹی ایم سے رقم نکال کر جب وہ بینک سے باہر نکلی تو گویا اس کے کندھوں سے برسوں کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو۔ دل کی دنیا بدل چکی تھی۔ مالی تحفظ کی یقین دہانی نے اسے ایک نئی طاقت بخش دی تھی۔ اس کے دل میں عماد کے لیے احترام، شکرگزاری اور ایک غیر محسوس سی قربت جاگ اٹھی۔ وہ سوچتی رہی کہ عماد نے دور رہ کر بھی اس کی زندگی کو سنبھالے رکھا تھا۔ یہ احساس اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر گیا تھا، جیسے کسی بکھرتی زندگی کو سہارا مل گیا ہو۔

 

یہ لوگ شام تک باہر گھومتے پھرتے رہے، نہ تھکن کی کوئی زنجیر ان کے قدموں کو روک سکی، نہ فکروں کا کوئی سایہ ان کے ہنستے چہروں پر پڑا۔ ننھی نایاب تو جیسے خوشی کی جیتی جاگتی تصویر بنی ہوئی تھی—نہ تھکن کی کوئی شکایت، نہ کسی رکاوٹ کا شکوہ۔ بلکہ ہر گزرتا لمحہ اس کے لیے خوابوں کی نئی وادی کھول دیتا، ہر منظر اس کے دل میں خوشی کے دیے جلاتا، جیسے وہ ہر پل کسی حسین مہم جوئی کی شہزادی ہو۔

افشاں کو وہ دن یاد آ گئے جب عماد شہر سے باہر ہوتا تھا، اور وہ اور شبانہ اسی طرح سارا دن گھر سے باہر گزارتے تھے۔ وہ لمحے، وہ آزادی، وہ بے فکری—سب کچھ ایک بار پھر ذہن میں تازہ ہو گیا۔ اتنی سالوں کے بعد، ایک بار پھر اس نے ایک بھرپور، توانا اور زندگی سے لبریز دن گزارا تھا۔ یہ دن اسے ماضی کی یاد دلا رہا تھا، جیسے وقت نے ایک چکر کاٹا ہو اور وہ پھر سے اپنی جوانی کی بے پرواہی میں لوٹ آئی ہو۔

رخصت ہونے سے ذرا پہلے، شبانہ نے دھیمے لہجے میں افشاں کو بتایا کہ کل شام اس کی ہسپتال میں ڈیوٹی ہے۔ اگر صبح افشاں کو کوئی اہم کام ہو تو وہ بے جھجک آ سکتی ہے۔ افشاں نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، "نہیں، کل ایسا کچھ خاص نہیں۔ ہاں، اگر تم چاہو تو آ جانا۔" مگر شبانہ کے مڑتے ہی، جیسے افشاں کے دل کی خلش نے اسے روک لیا۔ وہ ایک لمحے کو ٹھہری، پھر دھڑکتے دل سے کہا، "کیا تم کل صبح آ جاؤں گی؟۔"

جی۔ شبانہ نے جواب دیا

اصل میں، افشاں کے دل میں ایک بےنام سی بےچینی کروٹیں لے رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ عبداللہ والے معاملے کا بوجھ اب اور نہیں اٹھایا جا سکتا۔ اس کی روح چاہتی تھی کہ کسی ماہر وکیل کے پاس جا کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے۔ جیسے وہ اپنی زندگی سے ایک کانٹا نکال پھینکنا چاہتی ہو، تاکہ سکون کا ایک نرم جھونکا اس کے دل کی ویران زمین کو چھو جائے۔ تاکہ وہ اس بےآرامی کے اندھیرے سے نکل کر سکھ کے اجالے میں سانس لے سکے۔

 

کئی سالوں بعد، افشاں ایک بار پھر اپنے کچن میں کھڑی تھی، ناشتہ بناتے ہوئے۔ مگر آج یہ کچن، یہ برتن، یہ چولہا… سب کچھ اجنبی سا لگ رہا تھا۔ اس کے سامنے اس کی ننھی پری کھلکھلا رہی تھی، مگر افشاں کی آنکھیں کہیں اور دیکھ رہی تھیں۔ اس کا دل، اس کا وجود، اس کا ہر سانس—سب کسی اور کی طرف کھنچ رہے تھے۔ اس کا بیٹا! اس کی آنکھوں کا تارا، جسے برسوں پہلے قسمت کی تند آندھی نے اس سے چھین لیا تھا۔

وہ سوچ رہی تھی… وہ کیسا ہوگا؟ کیا اس کی آواز میں بھی وہی گہرائی ہوگی جو اس کے باپ کی آواز میں تھی یا اس کا چہرہ ویسا ہی ہوگا جیسا وہ آخری بار اسے دیکھ کر گئی تھی؟ نرم و نازک، معصوم سا؟ وہ جڑواں تھے، مگر بیٹا تھا، شاید کچھ مختلف ہوگیا ہو۔ یہ سوچتے ہی افشاں کے دل میں ایک تیز درد اٹھا، جیسے کسی نے مٹھی بھر کر اس کا دل جکڑ لیا ہو۔ ایک لمحے کو اسے خود سے نفرت محسوس ہوئی۔ کیسی ماں ہے وہ؟ کیسے چھوڑ آئی تھی اپنے دل کا ٹکڑا؟

اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں، مگر فوراً خود کو سنبھالا۔ نہیں… ابھی ٹوٹنے کا وقت نہیں تھا۔ ابھی ہار ماننے کا وقت نہیں تھا۔ آنے والا وقت سب ٹھیک کر دے گا… انشاءاللہ۔ اس نے خود کو تسلی دی۔

مگر اندر کہیں خوف کی ایک دبیز چادر تنی ہوئی تھی۔ کیا وہ اپنے بیٹے کو دوبارہ دیکھ پائے گی؟ کیا وہ اسے سینے سے لگا کر کہہ پائے گی کہ وہ ایک پل بھی اسے بھولی نہیں؟ یہ سوال، یہ خدشے، یہ امیدیں… سب اس کے دل کو مٹھی میں لیے کھڑے تھے۔ مگر اسے مضبوط رہنا تھا، ہر حال میں۔ اپنے بچوں کے لیے، اپنی زندگی کے لیے۔

آج اس کی پہلی ترجیح عبداللہ کے معاملے کو حل کرنا تھی۔ اسی لیے وہ ایک ماہر وکیل سے ملنے جا رہی تھی۔ رات بھر انٹرنیٹ کی اسکرین پر نظریں جمائے، اس نے کچھ نام اور پتے تلاش کیے تھے۔ اب بس شبانہ کا انتظار تھا۔

افشاں کے دل میں امید کی ایک نازک سی کرن جاگ رہی تھی، مگر اس کے ساتھ بے یقینی اور گھبراہٹ کا سایہ بھی تھا۔ آنے والا وقت کیا لائے گا؟ کیا وہ اپنے بچھڑے لعل کو گلے سے لگا پائے گی؟ یہ سوال اس کے دل کی دھڑکن میں شامل ہو چکے تھے۔ مگر ایک بات طے تھی… وہ لڑے گی، اپنی آخری سانس تک!

 

وہ شہر کے ایک نامور، جری اور حق گو وکیل کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی لرزتی آواز اور کانپتے لبوں کے ساتھ تمام حقائق بیان کر دیے، سوائے عماد کے نام کے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ اس طوفان میں عماد کا نام بھی گونجے۔ اسے خوف تھا کہ اگر عماد کا نام لیا تو معاملات سنگین رخ اختیار کر سکتے ہیں، اور شاید عماد کی عزت اور زندگی دونوں خطرے میں پڑ جائیں۔ یہی سوچ کر اس نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ عماد کو اس کٹھن کہانی سے ہر قیمت پر محفوظ رکھنا ہے۔

وکیل نے پوری سنجیدگی اور قانونی باریکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا، "چونکہ اس کیس میں کئی نکات ایسے ہیں جن کا ٹھوس ثبوت فراہم کرنا دشوار ہے، میرا پیشہ ورانہ مشورہ یہ ہے کہ معاملے کو عدالت سے باہر ہی کسی قانونی تصفیے پر پہنچایا جائے۔ اگر آپ آمادہ ہیں تو ہم فوری طور پر ایک قانونی نوٹس آپ کے شوہر کو ارسال کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ہم دیکھیں گے کہ وہ کیا ردعمل دیتا ہے۔ کیا آپ تیار ہیں؟"

وکیل کی آنکھوں میں عزم کی روشنی تھی، مگر افشاں کی آنکھوں میں خوف اور بے بسی کے سائے گہرے ہو چکے تھے۔ اس نے بنا کسی توقف کے لرزتے لہجے میں کہا، "میں تیار ہوں... پلیز... مجھے اس ظالم شخص سے نجات دلا دیں۔"

اس کے ہاتھ جوڑے ہوئے تھے، آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے، جیسے برسوں کی مظلومیت آج الفاظ کا روپ دھار چکی ہو۔ وکیل نے ہمدردی بھری، مگر مضبوط آواز میں کہا، "فکر نہ کریں، ہم آپ کا مقدمہ پوری قوت اور دیانت داری کے ساتھ لڑیں گے۔ آپ کو انصاف دلانا اب میری ذمہ داری ہے۔

کیا افشاں کا وکیل اس کی مدد کر پائے گا؟ کیا مردوں کے اس معاشرے میں ایک عورت کو انصاف مل سکے گا؟  کیا عبداللہ اتنی آسانی سے افشاں کو آزاد ہونے دے گا؟ کیا وہ اپنی ضد پر قائم رہے گا، یا پھر کوئی معجزہ رونما ہوگا؟ کیا افشاں اپنی زندگی کے گمشدہ ٹکڑوں کو جوڑ پائے گی؟ کیا وہ اپنے بیٹے کو دوبارہ پا سکے گی؟

ان تمام سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے اگلی قسط کا انتظار کیجیے۔

 

 

 

قسط ۱۰

آفس سے نکلتے ہوئے افشاں کا دل ایک انجانے خوف اور امید کے درمیان جھول رہا تھا۔ گھر کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے ہر موڑ پر وسوسے اس کے قدموں سے لپٹے جا رہے تھے۔ کیا وہ واقعی اس درندہ صفت انسان کے خلاف انصاف کی جنگ جیت پائے گی؟ کیا اس قانونی لڑائی میں وہ اپنی اور اپنے مستقبل کی عزت و بقا کا تحفظ کر سکے گی؟

اس نے گہرا سانس لیا، مٹھی بھینچی اور خود کو ہمت دلائی۔ یہ جنگ آسان نہیں ہوگی۔ قدم قدم پر زخم ملیں گے، مگر اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنی آزادی، وقار اور زندگی کے لیے وہ آخری حد تک جائے گی۔ چاہے اس راہ میں آگ کے دریا عبور کرنے پڑیں، یا طوفانوں سے ٹکرانا پڑے، وہ ہر آزمائش کا سامنا کرے گی۔ کیونکہ اب یہ صرف انصاف کی جنگ نہیں تھی، یہ اس کی بقا اور خودداری کی جنگ تھی۔

