Hello dear readers please follow me on Instagram before reading the story
The account is
im1893537
Please do it
For updates
آخِر کیوں
از
انشانور
یہ کہانی پنجاب اور بلوچستان کے درمیان پھیلی ہوئی نفرتوں، غلط فہمیوں اور فاصلوں کی ہے۔
یہ ان زخموں کی کہانی ہے جو وقت اور سیاست نے ہمارے دلوں پر لگائے۔
یہ اس درد کی داستان ہے جو ہم نے ایک دوسرے کے بارے میں سن کر، لیکن ایک دوسرے کو سمجھے بغیر اپنے دلوں میں بسایا۔
"آخر کیوں؟" ایک سوال ہے—
جو ہر اس شخص کے دل میں اٹھتا ہے جو اپنے ہم وطن کو دشمن کہلانے پر مجبور ہے۔
کیا یہ نفرت ہماری ہے؟
یا یہ ہمیں دی گئی ہے؟
اگر ہم سب ایک خدا کو ماننے والے ہیں، ایک ہی وطن میں رہنے والے ہیں، تو پھر ایک دوسرے کو قبول کرنے میں رکاوٹ کیا ہے؟
یہ ناول اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کی ایک کوشش ہے۔
---
دیواروں میں قید نہ ہو،
دل کے رشتے توڑ نہ دو،
پنجاب کا بیٹا بھی تمہارا،
بلوچ کا بیٹا بھی تمہارا۔
خون سب کا لال ہے یکساں،
درد سب کا حال ہے یکساں،
پھر نفرت کی آگ کیوں ہے؟
یہ ظلمت کا راج کیوں ہے؟
آؤ زخم بھریں سب مل کر،
آؤ سچ کو بولیں کھل کر،
ہو جائے اک لب پہ صدا—
آخر کیوں؟ آخر کیوں؟
"نفرت کا بیج کبھی دل نے نہیں بویا،
یہ تو صدیوں پرانے رویے اور فاصلوں نے ہمارے دلوں میں کاٹ دیا۔
اگر ہم ایک لمحہ رک کر ایک دوسرے کو سن لیں—
شاید جواب مل جائے کہ… آخر کیوں؟"
---
زندگی کی ہر صبح مختلف ہوتی ہے، اس بات کا
یقین اُس سرزمین پر اتر کر ہوتا تھا۔ یہ خوبصورت زمین کتنی بنجر ہو گئی تھی۔ کبھی کبھی اسے دُکھ ہوتا، کاش حالات ایسے نہ ہوتے، پر اُس کے اختیار میں کچھ نہ تھا۔
بلوچستان کی سرزمین رہنے والوں کے خون سے لبریز تھی اور خون بہانے والے بھی صد افسوس اپنے ہی تھے۔ جنہوں نے مار کر چھاءوں میں تو ڈالا تھا، پر ایسیچھاءوں کا کیا فائدہ؟
وہ آج سے 23 برس پہلے اسی زمین سے نکلی تھی اور آج 23 برس بعد جانے کیا اسے ادھر کو واپس کھینچ لایا تھا۔ شاید وہ خون جو ادھر کی مٹی کی خوشبو میں رچا بسا تھا۔
اس کے والد پنجاب پولیس میں بھرتی ہوئے تو اچانک ہی سب قبیلے والے اس کے والد کے دشمن ہو گئے اور پھر ایک شب، جب وہ چار سال کی بھی مشکل سے تھی، اُس نے اپنے سامنے ابا کی خون میں لپٹی لاش دیکھی اور ساتھ اماں کو، جو اب نہ زندوں میں تھیں نہ مردوں میں۔ اور چند دن بعد وہ اس زمین سے دُور پنجاب چلی آئی۔
لیکن اسے کبھی پنجاب سے نہ محبت ہوئی نہ کوئی اُنسیت۔ وہ جہاں بھی رہی، ایسے رہی جیسے مہمان سرائے خانے میں رہتا ہے، اپنے گھر کو جانے کا منتظر۔
اور آج وہ وہاں واپس کھڑی تھی۔ اگرچہ ابا کو مارا بلوچوں نے تھا لیکن اس کی نظر میں مجرم وہ سارا ملک تھا جس نے پنجابی بلوچی کی نفرت کی ابتدا رکھی تھی۔
