The Desolate Paths of Memories in Urdu Short Stories by Shay Amin books and stories PDF | یادوں کے سنسان راستے

Featured Books
  • یادوں کے سنسان راستے

    ان کی گاڑی پچھلے ایک گھنٹے سے سنسان اور پُراسرار وادی میں بھ...

  • بےنی اور شکرو

    بےنی اور شکرو  بےنی، ایک ننھی سی بکری، اپنی ماں سے بچھڑ چکی...

  • خواہش

    محبت کی چادر جوان کلیاں محبت کی چادر میں لپٹی ہوئی نکلی ہیں۔...

  • Akhir Kun

                  Hello dear readers please follow me on Instagr...

  • وقت

    وقت برف کا گھنا بادل جلد ہی منتشر ہو جائے گا۔ سورج یہاں نہیں...

Categories
Share

یادوں کے سنسان راستے

ان کی گاڑی پچھلے ایک گھنٹے سے سنسان اور پُراسرار وادی میں بھٹک رہی تھی۔ اردگرد پھیلے فلک بوس اور پرشکوہ بنگلوں کی قطاریں یوں دکھائی دے رہی تھیں جیسے کسی نامکمل خواب کی تصویریں اچانک حقیقت کے پردے پر نمودار ہو گئی ہوں ۔ ہر طرف سناٹا اور اجنبیت کا قبضہ تھا۔ وہ گھر جس کا پتہ انہیں مطلوب تھا، گوگل کے جدید ترین نقشوں کی آنکھوں سے بھی غائب تھا۔ سب سے زیادہ مایوس کن بات یہ تھی کہ جس رشتہ دار نے انہیں یہاں بلایا تھا، وہ فون تک اٹھانے پر تیار نہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے قسمت نے انہیں ان کے آرام دہ اور مانوس شہر سے کھینچ کر کسی گمشدہ داستان کے صحرا میں لا پٹکا ہو۔

آخرکار، ارمان نے تھکن اور جھنجھلاہٹ کے ملے جلے لہجے میں ڈرائیور کو حکم دیا
“کسی ایک بنگلے کے سامنے گاڑی روکو، شاید کوئی اجنبی فرشتہ ہمیں راہ دکھا دے۔”

اس نے پیچھے بیٹھے اپنی بیوی اور بہن کی طرف نظر ڈالی۔ دونوں کے چہروں پر تھکن کے سائے پھیل چکے تھے، آنکھوں میں بے یقینی اور اضطراب کی پرچھائیاں تھیں۔ گویا وہ اس فیصلہ کن لمحے پر خاموشی سے اس کے ہم نوا بن گئی ہوں۔

ارمان کوئی عام شخص نہیں تھا۔ وہ ایک کامیاب، بلند مرتبہ اور معروف کاروباری شخصیت تھا، جس کی زندگی ایک شاہانہ قافلے کی مانند تھی، جہاں دولت، شہرت اور آسائشیں بہتی دریا کی مانند ایک لمحے کو بھی رُکنے نہیں دیتیں۔ لیکن اس شاندار داستان میں ایک خلا ہمیشہ کھلا رہ گیا تھا—اس کے چھوٹے بھائی جابر کی ادھوری زندگی۔

کچھ سال پہلے، جابر نے اپنی زندگی کا اصول واضح کر دیا تھا: پہلے کامیابی، پھر شادی۔ اب اس کی کامیابی کی تمام منزلیں اس کے قدموں میں جھک چکی تھیں، مگر شادی کے باب میں قسمت جیسے اس سے خفا ہو گئی تھی۔ کئی امید افزا رشتے کسی ان دیکھے طوفان میں بکھر گئے، اور ہر بار جابر کے دل میں ایک خالی پن باقی رہ گیا۔ یہی خالی پن اور ارمان کے بھائی کے لیے بے چینی نے اسے اپنے مانوس شہر کی گرمائش سے دور، اس اجنبی اور پراسرار وادی کی طرف کھینچ لیا تھا۔۔