 

اگلے چند ہفتے اسی بھاگ دوڑ اور قانونی پیچیدگیوں میں گزر گئے۔ وکیل نے اپنے وسائل، قانونی مہارت اور برسوں کے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے عبداللہ کو قانونی دباؤ میں لے آیا۔ عبداللہ کی ضد، انا اور دھمکیوں کا انداز واضح تھا، لیکن وکیل نے قانونی نکات اور عدالتی نظیروں کو مہارت سے استعمال کیا۔ بالآخر عبداللہ کو کورٹ سے باہر فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ مگر یہ جیت بھی افشاں کے لیے کسی شکست سے کم نہ تھی۔

عبداللہ نے افشاں کے سامنے ایک سخت اور ظالمانہ شرط رکھی: وہ طلاق دے گا، لیکن افشاں کو ہمیشہ کے لیے پابند کیا جائے گا کہ وہ اس کے خلاف کبھی کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کرے گی۔ نہ ہی وہ خاندان یا سسرال میں اس معاملے پر زبان کھولے گی۔ اس کے علاوہ، افشاں کو عبداللہ کو ۱۰ لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کرنے ہوں گے—ایسا لگا جیسے عبداللہ نے اسے زندگی بھر کی اذیت کا تاوان بھی وصول کرنا چاہا ہو۔

افشاں کا وکیل ان شرائط کو انسانی حقوق، قانونی انصاف اور عورت کے وقار کے منافی قرار دے رہا تھا۔ وہ کہتا رہا کہ یہ شرائط عدالتی فیصلوں اور خاندانی قوانین سے متصادم ہیں، مگر افشاں کے لیے ان سب قانونی دلائل کا بوجھ اٹھانا ممکن نہ تھا۔ وہ تھک چکی تھی—جسمانی، ذہنی، اور جذباتی طور پر۔ ہر عدالت کی پیشی اس کے زخموں کو مزید گہرا کر رہی تھی، اور ہر قانونی نوٹس اسے اپنی توہین کا آئینہ دکھا رہا تھا۔

اس نے عبداللہ کی تمام شرائط کو بے دلی سے تسلیم کر لیا، حالانکہ اس کے دل میں ایک کرب کا شور برپا تھا۔ یہ کاغذی معاہدہ اس کے جذبات، اس کی خودداری اور ایک عورت کی حیثیت سے اس کے حقِ انصاف کو روند چکا تھا۔ مگر ماں کی ممتا، بچے کے لیے سکون کی تلاش، اور مسلسل جدوجہد سے اکتائے ہوئے دل نے اسے خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔

وہ اٹھنے ہی والی تھی کہ کسی نے وکیل کے چیمبر کے دروازے پر دستک دی۔ دروازے سے ایک مانوس سی آواز آئی، "کیا آپ عماد بھائی کی شادی میں آ رہے ہیں؟

یہ آواز جیسے افشاں کے دل کو چیر گئی۔ ایک لمحے کو اس کی سانس رک گئی۔ یہ تو کاشف شجاعت علی کی آواز تھی! کاشف، عماد کا سب سے اچھا دوست۔ دل نے جیسے ایک ساتھ کئی سوالات اچھال دیے—کیا قسمت اسے ایک اور موڑ پر لے آئی ہے؟

اس نے ہمت جمع کر کے پوچھا، "شیخ صاحب، کیا یہ آواز کاشف شجاعت علی کی تھی؟ کیا آپ کاشف صاحب کو جانتے ہیں؟"

وکیل نے سرسری انداز میں کہا، "جی، میں اس شہر میں رہتا تھا، اس لیے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں۔ کاشف صاحب کس عماد کی شادی کا ذکر کر رہے تھے؟"

افشاں کا دل بے قابو ہو رہا تھا۔ اس نے پوچھا، "عماد احمد خان کی شادی؟ کیا عماد احمد خان کی جمال کا بھائی؟ افشانے زخمی دل سے پوچھا۔

 وہ مسکرا کر بولا، "جی، بالکل۔ عماد، جمال کا بھائی۔"

افشاں نے بےچینی سے پوچھا، "تو کیا عماد صاحب تیسری شادی کر رہے ہیں یا چوتھی؟"

یہ سوال زبان سے زیادہ اس کے دل کا اضطراب تھا، جیسے برسوں کا درد ان لفظوں میں سمو دیا ہو۔

وکیل نے نرمی سے کہا، "نہیں نہیں، عماد کی شادی نہیں، یہ اس کے بھائی جمال کی شادی ہے۔"

افشاں کی آنکھوں میں امید اور مایوسی کا عجیب امتزاج تھا۔ جیسے وہ برسوں سے کسی پیاس میں جل رہی ہو، اور اب پانی نظر آ رہا ہو مگر ہاتھ نہیں آ رہا۔

وکیل نے رسمی انداز میں کہا، "مجھے کسی اور سے ملنا ہے، میں اجازت چاہتا ہوں۔"

افشاں نے چاہا کہ وہ شادی کی جگہ اور وقت معلوم کرے، مگر زبان ساتھ نہ دے سکی۔ جیسے قانون کی جنگ نے اس کی ہمت بھی چوس لی ہو۔ مگر دل ماں تھا، ماں کی محبت اور درد نے ایک بار پھر اسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔

وہ گھر پہنچی تو سیدھی سیکورٹی دفتر پہنچی، جہاں شکور بھائی موجود تھا۔ افشاں نے لرزتی آواز میں شادی کی تفصیلات معلوم کیں۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا، آنکھوں میں اشک تھے، مگر ان آنسوؤں میں آج ایک ماں کا عزم بھی تھا۔

آج وہ اپنی بیٹی کو اس کے بابا جانی سے ضرور ملائے گی۔ پچھلے دنوں سے بیٹی کی ضد، اس کے آنسو، اور اس کی سوتی راتیں افشاں کے دل کو چیر رہی تھیں۔ آج وہ ایک ماں کی طرح اپنی ممتا کا قرض اتارنا چاہتی تھی

گھر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ نایاب اور شبانہ کی امی باہر جانے کے لیے تیار تھیں۔ شبانہ کی امی نے مسکراتے ہوئے کہا، "ہم پارک جا رہے ہیں، تم بھی چلو؟" ان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی اور لہجے میں خلوص تھا، جیسے وہ چاہتی ہوں کہ افشاں بھی ان کے ساتھ کچھ لمحے ہنسی خوشی گزارے۔ لیکن افشاں نے نرمی سے، مگر ہلکی سی جھجک کے ساتھ جواب دیا، "نہیں، ابھی نہیں۔ میں نایاب کے ساتھ بازار جانا چاہتی ہوں۔" اس کے دل میں ایک خفیف سی گھبراہٹ تھی، دل کی دھڑکن تھوڑی تیز ہو گئی تھی، لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ قدم اٹھانا ضروری ہے۔

وہ دونوں ہاتھوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بچوں کے کپڑوں کی ایک بڑی دکان میں داخل ہوئیں۔ دکان کے اندر رنگ برنگے کپڑوں کی قطاریں تھیں، ہر طرف چمک دمک تھی، جیسے خوابوں کا ایک جہاں بسا ہو۔ نرم روشنیاں، دیواروں پر لگے دلکش پوسٹرز اور شو کیس میں سجے ننھے لباس، ہر چیز نے دکان کو جادوئی منظر بنا دیا تھا۔ افشاں نے نایاب کے لیے کچھ خوبصورت فراکس اور سوٹ چنے، نایاب خوشی سے اچھل رہی تھی، ہر لباس کو چھو کر دیکھتی اور ماں کی طرف دیکھ کر مسکراتی۔ لیکن اس لمحے افشاں کی نظر ایک خاص فراک پر ٹک گئی۔ وہ فراک نایاب کے لیے تھا، جو آج کی رات کے خاص موقع کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ فراک پر نرم گلابی پھول بنے تھے، کناروں پر موتی جڑے تھے، جیسے کسی پری کا لباس ہو۔ اس نے نایاب کو محبت بھری نظروں سے گھورا، اس کی معصومیت اور خوبصورتی کو دیکھ کر اس کا دل خوشی اور پیار سے بھر گیا۔ جیسے اس لمحے میں اس نے اپنے دل کے سارے دکھ بھلا دیے ہوں۔ نایاب کی آنکھوں کی چمک، اس کے چہرے پر کھلتی مسکراہٹ افشاں کے دل کا بوجھ ہلکا کر رہی تھی۔

نایاب کے کپڑے لینے کے بعد، افشاں اپنی بیٹی کا ہاتھ تھامے لڑکوں کے سیکشن میں آ گئی۔ وہاں چھوٹے چھوٹے سوٹ، جینز، ٹی شرٹس قطار در قطار سجے تھے۔ وہ اپنے بیٹے کے لیے بھی کچھ کپڑے لینا چاہتی تھی، لیکن اسے یقین نہیں تھا کہ اس کا سائز کیا ہوگا۔ اس نے سیلز پرسن سے کہا، "اس لڑکی سے ایک سائز بڑے کپڑے دکھائیں۔" نایاب نے حیرانی سے ماں کی طرف دیکھا، اس کے ننھے سے ذہن میں سوالات امڈنے لگے۔ وہ بار بار پوچھ رہی تھی، "امی، یہ لڑکوں کے کپڑے کیوں؟" افشاں نے اسے پیار سے سمجھایا، اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا، "بیٹا، صبر کرو، یہ ایک سرپرائز ہے۔" نایاب نے مزید کچھ پوچھنا چاہا، مگر ماں کی نرمی نے اسے خاموش کر دیا۔ افشاں نے ابھی تک نایاب کو نہیں بتایا تھا کہ اس کا ایک جڑواں بھائی بھی ہے۔ وہ لمحہ آنے والا تھا جب یہ راز کھلے گا، لیکن ابھی وہ مناسب وقت کا انتظار کر رہی تھی۔

افشاں کا دل بھاری تھا۔ وہ جمال کی شادی میں شرکت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ کیا وہ عماد کی نظروں کا سامنا کر پائے گی؟ کیا عماد کی بہنیں اسے معاف کر دیں گی؟ کیا جمال اسے ایک بار پھر "پیاری بھابی" کہہ کر پکارے گا؟ ہزاروں سوال اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے، دل جیسے ماضی کے بوجھ تلے دبا جا رہا تھا، لیکن وہ جانتی تھی کہ اب وقت آ گیا ہے۔ وہ اپنے ماضی کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھی، چاہے اس کے دل میں کتنی ہی دکھ اور خوف کیوں نہ ہو۔