قائد نے تو سب کی آزادی کی گانٹھ لگائی تھی، آزاد بھی سب ہوئے تھے، پھر کیوں بلوچوں کو بلوچ کہہ کر پیچھے چھوڑ دیا گیا؟ اور کیوں پنجابی اونچے ہو گئے؟ کیوں سرحد خیبر پختونخواں بنا؟
آخر کوئی تو مجرم تھا اس سب کے ہونے کا اور ابا کا قتل بھی اُسی کے سر تھا۔
قبیلے آج بھی ویسا ہی تھا: خالی تپتی زمینوں والا، پانی کی کمی والا، تعلیم نہ رکھنے والا۔
اور ویسے ہی ان میں آج بھی مائیں بچوں کو جنم دے کر چل گزرتی تھیں۔
وہ اپنے اصل میں کھڑی تھی۔
پاکستان سے الگ وہ فطرتاً بلوچی کھڑی تھی۔
تنہا لوگ جو اپنی ہی دنیا بناتے ہیں اور اس کی دنیا میں فقط نفرت تھی۔
وہ نفرت اسے ہر صوبے سے تھی، ہر ہم وطن سے تھی، سب سے تھی۔
اگر یہ نفرتیں نہ ہوتیں تو اس کی سرزمین ہر روز کسی نوجوان کے خون کو نہ روتی، اس کا باپ نہ مرتا، اس کا بھائی فرار زندگی نہ گزارتا، اس کی ماں مجسمہ بنے نہ جیتی۔
سب عناصر مل کر کب نفرت بنے، کب بیج سے تناور درخت بنا، ازکا جبین جان ہی نہ سکی۔
"کتنا دن واسطے آئی ہے تُم؟"
بوڑھی منتاشہ کی آواز اسے حال میں کھینچ لائی۔
"عمر بھر واسطے۔"
منتاشہ نے اسے حیرت سے دیکھا۔
"کیا بکتا ہے! اِدھر کو کیا کرنے آیا ہے؟ خدا کا واسطہ اِدھر سے نکل جا، باپ مارا تھا، تُو بھی مارا جائے گا۔ تمہارا واسطہ، ان کے دل میں کچھ رحم نہیں ہے، نکل جا!"
اس کے چہرے پر نفرت کی گہری لکیریں بڑھ گئیں۔
"باپ کا قاتل تو وہ علاقہ والے بھی ہیں، اُدھر کون سا ہم محفوظ ہیں؟ بلکہ اس پورے ملک میں کب کوئی محفوظ ہے؟ جو اس وطن واسطے جتنا کرتا ہے، وہی وطن اُتنا بُرا مرتا ہے۔"
منتاشہ نے سر نفی میں ہلایا۔
"باپ جیسا بن… وطن تو سب کا ہے، وطن سے نفرت نہیں کرتے۔ وطن سب کچھ دیتا ہے، لوگ بُرے ہوتے ہیں، اپنا وطن بُرا نہیں ہے۔"
اس نے بات پر ہنستے قدم اندر کے جانب بڑھا دیے۔
گرمی بڑھ گئی تھی، دھوپ تلے کھڑا ہونا مشکل تھا۔
"منتاشہ، یہ وطن بڑے لوگوں کا ہے، ہمارا کچھ نہیں ہے۔ نہ عزت، نہ حقوق، نہ زندگی۔"
"نہ بچے… یہ تو اللہ کے نام پر بنا ہے۔ حکمران ظالم ہیں تو بھلا بھی آئے گا۔ بس تُم لوٹ جاءو"
وہ لوٹنے کے بجائے چارپائی پر لیٹ گئی۔
"ہم بس اب اِدھر کے ہی ہیں۔ اِدھر ہی پیدا ہوئے، اِدھر ہی مریں گے۔ یہ سب اچھے لوگ ہیں، یہ معصوم ہیں۔ ان کا حق اِن کو نہ ملے گا تو اور کیا کریں؟ تم تو سمجھو، ہمارا ابا بھی غلط تھا، اس نے کیوں غیر سے بات وات کی؟ اُس کو تو ہمارا حفاظت کرنا تھا۔ دیکھا تُم نے کیسا صِلہ ملا؟ بس اس واسطے ہمارے دل میں صرف بلوچستان کی محبت ہے، اور کسی کی نہیں۔"
وہ سو گئی، منتاشہ خاموشی سے لیٹ گئی۔
صبح اس کی آنکھ باہر کے شور پر کھلی۔
منتاشہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔
"کیا ہوا؟ باہر کیسا شور ہے؟" منتاشہ نے پردہ آگے کر دیا۔
"دستگیر کا بیٹا کو لے گئے ہیں۔ فوج والا کہتا ہے دہشت گرد ہے۔ خدا پناہ! ہم نے تو بچے کو نقلی پستول سے بھی نہ کھیلتے دیکھا۔ جانے کب دہشت گرد بن گیا؟ خدا پناہ!"
