اسلامی اور مغرب : آزادی اور پابندیوں کے پیمانہ
آزادی انسان کی ایک بنیادی قدر ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو انسان کو شعور، ارادہ ذمہ داری اور اخلاق کا حامل بناتی ہے۔ مگر یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ آزادی اپنی ذات میں کوئی مطلق خیر نہیں، بلکہ اس کی قدر و قیمت اس وقت باقی رہتی ہے جب وہ خیر اور صداقت کے تابع ہو۔ جب آزادی جہل، جھوٹ، باطل اور شر کے لیے استعمال کی جائے تو وہ اپنی معنوی خوبی کھو دیتی ہے۔ اس اصول کو تقریباً تمام نظام زندگی تسلیم کرتے ہیں کہ جھوٹ اور شر میں آزادی نہیں دی جا سکتی۔ البتہ اختلاف اس بات پر ہے کہ جھوٹ، جہل اور شر کی حقیقت کیا ہے، اور ان کی تعیین کس بنیاد پر کی جائے۔
اسلام حقیقت کو جاننے کے لئے ایسی علمیات کی بنیاد رکھتا ہے جو جدید دور سے پہلے، تمام انسانی معاشروں میں مشترک رہے ہیں اسلامی علمیات کے مطابق حقیقت تک رسائی کے تین بنیادی ذرائع ہیں: حواس، عقل اور خبر۔ حواس کے ذریعے انسان مشاہدہ کرتا ہے اور دنیا کے ظاہری حقائق سے واقف ہوتا ہے۔ عقل جو اولیات عقلیہ یا علم ضروری ہے جو انسان کے لیے ہر طرح کے کسبی و نظری علم کو ممکن بناتی ہے اور اسی علم ضروری کی بنیاد پر پھر عقل حواس کے مشاہدات کو ترتیب دیتی ہے، ان پر غور کرتی ہے، اور نتائج اخذ کرتی ہے۔ لیکن انسانی علم کا ایک دائرہ ایسا بھی ہے جو نہ حواس سے محسوس کیا جا سکتا ہے اور نہ عقل سے مکمل طور پر دریافت کیا جا سکتا ہے وہ دائرہ خبر کا ہے، اور اس خبر کا اعلیٰ ترین سرچشمہ وحی ہے۔ وحی وہ الہامی علم ہے جو خالقِ کائنات کی طرف سے نازل ہوتا ہے تاکہ انسان کو حقیقت کے اُس پہلو سے آگاہ کرے جو اس کی عقل و تجربہ سے ماورا ہے۔
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ان تینوں ذرائع ؛ حواس، عقل اور خبر کے درمیان ایک کامل ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ اسلام کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ ان ذرائع کے قطعی اصولوں میں کوئی تضاد نہیں ہو سکتا۔ اگر کبھی محسوس ہو کہ وحی، عقل یا تجربہ میں اختلاف ہے تو وہ اختلاف دراصل انسانی فہم اور ظنی تعبیرات میں ہوتا ہے. اسلامی علمیات کے مطابق ایسے اختلافات کو اصولی اور علمی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے، نہ کہ ان کی بنیاد پر وحی، عقل یا تجربہ کو ایک دوسرے کا مخالف قرار دیا جائے۔
حقیقت اور خیر و شر کے تعین میں وحی ان ذرائع میں سب سے اعلیٰ اور قطعی ذریعہ ہے، تو اس کے متصادم کوئی علم یا نظریہ دراصل جہل کے زمرے میں آتا ہے۔ اسلام کے نزدیک علم وہ ہے جو انسان کو خالق کی معرفت اور بندگی تک لے جائے، اور جہل وہ ہے جو انسان کو حقیقت سے کاٹ دے۔ اسی طرح خیر وہ ہے جو اللہ کی رضا کے مطابق ہو، اور شر وہ ہے جو اس کے حکم کے خلاف ہو۔ حقیقت اور خیر و شر کو جاننے کے بعد یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام کے علاوہ باقی تمام فکری اور اعتقادی نظام دراصل جہل پر قائم ہیں۔ ان میں کوئی بھی نظام ایسا نہیں جو انسان کو حقیقت کی معرفت صحیح طور پر کرایے اور انسان کو خیر تک پہونچانے کا ذریعہ بنے ۔