 

کیا جمال کی شادی میں افشاں کی شرکت کا  فیصلے کے لیے موزوں تھی؟ یا افشاں کو مزید شرمندکی اٹحانا پڑی گی؟ کیا اس کی ملاقات اپنے بیٹے اور عماد سے ہو گی۔  ان سوالوں کا جواب کہانی کی اگلی قسط میں۔

قسط ۱۱

اس کی آنکھوں کے سامنے عماد کا چہرہ گھومنے لگا۔ وہ حسین لمحے جب عماد نے پہلی بار اس کا ہاتھ تھاما تھا، اس کی آنکھوں میں خواب سجے تھے۔ وہ وعدے، وہ ساتھ جینے کی قسمیں، وہ ہنسی کے لمحے، سب کچھ یاد آنے لگا۔ ان گزرے دنوں کی خوشبو نے اس کے دل کو مہکا دیا۔ افشاں کا دل محبت کے ان احساسات سے بھر گیا جو وقت کے ساتھ کہیں دب گئے تھے۔ عماد کی وہ نرم مسکراہٹ، اس کی باتوں میں چھپی محبت، وہ شامیں جب وہ ساتھ بیٹھ کر زندگی کے خواب بُنتے تھے، ہر بات دل پر دستک دے رہی تھی۔

افشاں نے ایک گہری سانس لی اور اپنے آپ کو تسلی دی۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں ایک امید جاگ اٹھی تھی کہ شاید وقت کے زخم بھر جائیں، شاید محبت پھر سے بہار بن کر ان کی زندگی میں آ جائے۔ شاید وہ پھر سے ایک گھر، ایک خاندان بن سکیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ قدم اٹھانا ضروری ہے، چاہے اس کے نتیجے میں کچھ بھی ہو۔ وہ اپنے بچوں کے لیے، اپنے مستقبل کے لیے، اور اپنی اس محبت کے لیے تیار تھی جو وقت کے پردوں میں کہیں چھپ گئی تھی، مگر مر نہیں پائی تھی۔

ماں اور بیٹی تیار ہو کر فلیٹ سے باہر نکلیں تو شام کی مدھم روشنی میں ان کا ڈرائیور، جو شکور کا نزدیکی رشتہ دار تھا، نئی چمچماتی کار کے ساتھ بے چینی سے ان کا انتظار کر رہا تھا۔ یہ کار افشاں نے چند روز پہلے ہی اپنی زندگی کی کڑوی یادوں پر مٹی ڈالنے کی نیت سے خریدی تھی۔ ڈرائیور نے نایاب کو دیکھتے ہی خوش دلی سے کہا، "ہماری گڑیا تو آج سچ میں شہزادیوں سے بڑھ کر لگ رہی ہے!" نایاب نے ہلکی سی مسکان کے ساتھ شرماتے ہوئے نظریں جھکا کر جواب دیا، "شکریہ انکل جی۔" نایاب کے فراک پر نرم و نازک گلابی پھول کھلے ہوئے تھے، اور اس کے کناروں پر موتیوں کی جھلمل کرتی مالا ایسے معلوم ہو رہی تھی جیسے کسی خواب کی پری زمین پر اتر آئی ہو۔ افشاں نے سیاہ عبایا اوڑھ رکھا تھا، جو گویا اس کے اندر جلتے اضطراب، خوف اور بے بسی کو چھپانے کی کمزور سی کوشش تھی۔

کار جب شادی ہال کے گیٹ کے سامنے آ کر رکی، تو افشاں کی نظریں بے ساختہ گیٹ پر کھڑی عماد کی بہن تبسم پر جا ٹکیں۔ اس کے ارد گرد کچھ اور لوگ بھی تھے، لیکن افشاں کی آنکھوں نے بس تبسم کو دیکھا اور دل جیسے کسی نے مٹھی میں جکڑ لیا ہو۔ ایک پل کو لگا کہ یہاں آ کر اس نے بہت بڑی غلطی کر دی ہے۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ دروازہ کھلوائے بغیر ہی واپس پلٹ جائے، مگر اب پلٹنا ممکن نہ تھا۔

افشاں نے ڈرائیور سے ہلکی آواز میں کہا، "آپ اندر جا کر کھانا کھا لیں، میں واپسی کے وقت فون کر دوں گی۔" ڈرائیور نے اس کی بےچینی کو بھانپ لیا، تسلی دیتے ہوئے بولا، "بی بی جی، فکر نہ کریں۔ شکور بھائی یہیں ہیں، سب انتظام ہو جائے گا۔" اس کے لہجے میں ایک شفقت تھی جو چند لمحے کو افشاں کے دل کے زخموں پر مرہم بنی۔

افشاں نے ایک گہری سانس لی، اپنے لرزتے ہاتھوں سے نقاب درست کیا، اور اپنی ننھی نایاب کی نرم انگلیاں تھامے سر جھکائے گیٹ کے اندر قدم رکھا۔ ہر قدم جیسے زمین پر نہیں، انگاروں پر پڑ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں برسوں کی ندامت اور دل میں نہ بجھنے والا ایک خوف تھا۔

تبسم کی نظریں جیسے تاک میں تھیں، اور جب ان کی نظریں آپس میں ٹکرائیں، تو وقت جیسے تھم سا گیا۔ افشاں کے دل میں شدید خواہش ابھری کہ وہ تبسم کے گلے لگ کر برسوں کے آنسو بہا دے، اپنے زخموں کی کہانی کہہ دے، مگر ضبط کی زنجیریں اسے جکڑے رہیں۔ آنکھوں میں سیلاب امنڈ آیا تھا، مگر اس نے پلکیں جھپک کر نمی کو زبردستی اندر اتار لیا۔

وہ جلدی سے سر جھکائے مڑی اور قدموں کی رفتار تیز کر دی۔ تبسم کے لب کچھ کہنے کو کھلے، مگر الفاظ اس کے گلے میں اٹک گئے۔

تبسم کی نگاہیں اچانک ننھی نایاب پر جا رکیں۔ وہ چونک گئی۔ یہ چہرہ... یہ معصوم آنکھیں... کہیں دیکھی ہوئی لگتی تھیں!

لیکن اس سے پہلے کہ تبسم کچھ کہتی، کچھ سمجھ پاتی، افشاں اور نایاب بھیڑ میں کہیں گم ہو چکے تھے، جیسے صحرا میں کوئی سراب… ہاتھ آ کر بھی ہاتھ نہ آئے۔

شادی ہال خوشیوں کا جہان بنا ہوا تھا۔ ہر طرف قہقہے، ساز و سنگیت کی مدھم آوازیں، مہندی اور گجروں کی خوشبو، رنگ برنگے لباس، اور بچوں کی کھلکھلاہٹ نے ماحول کو خوابناک بنا دیا تھا۔ نایاب اپنی ننھی شہزادیوں جیسی فراک میں قوسِ قزح کی طرح دوڑتی پھر رہی تھی، دوسری بچیوں کے ساتھ ہنستی کھیلتی۔ افشاں اسے بار بار آواز دیتی، مگر آج نایاب کو دنیا کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ وہ جیسے اپنی چھوٹی سی جنت میں مگن تھی۔

افشاں نے ایک کونے میں ذرا ہٹ کر ایک ویران سی میز دیکھی، جو ہال کے گہما گہمی بھرے منظر سے ذرا پرے، نیم تاریکی میں تھی۔ وہ آہستہ سے جا کر وہاں بیٹھ گئی۔ عبایا اور نقاب اتار کر تھوڑا سکون کا سانس لیا ہی تھا کہ اچانک کسی نے پیچھے سے آ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ وہ لمس، وہ خوشبو... سب کچھ جانا پہچانا تھا۔ افشاں کا دل جیسے ایک لمحے کو رک گیا۔ پلٹ کر دیکھا تو یہ تبسم تھی۔ وہی تبسم جس کے چہرے پر برسوں پرانی محبت کا عکس جھلک رہا تھا۔

تبسم نے بے اختیار محبت سے اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔ جیسے ہی اس نے افشاں کو اپنی بانہوں میں بھرا، اس کی آواز خوشی اور حیرت سے لرزنے لگی مجھے یقین نہیں آ رہا، سچ کہو، یہ خواب تو نہیں؟"

اس کے لہجے میں ایسی اپنائیت، ایسا والہانہ پیار گھلا ہوا تھا کہ افشاں کی آنکھیں بے اختیار چھلک پڑیں۔ برسوں سے سینے میں دبے غم، خوف اور شرمندگی کی بھاری تہیں جیسے اچانک پگھلنے لگیں۔ اس کے دل پر جمی برف کی پرتیں نرم ہونے لگیں۔ آنسوؤں کے ساتھ وہ بوجھ بھی بہنے لگا جو اس نے جانے کب سے اپنے اندر سمیٹ رکھا تھا۔

تبسم کی آغوش کی گرمی نے اسے وہ سکون دیا، جو مدتوں سے اس کی زندگی میں ناپید تھا۔ جیسے کسی ٹھنڈی چھاؤں نے جلتی دھوپ میں آ کر اس کی روح پر مرہم رکھ دیا ہو۔ افشاں نے سسکیوں کے درمیان سر اٹھا کر تبسم کی آنکھوں میں دیکھا، جہاں صرف محبت تھی، صرف اپنائیت۔

یہ لمحہ ان دونوں کے لیے جیسے وقت کی قید سے آزاد ہو گیا تھا۔ ماضی کی ساری تلخیاں، بچھڑنے کی ساری تکلیف، سب اس گلے لگنے میں سمٹ کر کہیں کھو گئی تھی افشاں نے تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا، اور دل ہی دل میں سوچا: شاید، شاید اب واقعی کوئی اس سے ناراض نہیں رہا۔ شاید وقت نے کچھ زخم بھر دیے ہیں۔

تبسم نے اسے باقی لوگوں سے ملوانے کے لیے اپنے ساتھ لے جانا چاہا، مگر افشاں نے نرمی سے منع کر دیا۔

شادی کا ماحول تھا، خوشیوں کے رنگ بکھرے ہوئے تھے۔ ہر طرف قہقہے، محبت بھری باتیں، اور بچوں کی معصوم ہنسی گونج رہی تھی، جو ماحول کو اور بھی دلکش بنا رہی تھی۔ ایسے میں عماد کے کندھے پر کسی نے نرم ہاتھ رکھا۔ پلٹ کر دیکھا تو کاشف تھا، وہی پرانا دوست، جو پانچ سال بعد مل رہا تھا۔ دونوں دوست جذباتی انداز میں گلے ملے۔ ان آنکھوں میں وقت کی دوری کے آنسو اور محبت کی روشنی تھی۔