آہ و زاری کرتی منتاشہ گھر کے کونے میں لگ گئی، جب کہ وہ اپنی جگہ پر ساکت بیٹھی رہی۔
"دیکھا تُم نے منتاشہ! یہ لوگ ہمیں کل دہشت گرد کہتے ہیں۔ ان کے اندر خود خدا خوفی نہیں ہے۔ ماں کا کلیجہ چھین لے گئے۔"
منتاشہ خموشی سے چادر سنبھالتی رہی، شاید وہ گہرے صدمے میں تھی۔
"تمہارا بیٹا اور شوہر کو بھی تو لے گئے تھے۔"
ازکا کے سفاکی سے بتانے پر منتاشہ کا ایک آنسو نکلا اور بہہ گیا۔
وہ پھر بھی کچھ نہ بولی۔
خاموشی میں اس کی آہیں بڑی دیر گونجتی رہیں۔
"تم بھی تھیں نا جب دادا دلآور چچا کو پکارتا مارا تھا، بڑا یاد کرتا تھا۔ اُس کو بھی لے گئے ظالم کمبخت! تُو دیکھنا، خدا ان کو بدترین موت دے گا۔ ایک ایک پانی کے قطرے کو ترسے گا۔ جیسا یہ ہمارا چھوٹا سا نعیم کو مارتے بے دردی سے لے گئے تھے، اِن کی اولادوں پر بھی خدا… "
منتاشہ نے آنسو پونچھے اور سختی سے اسے ٹوکا۔
"بچہ سب کا بچہ ہوتا ہے۔ تُم بد دعائیں مت دو۔ یہ تو پروردگار کے فیصلے ہیں، وہ سب ٹھیک کرے گا۔ صبر رکھ۔"
وہ نہ رکی اور بولتی رہی۔
کبھی بد دعائیں دیتی تو کبھی رونا شروع کر دیتی۔
رہ رہ کر اسے سب یاد آنے لگا۔
کبھی باپ، کبھی چچا، تو کبھی اذیت زدہ زندگی گزار کر مر جانے والی ماں…
سبھی یاد آتے رہے۔
قبیلے والے بھی ایک حد تک حق پر تھے، یہاں آنے والے ہر پنجابی سندھی کے لیے ان کے دل میں کچھ ہمدردی نہ تھی۔
وہ پنجابی جنہوں نے دن دہاڑے ان کے نوجوان بچوں کو مارا تھا، گھر کے گھر اُجاڑے تھے، ان سے محبت اور اُنسیت ہونا بڑا مشکل تھا۔
اسی لیے وہ منتاشہ کے گھر میں چھپ کے رہ رہی تھی۔ منتاشہ نے اسے اپنی رشتہ دار ظاہر کیا تھا، گو کسی دوسرے قبیلے سے آئی تھی۔ وہ چھوٹی تھی جب گم گئی تھی، لہٰذا اسے کوئی بھی نہ پہچانتا تھا۔ پر یہ بھی تھا کہ وہ زیادہ دیر نہیں رک سکتی تھی، اس طرح سب کو اس پر شک ہو جاتا۔
پر اس کا دل جانے پر انکاری تھا، آخر اُدھر اس کا کون تھا؟
ماں مر گئی اور بھائی روزگار مشکل سے کماتا تھا۔ بھابھی کو اس سے الگ نفرت تھی، بھلا کیوں وہ اس کا بوجھ اٹھاتیں؟