جدید مغرب نے تو ان ذرائع علم میں ہی تضاد پیدا کردیا ہے، کوئی حواس کا شیدائی ہے تو کوئی عقل کا غلام۔ ان کے اکثر وبیشتر مفکرین نے حواس اور تجربے کو مطلق معیار بنا لیا اور وحی کو علم کے دائرے سے خارج کر دیا۔ اس کے نتیجے میں علم کی وہ وحدت ٹوٹ گئی جو انسانی معاشرے میں قائم تھی۔ عقل کو وحی سے بے نیاز کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم، طاقت اور مصلحت کا غلام بن گیا۔ علم کی غایت اخلاقی ارتقاء کے بجائے مادی تسلط بن گئی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام کے علاوہ تمام نظام باطل ہیں تو ان کے وجود اور اظہار کا کیا جواز ہے؟ اسلام اس مسئلے کو نہ جذباتی انداز میں حل کرتا ہے اور نہ جبراً، بلکہ ایک بلند تر اصول کی بنیاد پر حل کرتا ہے اور وہ یہ کہ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ انسان کا امتحان اس کے اختیار سے وابستہ ہے، اور اگر اختیار ہی سلب کر لیا جائے تو امتحان بے معنی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اسلام باطل کے وجود کو برداشت کرتا ساتھ ہی ساتھ یہ چاہتا ہے کہ انسان کو عقل اور علم کے ذریعے یہ موقع دیا جائے کہ وہ خود حق کو پہچانے اور اس کا انتخاب کرے اور ان ذرائع پر پابندی لگایے جو انسان کو باطل یا شر تک پہونچانے ہیں۔
اسلامی شریعت کی بنیاد عدل، رحمت اور حکمت پر ہے۔ اسلام باطل کو حق نہیں مانتا، لیکن چونکہ دنیا امتحان کی جگہ ہے، اس لیے وہ باطل کے وجود کو محدود درجے میں برداشت کرتا ہے لیکن باطل کی ترویج اور فتنہ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام انسان کے اختیار کو محفوظ رکھتا ہے مگر معاشرے کو فتنہ و فساد سے بچانے کے لیے حدود متعین کرتا ہے۔ اسلام میں نہ مکمل جبر ہے اور نہ بے لگام آزادی۔ انسان کو حق اور باطل کے انتخاب میں فیصلہ کرنے کی مہلت دی گئی ہے اور اس فیصلے کے نتائج کی ذمہ داری بھی اسی پر ڈالی گئی۔
اسلامی تصورِ معاشرہ میں دو بنیادی اصول کارفرما ہیں:
پہلا یہ کہ باطل کو پھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، کیونکہ اس سے انسانی عقل و اخلاق گمراہ ہوتے ہیں؛
اور دوسرا یہ کہ انسانی اختیار کو ختم بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہی امتحان کی اساس ہے۔
لیکن معاشرہ میں باطل نظریات و عقاید والے گروہ بھی ہوتے ہیں تو اب یہاں سے قانونی پہلو شروع ہوتا ہے کہ ان افراد کے حقوق و ذمہ داری کے حدود طئے کئے جائیں ۔
اسلامی ریاست میں ایسے رعایا کو جو باطل نظریات کے حامل ہیں ذمی (Ahl al-Dhimma) کہا جاتا ہے، یعنی وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہے اور جنہیں ریاست اپنی حفاظت میں لیتی ہے اور ان کی جان، مال، عزت، عبادت گاہیں اور مذہبی رسوم کی حفاظت کی ذمہ داری لیتی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
یعنی جو لوگ تم سے دین کے معاملے میں لڑائی نہیں کرتے، ان کے ساتھ انصاف اور نیکی سے پیش آؤ، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
حضرت علیؓ کے عہد میں ایک ذمی کے قتل پر فرمایا گیا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جس نے کسی معاہد کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا
(بخاری، 3166)
یہ واقعہ بیان کرتا ہے کہ اسلام میں ذمیوں کے حقوق محض رعایت یا معاشرتی پہلو نہیں بلکہ دینی و شرعی ذمہ داری ہیں۔
اسلامی شریعت میں ذمی کو نہ صرف جان و مال کی حفاظت دی جاتی ہے بلکہ اس کی مذہبی شناخت اور عبادت گاہوں کی بھی ضمانت دی جاتی ہے۔ غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت ہے، مگر انہیں اسلامی معاشرے میں باطل کی تبلیغ یا دعوت دینے کا حق نہیں۔
اس کی حکمت یہ ہے کہ تبلیغ کا مقصد لوگوں کو متاثر کر کے ان کے نظریات کو بدلنا ہوتا ہے، اور چونکہ باطل کیترویج انسان کی عقل و روح پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور یہ امکان پیدا کرتی ہے کہ کوئی حق چھوڑ کر باطل کو قبول کرلے جس سے دنیا میں بھی فساد پیدا ہو اور آخرت میں ابدی ناکامی کا سبب بنے۔