کچھ دیر بعد گاڑی ایک بلند و بالا دیواروں میں لپٹے عالیشان بنگلے کے سامنے جا رکی۔ ڈرائیور نے آگے بڑھ کر سیکورٹی گارڈ سے سوال کیا، لیکن وہ بھی لاعلم نکلا۔ پھر اس نے انٹرکام کے ذریعے اندر اطلاع دی۔ لمحہ بھر کی خاموشی کے بعد اندر سے اجازت ملی اور یوں وہ اس پراسرار بنگلے کی دہلیز پر مہمانوں کی طرح مدعو ہو گئے۔

سفر کی صعوبتوں نے سب کے اعصاب شل کر دیے تھے۔ وہ چند لمحوں کے سکون کے خواہاں تھے، اس لیے فوراً آمادہ ہو گئے۔ ڈرائیور کو گاڑی باہر روکنے کا اشارہ دیا گیا اور باقی سب کو ایک سنگِ مرمر کے دیوقامت دروازے کی طرف لے جایا گیا۔ دروازہ جیسے ہی کُھلا، ایک خوش لباس اور باوقار لڑکی نے پرتپاک مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا اور خاموشی سے اندر آنے کا اشارہ کیا۔

اندر داخل ہوتے ہی منظر کسی فلمی خواب سے کم نہ تھا۔ ایک وسیع و عریض اور پرشکوہ ہال ان کا منتظر تھا۔ چھت سے جھولتا ہوا دیوقامت کرسٹل فانوس ہزاروں جگمگاتی قندیلوں کے ساتھ کمرے کو یوں روشن کر رہا تھا جیسے سونے کی بارش برس رہی ہو۔ فرش پر بچھا ہوا گہرے رنگ کا ملائم فارسی قالین قدم رکھتے ہی شان و شوکت کی سرگوشیاں کرنے لگا۔

ہال کے وسط میں کلاسیکی مگر جدید طرز پر تراشا گیا صوفہ سیٹ اپنی ریشمی دمک کے ساتھ رعب و دبدبہ بکھیر رہا تھا۔ شیشے کی میز پر رکھا نایاب کرسٹل گلدان، جس میں گلاب اور کنول کے خوشبودار پھول سجے تھے، فضا کو ایک مسحور کن جادو میں لپیٹ رہا تھا۔

دیواروں پر آویزاں نفیس پینٹنگز، سنہری جھلمل سے مزین وال پیپر، اور بھاری مخملی پردے اس منظر کو مزید دلکش بنا رہے تھے۔ کونے میں شاہ بلوط کی لکڑی سے بنی ایک عالیشان لائبریری اور اس کے ساتھ روشن فائر پلیس، کمرے کو نہ صرف پر وقار بلکہ گرمجوش اور پُرسکون بنا رہے تھے۔

ہر شے اپنی جگہ اس انداز سے رکھی تھی کہ ہال عظمت، شان و شوکت اور وقار کا ایسا مرقع پیش کر رہا تھا جو کسی شاہی داستان کے خوابیدہ منظر سے کم نہ تھا۔

ارمان نے لمحہ بھر کے لیے اپنے گرد و نواح پر نگاہ دوڑائی۔ اس کی بیوی اور بہن اس دلکش ماحول میں کھو سی گئیں، جیسے لمحاتی طور پر تمام تھکن اور بے یقینی بھلا دی ہو۔ لیکن خود ارمان کے دل میں عجیب سی بےچینی جنم لینے لگی۔

ہال کی مسحور کن خوبصورتی کے باوجود ایک انجانی خاموشی فضا پر طاری تھی۔ کرسٹل فانوس کی جھلملاہٹ، قالین کی نرمی، اور خوشبو کی مدہوشی کے باوجود اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان سب کے پیچھے کوئی پوشیدہ راز منہ کھولے کھڑا ہو۔