جتنی بھابھی کو یہ ناپسند تھی، اس سے کہیں زیادہ اسے بھابھی ناپسند تھیں، کیونکہ وہ ایک پنجابی خاندان سے تھی۔
اور پنجابیوں کے لیے اس کے دل میں بڑی نفرت تھی، جو ختم نہ ہو سکتی تھی۔
دوپہر سے رات کا اندھیرا ہو گیا، پر منتاشہ نہ لوٹی۔
بڑی دیر وہ انتظار کرتی رہی، پر کوئی خبر نہ آئی۔
پریشان ہو کر وہ اس کی تلاش میں نکل آئی۔
جب واپس آئی تو منتاشہ گھر میں تھیں، ساتھ کوئی اور بھی تھا—زخمی، خون میں لپٹا ہوا۔
تھا بھی نوجوان سا۔
کبھی اسے اس میں ابا نظر آتا، تو کبھی نعیم، اور بھی بہت سے چہرے اس نے خون میں لپٹے دیکھے تھے، یہ بھی سہی۔
"یہ کس کو اُٹھا لائی ہے تُو؟"
وہ منتاشہ پر چنگھاڑی۔ اگر کسی کو خبر ہوتی تو صبح تک دونوں مری جاتیں۔
"آہستہ بول، آہستہ۔ یہ ہمارا بھائی نے اس کو بھیجا ہے تمہارے شادی واسطے۔"
اس نے منتاشہ کو شدید غصے سے دیکھا۔
"ہمارا شادی اس مُردہ سے؟ تمہارا دماغ گھوما ہوا ہے؟ ہوش کا ناخن لو!"
منتاشہ اسے بھلائے زخمی کی مرہم پٹی میں لگ گئیں اور کچھ دیر بعد اسے وہیں چھوڑا اور ازکا کو لیے دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔
"تم اکیلا لڑکی ہے، ہمارا بہن کا بیٹی ہے۔ ہمارا بات مان کر اس سے شادی کر لو اور چلی جاؤ۔"
اس نے منتاشہ کے گرے ہاتھوں کو جھٹکا۔
"تمہارا اور مما کا دماغ ہل گیا ہے؟ یہ تو پنجابی لگتا ہے، تبھی زخمی پہنچا ہے۔ ہم نہیں کرے گا شادی!"
منتاشہ پھر سے اس کی منّت سماجت میں لگ گئی۔
"بڑا اچھا لڑکا ہے، تمہارا ماما کا افسر ہے، رحم دل ہے اور شادی کر کے تم کو خوش رکھے گا۔"
اس نے پھر سے سر نفی میں ہلایا۔
"پنجابی ہمارا باپ کا قاتل ہے۔ جیسا یہ پنجابی قاتلوں کو سزا دیا جاتا ہے، ان سے شادی نہیں کیا جاتا۔"
منتاشہ اسے سمجھاتی رہی، بڑی منّت سماجت سے اسے روکا، کہیں وہ اس زخمی کو مار ہی نہ ڈالے۔
رات دیر تک کے بحث کے بعد وہ تھک کر سو گئی۔
صبح اس کی آنکھ منتاشہ کے بلانے پر کھلی، گو وہ پنجابی کی خدمت میں مصروف تھیں۔
"اس کو چلتا کرو!"
بغیر کسی لحاظ کے وہ چیخی۔
"ہم مزید نہیں کرے گا برداشت!"
