قسط نمبر 3
کھانے کی میز پر بیٹھا یوسف، ایریک کی طرف دیکھتا ہے۔ ایریک بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنی پوری فیملی کے سامنے کہتا ہے:
"میں بھی اسلام قبول کروں گا، جو سکون مجھے چاہیے وہ مجھے عیسائیت میں نہیں، اسلام میں ہی ملے گا۔"
جیسمن سر پر ہاتھ رکھ کر بولی:
ایریک! تم بھی اپنے بھائی کی طرح پاگلوں والا کام کرو گے؟ مجھے تم سے ایسی امید نہ تھی۔"جوزف:
"یوسف... یوسف نام ہے میرا۔"
:جیسمن
"جو بھی ہو، کیا میں نے تمہیں اسی دن کے لیے پالا تھا؟ ساری خوشیاں دیں کہ تم اس راستے پر چلو؟"
:جان (غصے سے)
"یہ صلہ ملا ہے ہمیں؟ ہم نے تمہیں کتنے پیار سے پالا، ناز نخرے اٹھائے، کیا ہمیں یہی دن دیکھنے تھے؟"
:یوسف (سخت لہجے میں)
"کیا کہا؟ ناز نخرے؟ پیار سے پالا؟"
"موم، ڈیڈ! آپ نے مجھے ہمیشہ ایک بوجھ سمجھا ہے۔ کبھی دل سے نہیں پالا۔ بچپن سے لے کر آج تک، جو بھی غلط کام ایریک یا رابن نے کیے ہوں، ہمیشہ مجھے قصوروار ٹھہرایا۔ کبھی میری بات پر دھیان نہیں دیا، کبھی جو مانگا وہ نہیں دیا، کبھی پیار سے بات نہیں کی۔ ہمیشہ تلخ لہجے میں ہی بات کی۔ کبھی میرا ساتھ نہیں دیا۔ تو کیا آپ کی نظر میں اسے ناز نخرہ اٹھانا کہتے ہیں؟"
"آپ لوگوں نے مجھے ہر کسی کے سامنے اتنا برا کہا، اتنا بدنام کیا، کہ میں خود کو دیکھنے کے قابل نہ رہا۔ ہمیشہ اندھیرے میں رہا ہوں۔ کیا اب بھی آپ اسے محبت کہیں گے؟"
"نہیں! شاید میں ہی بزدل ہوں، جو ہمیشہ آپ لوگوں سے محبت کرتا رہا، آپ کی محبت کے لیے ترستا رہا۔ اب آپ کے سامنے بات کرنے کا کیا فائدہ؟ جن کے دل پتھر کے ہوں، اُن کے آگے بولنے سے کچھ نہیں بدلتا۔ آواز ٹکرا کر واپس آ جاتی ہے۔ اور ویسے بھی، سمجھایا اُنہیں جاتا ہے جو سمجھنا چاہتے ہوں۔"
جیسمن اور جان یہ سب الفاظ سن رہے تھے، مگر انہیں اپنی کوئی غلطی نظر نہ آئی۔
:جیسمن (کڑوی آواز میں)
"بکواس بند رکھو تو ہی اچھا ہے! ہمیشہ ہمیں بدنام کرتا ہے، ہم ہی بُرے ہیں، ہمیں تو ایک دن گھر سے ہی نکال دے گا۔"
جان (رابن کی طرف دیکھ کر)
"اس میں اتنی ہمت؟ یہ گھر رابن کے نام کر دوں گا۔ وہ بڑا بھائی ہے، اور زیادہ سمجھدار بھی۔ وہ ہمارا خیال رکھے گا۔"
:رابن
"جی ڈیڈ، میرے نام کر دیں۔ یہ لوگ اس قابل نہیں۔ اور میں ہی ہوں جو آپ دونوں کا خیال رکھ سکتا ہوں۔ یہ تو بےروزگار ہیں، سڑک پر دھکے کھا کر مر جائیں گے۔"
:ایریک (غصے سے)
"بھائی، آپ اپنی شان و شوکت پر جتنا بھی فخر کریں، یاد رکھیں کہ کبھی سکون نہیں ملے گا۔"
:رابن (تضحیک آمیز انداز میں)
"تم مجھے بتاؤ گے؟ تمہیں تو شاید یہ بھی نہیں پتہ کہ شان و شوکت کیا ہوتی ہے۔"
:ایریک
"خیر، میں بتا دوں، کل میں اسلام قبول کر لوں گا۔ اور ہاں، میرے راستے میں رکاوٹ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔"
ایریک اور یوسف خاموشی سے اپنا کھانا لے کر اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔
:جان (جیسمن سے)
"کل جیسے ہی یہ آئے، میں دونوں کو گھر سے نکال دوں گا۔ سمجھ نہیں آتا کیا منہ دکھائیں گے لوگوں کو!"
:جیسمن (منہ بناتے ہوئے)
"جو لگا ہوا ہے!"
:جان (غصے سے)
"یار یہ ٹھنڈی چُسیاں نہ مارا کرو!"
"خیر، میں سوچ رہا ہوں کہ یہ گھر رابن کے نام کر دوں۔"
:رابن
"جی ڈیڈ، یہ بہتر رہے گا۔"
رابن اپنے کمرے میں جا کر فون اٹھاتا ہے۔
"اوہ! جیسیکا کی مسڈ کالز!"
