The One Who Doesn't See... - 2 in Urdu Spiritual Stories by Ahmed Baig books and stories PDF | 2 - وہ جو دکھتا نہیں۔۔۔۔

Featured Books
Categories
Share

2 - وہ جو دکھتا نہیں۔۔۔۔

قسط نمبر 2
صبح کی ہلکی روشنی کھڑکی کے پردوں سے جھانک رہی تھی۔ اذان کی مدھم آواز اسے خوابوں کی گہرائیوں سے کھینچ کر حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھا تو دل ابھی بھی زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ خواب... وہی چہرہ... مگر کچھ مختلف تھا، خواب میں پہلی بار اُس کے چہرے پر اُداسی نہیں، سکون تھا، جیسے کوئی بوجھ اتر گیا ہو۔

"کیا یہ کوئی اشارہ تھا؟" وہ خود سے بولا۔

وہ اُٹھ کر بیٹھا اور فون پر وقت دیکھا تو شام کے سات بج رہے تھے۔ اُس نے عثمان کو کال کی۔

"ہیلو عثمان!"

عثمان: ہاں کیا ہوا جوزف؟ خیریت؟

جوزف: یار مجھ سے لائبریری پر آکر مل سکتے ہو کیا؟ بہت ضروری بات کرنی ہے۔

عثمان: کیا ہوا کوئی مسئلہ ہوا ہے؟

جوزف: تم آو گے تو پھر بتاتا ہوں۔

عثمان: ٹھیک ہے۔

جوزف تیار ہو کر دروازے کی جانب بڑھا، تبھی اُس کا چھوٹا بھائی اس کے پاس آیا۔

ایرک: بھائی۔۔۔

جوزف: کیا ہوا ایرک؟

ایرک: بھائی میں بہت پریشان ہوں، میں ان سب سے تنگ آ چکا ہوں۔ مجھے اپنی پڑھائی پر فوکس کرنا ہے۔ ڈیڈ نے زبردستی مجھے جاب پر لگایا ہوا ہے۔ مجھے نہیں رہنا ان لوگوں کے ساتھ، ان کو بس بڑے بھائی کا خیال ہے، نہ آپ کا خیال ہے نہ میرا۔ مجھے تو زبردستی کا نوکر سمجھا ہے، ایسا لگتا ہے میں پیسے بنانے کی مشین ہوں۔

جوزف نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: "ایرک تم باقیوں کی طرح بالکل بھی نہیں ہو۔ تھینک گاڈ کوئی تو ہے جو میرے دکھ درد میں شریک ہے۔"

پورے گھر میں ایرک اور جوزف کو ہی اپنے ماں باپ اور بھائی سے برا سلوک ملتا تھا۔ جوزف کے ساتھ ساتھ ایرک بھی پریشان تھا، اُسے بھی ماں باپ نے اپنے مفاد کے لیے ہی رکھا تھا۔

جوزف نے ایرک کے کندھے پر سے ہاتھ ہٹایا اور کہا: "نا امید مت ہو، کچھ نہ کچھ اچھا ضرور ہوگا۔"

ایرک: شاید...

جوزف وہاں سے نکل کر عثمان سے ملنے گیا۔ جوزف نے عثمان کو رات گئے خواب کے بارے میں بتایا۔

عثمان: جوزف میری بات دھیان سے سنو، یہ صرف خواب نہیں ہے، یہ شاید تمہارے لیے ایک ہدایت ہو سکتی ہے۔ اگر تم میری بات پر غور کرو تو شاید یہ خواب تمہاری زندگی بھی بدل سکتا ہے۔

جوزف: عثمان، آج میں نے شام میں ایک آواز سنی، کافی سکون ملا تھا مجھے اس آواز کو سن کر۔

عثمان: کیسی آواز؟

جوزف: پتا نہیں، مگر غروب آفتاب کا وقت تھا۔

عثمان: اوہ! اذان کی آواز تھی وہ۔ اُس سے تو ویسے بھی دل کو سکون ملتا ہے۔

جوزف: اذان؟

عثمان: اذان نماز سے پہلے دی جاتی ہے، جس میں مسلمانوں کو نماز کے لیے دعوت دی جاتی ہے تاکہ مسلمان نماز پڑھیں۔

جوزف: کافی دلچسپ ہے یہ۔ عثمان، یار ایک کام کرو گے؟

عثمان: ہاں بولو؟

جوزف: مجھے اسلام کے بارے میں جاننا ہے۔ یار وہ خواب، اذان کی آواز سے سکون ملنا... یہ سب سوچ کر ایک امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔

عثمان: ارے واہ، کیوں نہیں۔

جوزف اپنے گال پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔

عثمان: اسلام وہ مذہب ہے جو ہمیں انصاف کرنا سکھاتا ہے، امن سکھاتا ہے۔ اسلام ایک بہت خوبصورت مذہب ہے اور اس مذہب میں انسان ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں، ایک اللہ کو مانتے ہیں، اللہ کی عبادت کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، جس سے انسان کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے اور دل کو سکون ملتا ہے۔ قرآن پڑھتے ہیں جو انسانوں کو سیدھی راہ دکھاتا ہے، زندگی جینے کا طرزِ عمل سکھاتا ہے، سنت پر عمل کرتے ہیں۔ اسلام میں ہمیں بہت سی آسانیاں بھی دی گئی ہیں۔ اسلام مشکل مذہب نہیں ہے مگر اپنے ایمان کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہوتی ہے۔

جوزف: کتنا دلچسپ مذہب ہے۔

عثمان: بے شک۔

جوزف: مجھے بھی مسلمان بننا ہے، اپنے دل کی بات اللہ سے کرنی ہے، دل کا بوجھ ہلکا کرنا ہے، سجدے میں جا کر اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنی ہیں اور قرآن پڑھ کر مجھے بھی سیدھی راہ پر چلنا ہے۔

عثمان: کیا تم سچ میں اسلام کو قبول کرنا چاہتے ہو؟

جوزف: ہاں، مگر یہ میرے لیے کافی مشکل ہے، تم تو جانتے ہی ہو میرے والدین کس مزاج کے ہیں۔ یہ میرے لیے آسان نہیں ہوگا۔ پہلے میں دینِ اسلام کو سمجھوں گا اور اس کے بعد کوئی فیصلہ لوں گا۔

عثمان: تو تم اور جاننا چاہتے ہو؟

جوزف: ہاں۔

عثمان نے جوزف کو اسلام کے بارے میں بتایا اور ہر روز جوزف کو اسلام کی تاریخ بتاتا، انبیاء اور پیغمبروں کے بارے میں بتاتا۔ عثمان نے جوزف کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری حج اور ان کے آخری بیان کے بارے میں بتایا۔ اس نے بتایا کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنے آخری بیان میں ارشاد فرمایا کہ: "لوگو! اپنے ایمان کی حفاظت کرو، ہم سب اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ایک دوسرے کے مال کی حفاظت کرو۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو حضرت آدم کی طرح مٹی سے پیدا کیا ہے، اور شیطان کو آگ سے۔ شیطان سے اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔"

اور حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: "کوئی انسان کسی انسان پر فوقیت نہیں رکھتا، نہ ہی کوئی کالا کسی گورے پر فوقیت رکھتا ہے، نہ ہی کوئی عجمی کسی عربی پر فوقیت رکھتا ہے۔ ہم سب آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کے مال، جان کی حفاظت کرنی ہے۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، جو خود کھاؤ وہی اپنے غلاموں کو بھی کھلاؤ، جو خود پہنو وہی اپنے غلاموں کو بھی پہناؤ۔ یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھو۔ عورتوں کے حقوق کا خیال رکھو۔"

جوزف عثمان کی باتوں کو بہت دھیان سے سن رہا تھا، جیسے وہ اس کی باتوں میں کھو گیا ہو۔ اسے اس کی باتیں سننے میں بہت زیادہ دلچسپی تھی اور وہ دل سے باتیں سن رہا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اسلام قبول کر لے، مگر یہ اس کے لیے بہت مشکل تھا۔ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اُس کے والدین تھے۔

آخرکار جوزف نے اپنا فیصلہ لیا اور اُس نے عثمان سے کہا: "عثمان، میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔"

عثمان: کیا سچ میں تم ایسا کرنا چاہتے ہو؟

جوزف: ہاں۔

عثمان: پر تمہارے والدین کا کیا؟

جوزف: عثمان تم نے مجھ سے کہا کہ اگر میں ایسا کرتا ہوں تو میں حق پر ہوں اور کوئی غلط کام نہیں کر رہا۔

عثمان: ہاں۔

جوزف: تو بس، میں اسلام قبول کروں گا، اور میرے ماں باپ جنہوں نے بچپن سے لے کر آج تک مجھے زندگی میں اہمیت نہیں دی، تو میرے لیے وہ اتنی اہمیت نہیں رکھتے۔

عثمان: تو چلو مسجد چلتے ہیں۔

جوزف: ہاں چلو۔

عثمان جوزف کو مسجد لے گیا اور وہاں جوزف کو مسجد میں قدم رکھتے ہی ایک سکون سا ملا، اس کے دل کا سارا بوجھ ایسا لگ رہا تھا جیسے آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہو۔ عثمان نے مسجد کے امام کو ساری بات بتائی۔

امام نے جوزف سے سوال کیا: کیا تم اپنے دل سے ایسا کرنا چاہتے ہو؟ کوئی زبردستی تو نہیں ہے نا؟