منتاشہ کی منّت بھری نظروں کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔
"یہ مہمان ہے۔ مہمان کی عزت فرض ہوتا ہے۔"
منتاشہ شرمندہ سی بولیں۔ اسے بڑی شرم آئی اس کے اس طرح کرنے پر۔
"مہمان؟ قاتل مہمان؟ اس کو نکالو ورنہ ہم چیخے گا، قبیلہ اکٹھا کرے گا، پھر وہ سب کرے گا اس مہمان کا مہمان نوازی!"
منتاشہ نے غصے سے اسے دیکھا۔
"یہ تمہارا مدد کو آیا ہے۔ تم احسان فراموش ہو! ذرا شرم کر، کس واسطے اسے بُرا کہتا ہے؟ باپ کو تو اس قبیلے والوں نے مارا ہے۔ تم اسے مارتی ہے؟ شرم کر!"
وہ اب بھی متنفر تھی۔
"اچھا تو پھر چچا کو کس نے مارا؟ نعیم کو کس نے مارا؟ تمہارا بیٹا کو، تمہارا شوہر کو کس نے مارا؟
عورت، اتنا ظرفی مت کرو۔ یہ سب ہیں، دس لیں گے۔ ان میں بڑا حسد ہے، بڑی نفرت ہے!"
مہمان نے ان کی بحث میں کوئی شرکت نہ کی۔ وہ دونوں اپنی مقامی زبان میں بحث کر رہی تھیں، وہ سمجھ نہ سکا۔
"تمہیں سمجھ نہیں آتی؟ تم نکلو! تم لوگ ظالم قاتل ہو، مجھ سے ہمدردی کا ناٹک مت کرو!"
اس کے اردو میں بولنے پر جہاں نوجوان کو سمجھ آئی، وہاں منتاشہ کے سمجھ سے سب باہر ہو گیا۔
"یہ تم کیا کہتا ہے؟ لڑکا کو خاموش ہو جاؤ!"
لڑکا اپنی جگہ شرمندہ تھا۔
منتاشہ اسے تکتی پلٹی۔
پر یہاں مسئلہ زبانوں کا تھا۔
گو منتاشہ کو آتی تھی، وہ لڑکے کو نہیں آتی تھی۔ اور جو لڑکے کو آتی تھی، وہ منتاشہ کو نہیں۔
منتاشہ نے ہاتھوں سے معذرت کی تو لڑکے نے نفی میں سر ہلایا، جیسے اسے کوئی بات بُری ہی نہ لگی ہو، اور وہ وہاں سے اٹھ گیا۔
جب کہ منتاشہ بڑی دیر ازکا کو دُکھ اور بےبسی سے دیکھتی رہی۔
"اچھے کے ساتھ بُرا کرتا ہے، تم میں اور ظالم میں کیا فرق بچا؟"
منتاشہ باورچی خانے میں چلی گئیں، جب کہ وہ غصے سے واپس کمرے میں پلٹ گئی۔
پھر وہ شخص اُدھر ہی رہا۔
چاہے وہ اوپری طور پر بہت سخت تھی لیکن اس شخص کو وہاں سے نکالنا اسے مارنے کے مترادف تھا، جو وہ نہیں کر سکتی تھی۔
وہ شخص چھوٹے کمرے میں اس سے قدرے دُور آخری کونے میں آ بیٹھا۔
"السلام علیکم!"
اُس نے غصے سے اُس آدمی کو گھورا، سلامتی اور اُس پر اُس نے سلام کا جواب نہ دیا۔
"ازکا! آپ کو مجھ سے اتنی نفرت کیوں ہے؟"
اُس نے اپنا منہ اس شخص کی جانب کیا۔
"کیوں کہ تم پنجابی ہو، قاتل، ظالم، بےحس۔ تم تو کیا، تمہارے علاقے کا ہر شخص قبیلے کو نفرت ہے!"
