Part 5 Marriage of Choice in the Light of Islamic Teachings in Urdu Spiritual Stories by Shekh Javed Ashraf books and stories PDF | 5 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی

Featured Books
Categories
Share

5 - اسلامی تعلیمات کی روشنی میں پسند کی شادی


امام ابو الحسین یحیی بن ابی الخیر العمرانی(م۔ 558ھ)لکھتے ہیں :-
قال الشافعیؒ قد دل کتاب اللہ تعالی وسنۃ رسولہﷺعلی ان حتما علی الاولیاء ان یزوجواا لحرائرالبوالغ اذااردن النکاح
’’امام شافعیؒ نے کہا تحقیق اللہ تعالی کی کتاب اور سنت رسولﷺ اس بات پر رہنمائی کرتی ہے کہ اولیاء پر لازم ہے وہ بالغہ آزاد عورتوں کی شادی خود کرائیں جب وہ عورتیں نکاح کا ارادہ کریں
حنابلہ کا موقف:-
شیخ الاسلا م ابن قدامہؒ (م۔ 620ھ)لکھتے ہیں
فان عقدتہ المراۃ لنفسہا، اولغیرھاباذن ولیھا، اوبغیر اذنہ لم یصح

پس اگر عورت نے اپنا نکاح خود کر لیا یا کسی اور عورت کا ولی کی اجازت سے یا بغیر اجازت کے نکاح کر دیا تو وہ نکاح صحیح نہ ہوگا
جمہور فقہاء کے دلائل:-
1۔ وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ
’’اور نکاح کرا دیا کرو تم لوگ ان کے جو تم میں سے بے نکاح ہوں‘‘
2۔ وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا
’’تم اپنی عورتوں کو مشرک مردوں کے نکاح میں مت دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں"
ان مذکورہ بالا آیات میں اولیاء کو متوجہ کر کے خطاب کیا گیا ہے معلوم ہوا اولیاء کی اجازت کے بغیر عورت کا نکاح درست نہ ہوگا
3۔ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْ ھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَجَھُنَّ
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو پس وہ اپنی عدت تمام کر چکیں تو اب انہیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو‘‘
امام ماوردیؒ (م۔ 450ھ )لکھتے ہیں :-
قال وھذہ ابین آیۃ فی کتاب اللہ تعالی دلالۃعلی ان لیس للمرا ء ۃان تتزوج بغیرولی
’’امام شافعیؒ نے کہا اللہ تعالی کی کتاب میں یہ آیت بڑی وضاحت سے اس مسئلہ پر دلالت کر رہی ہے کہ عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ بغیر ولی کے شادی کرے"
علامہ ابن رشدؒ مالکی الحفید(م۔ 595ھ)اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :-
وھذا خطاب للاولیاء ولولم یکن لھم حق فی الولایۃلمانھو عن العضل
’’اور یہ خطاب اولیاء کو ہے اور اگر ان کو حق ولایت حاصل نہ ہوتا تو انہیں عورتوں کو منع کرنے کی نہی نہ ہوتی ‘‘
علامہ ابن رشدؒ کی کلام کا حاصل یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح منعقد ہوسکتا ہے تو اولیاء کو نکاح سے منع کرنے کا اختیار نہ رہا اس صورت میں قرآن کریم کی نہیں کا کوئی مطلب نہ ہوا
4۔ اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِِ
’’مرد، عورتوں پر حاکم ہیں‘‘
امام قرطبیؒ (م۔ 671ھ) لکھتے ہیں :-
فقد تعاضد الکتاب والسنہ علی ان لانکاح الا بولی
’’تحقیق قرآن وسنت اس بات کی موید ہیں کہ ولی کے بغیر نکاح درست نہ ہوگا"
5۔ قرآن کریم میں حضرت موسیؑ اور حضرت شعیبؑ کا واقعہ ہے جب حضرت شعیبؑ نے موسیؑ سے فرمایا:-
قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ھٰتَیْنِ
’’کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی دو بیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تجھ سے کر دوں‘‘
امام قرطبیؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :-
وفیہ عرض الولی ابنتہ علی الرجل، وھذہ سنۃ قائمۃ
’’اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ولی اپنی بیٹی کو مرد پر پیش کرے(پیغام نکاح دے)اور یہی سنت رائج ہے ‘‘
اور آگے مزید امام قرطبیؒ لکھتے ہیں :-
وفی ھذہ الایۃ دلیل علی النکاح الی الولی لاحظ للمراۃ فیہ
’’اور یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نکاح کا معاملہ ولی کے سپر د ہے اور عورت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے‘‘
6۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:-
لاَنِکَاحَ اِلاَِّ بِوَ لِیّ ٍ
’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہ ہو گا‘‘
7۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا:-
ایما امراۃ نکحت بغیر اذن ولیہا فنکاحہا باطل باطل باطل
’’جو عورت ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے باطل ہے باطل ہے‘‘
اس پوری بحث سے معلوم ہوا جمہور فقہاء کے نزدیک عورت اپنی پسند اور مرضی سے خود نکاح نہیں کرسکتی اور اگر اس نے ایسا کر لیا تو اس کا نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا
جمہور فقہاء کے دلائل کے جوابات :-
1۔ وَاَنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ
اس آیت میں اولیاء کو نکاح کرانے کا حکم ہے احناف کا موقف بھی یہی ہے کہ اولیاء کی وساطت سے امور نکاح طے ہونے چاہییں، اس میں تو اختلاف نہیں ہے اور اختلافی مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی عاقلہ وبالغہ نے اپنا نکاح خود کر لیا تو وہ منعقد ہوگا یا نہیں۔؟
اس آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے لہذا جمہور کا استدلال تام نہ ہوا
مفتی محمد شفیعؒ (م۔ 1976ٰء)لکھتے ہیں :-
’’ایامی، ایم کی جمع ہے جو ہر اس مرد و عورت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کا نکاح موجود نہ ہو
خواہ اول ہی سے نکاح نہ کیا ہو یا زوجین میں سے کسی ایک کی موت سے یا طلاق سے نکاح ختم ہوچکا ہے
ایسے مردوں و عورتوں کے نکاح کے لیے ان کے اولیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ان کے نکاح کا انتظام کریں
آیت مذکورہ سے زیادہ سے زیادہ یہی ثابت ہے کہ نکاح میں اولیاء کا واسطہ ہونا چاہیے باقی یہ صورت کہ کوئی بلاواسطہ اولیاء نکاح کرے تو اس کا کیا حکم ہوگا
یہ آیت قرآن اس سے ساکت ہے خصوصاً اس وجہ سے بھی کہ لفظ ایامی میں بالغان مردو عورت دونوں داخل ہیں اور بالغ لڑکوں کا نکاح بلاواسطہ ولی سب کے نزدیک صحیح ہو جاتا ہے
اس کو کوئی باطل نہیں کہتا، اسی طرح ظاہر یہ ہے کہ لڑکی بالغ اگر اپنا نکاح خود کرے تو وہ بھی صحیح اور منعقد ہو جائے ہاں خلاف سنت کام پر ملامت دونوں کی جائے گی۔ ‘‘