"ہیلو! جیسیکا، کیسی ہو؟ I'm so sorry، میں مصروف تھا، اس لیے کال نہیں کر پایا۔"
:جیسیکا
"میں ٹھیک ہوں۔ کہاں تھے تم؟ خیر چھوڑو، میں نے گھر پر شادی کی بات کی ہے، میرے گھر والوں کو کوئی اعتراض نہیں۔"
:رابن
"جیسیکا میری بات سنو، ابھی اس بات کو کچھ دن کے لیے ایک طرف رکھو۔"
:جیسیکا (شک کے ساتھ)
"کہیں تم دھوکہ تو نہیں دو گے؟"
:رابن (ہنستا ہوا)
"ارے، دماغ خراب تو نہیں ہو گیا تمہارا؟ میں ایسا کیوں کرنے لگا؟"
"سنو، ابھی ابو یہ گھر میرے نام کرنے والے ہیں، اور جائیداد بھی۔ تو سب کچھ میرے نام ہوتے ہی ہم اپنا کھیل کھیلیں گے۔"
:جیسیکا (چونک کر)
"مطلب؟"
:رابن (سخت لہجے میں)
"دیکھو، میں اپنے ماں باپ سے صرف اسی مفاد کے لیے بات کرتا ہوں۔ کیونکہ وہ جو دو بیٹوں کو نہیں سنبھال سکے، وہ میرے ساتھ کب مخلص ہوں گے؟ وہ تو صرف پیسوں کی وجہ سے مجھے رکھتے ہیں، ورنہ مجھے بھی یوسف اور ایریک کی طرح پھینک دیتے۔"
:جیسیکا (خطرناک مسکراہٹ کے ساتھ)
"ایسے ماں باپ کو خود سے دور کر دینا ہی بہتر ہے۔"
:رابن
"ہاں! بس ایک بار گھر میرے نام ہو جائے، پھر میں شادی کر کے اُنہیں گھر سے نکال دوں گا۔"
---
دوسری جانب ایریک بھی اسلام قبول کر چکا تھا۔
اس کا پہلا سجدہ... اُسے ایسا محسوس ہوا جیسے دل سے کوئی بوجھ اُتر گیا ہو۔
وہ بہت خوش تھا۔ مگر اسے "ایریک" نام سے نفرت تھی۔ اس نے اپنا نام بدلنے کی خواہش ظاہر کی۔
عثمان نے کہا
"تم اپنا نام 'عبداللہ' کیوں نہیں رکھتے؟ اس کا مطلب ہے 'اللہ کا بندہ'۔"
:ایریک
"ہاں، یہ ٹھیک ہے۔"
وہ گھر گئے، مگر جیسمن اور جان نے انہیں دیکھ کر شدید غصہ کیا۔
:رابن نے کہا
"اپنا سامان لو اور نکلو!"
:یوسف
"یہ ہمارا گھر ہے، ہم نہیں جائیں گے۔"
:جان
"یہ وہ گھر ہے جہاں عیسائی پیدا ہوئے تھے اور ہمیشہ عیسائی ہی رہیں گے۔ کسی اور مذہب کے کیڑے یہاں نہیں آئیں گے!"
:رابن
"سنا نہیں؟ دفع ہو جاؤ! تمہاری یہاں کوئی جگہ نہیں ہے!"
:یوسف (عبداللہ سے)
"چلو عبداللہ، اپنا سامان لو!"
:عبداللہ
"مگر بھائی..."
یوسف اور عبداللہ اپنے کمرے میں گئے، اپنا سارا سامان لے کر نیچے آئے۔
:اور جاتے وقت کہا
"موم، ڈیڈ! ہم جا رہے ہیں۔ اور یاد رکھیے گا، اب آپ ہمیں کسی مشکل میں اپنا چہرہ دکھاتے نہیں دیکھیں گے۔ یہ جو بیٹا آپ کے ساتھ مخلص اور فرمانبردار بن رہا ہے، یہ سب دکھاوا ہے۔ جب گھر مل جائے گا، تو آپ کو بھی سڑک پر چھوڑ دے گا۔"
:رابن
"چپ رہو!"
:جان
"مجھے رابن پر پورا بھروسہ ہے۔ اور تم دونوں دفع ہو جاؤ یہاں سے! اب اپنا چہرہ مت دکھانا!"
---
کہانی کے دونوں کرداروں کو نئی شناخت مل چکی تھی۔
اب، گھر سے نکلنے کے بعد وہ کہاں جائیں گے؟
کیا وہ سڑک پر رات گزاریں گے؟
یا کسی سے پناہ مانگیں گے؟
یا شاید... وہ ترس جائیں گے؟
Nechy apna review zaroor dayn or follow bhi krlen aisay dilchasp novels or kahanio k liye.
Agr ap k koi suggestions hain tw
(Ink_and_whisper.0)
Insta account pr DM ma apni raye deskte Hain or follow bhi kr skte Hain takay mazeed updates lene me asani ho
Agly chapter ka intizar karen or duaon me yad rkhen
God bless you