وہ تقریباً چلائی۔
"اچھا! اور وہ کیوں؟ ہم نے تو آپ کا برا نہیں سوچا۔"
اُس کا غصہ بےحد بڑھ گیا۔
"جھوٹے! ہمارے گھر کے گھر اُجاڑنے والے کہتے ہو برا نہیں سوچا؟ تو کیا ہمارا اچھا سوچ کر ہمارے باپ بھائی کو مارتے ہو؟"
وہ شخص برابر اطمینان سے بیٹھا رہا۔
"نہیں، میرے آبائی اجداد نے کبھی آپ کے آباؤ اجداد کو نہیں مارا۔ ہمارے دل میں سب بھائیوں کے لیے نفرت نہیں ہے۔"
وہ بہت دیر تک طنزیہ ہنستی رہی۔
"کتنا آسان ہے کر کے بچ نکلنا!"
وہ بلند آواز میں بڑبڑائی۔
"بچنا آسان ہے لیکن یہ سب ہم نے نہیں کیا۔ ہاں شاید ہم خاموش رہ کر اس میں شامل ہو گئے ہیں، لیکن ہم بے بس ہیں۔ کیا احتجاج کریں؟ ہمیں اپنے بھائیوں کے غم کا احساس بھی ہے۔ یہ سب سیاسی لوگ کرتے ہیں اپنی بقا کے لیے۔
ساری عوام ایک مہرہ ہے۔"
وہ نفی میں سر ہلاتی رہی۔
"بلوچ کو مارو، باقی سب بھلے ہیں۔ ہمارا خون پانی ہے؟ ہر روز بہا دو، بہاتے جاؤ! ہمارے خون پر اپنے محل بناؤ۔ وہ خُدا حق ہے، وہ ضرور انصاف کرے گا!"
وہ منہ موڑ گئی، اُس کے آنسو بہنے لگے۔
ایک وطن کے باسی جب ایک دوسرے کو مٹانے لگیں تو قوم، قوم نہیں رہتی۔
بس ایک ہجوم بن جاتی ہے،
اور پھر وہ ہجوم ایک دوسرے کو کچل دیتا ہے۔
اور کسی پر کوئی الزام نہیں آتا، کیوں کہ ہجوم میں ہوئے قتل کا ذمےدار کوئی نہیں ہوتا، کوئی بھی نہیں۔
وہ بہت دیر روتی رہی۔
"ازکا! یہاں رونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ایک شخص کے بدلے حقیقت بھی نہیں بدلتی۔ تم واپس چلو، خود کے لیے لڑو، اِن اپنوں کے لیے لڑو۔ یہاں تم ہجوم میں ہو، مر جاؤ گی۔ اُٹھو! قوم سے ملو، اپنے لیے نہیں تو کسی اور ازکا کے لیے۔ ہر انسان کے لیے جس پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔"
اُس نے آنسو صاف کیے۔
"ہم میں اتنی نفرت کیوں ہے؟ مجھے ہر پنجابی سے نفرت ہے، پنجابی کو بلوچی سے نفرت ہے، ہر بلوچی کو سندھی سے نفرت ہے، سندھی کو پٹھان سے نفرت ہے۔ آخر ہم مسلمان ہو کر اس قدر نفرت میں کیوں ڈوب گئے ہیں؟"
"میں خود نہیں جانتا۔ شاید اس لیے کہ ہم نے قوم بننا نہیں سیکھا۔ یہ تو علاقوں کی نفرت ہے۔ ہم نے تو اسلام میں فرقے بنا کر ایک دوسرے سے نفرت کی دیواریں تعمیر کر لی ہیں، جنہیں اب ہم خود بھی چاہ کر عبور نہیں کر سکتے۔ اور یہ سب ہم نے خود کیا ہے۔ اب ہمیں ہی اسے ختم کرنا ہے۔"
اُس نے آدمی کو دیکھا، اب اُس کی نگاہوں میں نفرت نہ تھی۔
آخر وہ کتنے لوگوں سے نفرت کرتی؟
وہ خود بھی وہی کر رہی تھی جو پہلے پنجابیوں نے کیا، پھر بلوچیوں نے، پھر سب نے۔
"اگر بلوچستان کو ان کا جائز حق دیا جاتا نا تو یہاں کوئی پنجابی زخمی نہ ہوتا۔ ہم ایک مہمان نواز قوم ہیں، بس دشمن کے لیے اپنے در نہیں کھولتے۔"
آدمی نے لمبا سانس خارج کیا۔