اور تبھی… دور والے دروازے پر ہلکی سی آہٹ ابھری—ایسی آہٹ جو بظاہر معمولی تھی، لیکن ارمان کے دل کی دھڑکن ایک لمحے کے لیے رک گئی۔ گویا کوئی غیر مرئی قوت انہیں خبر دے رہی ہو کہ اس گھر کی دیواروں میں محض شاہانہ عظمت نہیں، بلکہ ایک ان کہی کہانی بھی چھپی ہے

دروازے پر ابھری وہ مدھم سی آہٹ لمحہ بہ لمحہ گہری ہوتی جا رہی تھی۔ ارمان نے بےاختیار اپنی نشست بدلی اور نگاہیں اس سمت مرکوز کر دیں۔ لمحے جیسے لمحوں پر بھاری ہونے لگے۔ بیوی اور بہن نے بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر خاموش اشارے میں سوال کیا: کون آ رہا ہے؟

اچانک دروازہ آہستگی سے کھلا۔ کمرے کی شاندار روشنی کے باوجود، اندر آنے والی شبیہہ چند لمحوں تک نیم اندھیرے میں لپٹی رہی۔ صرف قدموں کی دھیمی چاپ اور ایک ہلکی سی خوشبو فضا میں تحلیل ہوئی—ایسی خوشبو جو نہ صرف اجنبی تھی بلکہ کسی پراسرار ماضی کا دریچہ بھی لگتی تھی۔

پھر روشنی نے اس شبیہہ کا پردہ اُٹھایا۔ سامنے ایک پُروقار شخصیت ایستادہ تھی۔ ارمان غیر ارادی طور پر اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوا اور لبوں پر سلام لانے ہی والا تھا کہ اس کا سلام کرنے کا ارادہ حلق میں ہی اٹک گیا۔

اس کی آنکھیں ششدر رہ گئیں، دل کی دھڑکن بےترتیب ہو گئی اور لمحے کے لیے جیسے کمرے کی ساری رونقیں ساکت ہو گئیں۔ ارمان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا، گویا وقت نے اسے پتھر کا مجسمہ بنا دیا ہو۔

کیونکہ آنے والی کوئی اجنبی نہیں تھی… بلکہ وہ ہستی تھی جس کا چہرہ برسوں سے اس کی یادوں میں دھندلا سا سایا بن کر زندہ تھا۔
وہ تھی—اس کی پہلی محبت، رفسانہ۔

کیا یہ حقیقت تھی؟ یا وقت نے اس پر کوئی خواب کا جادو کر دیا تھا؟
کیا واقعی وہی تھی جو برسوں پہلے اس کی زندگی سے اوجھل ہو گئی تھی؟
اور اگر ہاں—تو اتنے سالوں بعد، اس اجنبی شہر اور پراسرار بنگلے میں کیوں اور کیسے؟

رفسانہ آہستہ آہستہ کمرے کے وسط کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اس کے قدموں کی چاپ نرم قالین میں جذب ہو رہی تھی، مگر ارمان کے دل پر ہتھوڑے کی مانند بج رہی تھی۔ مخملی لباس کی جھلک، سنجیدہ مگر پرکشش چہرہ، اور آنکھوں میں چھپا ہوا ایک گہرا سمندر… وہ سب کچھ تھا جو ارمان برسوں اپنی یادوں میں ڈھونڈتا رہا تھا۔

ارمان کی آنکھیں اس پر جمی تھیں۔ لمحہ لمحہ اس کے دل کی دیواریں ہل رہی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وقت نے اچانک پیچھے مڑ کر اسے اس کے ماضی میں پھینک دیا ہو۔ وہ لمحے یاد آنے لگے جب رفسانہ کی مسکراہٹ اس کے دنوں کو اجالا کرتی تھی، جب اس کی آواز کسی ساز کی مانند دل کو چھو جاتی تھی۔ لیکن وہ سب ایک خواب کی مانند ختم ہو گیا تھا… اور اب، برسوں بعد، وہی چہرہ حقیقت بن کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔

ارمان کے حلق میں کئی سوال قید ہو گئے۔ وہ بولنا چاہتا تھا، کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر الفاظ جیسے بوجھل زنجیروں میں جکڑے تھے۔ صرف ایک ہی صدا دل کے اندر گونج رہی تھی
کیا یہ سچ ہے؟ یا میں خواب دیکھ رہا ہوں؟

رفسانہ کی نظریں بھی لمحہ بھر کے لیے اس سے ٹکرائیں۔ ان آنکھوں میں ایک انجانی کہانی، ایک چھپا ہوا درد، اور ایک ان کہی مسکراہٹ کی پرچھائی تھی۔ وہ لمحہ ایسا تھا جیسے کائنات نے وقت کو تھام کر صرف ان دونوں کے لیے سانس لینا روک دیا ہو۔

دونوں نے لمحہ بھر کے سکوت اور ہلکی حیرت کے بعد خود کو سنبھالا اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے کی طرف بڑھے۔ ارمان نے دل کی دھڑکنیں قابو میں لاتے ہوئے رفسانہ کو سلام کیا، اور رفسانہ نے بھی اپنے دل کے نرم لہجے میں جواب دیا—ایسا سلام جو برسوں کی یادوں اور خاموش خواہشات کا امتزاج تھا۔

یہ سلام محض رسمی ملاقات نہیں تھا، بلکہ دو دلوں کی پہلی جھلک تھی جو ایک دوسرے سے برسوں بعد مل رہی تھی۔ ہر لفظ میں وہ تمام جذبات چھپے ہوئے تھے جو کبھی بیاں نہ ہو سکے، ہر جنبش میں وہ محبت اور یادیں شامل تھیں جو وقت کے دھندلے پردوں میں چھپی رہ گئی تھیں۔

اس کے بعد رفسانہ نے خواتین کی طرف مسکرا کر ہاتھ بڑھایا اور ادب و احترام کے ساتھ سلام و دعا کی، ایک نرم لہجہ جو کمرے کے ماحول کو بھی گرم اور خوشگوار بنا گیا۔ ارمان کی بیوی اور بہن بھی اس خوش آئند رویے سے متاثر ہو گئیں اور لبوں پر ہلکی مسکراہٹ لیے جواب میں سلام و دعا کی۔

کچھ دیر کے سکوت اور ہلکی بات چیت کے بعد، رفسانہ نے خواتین کی طرف دیکھ کر نرم لہجے میں کہا، آئیں، آپ لوگ اندرچلے۔ میں جانتی ہوں کہ آپ کافی دیر کا سفر کر کے آئے ہیں۔

اس کی یہ مہربان دعوت نہ صرف احترام کا پیغام تھی بلکہ ایک گرمجوش استقبال کا بھی اظہار تھی۔ خواتین نے اس کی نرمی اور شائستگی کو محسوس کرتے ہوئے سر ہلایا اور اس کے ساتھ اندر چلیں۔

دونوں خواتین  رفسانہ کی رہنمائی میں، ہال کے ایک کونے کی طرف بڑھے اور چند لمحوں میں ہال کے پرتاثیر اور شاندار ماحول میں غائب ہو گئے

ارمان ہال میں بیٹھ کر خاموشی کے عالم میں اپنے ماضی کی پرتوں میں کھو گیا۔ آنکھیں خالی خالی دیکھ رہی تھیں، لیکن دل کی آنکھیں ہر لمحے کو تازہ کر رہی تھیں۔ یونیورسٹی کے وہ دن، جب پہلی بار رفسانہ اس کی زندگی میں نمودار ہوئی تھی، اچانک اس کی یادوں کے پردے پر جلوہ گر ہوئے