کچھ دیر بعد، کاشف نے اپنے ساتھ آئے شخص کا تعارف کروایا۔ “یہ شیخ صاحب ہیں، میرے دوست، اور تمہارے بھائی جمال کے بھی قریبی ساتھی۔ ماہر قانون دان ہیں، فیملی اور سول کیسز میں ان کا بڑا نام ہے۔”

عماد نے مصافحہ کیا ہی تھا کہ اچانک اس کی نظر ایک ننھی پری پر پڑی۔ وہ ایک فراک پہنے، بچوں کے جھرمٹ میں تھی۔ عماد کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ وہ بے ساختہ بولا، “میری گڑیا...” اور وہ اس کی طرف بڑھا، مگر وہ بچی دوسرے بچوں کے ہجوم میں کھو گئی۔

شیخ صاحب نے کاشف سے سرگوشی کی، “یہ کس گڑیا کا ذکر کر رہا تھا؟”

کاشف نے عماد کی ازدواجی زندگی اور بچوں کا ذکر کیا، مگر شیخ صاحب کا ذہن کسی اور سمت جا چکا تھا۔ انہوں نے کاشف سے مزید تفصیلات طلب کیں۔

“عماد کی بیوی کا کیا نام ہے؟ اور ایڈریس؟” شیخ نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔

کاشف نے قدرے حیرانی سے بتایا، “افشاں... رائل ریزیڈنسی... مگر کیوں پوچھ رہے ہو؟”

“اپارٹمنٹ نمبر؟” شیخ کی آواز میں جلدی تھی۔

“ایک، چار، تین... لیکن مسئلہ کیا ہے؟” کاشف کے چہرے پر تجسس نمایاں تھا۔

شیخ صاحب نے گہرا سانس لیا۔ ان کی آنکھوں میں قانونی معاملات کی پیچیدگیاں اور انسانی رشتوں کی الجھنیں جھلک رہی تھیں۔

“تو عماد نے واقعی اپنی گڑیا کو دیکھ لیا تھا۔” شیخ نے آہستہ سے کہا۔

“کیا؟ کیسے یقین سے کہہ سکتے ہو؟” کاشف کا دل زور سے دھڑکا۔

شیخ نے پیشہ ورانہ راز داری کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کہا، “میں کلائنٹس کا نام ظاہر نہیں کرتا، یہ قانون اور اخلاقیات کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن یہ معاملہ چونکہ تمہارے دوست کا ہے، میں استثنا دے رہا ہوں۔ افشاں میری کلائنٹ ہے۔”

کاشف کا دل بیٹھ گیا۔ “کیا کہہ رہے ہو؟ کیا واقعی وہی ہے؟”

شیخ نے اثبات میں سر ہلایا۔ “نام، ایڈریس، اپارٹمنٹ نمبر، اور اس کے ماضی کی کہانی۔ سب میچ کرتا ہے۔ یاد ہے جب تم میرے دفتر آئے تھے؟ تب ایک خاتون میرے آفس میں تھی۔”

“ہاں، یاد ہے۔ وہ اپنی نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔” کاشف کو وہ لمحہ یاد آ گیا۔

“اس نے تمہیں نہیں دیکھا، مگر تمہاری آواز پہچان لی تھی۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جب اس نے عماد کا نام سنا تو وہ بہت بے چین ہو گئی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ شادی کی تقریب عماد کی شادی ہے۔ اور جب اسے معلوم ہوا کہ شادی جمال کی ہے، تو اس کے چہرے پر سکون آ گیا تھا۔ اس وقت تو میں نے زیادہ توجہ نہیں دی، مگر اب ساری کڑیاں جُڑ گئی ہیں۔”

“لیکن کیس ہے کیا؟” کاشف نے بے قراری سے پوچھا۔

“طلاق کا مقدمہ ہے۔ قانونی کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔ فیصلہ ہمارے حق میں ہے۔ ان شاءاللہ دو ہفتے میں ڈگری جاری ہو جائے گی۔ عدت کے بعد افشاں قانونی طور پر آزاد ہو جائے گی۔” شیخ نے قانون کی زبان میں وضاحت دی۔

کاشف نے لمحہ بھر توقف کیا، پھر جذبات پر قابو پاتے ہوئے بولا، “تم نے اس سے کتنا فیس لیا؟ برائے کرم، وہ تمام رقم اسے واپس کر دینا۔ اخراجات میں برداشت کر لوں گا۔”

شیخ نے دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے کہا، “پریشان نہ ہو، میں فیس واپس کر دوں گا۔ یہ میرےبھائی جمال کا گھریلو معاملہ ہے۔ یہاں پیسہ معنی نہیں رکھتا۔”

کاشف کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ شیخ کو دیکھتے ہوئے بولا، “تم نے صرف جمال ہی کا نہیں، عماد کا بھی مان رکھا ہے۔ تم سچے دوست ہو۔”

شیخ نے مسکرا کر کہا، “دوستی کا تو یہی مقصد ہے، کاشف... مشکل وقت میں ایک دوسرے کا سہارا بننا۔”

یہ کہہ کر دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں جذبات، وفا، اور دوستی کی وہ کہانیاں تھیں، جو وقت کے ساتھ اور مضبوط ہو جاتی ہیں۔

دوسری طرف، نایاب بچوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اچانک ٹھٹھک کر رک گئی۔ اُس کے قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے ہوں۔ سامنے، ایک لڑکا کھڑا تھا— اُس کی ہم عمر، مگر اُس کی آنکھوں میں کوئی پراسرار سی روشنی تھی، کوئی ایسی کشش جو سیدھا دل کے تاروں کو چُھو گئی۔ نایاب کے دل نے ایک انجانی سی دھڑکن محسوس کی، جیسے کسی بھولی بسری یاد نے صدیوں بعد دوبارہ آنکھ کھولی ہو۔ جیسے وقت پل بھر کے لیے ٹھہر گیا ہو۔

نایاب نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ، کانپتی آواز میں پوچھا، "تمہارا… تمہارا نام کیا ہے؟"

لڑکے نے کوئی جواب نہ دیا۔ بس وہیں کھڑا، گہری نگاہوں سے نایاب کو دیکھتا رہا۔ وہ نظروں کا لمس جیسے کوئی شناسا احساس تھا— کچھ مانوس، کچھ اپنا سا۔ آنکھیں بول رہی تھیں، دل کہہ رہا تھا کہ یہ خاموشی بھی کسی بات سے بھری ہوئی ہے۔

نایاب نے دوبارہ، ذرا بےقراری سے پوچھا، "تمہارا نام کیا ہے؟"

اب کی بار بھی خاموشی۔ نایاب کے دل میں ہلکی سی اداسی اتر آئی۔ کہیں یہ لڑکا بول نہیں سکتا؟ سن نہیں سکتا؟ اُس نے ہچکچاتے ہوئے اپنے کانوں اور ہونٹوں کی طرف اشارہ کیا، "کیا تم بول نہیں سکتے؟ سن نہیں سکتے؟"

لڑکا اچانک کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ ایسی ہنسی جو نایاب کے دل کی گہرائیوں تک اُتر گئی— جیسے بچھڑوں کا ملن ہو، جیسے برسوں کی اداسی کو کسی نے چھوا ہو۔

"نہیں، نہیں، میں گونگا یا بہرا نہیں ہوں۔" اُس نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا، جس میں انگریزی کا ہلکا سا رنگ تھا۔ "بس… میں سوچ رہا تھا… کیا میں نے تمہیں کہیں دیکھا ہے؟"

نایاب کا دل ایک پل کو جیسے لرز گیا۔ اُس کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے چمکنے لگیں۔ "مجھے بھی تو ایسا لگ رہا ہے… جیسے ہم پہلے بھی ملے ہوں۔ میں نایاب ہوں… اور تم؟"

لڑکے نے مسکراتے ہوئے کہا، "میرا نام شمائل ہے۔ میں کینیڈا میں رہتا ہوں۔ یہاں چاچو جمال کی شادی میں آیا ہوں۔"

نایاب نے اس کا نام سنا تو دھیرے سے دُہرایا، جیسے ماضی کی گونج سن رہی ہو، "شمائل… یہ تو بہت پرانا نام ہے۔ کیا میں تمہیں شاہو برور کہہ سکتی ہوں؟"

شمائل کی ہنسی میں شرارت اور اپنائیت گھل گئی۔ "پتہ نہیں… مگر یہ لفظ اچھا لگا۔ کسی نے مجھے پہلی بار ببرورکہا ہے۔"

نایاب کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ وہ ہولے سے بولی، "تم میری اماں سے ملو گے؟"

شمائل نے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا، "ہاں، کیوں نہیں۔"

نایاب نے مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے کہا، "چلو، میرے ساتھ آؤ۔"

شمائل اُس کے پیچھے چلنے لگا۔ دونوں ساتھ ساتھ تھے، مگر لگ رہا تھا کہ وقت اُن کے گرد کوئی محبت بھرا حصار بُن رہا ہے— جیسے وہ ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہوں، جیسے اس لمحے نے ماضی اور حال کے فاصلے مٹا دیے ہوں۔ نایاب کے قدموں میں خوشی تھی، شمائل کی نگاہوں میں اپنائیت۔ اور دلوں میں شاید وہ جذبہ، جسے محبت کہتے ہیں۔

"کیا برسوں بعد ماں اور بیٹے کی نظریں آپس میں ٹکرائیں گی؟ کیا شمائل اپنے دل میں چھپی ایک ان کہی پہچان کو محسوس کر پائے گا؟ یا یہ ملاقات صرف ایک لمحے کے لیے ہوگی، جو ہمیشہ کے لیے کسی راز کی طرح دفن ہو جائے گی؟

کیا تبسم عماد کو افشاں کی واپسی کے بارے میں بتائے گی، یا کوئی ایسا راز ہے جو ابھی کھلنا باقی ہے؟ اور نایاب... کیا وہ اپنے بابا جانی کو ڈھونڈ پائے گی، یا تقدیر ابھی مزید آزمائشیں لکھ چکی ہے؟"

پڑھیے اگلی قسط میں… جہاں ہر سوال کا جواب بھی ہو سکتا ہے، اور ایک نیا راز بھی جنم لے سکتا ہے!