"اگر ہمیں بھی قومیت کی تعلیم دی جاتی، اسلام ہمارا سبق ہوتا تو ہم بھی کبھی کسی کا خون نہ بہاتے۔ پر اب نہ موجودہ پر رونے سے کیا ہوگا؟"
اُس نے سر ہامی میں ہلایا۔
منتاشا اندر داخل ہوئی، ساتھ میں قاضی بھی تھا۔
اُس نے حیرت سے منتاشا کو دیکھا۔
منتاشا اُس تک آئی۔
"دیکھو تم ہمارا بات سمجھو، یہ بُرا نہیں…"
اُس نے منتاشا کو ٹوک دیا:
"ہم نکاح کرے گا۔"
منتاشا کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔
"خُدا تم دونوں کو آباد رکھے۔"
وہ دونوں کو دعائیں دیتی گئی، جب کہ لڑکا کچھ سمجھ نہ سکا۔
"دعائیں دے رہی ہیں۔"
ازکا کے بتانے پر وہ مسکرایا۔
ان کا نکاح پڑھا دیا گیا۔
بہت دیر منتاشا ان کے پاس بیٹھی رہی، اُن کو سنتی رہی، سناتی رہی۔
رات زیادہ ہوئی تو وہ اُٹھ گئی۔
"صبح ہم پنجاب چلیں گے۔"
ازکا نے بغیر کسی تاثر کے سر ہاں میں ہلا دیا، جیسے دل پر جبر کر کے کہا ہو۔
رات کو پھر چھاپا مارا گیا۔ اب بھی شکار منتاشا کا گھر تھا۔
وہ بہت سے لوگ تھے۔
اور انہوں نے مرد یعنی ذوالقرنین کو اس قدر مارا کہ اُس کا ایک پاؤں تقریباً مفلوج ہوگیا، جب کہ وہ اور منتاشا بے بس کھڑے رہے۔
وہ لوگ اُسے جی بھر کے مارنے کے بعد چلے گئے اور وہ دونوں اُس تک پہنچے۔ لیکن پاؤں کا حال ایسا تھا کہ شاید ہی وہ دوبارہ چل سکتا۔ جب کہ منتاشا شکر کیے جا رہی تھی کہ یہ بھی بڑی بات تھی کہ انہوں نے صرف مارا، ورنہ تو وہ اُٹھا کر ایسا لے جاتے کہ پھر کبھی وہ شخص نہ ملتا۔
اُسے مرہم پٹی کے بعد لٹا دیا گیا۔
منتاشا بار بار گھڑی کو دیکھتی، جیسے وہ صبح کے خوف میں مبتلا ہو۔
باہر ایک چھوٹی سی گاڑی آ رکی۔ وہ قبائلی سردار کی تھی اور وہی قبیلے سے باہر کی گاڑی تھی۔
منتاشا کا بھانجا سردار کا ملازم تھا۔ منتاشا نے اُسے سب بتا کر یہاں بلوایا تھا۔
"تم اُٹھو اور سامان رکھو۔ تم کو صبح سے پہلے نکلنا ہے، اِس کو بھی وہ اکٹھا لے جاتا ہے گاڑی میں۔"
اُس نے انکار کیا۔
وہ اس قدر جلدی جانے پر راضی نہ تھی۔
مگر منتاشا کی دُور اندیش نظروں نے وہ دیکھ لیا جو ازکا کی سوچ سے بھی پرے تھا۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں روانہ ہوگئے۔
پانچ دن بعد وہ پنجاب کے کسی چھوٹے گاؤں میں آ کر رکے۔
"ہم یہاں کیوں رہیں گے؟"
اُسے ذوالقرنین کے گھر کا پتا تھا۔
ماموں ذوالقرنین کے سرونٹ کوارٹر میں ہی رہتے تھے اور وہ ان کے پاس رہنے گئی تھی، تبھی ہی ذوالقرنین نے اُسے دیکھا تھا۔
"ہم کل باہر جا رہے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے وہاں حملہ کیا تھا، وہ مجھے جان گئے ہیں۔ وہاں اب ہم غیر محفوظ ہیں۔"
وہ کتنی دیر صدمے سے خاموش رہی۔
"لیکن میں کہیں نہیں جاؤں گی۔ مجھے اپنی جگہ واپس جانا ہے۔ میں بزدل نہیں ہوں گی کہ بھاگ جاؤں۔ اور دیکھ لیا! تمہارے اپنے ہی تمہیں مارنا چاہتے ہیں۔ کیا عالم ہے!"