ارمان کی آنکھیں ماضی کی روشن یادوں میں ڈوب گئیں۔ وہ دن یاد آئے جب پہلی بار یونیورسٹی کی لائبریری میں رفسانہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ وہ کتابوں کی قطاروں کے بیچ کھڑی تھی، ایک ہاتھ میں کتاب، اور آنکھوں میں ایک خاموش مسکراہٹ۔ ارمان کی نظریں اس پر جم گئیں، اور دل کی دھڑکنیں اچانک تیز ہو گئیں۔

ابتدائی گفتگو نہایت معصوم اور ہلکی سی تھی، لیکن ہر لفظ، ہر نظروں کا تبادلہ، جیسے کسی غیر مرئی دھاگے سے دلوں کو باندھ رہا ہو۔ وہ چھوٹے چھوٹے لمحے—رفسانہ کی ہنسی، اس کی نرم باتیں، اور کبھی اچانک چھوٹی شرمیلی نظروں کا کھیل—ارمان کے دل میں ایک انمول نقش چھوڑ گئے۔

جلدی ہی یہ ملاقاتیں ایک دوسرے کی موجودگی کے لیے بے صبری میں بدل گئیں۔ وہ دونوں لائبریری کی خاموشی میں چھپ کر بات کرتے، کبھی کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر کتابیں بانٹتے، اور کبھی کسی کیفیٹیریا کے گوشے میں چائے کے کپ کے ساتھ ہنستے کھیلتے۔ ہر لمحہ ایک نئی کہانی کا آغاز تھا، اور ہر یاد دل کو دوبارہ جوان کر دیتی تھی۔

ارمان کے دل میں یہ سب یادیں ایسے زندہ تھیں جیسے وقت نے انہیں کبھی مٹنے نہ دیا ہو۔ رفسانہ کی مسکان، اس کی نرمی، اور وہ محبت بھرا آغاز ہر بار اس کے دل کی دھڑکنیں بڑھا دیتا تھا۔ یہ محبت نہ صرف ایک جذبہ تھی بلکہ ایک پرسکون اور پُر اثر حقیقت بن چکی تھی، جو برسوں بعد بھی اتنی ہی تازہ اور پُرتاثیر محسوس ہو رہی تھی۔

اتنی گہری محبت کے باوجود، ایک بات میں وہ کبھی ایک نہیں ہو سکے تھے—یونیورسٹی کے بعد شادی کا وقت۔ ارمان کا ماننا تھا کہ پہلے اسے اپنی محنت اور کاروبار میں کامیابی حاصل کرنی چاہیے، اور تب شادی کی راہ ہموار ہو گی۔ لیکن رفسانہ کا دل کچھ اور چاہتا تھا؛ وہ چاہتی تھی کہ یونیورسٹی ختم ہوتے ہی شادی کر کے اپنے گھر واپس جا سکے، خاندان کے قریب اور اپنے گھر کی محفوظ دنیا میں۔

اسی اختلاف کی وجہ سے وہ یونیورسٹی کے بعد ساتھ نہیں چل سکے۔ ارمان نے دل ہی دل میں ہر روز اس کمی کا احساس کیا، اور رفسانہ نے بھی اپنی خواہش کے مطابق راستہ اختیار کیا۔ چند مہینوں بعد، رفسانہ نے اپنے گھر والوں کی مرضی سے شادی کر لی، اور ارمان کو نہ تو معلوم ہوا کہ وہ کہاں ہے اور زندگی کے ان برسوں میں کیسے گزری۔

مگر آج، اپنے بھائی کے لیے رشتہ تلاش کرنے کے اس سفر میں، ارمان کی راہیں دوبارہ اسی پراسرار اور شاندار بنگلے کی دہلیز پر آ کر ٹکرائیں۔ وہ ایک بار پھر اس شخص کے سامنے تھا جس سے اس کی زندگی کی سب سے میٹھی یادیں جڑی تھیں

ارمان کی ماضی کی یادوں کی روانی اچانک رک گئی جب اس نے خواتین کو واپس آتے دیکھا۔ وہ ابھی اپنے جذبات میں گم تھے کہ ہال میں ایک اور منظر نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔

ایک بزرگ شخصیت ہال میں نمودار ہوئی، قدموں میں وقار اور نگاہوں میں سنجیدگی کا اثر تھا۔ ان کے ساتھ ایک حسین و جمال لڑکی چل رہی تھی، جس کی ہر ادا اور ہر مسکان میں قدرتی دلکشی جھلک رہی تھی۔ ارمان کی نظر لمحے بھر کے لیے اس پر جم گئی۔

اس کے پیچھے، ایک لڑکی ہاتھ میں چائے کی ٹرے لیے آ رہی تھی، قدم آہستہ مگر محتاط۔ ہر قدم، ہر حرکت میں ایک نرم نرمی اور شائستگی تھی، جیسے پورے ہال کی فضا کو مزید دلکش اور خوشگوار بنا رہی ہو۔

رفسانہ نے نرمی اور وقار کے ساتھ کہا،

یہ میرے سسر ہیں اور ان کے ساتھ میری نند، شیرین

ارمان اور باقی خواتین نے احترام اور ادب کے ساتھ کھڑے ہو کر سلام کیا۔ بزرگ نے ارمان کے ساتھ ہاتھ ملا کر مصافحہ کیا اور پھر ایک دوستانہ انداز میں انہیں بیٹھنے کا اشارہ دیا۔ ارمان نے احترام بھری مسکراہٹ کے ساتھ ان کے اشارے کی پیروی کی اور اپنی نشست سنبھالی۔

شیرین نے ارمان سے سلام کرنے کے بعد باقی لوگوں سے ملوایا، ایک خوش اخلاق اور پرکشش رویے کے ساتھ۔ پھر اس نے اپنی ساتھ آئی لڑکی کی طرف اشارہ کیا جو چائے کی ٹرے لیے کھڑی تھی، اور کہا کہ اسے میز پر رکھ دے۔ وہ لڑکی خاموشی سے ٹرے لے گئی اور چائے میز پر رکھ دی۔

شیرین خود زمین پر بیٹھ گئی اور آرام سے چائے بنانا شروع کر دی، ہر حرکت میں ایک قدرتی شائستگی اور مہارت جھلک رہی تھی۔ ہال میں یہ منظر نہ صرف نظم و ضبط اور احترام کا احساس پیدا کر رہا تھا بلکہ ایک خوشگوار اور پرسکون فضا بھی بنا رہا تھا۔

ارمان خاموشی سے سب کچھ دیکھ رہا تھا، ہر چھوٹی چھوٹی حرکت، ہر اشارہ اور ہر نرم انداز اسے اس ماحول کی نزاکت اور رفسانہ کے گھر کے وقار کا احساس دلا رہا تھا۔

اچانک ارمان کے ذہن میں ایک خیال نے شور مچانا شروع کر دیا۔ کیا یہ واقعی قسمت کا کھیل ہے؟ یا کوئی پوشیدہ اشارہ، جو اسے یہاں تک لے آیا؟

وہ اپنے دل میں سوال اٹھا رہا تھا: اگرچہ وہ جاننا چاہتے تھے کہ اس گھر کا پتہ کیوں نہیں مل رہا اور رشتہ دار فون کیوں نہیں اٹھا رہا، پھر بھی اتنے گھروں کے بعد، رفسانہ کا گھر ہی کیوں؟ یہ اتفاق یا قسمت کا کھیل؟ ارمان کے دل میں ایک عجیب سا اضطراب اور تجسس جاگا۔

یہ منظر، جہاں ہر چیز اپنی جگہ پر مکمل اور شاندار تھی، ارمان کے لیے نہ صرف ایک پرسکون ملاقات بلکہ ایک انجانی پہیلی بھی بن گیا تھا۔ ہر نظر، ہر آواز، اور ہر چھوٹی حرکت اسے یہی سوال دہرا رہی تھی: کیا یہ ایک محض اتفاق ہے یا زندگی اسے کوئی پیغام دینے کی کوشش کر رہی ہے؟