قسط ۱۲

تبسم افشاں کو چھوڑ کر جانے ہی والی تھی کہ اچانک اس کی نظر نایاب پر پڑی۔ نایاب، جس کے پیچھے پیچھے شمائل چل رہا تھا۔ تبسم کی آنکھوں میں حیرت اور جذبات کا طوفان امڈ آیا۔ دل نے زور سے دھڑک کر کہا، "اصلی خون اپنا دوسرا خون پہچانتا ہے۔" اُس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔

جب نایاب قریب پہنچی، تو تبسم جیسے اپنے قدموں پر کھڑی نہ رہ سکی۔ وہ بے اختیار زمین پر بیٹھ گئی، آنکھوں میں ممتا کی روشنی اور ہونٹوں پر لرزتی مسکراہٹ۔

کانپتی آواز میں اُس نے کہا، "بیٹا… کیا میں تمہیں گلے لگا سکتی ہوں؟"

نایاب نے کوئی جواب نہ دیا۔ جواب کی ضرورت ہی کہاں تھی؟ وہ دوڑ کر تبسم کی بانہوں میں سمٹ گئی، جیسے برسوں سے وہیں آنے کی منتظر تھی۔ تبسم نے اسے سینے سے لگا لیا۔تبسم کے آنسو نایاب کے  چہرے پر برسنے لگے۔ وہ پل جیسے محبت کا کائنات بن گیا تھا۔

تبسم نے نایاب کو چومتے ہوئے کہا، "میری بچی… میری جان…"

جب جذبات کا وہ پہلا طوفان ذرا تھما، تو نایاب نے اشتیاق سے چمکتی آنکھوں سے پوچھا، "آنٹی، کیا آپ میرے بابا جانی کو جانتی ہیں؟"

تبسم نے نایاب کے گالوں کو چھوتے ہوئے محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا، "جی بیٹا، میں تمہارے بابا جانی کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں… بہت خوب پہچانتی ہوں۔"

یہ کہتے ہوئے تبسم کی آنکھوں میں محبت اور ماضی کے درد کی جھلک تھی، لیکن وہ سب کچھ چھپا کر صرف نایاب کے چہرے پر پیار دیکھ رہی تھی۔

دوسری طرف، نایاب کے پیچھے کھڑا چھوٹا سا بچہ— شمائل— چند قدم پیچھے رک گیا۔ اُس کی آنکھوں میں معصومیت، حیرت اور ایک عجیب سی بےچینی تھی۔ وہ سامنے کھڑی عورت کو دیکھ رہا تھا، جسے وہ نہیں جانتا تھا، لیکن جانے کیوں دل کہہ رہا تھا کہ وہ اجنبی نہیں ہے۔

یہ عورت— اس کی ماں تھی۔

لیکن نہ وہ اُسے پہچانتا تھا، نہ اُس عورت کو معلوم تھا کہ یہ اُس کا جگر کا ٹکڑا ہے۔ دونوں کے درمیان وقت کا ایک دریا تھا، پانچ سالوں کی دوری، جدائی، اور بےخبری۔ مگر پھر بھی، کوئی ان دیکھی ڈور، کوئی ان چھوئی محبت، دونوں کو آہستہ آہستہ ایک دوسرے کی طرف کھینچ رہی تھی۔

افشاں کی نظر اچانک اُس معصوم چہرے پر جا ٹھہری۔ اُس کا دل ایک لمحے کو ساکت ہو گیا۔ جیسے کسی نے ماضی کا دروازہ کھول دیا ہو۔ وہ نظروں سے پوچھ رہی تھی، "یہ کون ہے؟" مگر دل کہہ رہا تھا، "یہ میرا ہے… یہ میرا لال ہے۔"

شمائل کے ننھے قدم آہستہ آہستہ اس عورت کی طرف بڑھے۔ زمین جیسے اس کے ہر قدم کے ساتھ دھڑک رہی تھی۔ فاصلہ کم ہو رہا تھا۔ وقت تھم رہا تھا۔

پھر وہ لمحہ آیا جب ماں اور بیٹے کی نظریں ملیں۔

ایک پل کو دونوں خاموش تھے۔ آنکھوں سے دل باتیں کر رہے تھے۔ اجنبیت کا پردہ ہٹ رہا تھا۔ محبت کی روشنی پھیل رہی تھی۔

افشاں نے آہستہ سے ہاتھ بڑھایا، مگر اس کے ہاتھ لرز رہے تھے۔ جیسے ڈر ہو کہ یہ خواب ٹوٹ نہ جائے۔ شمائل نے کچھ لمحے اُس ہاتھ کو دیکھا، پھر اچانک دوڑ کر اُس کی بانہوں میں سما گیا۔

"امی جی!"

یہ لفظ تھا یا جادو؟ یہ پکار تھی یا محبت کا دروازہ کھل گیا تھا؟ افشاں کا دل جیسے سینے میں ٹوٹ کر جُڑ گیا۔ اُس کا لال اُس کے بازوؤں میں تھا، پانچ سال بعد… پانچ سال کی تڑپ، پانچ سال کی راتیں، آنسو، دعائیں… سب آج ایک لمحے میں سما گئے تھے۔

افشاں نے شمائل کو سینے سے لگایا، اُس کی خوشبو کو سانسوں میں بھرا۔ یہ خوشبو نئی نہیں تھی، یہ تو اس کے دل کی مہک تھی، جو برسوں سے گم تھی۔ شمائل نے آنکھیں بند کر لیں۔ اُس نے اپنی ماں کو پا لیا تھا۔ وہ جگہ جہاں اس کا سکون تھا، جہاں اس کا گھر تھا— وہ جگہ اُس کی ماں کی بانہوں میں تھی۔

افشاں کے لیے یہ لمحہ کسی خزانے سے کم نہ تھا۔ اُس کی دنیا مکمل ہو چکی تھی۔ آنسو بہتے جا رہے تھے، مگر یہ آنسو خوشی کے تھے— ماں کی محبت کے۔

اور شمائل؟ اس نے اپنی ماں کی بانہوں میں پناہ پا لی تھی۔ اُس کا دل کہہ رہا تھا، "یہی تو وہ جگہ ہے، جہاں میں ہمیشہ سے تھا… جہاں میں ہمیشہ رہنا چاہتا تھا۔"

نایاب کی معصوم آنکھوں میں تجسس اور پریشانی کے جذبات تھے۔ وہ اپنی ماں افشاں اور شمائل کو دیکھ رہی تھی، جو ایک دوسرے سے گلے مل کر رو رہے تھے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ لڑکا کون ہے اور وہ اس کی ماں کے ساتھ کیوں ہے۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی، جیسے کوئی راز اس سے چھپا ہوا ہو۔

نایاب نے  تبسم کی طرف دیکھا، جو اس وقت شمائل کو پیار سے تھپکھا رہی تھی۔ نایاب کا دل بھر آیا، اور اس نے تبسم سے پوچھا، "شاہو برور میرے ماں ساتھ کیوں ہے؟

 شاہو برور ؟ تبسم نے  تجسس سے پوچھا۔

ہاں کیونکہ شمائل اولڈ نام ہے۔ نایاب نے معصومیات سے جواب دیا۔

تبسم نے نایاب کی طرف دیکھا، اور اس کے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ ایک نرم مسکراہٹ تھی۔  شاہو برورتمارا بھائی ہے۔

نایاب کی آنکھیں اور بڑی ہو گئیں۔ اس نے پوچھا، "تو کیا شاہو برور واقعی میرا بھائی ہے؟"

تبسم نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، "ہاں، نایاب۔ تم دونوں جڑواں بچے ہو۔ شمائل تمہارا بھائی ہے۔"

نایاب کو یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ اس نے اپنی آنٹی کی طرف دیکھا اور کہا، "جڑواں بچے؟ میری سمجھ میں نہیں آیا۔"

نایاب نے شمائل کی طرف دیکھا، جو ابھی تک اپنی ماں افشاں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی گرمجوشی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے بھائی کی طرف ہاتھ بڑھایا اور کہا، "شاہو برور، چلو بابا جانی کو ڈھونڈتے ہیں۔"

تبسم اور افشاں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، اور ان کی آنکھوں میں ایک خاموش فہم تھی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ رشتہ، جو سالوں کی جدائی کے بعد دوبارہ جڑ رہا تھا، ان کے لیے ایک نئی شروعات تھی۔

نایاب اور شمائل ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اپنے باپ کو ڈھونڈنے نکل پڑے، جبکہ تبسم اور افشاں ان کے پیچھے کھڑی تھیں، یہ سوچتی ہوئی کہ زندگی نے انہیں ایک بار پھر ایک دوسرے سے ملا دیا ہے۔ یہ لمحہ ان کے لیے ایک نئی امید، ایک نئی خوشی، اور ایک نئی زندگی کا آغاز تھا۔

 

فراک پہنے وہ چھوٹی سی بچی بچوں کے ہجوم میں یوں غائب ہوئی جیسے ہوا میں تحلیل ہو گئی ہو۔ عماد نے لمحہ بھر کو سمجھا شاید یہ اس کا وہم تھا۔ اس نے خود کو تسلی دی اور دوبارہ اپنے بھائی کی شادی کی مصروفیات میں کھو گیا۔ انتظامات کی نگرانی، مہمانوں کی خاطر داری اور خاندان والوں کے ساتھ گفتگو میں وہ بظاہر مگن رہا، مگر اس کے شعور کے کسی کونے میں وہ فراک والی بچی ٹھہر گئی تھی۔ اس کی نظروں میں وہ چہرہ اب بھی جھلملاتا رہا، جیسے کوئی ان کہی بات دل پر دستک دیتی ہو۔

وقت گزرتا رہا۔ جب نکاح خوانی کے لیے اسٹیج پر عماد کو بلایا گیا تو اس کے دل میں ایک بے چینی سی جاگی۔ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشغول ہو گیا، مگر اس کے اندر ایک خلش تھی، جو بار بار اس بچی کا سراپا ذہن میں لے آتی۔

دوسری طرف، نایاب اور شمائل اپنے بابا جانی کو ڈھونڈتے ہوئے کزنز کے ہجوم میں جا پہنچے۔ وہاں ہم عمر بھی تھے اور کچھ بڑے بھی۔ شمائل کا اردو لہجہ سنتے ہی چند بچوں نے ہنسی اڑائی۔ شمائل جھینپ گیا۔

اسی لمحے ایک بچے کی نظر نایاب پر پڑی۔ وہ چونک کر بولا، “یہ کون ہے؟”

شمائل نے کچھ کہنے کو لب کھولے ہی تھے کہ نایاب نے خود جواب دے دیا، “میں نایاب ہوں، اور یہ میرا بھائی ہے۔”

بچوں کے جھرمٹ میں سے ایک بڑی لڑکی، شاید دس یا گیارہ سال کی، حیرانی سے آگے بڑھی، “کیا واقعی تم نایاب ہو؟”

نایاب نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

وہ لڑکی خوشی سے نایاب کو بانہوں میں بھر کر بولی، “تم تو کتنی بڑی ہو گئی ہو!”