وہ بہت دیر تک بولتی رہی اور اُس نے اُسے چپ کرائے رکھا۔
"میں بزدل نہیں ہوں لیکن جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔ یہاں میں کیا کروں گی؟ یہاں کوئی الزام لگا کر مجھے مار دیں گے اور پھر تمہیں۔ مجھے اپنے سے زیادہ تمہاری فکر ہے۔ شاید واقعی میں بہت بہادر نہیں ہوں، لیکن اپنی عزت کی حفاظت ہر فرد کرتا ہے چاہے دنیا اُسے بزدلی کہے۔"
اور پھر وہ گہری خاموشی میں چلی گئی۔
آخر وہ بھی سچا تھا۔ کیا کرے؟
زندگی سے دستبردار ہوتا؟ یہاں تو خون کی قیمت پانی سے کم تھی۔
کم از کم بےحس لوگوں کو بہانے دیتا اپنا خون۔
چار دن میں اُس کا پاسپورٹ تیار ہوگیا اور وہ دونوں وہاں سے دُور نکل آئے۔
پیچھے ذوالقرنین کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا کہ وہ بلوچستان کے لوگوں کو دہشت گردی پر اُبھارنے میں ملوث تھا۔
اور بھی بہت سی خبریں اُس کے متعلق بنتی رہیں، کیونکہ اُس کے پاس ایسے بہت سے ثبوت تھے جو اُن لوگوں کے لیے خطرہ تھے۔
کبھی اُسے کرپٹ کہا گیا تو کبھی کچھ اور۔
اب وہ دنیا کے ایک مختلف کونے میں، مختلف نام کے ساتھ آباد تھے
اور یہی دنیا اُن کا مرکز تھی۔
ان کی اولاد، ان کا گھر اور ان کی کوششیں۔
اور ہمیشہ کی یادیں
وہ ہر ماہ فلاحی تنظیم کو پیسے بھیجتی
منتاشا سے اُس نے رابطے کی بڑی کوشش کی مگر ہو نہ سکا۔
ہوتا بھی کیسے؟
جب اُس کے جانے کے اگلے دن ہی منتاشا کو اُس کے گھر سمیت جلا دیا گیا تھا، کیونکہ اُس نے ایک پنجابی کو پناہ دی تھی۔
ماموں کا نمبر بھی بند تھا اور کبھی بھی نہ کھلنا تھا، کیونکہ اُسے ایک کرپٹ اور دہشت گرد کا ملازم ہونے کے جرم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کہیں غائب کر دیا گیا تھا۔
لاپتہ جگہ پر
نجانے وہ لوگ جو آواز اُٹھاتے ہیں،
کہاں غائب ہو جاتے ہیں؟
کبھی منتاشا کی طرح،
کبھی ماموں کی طرح،
کبھی اُس ذوالقرنین کی طرح، ہمیشہ کے لیے ایک پاؤں سے معذور ہو جاتے ہیں۔
اور کبھی ازکا کی طرح، تو ہمیشہ ایک صدمے کی کیفیت میں عمر گزار دیتے ہیں، جہاں آتی کوئی خوشی محسوس ہی نہیں ہوتی۔
آخر کیوں؟
یہ میرا سوال ہے آپ سے—
آخر کیوں یہ نفرت ہے ہمارے اندر؟
آخر کیوں؟