تمام فقہاء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اسلامی سرزمین میں باطل کی علانیہ تبلیغ ممنوع ہے۔یہ ممانعت ظلم یا تعصب کی بنیاد پر نہیں بلکہ حفظِ دین اور حفظِ نظامِ خیر کے اصول پر قائم ہے۔کوئی بھی نظام بشمول اسلام کسی بھی فکری یا اخلاقی نظام کو اتنی آزادی نہیں دیتا جو اسکے حق کے نظام کو ہی مٹانے کا سبب بنے۔
یہ صرف اسلامی فقہ کا ہی امتیاز ہے کہ اس نے ایک ایسا منصفانہ نظام قائم کیا جس میں اختیار بھی باقی رہتا ہے اور خیر کا غلبہ بھی محفوظ رہتا ہے لیکن اگر جدید مغربی فکر اور ریاست کے عمل کا تجزیہ کیا جائے تو وہ سراسر منافقت پر کاربند نظر آتا ہے۔
جدید مغربی ریاست اپنے ظاہر میں آزادی (Freedom) کی داعی معلوم ہوتی ہے، مگر درحقیقت وہ بھی آزادی کو اپنے مخصوص تصورِ خیر (Conception of Good) سے مشروط کرتی ہے یعنی آزادی وہاں تک جائز ہے جہاں تک وہ ریاست کے اخلاقی و فکری سانچے سے متصادم نہ ہو یہی وجہ ہے کہ مغرب میں جو بات "فرد کی آزادی" کہلاتی ہے، وہ درحقیقت ایک فکری دائرے کے اندر کی آزادی ہے، جس کی حدود خود ریاست، قانون، یا غالب تہذیبی نظریہ طے کرتا ہے۔
مغربی سیاسی و اخلاقی فلسفہ اس اصول پر متفق ہیں کہ آزادی اس وقت تک قابلِ قبول ہے جب وہ "Secular Public Reason" یا "Secular Common Good" کے خلاف نہ ہو۔ اس اصول کے مطابق اگر کوئی مذہب، نظریہ یا اخلاقی نظام "خیر" کی متبادل تعبیر پیش کرے تو اسے "انتہاپسند" یا مذہب کی "غلط تشریح" قرار دیا جاتا ہے۔
اسی لیے جدید ریاست مذہب کے وجود کو صرف اس وقت تک برداشت کرتی ہے جب تک وہ ریاستی تصورِ خیر کے تابع رہے۔
مثلاً اگر مذہب انسان کے خودمختاری، آزادیِ نفس، یا جنسی آزادی پر تنقید کرتا ہے تو فوراً کہا جاتا ہے کہ یہ مذہب کی "غلط تعبیر" ہے۔
اور جیسے ہی مذہب اپنے اصل اخلاقی یا ما بعد الطبیعی اصولوں کے ساتھ مغربی خیر کے نظریے پر تنقید کرتا ہے، ریاست اس پر پابندی عائد کر دیتی ہے، یا کم از کم اسے سماجی سطح پر "غیر مناسب" قرار دیتی ہے۔
یوں آزادی کا علمبردار ہونے کے باوجود مغربی معاشرہ عملاً سنسرشپ ( Censorship) پر قائم ہے گویا مغرب اپنے آپ کو "آزادی کا علَم بردار" کہتا ہے، لیکن درحقیقت وہ اپنے نظریے کے خلاف آزادی کو برداشت نہیں کرتا۔
وہ آزادی کو مطلق نہیں بلکہ مفروضاتی خیر کے تابع سمجھتا ہے لیکن عام طور پر اسے قبول نہیں کرتا اور جیسے ہی اسلام "انسان کی خودمختاری" یا "سیکولر اخلاقیات" پر تنقید کرتا ہے، تو اسے "انتہا پسندی"، "نفرت انگیزی" یا "تحریف شدہ مذہب کی تعبیر" قرار دیا جاتا ہے کیوں کہ مغرب مذہب کو اصلاح شدہ شکل (Reformed Religion) میں زندہ رکھنا چاہتا ہے، تاکہ وہ اس کے نظامِ خیر میں ضم ہو جائے(اسلام کو چھوڑ کر باقی مذاہب سیکولر نظام خیر میں تقریباً ضم ہوچکے ہیں).
یہ طرزِ فکر دراصل فکری جبر (Intellectual Coercion) کی ایک لطیف صورت ہے جہاں مذہب کو مٹایا نہیں جاتا، بلکہ اس کی اصل تشریح بدل دی جاتی ہے تاکہ وہ جدید اقدار کے مطابق معلوم ہو۔
یوں مذہب کو اس کی حقیقت سے کاٹ کر "قابلِ قبول" بنایا جاتا ہے۔ جس سے لوگوں میں یہ بھرم (Illusion) پیدا ہوتا ہے کہ جدید معاشرہ مذہب کے مقابلے میں زیادہ آزادی دیتا ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔اور اپنی اس منافقت کو چھپانے کے لئے مذہب کی پابندیوں کو غیر عقلی ثابت کرنے پر اپنی پوری طاقت صرف کرتا رہتا ہے۔