نایاب نے شوخی سے کہا، “تو کیا میں ہمیشہ چھوٹی ہی رہتی؟”

لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا، بس شفقت سے نایاب کے سر پر ہاتھ پھیر دیا، جیسے برسوں بعد بچھڑی بہن سے ملی ہو۔

شمائل نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا۔ اس نے نایاب کا ہاتھ تھاما اور دونوں بچوں کے جھرمٹ سے نکل کر دوڑ لگاتے ہوئے دور جا پہنچے۔

پیچھے بچے حیرت سے بڑی لڑکی سے پوچھنے لگے، “یہ نایاب کون ہے؟”

وہ مسکراتی رہی، جیسے کوئی میٹھا راز اس کے دل میں پوشیدہ ہو۔

ادھر شمائل اور نایاب، سانس پھولتے ہوئے ذرا الگ جا کر رکے۔ شمائل نے بہن کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولا، “چلو، پاپاکو ڈھونڈتے ہیں۔”

نایاب نے امید بھری نظروں سے سر ہلایا۔ دونوں کے دل میں خوشی، امید اور یقین تھا کہ جلد وہ اپنے بابا جانی کو پا لیں گے۔

 

لوگوں نے نکاح کے بعد کھانے کا آغاز کر دیا تھا۔ میزبانوں کی طرف سے لذیذ پکوانوں کی بہار تھی، خوشبوؤں نے جیسے پورے ہال کو اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ ہر طرف قہقہے تھے، مسکراہٹیں تھیں، لیکن ان سب کے بیچ ننھی نایاب اور اس کا بھائی شمائل کھانے سے بے نیاز، ایک بےچینی میں مبتلا، نگاہوں میں فقط ایک چہرہ لیے اپنے بابا جانی کو تلاش کر رہے تھے۔ نایاب کے معصوم دل میں بس ایک ہی آرزو دھڑکتی تھی—اپنے بابا کو دیکھنا، ان کے سینے سے لگ جانا۔

اچانک شمائل کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے نایاب کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما، جیسے اپنی خوشی اس کے دل میں انڈیل رہا ہو۔ جوش سے کانپتی آواز میں بولا، "دیکھو نایاب! پاپا... وہ رہے!"

نایاب کا دل مچل کر رہ گیا، آنکھوں میں نمی کی جھلک کے ساتھ خوشی کا ایک الہڑ سا جذبہ دوڑ گیا۔

ادھر، عماد میزبانی کے فرائض نبھا رہا تھا۔ وہ مہمانوں کی خدمت میں مصروف تو تھا، مگر دل کا حال فقط وہی جانتا تھا۔ اس کی نظریں بار بار بےاختیار ہال کے گوشے گوشے کا طواف کر رہی تھیں۔ ان آنکھوں کو اپنی گڑیا نایاب کی تلاش تھی—وہی گڑیا، جس کی توتلی باتوں پر وہ ہنستا تھا، جس کی ننھی بانہوں کا گلابی لمس اس کے دل میں زندگی بھر کا سکون بھر دیتا تھا۔ ایک بار وہ اس میز کی طرف بڑھا جہاں افشاں بیٹھی تھی، دل زور سے دھڑکنے لگا تھا، جیسے برسوں کا بچھڑا لمحہ پلٹ آیا ہو، مگر کسی نے اسے روک لیا۔
دل تھم گیا۔ قدم رک گئے۔

افشاں نے بھی محسوس کیا تھا کہ عماد اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک پل کو لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، آنکھوں کے کنارے جلنے لگے۔ مگر وہ ابھی تیار نہیں تھی۔ اس کا وجود جیسے کانپ اٹھا تھا۔ جلدی سے اس نے اپنا عبایا درست کیا، نقاب چہرے پر جما لیا، جیسے کپڑوں کی یہ تہیں اس کے دل کی بے قراری چھپا لیں گی۔

مگر، ٹھیک اسی لمحے، پیچھے سے ایک شوخ آواز نے اس کی دھڑکن کو اور تیز کر دیا۔
"آپ ستر نقاب بھی اوڑھ لیں، تو بھی ہم آپ کو پہچان لیں گے!"

افشاں پلٹی، اور سامنے شبانہ کھڑی تھی، وہی شرارتی مسکراہٹ، وہی محبت بھری آنکھیں۔ سب اسے چٹکی کہتے تھے، اور وہ واقعی چٹکی کی طرح زندگی میں خوشیوں کی گدگدی بھر دیتی تھی۔

افشاں نے گہرا سانس لیا، جیسے بوجھ اتر گیا ہو۔ دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ یہ عماد نہیں تھا۔
شبانہ نے شوخی سے کہا، "باجی، تبسم نے سب کو بتا دیا ہے کہ آپ واپس آ گئی ہیں۔ سب آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ مگر باجی تبسم نے کہہ دیا ہے کہ ابھی نہیں، بعد میں۔"

افشاں کا دل جیسے مزید بوجھل ہو گیا۔ اسے لگا، شاید یہاں رکنا ٹھیک نہیں۔

اس نے بےساختہ شبانہ کا ہاتھ تھام کر کہا، "چٹکی، کیا تم میرا ایک کام کرو گی؟ پلیز!"

شبانہ نے شرارت سے آنکھیں گھمائیں، "باجی، حکم کریں، کس کو لا کر آپ کے قدموں میں ڈال دوں؟"

افشاں بے اختیار ہنس پڑی۔ ہنسی میں آنسو چھپانے کی کوشش نمایاں تھی۔
"نہیں چٹکی، کسی پہلوان کی ضرورت نہیں۔ بس میری وہ بدماش نایاب... اسے میرے ساتھ گھر لے آؤ۔"

شبانہ نے حیرانی سے پوچھا، "تو باجی، کیا آپ کھانا نہیں کھائیں گی؟"

افشاں نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا، "نہیں چٹکی، آج اپنے بیٹے سے مل کر میرے دل اور پیٹ دونوں بھر چکے ہیں۔"

شبانہ، جو چائے کے گھونٹ بھر رہی تھی، ایک دم ٹھٹک گئی۔ اس نے حیرانی سے آنکھیں پھیلائیں اور جلدی سے پوچھا، "تو باجی، آپ شمائل سے مل چکی ہیں؟"

یہ جملہ گویا افشاں کے دل میں کسی سوئے ہوئے زخم کو چھو گیا۔ اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی، پلکوں کے کنارے بھیگنے لگے۔ اس نے شبانہ کی طرف دیکھا، جیسے الفاظ کے بغیر ہی بہت کچھ پوچھ رہی ہو۔ پھر آہستہ سے سر جھکایا اور مدھم آواز میں سوال کیا، "کیا تم ملی تھیں؟"

شبانہ نے گہری سانس لی، جیسے کوئی پرانی یاد تازہ ہو گئی ہو۔ پھر نرمی سے بولی، "جی باجی، میں تو ایرپورٹ پر ہی مل چکی تھی… اُس دن، جب وہ کینیڈا سے واپس آیا تھا۔"

افشاں کی پلکیں بےاختیار جھپکیں، جیسے کوئی نادیدہ لمحہ سامنے آ کھڑا ہوا ہو۔

شبانہ نے اس کی نم آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بات جاری رکھی، "میں چاہتی تھی کہ آپ خود اس سے ملیں… اسی لیے نہ عماد بھائی کو آپ کے بارے میں بتایا، نہ آپ کو عماد بھائی کے بارے میں۔"

افشاں نے آہستہ سے سر ہلایا، جیسے کسی گہرے درد نے لمحہ بھر کے لیے سکون کا سانس لیا ہو۔ مگر کیا واقعی؟ یا یہ صرف ایک سراب تھا… ایک عارضی تسلی، جو کسی طوفان سے پہلے کی خاموشی تھی؟

"ٹھیک ہے چٹکی... نایاب کو گھر لے آنا، یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔"

جاتے ہوئے اس نے ایک آخری بار مڑ کر کہا، "چٹکی، بھولنا نہیں... میری نایاب کو لے آنا۔"
آواز میں ممتا کا ترسا ہوا کرب اور امید کی روشنی دونوں جھلک رہے تھے۔

 

ننھی نایاب کا دل بےقرار تھا، جیسے اس کے سینے میں چھوٹا سا پرندہ خوف اور امید کے بیچ پھڑپھڑا رہا ہو۔ اس کی چھوٹی سی مٹھی میں شمائل کا ہاتھ تھا، مگر اس کی گرفت کبھی ڈھیلی پڑتی، کبھی مضبوط ہو جاتی۔ قدم لرز رہے تھے، لیکن دل میں ایک خواب جاگ رہا تھا — بابا جانی سے ملنے کا خواب، اُن کی مضبوط بانہوں میں چھپ جانے کا خواب۔

جوں جوں وہ اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں شمائل نے اشارہ کیا تھا، نایاب کی سانسیں تیز ہو گئیں۔ دل کی دھڑکنیں کانوں میں بجنے لگیں۔ مگر جب وہاں پہنچ کر اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی اور بابا جانی کو نہ پایا، تو جیسے سارا جہاں ساکت ہو گیا۔ اس کا ننھا دل کسی کانچ کی طرح ٹوٹ کر بکھر گیا۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے، جیسے ساون کی بارش کسی سوکھے پیڑ پر برس پڑی ہو۔ ہونٹ کپکپائے، حلق میں کوئی درد بھری چیخ اٹک گئی۔

اس سے پہلے کہ وہ زار و قطار رونے لگتی، شمائل نے اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔ اس کی آواز میں حوصلہ تھا، مگر آنکھوں میں وہی اداسی جھلک رہی تھی۔ “کوئی بات نہیں، نایاب... چلو، ہم پھر ڈھونڈتے ہیں...پاپا یہیں کہیں ہوں گے۔”

نایاب نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے گالوں پر بہتے گرم آنسو پونچھے اور شمائل کے ساتھ دوبارہ تلاش میں نکل پڑی۔ ان کے ننھے قدموں میں تھکن تھی، مگر دل میں باپ کی محبت کی تپش نے ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔

چند لمحے بعد شمائل کو احساس ہوا کہ نایاب اس کے ساتھ نہیں ہے۔ اس کے دل کو جیسے کسی نے مٹھی میں دبوچ لیا ہو۔ اس نے تیزی سے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو دیکھا کہ نایاب ایک طرف سہمی ہوئی جا رہی تھی۔ شمائل کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچا، “نایاب، کیا ہوا؟ تم اس طرف کیوں جا رہی ہو؟” اس کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔

نایاب کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں، اور اس کی سانسیں ٹوٹ رہی تھیں۔ آواز لرز رہی تھی، جیسے ہر لفظ کے ساتھ اس کا دل بھی ٹوٹ رہا ہو۔ “شمائل بھائی... بابا جانی شاید وہاں ہیں... میں نے... میں نے محسوس کیا ہے... لیکن... لیکن مجھے نظر نہیں آ رہے...”