ارمان نے خاموشی سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، مگر نگاہیں جلد ہی اس بزرگ کی طرف واپس آ گئیں، جو باتوں میں خوش مزاج اور پر وقار لگ رہا تھا۔ ارمان کے دل میں ایک عجیب سا اضطراب اور تجسس جاگ اٹھا، جیسے ہر لمحہ کچھ نیا بتانے کو تیار ہو۔

چند لمحوں کی خاموش سوچ کے بعد، اس نے جلدی سے اپنی بہن اور بیوی کو میسج کیا، انگلیاں ہلکی سی کانپ رہی تھیں:

"شیرین، جابر کے لیے کوئی ہوگی؟"

یہ مختصر سا میسج نہ صرف ارمان کے دل کی چھپی خواہش کو ظاہر کر رہا تھا بلکہ اس کے ذہن میں ایک اور سوال بھی پیدا کر رہا تھا—کیا یہ ملاقات محض اتفاق ہے، یا قسمت ان دونوں کو ایک بار پھر قریب لانے کی کوشش کر رہی ہے؟

 

ارمان نے فون بند کر کے ایک لمحے کے لیے گہری سانس لی اور پھر دوبارہ بزرگ کی طرف نظریں مرکوز کیں، ہر حرکت، ہر بات، اور ہر مسکان کو اپنے ذہن میں ثبت کرتے ہوئے، جیسے یہ لمحے کسی چھپی ہوئی کہانی کی کلید ہو

 

چند لمحوں بعد، ارمان کومیسج کا جواب آیا۔“جی جابر کے لیے ایک قابل اور شائستہ رشتہ ہو سکتا ہے۔ ابھی سب کی مرضی اور حالات دیکھنا باقی ہے، مگر لگتا ہے کہ یہ ممکن ہے۔”

ارمان نے میسج پڑھ کر ہلکی سانس لی۔ دل کے اندر ایک عجیب سکون اور امید کی لہر دوڑ گئی۔ برسوں کی بے یقینی، چھپی خواہش اور ماضی کی یادیں، سب کچھ لمحے بھر کے لیے ایک ساتھ بہہ گئی تھیں

ارمان کی بہن نے نرمی اور تجسس کے ساتھ شیرین کے بارے میں پوچھا۔رفسانہ نے مسکراتے ہوئے بتایا،

“وہ اپنی یونیورسٹی مکمل کر چکی ہوں، اور ابھی تک میرا رشتہ نہیں ہوا ہے۔”

یہ سن کر ارمان کی بہن کی نظریں ایک لمحے کے لیے حیرت اور دلچسپی سے جمی رہ گئیں، اور ارمان کے دل میں بھی ایک عجیب سا سکون اور ہلکی مسکراہٹ جاگ اٹھی۔

دوسری جانب بزرگ نے ارمان کی طرف دیکھ کر پوچھا،

“ارمان صاحب، آپ یہاں کس مقصد کے لیے آئے ہیں؟”

ارمان نے ادب اور وقار کے ساتھ جواب دیا،

“میں اپنے بھائی جابر کے لیے لڑکی دیکھنے آیا ہوں، اور ہم اس گھر کا پتہ تلاش کر رہے تھے جو ہمیں جانا تھا، مگر کہیں نہیں ملا۔ قسمت ہی ہمیں آپ کے دروازے پر لے آئی ہے۔”

“ہمارا اس شہر میں آنے کا مقصد تو آپ لوگ جان چکے ہیں۔ کیا ہم جابر کے رشتہ کی بات آپ لوگوں سے کر سکتے ہیں؟ اگر اجازت ہو تو؟”

ارمان کی بہن نے نرمی اور ادب کے ساتھ بزرگ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔

مگر بزرگ نے تھوڑا توقف کرتے ہوئے جواب دیا،

“مگر ہم لوگ آپ لوگوں کے بارے میں اور آپ لوگ ہمارے بارے میں جانتے ہی نہیں، تو رشتہ کیسے ہو گا؟”