جوزف: نہیں، میں اسلام دل سے قبول کرنا چاہتا ہوں۔

امام نے کہا: ٹھیک ہے، اب جیسے جیسے میں بولوں میرے ساتھ دہراتے جاؤ:

"أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ ٱللَّٰهِ"

"میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔"

مبارک ہو! اب آپ دائرہ اسلام میں داخل ہو چکے ہیں۔

جوزف نے نماز سیکھی اور قرآن پڑھنا سیکھنا
شروع کیا۔ 
مسجد کے ٹھنڈے فرش پر اُس کا پہلا سجدہ تھا... اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، مگر دل ہلکی روشنی سے روشن ہو چکا تھا۔
جوزف گھر گیا اور گھر جا کر اپنے کمرےمیں
داخل ہوا تو عشاء کی اذان ہو چکی تھی۔ جوزف نے وضو کیا اور نماز پڑھنا شروع کی۔

جوزف سجدے میں تھا جب پیچھے سے ایرک کمرے میں داخل ہوا اور اس نے جوزف کو نماز پڑھتے دیکھا۔ جوزف نے سلام پھیرا تو ایرک نے حیرانی سے پوچھا:

ایرک: بھائی آپ کیا کر رہے ہیں؟

جوزف: نماز پڑھ رہا ہوں۔

ایرک: وہ تو مسلمان پڑھتے ہیں۔

جوزف: جانتا ہوں۔

جوزف نے ایرک کو اپنے خواب اور عثمان کے ساتھ ہوئی ساری گفتگو کے بارے میں بتایا۔ جوزف نے اُسے بتایا کہ میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور مجھے بہت سکون مل رہا ہے، جیسے دل کا بوجھ ختم ہو گیا ہو۔

ایرک: بھائی، موم اور ڈیڈ کا کیا؟ وہ تو آپ کو نہیں چھوڑیں گے۔

جوزف: ایرک، میں حق پر ہوں اور اب اللہ کے سوا میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

ایرک: بھائی، مجھے بھی اسلام کے بارے میں کچھ بتائیں نا۔

جوزف نے عثمان کی بتائی ہوئی ساری باتیں ایرک کو بتائیں اور جوزف کی طرح ایرک کو بھی سن کر اچھا لگنے لگا۔ ایرک نے کہا:

ایرک: بھائی، مجھے بھی مسلمان بننا ہے۔ آپ کو نماز پڑھتے دیکھ کر مجھے بہت سکون مل رہا تھا۔ دل چاہ رہا تھا آپ کے ساتھ ساتھ میں بھی پڑھوں۔

جوزف: کیا سچ میں؟

ایرک: ہاں، سچ میں۔

جوزف: تو ٹھیک ہے، کل میں عثمان سے بات کروں گا۔

ایرک: ٹھیک ہے، مگر موم ڈیڈ؟ اُن کو کیا بولیں گے؟

جوزف: ایرک میری بات سنو، اللہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمت سے کام لینا ہے۔ موم ڈیڈ سے ڈرنا نہیں، ڈٹ کر جواب دینا ہے۔

ایرک: صحیح کہا۔ چلیں کھانا کھانے؟

جوزف مسکراہٹ کے ساتھ بولا: چلو۔

وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے لیے آواز اٹھائیں۔ تمہیں پتا ہے میرا نام اب جوزف نہیں ہے؟

ایرک: پھر؟

جوزف: اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے اپنا نام بدل کر مسلمان والا رکھا ہے، نہ کہ عیسائیت والا۔

ایرک: کیا نام رکھا؟

یوسف۔ آج سے میں یوسف ہوں، جوزف میرا کڑوا ماضی تھا۔

ایرک: واہ! بہت اچھا نام ہے۔

یوسف: ہاں۔

ایرک: چلیں کیا؟

یوسف: ہاں، چلو۔

وہ دونوں کھانے کے لیے گئے۔

جان: آ گئے دونوں؟

ایرک: جی۔

جان: جوزف، تم ایرک سے دور رہو، ورنہ۔۔۔

یوسف: بات کاٹتے ہوئے بولا: میرا نام جوزف نہیں، یوسف ہے۔ میں اسلام قبول کر چکا ہوں۔

جیسمن کے ہاتھ سے پانی کا گلاس گر گیا اور وہ بولی: کیا تمہارا دماغ ٹھیک ہے؟ کیا بکواس کر رہے ہو؟ ہوش میں تو ہو؟ کیا بول رہے ہو؟

جیسمین اور جان کی چیخوں کے درمیان، یوسف کے ذہن میں صرف ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا:
"کیا ایرک بھی وہی راستہ چنے گا جہاں سکون تو ہے، مگر راستے میں طوفان بھی ہے؟"