اس کے الفاظ میں بےبسی اور معصوم امید کی ملی جلی کیفیت تھی۔ شمائل نے جلدی سے ایک کرسی پر چڑھ کر ٹیبل کے اوپر سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں بھی امید کی جھلک تھی، جیسے شاید اب دکھ کے اندھیروں میں کوئی روشنی جھلک جائے۔ لیکن وہاں بھی بابا جانی نہیں تھے۔

شمائل نے مایوسی کے باوجود مضبوط آواز میں کہا، “نایاب، نہیں... پاپا یہاں نہیں ہیں... لیکن... مجھے یقین ہے کہ وہ ہمیں ضرور ملیں گے... ہم انہیں ڈھونڈ نکالیں گے، ٹھیک ہے؟”

نایاب نے آنکھوں میں ادھوری امید لیے شمائل کی طرف دیکھا۔ اس کے آنسو ایک پل کو تھم گئے۔ شمائل نے اس کا چھوٹا سا کانپتا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، اور ایسا مضبوطی سے پکڑا کہ جیسے کہہ رہا ہو: “میں ہوں تمہارے ساتھ، ہر پل، ہر قدم۔”

“چلو نایاب... ہم پاپا کو ضرور ڈھونڈ لیں گے... وہ کہیں نہ کہیں ہمارا انتظار کر رہے ہیں... ہم ان کے پاس پہنچ جائیں گے، دیکھنا...”

نایاب نے سر ہلایا۔ اس کے آنسوؤں میں امید کا ایک ننھا سا دیا جھلملایا۔ دونوں بہن بھائی نے دوبارہ اپنی تلاش شروع کی۔ ان کے قدموں میں اب تھکن کم تھی اور باپ کی محبت کی تڑپ زیادہ۔

راستہ کٹھن تھا، آنکھیں بار بار برسنے کو تیار تھیں، مگر ان کے دل میں ایک ہی آرزو تھی — بابا جانی کو گلے لگا کر، ان کے سینے سے لگ کر، اپنے سارے آنسو بہا کر سکون پالینا۔

یہ لمحہ کوئی عام لمحہ نہیں تھا، یہ وقت جیسے ٹھہر گیا تھا۔ مہمانوں سے گفتگو کے دوران عماد کو اچانک اپنے دل میں ایک دھڑکن سے زیادہ کچھ محسوس ہوا—ایک بےقرار دھڑکن، جیسے برسوں سے سوئی ہوئی امید جاگ اٹھی ہو۔ اس کی آنکھوں نے ایک ایسا خواب دیکھا، جو دل کی گہرائیوں میں دفن تھا، مگر آج حقیقت کا روپ دھارے اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ وہ خواب نہیں، اس کا سب سے قیمتی خزانہ تھا—اس کی بیٹی۔

عماد کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس کے قدم زمین پر تھے، مگر جیسے روح ہوا میں تیر رہی تھی۔ اس کے حواس جواب دے گئے، اردگرد کی آوازیں جیسے خاموش ہو گئیں۔ وہ بےاختیار اس خواب کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کا دوست آواز دیتا رہا، مگر عماد کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کی نظریں صرف اس ننھی پری پر جمی تھیں، جس کا چہرہ اس کے دل کی دیواروں پر نقش تھا، مگر آج وہ چہرہ سامنے تھا۔

چند قدموں کے فاصلے پر، اس نے خود کو زمین پر جھکتے ہوئے پایا۔ اس کی باہیں کھل گئیں، جیسے برسوں کا بچھڑا باپ اپنی دنیا واپس پانے کو بےقرار ہو۔ سامنے ننھی نایاب، جو اپنے بھائی شمائل کے ساتھ آرہی تھی، اچانک ساکت ہوگئی۔ اس کی سانسیں اٹک گئیں، جیسے وقت رک گیا ہو۔ اس کی آنکھیں حیرت اور خوشی سے بھیگنے لگیں۔ اس کی چھوٹی سی روح برسوں کا بوجھ اٹھائے کھڑی تھی۔ یہ چہرہ… یہ باہیں… یہ تو بابا جانی تھے، جن کے لمس کو وہ برسوں سے ترس رہی تھی۔

نایاب کے ننھے دل میں جذبات کا طوفان اٹھا۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں، مگر دل نے اسے ایک ہی حکم دیا—"دوڑو!"۔ اور وہ دوڑی۔ وہ پھولوں کی طرح اڑی، جیسے برسوں کی پیاس میں بارش کا پہلا قطرہ مل گیا ہو۔ "بابا جانی!" اس کی آواز لرز رہی تھی، مگر اس میں دنیا جہاں کی محبت تھی۔ وہ عماد کی باہوں میں جا گری۔ اس کا ننھا سا وجود کانپ رہا تھا، اور وہ بابا جانی کے سینے سے ایسے لپٹی جیسے کوئی خواب کہیں گم نہ ہو جائے۔ جیسے اگر وہ چھوڑ دے تو یہ خوشی پھر کھو جائے گی۔

عماد نے اپنی بیٹی کو سینے سے لگا لیا۔ وہ ننھا وجود اس کے سینے سے لگا تو جیسے اس کا ٹوٹا دل جُڑ گیا ہو۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے، مگر ان آنسوؤں میں برسوں کی جدائی کا درد بھی تھا اور آج کے ملن کی خوشی بھی۔ اس نے نایاب کے بالوں کو چوما، اس کی خوشبو کو اپنے دل میں اتارا، جیسے ہر لمحہ اپنے اندر قید کر لینا چاہتا ہو۔ "میری بچی… میری جان…" عماد کی آواز بھرائی ہوئی تھی، اور اس کی انگلیاں نایاب کے گالوں کو چھوتے ہوئے کانپ رہی تھیں۔

نایاب سسک رہی تھی۔ "بابا جانی، آپ کہاں تھے؟ میں نے آپ کو بہت یاد کیا… بہت!" اس کی ہر سسکی میں پیار تھا، شکایت تھی، اور انمول خوشی تھی۔ اس کے آنسو عماد کی شرٹ بھگو رہے تھے، مگر عماد کو ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ آنسو اس کی زندگی کے زخموں پر مرہم بن رہے ہوں۔

وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم تھیں۔ کچھ نے آنسو چھپانے کی کوشش کی، مگر یہ محبت کا لمحہ تھا، جدائی کی اذیت پر فتح کا لمحہ تھا۔ شمائل، جو دور کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا، اپنی بہن اور باپ کو یوں ملتا دیکھ کر مسکرا رہا تھا، مگر اس کی آنکھیں بھی بھیگی تھیں۔

یہ منظر صرف ایک باپ اور بیٹی کا نہیں تھا۔ یہ زندگی کا جشن تھا۔ یہ لمحہ بتا رہا تھا کہ کبھی کبھی خواب سچ بھی ہو جاتے ہیں۔ کہ محبت، چاہے برسوں بچھڑ جائے، مگر واپس آ کر دل کی زمین کو پھر سے آباد کر دیتی ہے۔ یہ لمحہ امید تھا، محبت تھا، اور ایک نئے آغاز کا وعدہ تھا۔

یہ وقت... یہ ظالم وقت، جسے نہ روکا جا سکا، نہ پلٹایا جا سکا، عماد کو ایک ننھی سی جان، اس کی بیٹی، سے ملا چکا تھا۔ آج، پانچ برسوں کے طویل اور صبر آزما انتظار کے بعد، عماد کی محبت کے بعد پورے خاندان نے بھی ننھی نایاب پر اپنی چاہتیں نچھاور کر دی تھیں۔ ہنسی، خوشی، اور پیار کی اس فضا میں نایاب نے معصومیت سے لبریز، کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا، "اتنے سارے لوگ... اتنا پیار... کیا میں خواب تو نہیں دیکھ رہی؟"

ایک جوان، خوبصورت عورت نے آگے بڑھ کر نایاب کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔ ممتا سے بھری ہوئی، لرزتی آواز میں کہا، "نہیں، میری جان، یہ خواب نہیں ہے۔ تم جاگ رہی ہو۔ تم اپنے گھر میں ہو، اپنے پیاروں کے درمیان۔ میں تمہاری پھوپو ہوں، تمہارے پاپا کی چھوٹی بہن۔"

عماد کا دل اچانک تیز دھڑکنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں امید کی ایک مدھم سی روشنی جاگ اٹھی۔ اگر نایاب یہاں ہے... تو کیا افشاں بھی... کہیں قریب ہی ہے؟ کیا برسوں کی یہ جدائی اب ختم ہونے کو ہے؟ بے قراری کی ایک لہر اس کے وجود میں دوڑ گئی۔ اس کی نظریں بے چینی سے لوگوں کے ہجوم میں افشاں کو تلاش کرنے لگیں۔ دل کے کسی گوشے میں ایک صدا گونجی، شاید وہ یہیں کہیں ہو، شاید قسمت آج مہربان ہونے والی ہے۔

افشاں کے جانے کے بعد پاکستان کی ہر گلی، ہر راستہ، عماد کے لیے اذیت کا میدان بن گیا تھا۔ ہر دیوار پر اس کی یاد کا سایہ تھا۔ اسی لیے وہ اپنے زخموں کو لے کر کینیڈا چلا گیا تھا، اپنے بیٹے شمائل کے ساتھ۔ پیچھے کاروبار بھائی جمال کے سپرد کر دیا تھا، مگر یہ ملک... یہ مٹی، اور وہ چہرہ، اسے کبھی بھول نہ سکا۔ پانچ برس بعد وہ صرف چند دنوں کے لیے جمال کی شادی میں آیا تھا، لیکن یہ چند دن تقدیر کا کوئی نیا فیصلہ لے کر آئے تھے۔

عماد کی نظریں ابھی بھی افشاں کو ڈھونڈ رہی تھیں کہ اچانک ایک آواز نے اس کی تڑپ کو روک دیا۔
"باجی واپس گھر چلی گئی ہیں۔ آپ کو پتا تھا کہ وہ یہاں آئی تھیں؟ آپ تو نایاب اور باجی دونوں سے مل چکے تھے!"
عماد نے پلٹ کر غصے سے شبانہ کی طرف دیکھا، آنکھوں میں بے بسی اور خفگی کا امتزاج تھا۔
"جی ہاں... مگر باجی نے سختی سے منع کیا تھا۔"
شبانہ نے جھکی نظروں کے ساتھ شرمندگی سے کہا، "میں نہیں جانتی کہ ان کی کیا مجبوری تھی۔"

عماد نے تھکے ہوئے دل سے گہری سانس لی، مگر اس سانس میں امید بھی تھی، تڑپ بھی۔
"افشاں اسی شہر میں ہے... وہ یہاں ہے... ملاقات تو ہو کر رہے گی... ہونی ہی ہے!"
شبانہ نے آنکھوں میں یقین کے چراغ جلاتے ہوئے کہا، "انشاءاللہ، بھائی جان۔"

 

یہ رات... یہ خوبصورت رات، جس میں محبت اور امید کے چراغ جل اٹھے تھے، اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ دلہن اور دلہا کی رخصتی کے بعد جب مہمان بھی وداع ہو گئے، تو شبانہ نے نایاب کو آواز دی، "چلو، ہم بھی چلتے ہیں۔"