ارمان کی بہن نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا،

“ہم چاہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ہو، پھر سب کچھ واضح ہو جائے گا۔”

“یہ میرا کارڈ ہے۔ آپ لوگ جو کچھ بھی ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، یہ سب معلومات آپ کو یہاں سے مل سکتی ہیں۔” ارمان نے اپنی وزیٹنگ کارڈ بزرگ کے ہاتھ پر رکھ دیا

ارمان کا کارڈ ہاتھ میں لیا اور غور سے نام پڑھا۔ بزرگ نے نرمی سے کہا،

“یہ صرف رسمی بات نہیں ہے، بلکہ ایک موقع ہے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں، اور اگر سب کچھ درست ملا تو رشتہ کے لیے صحیح فیصلہ ہو سکے۔”

ہال میں ایک خاموش سکون چھا گیا، جہاں ہر لفظ احترام اور نرمی سے بھرپور تھا، اور ارمان کے دل میں امید، تجسس اور نرمی کا ایک عجیب سا امتزاج جاگ اٹھا۔

مگر ارمان کے دل میں ایک نیا سوال جاگ اٹھا: کیا رفسانہ اس کے لیے تیار ہوگی؟

اس خیال نے اس کے دل کی دھڑکنیں تیز کر دیں۔ وہ خاموشی سے رفسانہ کی جانب دیکھنے لگا، نظریں سوالیہ اور تھوڑی بے یقینی سے بھری ہوئی تھیں۔ ہر لمحہ، ہر آنکھ کی جنبش، اس کے لیے ایک سوال تھی—کیا وہ اتنے برسوں کے بعد اس کی نگاہوں میں چھپی خواہش اور ماضی کی یادوں کا جواب دے سکتی ہے؟

 

رفسانہ کی خاموشی، ہلکی مسکان، اور نرم لہجے کی موجودگی نے ارمان کے دل میں امید اور اضطراب کو ایک ساتھ جاگایا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک لمحہ، ایک نظر، اور ایک اشارہ سب کچھ بدل سکتا ہے، لیکن اتنے برسوں کے فاصلوں کے بعد بھی، یہ لمحہ اتنا نازک اور اہم تھا کہ ارمان کی ہر سانس اس کی بے چینی کو مزید بڑھا رہی تھی۔

ہال میں موجود ہر چیز—روشنی، خاموشی، اور نرم ماحول—اس لمحے کی شدت کو بڑھا رہی تھی۔ اچانک رفسانہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا،
“اگر اللہ تعالی منظور فرمائے، تو ان شاء اللہ یہ رشتہ ہوگا۔ مگر اس سے پہلے ہمیں باقی گھر والوں اور شیرین سے بھی بات کرنی ہوگی۔”

اس دوران شیرین خاموشی سے سب کچھ سن رہی تھی، جیسے یہ باتیں ان کے بارے میں نہیں بلکہ کسی اور کے بارے میں ہو رہی ہوں۔ اس کے چہرے پر ایک نرم مسکان اور غور کی جھلک تھی، جو ماحول کی نزاکت اور احترام کو مزید بڑھا رہی تھی۔

ارمان اور رفسانہ دونوں کے دل میں ایک ہلکی خوشی جاگی۔ وہ جان گئے تھے کہ اگر رشتہ ہوگا، تو کم از کم کبھی کبھار ایک دوسرے سے ملاقات اور بات کرنے کا موقع تو ضرور ملے گا ۔

ارمان اور رفسانہ دونوں کی نظریں ایک دوسرے پر جم گئیں، دلوں میں سکون اور خوشی جاگی۔ اگرچہ ابھی سب کچھ طے نہیں ہوا تھا، لیکن ایک امید اور نرمی کا احساس ہر دل میں موجود تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ اب ہر قدم باہمی احترام، گفتگو اور سمجھ بوجھ سے طے ہونا ہے، اور یہ آغاز ایک نئے سفر کا پہلا لمحہ تھا۔