مگر نایاب کے ننھے دل میں ایک طوفان مچ گیا تھا۔ وہ اپنے بابا جانی کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وقت تھم جائے، یہ لمحہ ہمیشہ کے لیے رک جائے۔ بابا جانی کی بانہوں کا یہ سکون کبھی نہ چھوٹے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور دل میں ایک گہری تڑپ۔ وہ کسی حال میں اپنے بابا جانی سے دور نہیں جانا چاہتی تھی۔

 

کیا شبانہ نایاب کو واپس افشاں کے پاس لانے میں کامیاب ہو پائے گی؟ یا مقدر افشاں سے اس کی آخری نشانی بھی چھین لے گا؟

کیا افشاں اور عماد کی برسوں پرانی ملاقات بالآخر ممکن ہو پائے گی؟ یا تقدیر انہیں ہمیشہ کے لیے جدا کر دے گی اور عماد اپنی بیٹی اور بیٹے کے ساتھ واپس کینیڈا چلا جائے گا؟

کیا افشاں اپنی زندگی کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹ پائے گی؟ کیا وہ اپنے کھوئے ہوئے بچوں کو دوبارہ پا سکے گی؟

ان تمام سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے کہانی کی آخری قسط ضرور پڑھیے

قسط ۱۲

"پلیز بھائی جان، نایاب کو میرے ساتھ جانے دو۔"
شبانہ نے لرزتی آواز میں التجا کی۔ ان الفاظ میں ماں کی بے قراری، بہن کا دکھ، اور برسوں کا بوجھ تھا۔ عماد کے دل نے ایک لمحے کے لیے سختی دکھائی۔ اس کا دل چیخ کر کہہ رہا تھا، "نہیں... پانچ سال، ہاں پانچ سال میں بھی تو تڑپتا رہا ہوں۔" لیکن پھر اس کے دل کے کسی کونے سے افشاں کا عکس ابھرا—وہ بھی تو انھی برسوں میں اپنے بیٹے سے دور جلتی رہی تھی۔

محبت اور جدائی کے اس امتحان نے عماد کے دل کو موم کر دیا۔
"ٹھیک ہے... میں خود نایاب کو چھوڑ کر آؤں گا۔"
اس کے لہجے میں صبر بھی تھا، سکون بھی، اور کہیں نہ کہیں امید کی ایک کرن بھی۔

رات کا پچھلا پہر تھا۔ افشاں اپنے بستر پر لیٹی تھی، مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ دیوار پر لگی گھڑی کی سوئیاں جیسے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اس کی بیٹی کا نام پکار رہی تھیں۔ اس کے دل میں عجیب سا سکون تھا—آج برسوں بعد اپنے بیٹے سے مل کر جیسے اس کے زخم بھرنے لگے تھے۔ اور اب بیٹی کی جھلک دیکھنے کا انتظار تھا۔

تبھی دروازے کی گھنٹی بجی۔
دل جیسے سینے سے باہر آنے کو تھا۔
"یہ... یہ تو عماد کے بجانے کا انداز ہے..."
ایک لمحے کو لگا کہ شاید یہ احساس بھی اب ماضی کا حصہ ہے، شاید وہ اس انداز کو بھول چکی ہو، لیکن نہیں... کچھ چیزیں وقت سے ماورا ہوتی ہیں، جیسے محبت، جیسے یادیں۔

دروازہ کھولا تو سامنے عماد تھا... ہاتھوں میں نایاب، جو باپ کی محبت میں سرشار ہو کر سو چکی تھی۔
افشاں کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔
سامنے وہ شخص کھڑا تھا، جو کبھی اس کی دنیا تھا، جس کی محبت کبھی اس کی سانسوں میں رواں تھی، اور آج... آج وہ ایک اجنبی کی طرح کھڑا تھا۔
سلام کا تبادلہ ہوا، مگر ان لفظوں میں دکھ چھپا تھا، برسوں کا ضبط چھپا تھا۔

عماد کے دل میں بھی طوفان تھا۔ افشاں چند قدم کے فاصلے پر تھی، مگر ان کے بیچ وقت کی دیوار کھڑی تھی۔ میاں بیوی کا رشتہ ختم ہو چکا تھا، مگر والدین ہونے کا بندھن... وہ تو اٹوٹ تھا۔

شمائل نے ماں کو دیکھا تو بے اختیار پکار اٹھا، "امی جی!"
یہ پکار جیسے دیواروں سے ٹکرا کر ساری خاموشی توڑ گئی۔
شمائل ماں کے گلے لگ گیا۔
"کیا میں آج رات اپنی امی جی کے پاس رہ سکتا ہوں؟"
ننھے بیٹے کی یہ التجا دل چیر گئی۔
عماد نے ایک رسمی سا اعتراض کیا، مگر افشاں نے بڑھ کر کہا، "میرے پاس اس کے کپڑے ہیں۔"

نایاب کو گود سے اتارنے کا لمحہ آیا، تو ننھی پری نے بابا جانی کو زور سے پکڑ لیا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ بانہیں ہی اس کا گھر ہیں۔
اسی دوران لفٹ کا دروازہ کھلا، بچوں اور عورتوں کا ہنستا مسکراتا ہجوم نکل آیا۔
"تم لوگ اس وقت؟"
عماد نے حیرانگی سے پوچھا۔
سب سے بڑی لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا، "کیوں، جب آپ ممانی سے مل سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟"

یہ سادگی... یہ اپنائیت... برسوں کا بچھڑاؤ جیسے پل میں مٹ گیا۔
سب افشاں سے لپٹتے رہے، اس کے گال چومتے رہے، کسی نے شکوہ نہ کیا، بس محبت کا پیغام دیا، کہ یہ گھر آج بھی تمہارا ہے، ہم آج بھی تمہارے اپنے ہیں۔
شمائل بھی ان سب کے ساتھ گھر کے اندر چلا گیا۔
دروازے پر اب صرف عماد، افشاں، اور ننھی نایاب تھے۔

"گھر کے اندر چلو نا..."
افشاں کی آواز میں التجا بھی تھی، امید بھی، شاید برسوں کے فاصلے سمیٹنے کی خواہش بھی۔
عماد قدم بڑھانے ہی لگا تھا کہ لفٹ پھر کھلی...
یہ کیا؟ دلہا اور دلہن؟
نئی زندگی کا آغاز کرنے والے... اپنی خوشیاں چھوڑ کر یہاں؟
"تم لوگ؟" عماد نے حیرت سے پوچھا۔
مگر جواب میں جمال نے دلہن کا ہاتھ تھام کر افشاں کے سامنے کیا، "یہ آپ کی دیورانی ہے، پیاری بھابھی۔"

افشاں نے محبت سے جمال کے گال پر ہاتھ رکھا، "بہت مبارک ہو، میرے بچے!"
دلہن کو گلے لگایا تو برسوں کا فاصلہ جیسے سمٹ گیا۔
عماد نے روایتی غصے میں کہا، "چلو، اب اپنے گھر جاؤ۔"
مگر جمال نے شرارت سے کہا، "آپ کو جانا ہے تو جائیں... لیکن گاڑی نہیں ہے، ڈرائیور بھی جا چکے ہیں۔"

عماد نے غصے میں کچھ کہنا چاہا، مگر نایاب نے کروٹ لی اور اس کی آنکھ کھل گئی۔
ننھی آنکھوں میں خوف دیکھ کر عماد خاموش ہو گیا۔
اور یوں... وہ سب گھر کے اندر چلے گئے۔

اس رات... وہ گھر پھر گھر بن گیا تھا۔
قہقہے تھے، خوشیاں تھیں، اور سب سے بڑھ کر اپنائیت تھی۔
دلہن، جو نئے ماحول میں جھجک رہی تھی، تھوڑی دیر میں سب کے ساتھ گھل مل گئی۔
رات کے کس پہر کون کہاں سویا، کسی کو خبر نہیں۔
بس صبح جب سورج نکلا، تو افشاں کی آنکھ ہال کے کونے میں کھلی۔
"یہ خواب تھا؟" افشاں کی آنکھوں میں حیرت اور بےیقینی کا امتزاج تھا۔ دل کی دھڑکن جیسے لمحہ بھر کو تھم گئی۔ اس نے ایک پل کے لیے خود کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ شاید یہ کوئی خواب ہو، کوئی سراب… مگر نہیں، یہ حقیقت تھی۔

سامنے کا منظر اس کی سانسیں روک دینے کے لیے کافی تھا—نایاب، عماد کے سینے پر سکون سے سو رہی تھی، جیسے برسوں کی جدائی کا کوئی زخم کبھی تھا ہی نہیں۔ شمائل بھی قریب ہی تھا، اس کے چہرے پر ایک عجب سی معصومیت تھی، جیسے وہ کسی نامعلوم کشش کے تحت اس مقام پر آ کر ٹھہر گیا ہو۔

ہال میں اور بھی بچے نیند کی آغوش میں تھے، مگر افشاں کی نظر صرف ان دو چہروں پر جمی تھی، جو اس کے دل کی دنیا کا سب سے قیمتی خزانہ تھے۔

تو یہ حقیقت تھی…!

اس نے بےیقینی سے اپنی انگلیوں کو مٹھی میں بھینچا، جیسے یہ جانچ رہی ہو کہ وہ جاگ رہی ہے یا کسی خواب میں کھو گئی ہے۔ مگر حقیقت کی شدت نے اس کی آنکھوں کو مزید نم کر دیا۔

کیا یہ وقت نے اس پر رحم کیا تھا؟ یا یہ کوئی اور امتحان تھا؟

 

افشاں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
اس نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی:
"اے اللہ... ہماری خوشیوں کو کسی کی نظر نہ لگے۔ ہمارے بچوں کو ہمیشہ ان کے باپ کا سایہ نصیب ہو، یہ ہنسی، یہ اپنائیت، کبھی جدا نہ ہو۔ ہمارے ٹوٹے رشتے کو دوبارہ جوڑ دے۔ آمین!"

یہ دعا... یہ امید... ایک نئے سفر کا آغاز تھی۔
شاید کل کا بچھڑنا، آج کا ملنا تھا۔
شاید یہ کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی...
بلکہ یہیں سے ان کے پیار، ان کے رشتے، اور ان کے خاندان کی نئی زندگی کا آغاز تھا۔

محبت کبھی ختم نہیں ہوتی...
بس کبھی کبھار وقت، راستے جدا کر دیتا ہے...
مگر جہاں محبت سچی ہو، وہاں راہیں خود بخود دوبارہ مل جاتی ہیں۔
آج یہ گھر پھر آباد تھا...
اور کل... شاید یہ ٹوٹے دل بھی دوبارہ جُڑ جائیں۔
آمین!