باب آخر
مسجد کی اذان کی صدا فضا میں پھیل چکی تھی۔
عبداللہ، عثمان، اور یوسف—تینوں بھائی جیسے ہر روز کی طرح مسجد پہنچے۔
یوسف کے چہرے پر ایک الگ ہی نور تھا۔ آنکھوں میں چمک، پیشانی پر سکون، اور زبان پر خاموشی تھی۔
آج کا دن عام دنوں جیسا نہ تھا… کچھ الگ سا محسوس ہو رہا تھا۔
وضو کرتے وقت بھی وہ دیر تک پانی کو ہاتھوں پر بہاتا رہا، جیسے ہر ایک بوند کو محسوس کر رہا ہو۔
عثمان نے ہنستے ہوئے کہا،
"کیا وضو کے پانی میں بھی تمہیں سکون نظر آ رہا ہے آج؟"
یوسف صرف مسکرا دیا، کچھ نہ بولا۔
نماز کھڑی ہوئی…
یوسف سب سے آگے کھڑا تھا۔
نماز شروع ہوئی۔ رُکوع، سجدے… اور پھر…
وہ سجدہ…
جس میں انسان خود کو رب کے سب سے قریب پاتا ہے…
یوسف نے سجدے میں سر رکھا… اور واپس نہ اٹھایا۔
چند لمحے گزرے، سب نے سلام پھیرا، مگر یوسف ساکت تھا…
عبداللہ نے آہستہ سے اُس کے کندھے کو ہلایا:
"یوسف…؟"
کوئی جواب نہ آیا۔
عثمان نے جلدی سے اُسے سیدھا کیا…
اس کا چہرہ سفید تھا، مگر پُرسکون۔
لبوں پر جیسے ہلکی سی مسکراہٹ ٹھہری ہوئی تھی۔
آخری سجدہ… آخری سانس…
وہ رب کی بارگاہ میں سجدے ہی میں چلا گیا۔
مسجد کی فضا میں رقت طاری ہو گئی۔
عبداللہ سجدے میں گر پڑا، عثمان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔
رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ پورا محلہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، صرف روبن کے بنگلے کی بالائی منزل کی ایک کھڑکی سے زرد سی روشنی باہر جھانک رہی تھی۔
روبن اپنے بیڈروم میں لیٹا ہوا تھا۔ وہ تھکا ہوا تھا، دل میں عجیب سا اضطراب تھا۔
دل کے اندر کچھ خالی خالی سا لگ رہا تھا۔
جیسیکا خاموشی سے اندر آئی، ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔
"پیو… تھک گئے ہو، آرام سے سو جاؤ۔"
روبن نے بےفکری سے پانی پی لیا اور بستر پر لیٹ گیا۔
جیسے ہی پانی اندر گیا، اس کا جسم اکڑنے لگا۔
"جیسیکا… یہ… کیا ہو رہا ہے مجھے؟"
آواز کپکپاتی ہوئی، آنکھوں میں خوف… سینے میں جلن… سانس اکھڑنے لگی۔
جیسیکا نے چہرے پر ایک سرد مسکراہٹ سجائی۔
"یہی تو وہ لمحہ ہے جس کا ہمیں انتظار تھا، روبن…"
دروازہ کھلا۔
ایک اجنبی مرد اندر داخل ہوا۔ وہ جیسیکا کا عاشق تھا — وہی جس کے ساتھ مل کر اس نے روبن کے گھر، جائیداد، اور زندگی پر قبضہ کیا تھا۔
روبن کی آنکھوں میں بےیقینی تھی، بےبسی تھی…
"جیسیکا… تم…؟"
جیسیکا نے روبن کے قریب آ کر اس کے کان میں سرگوشی کی:
"تم نے اپنے ماں باپ کو نکالا… اپنے بھائیوں کو حقیر جانا…
اب تمہاری باری ہے… مرنے کی۔"
روبن زمین پر تڑپ رہا تھا۔
ہاتھ پاؤں مفلوج ہو چکے تھے… سانسیں رکتی جا رہی تھیں…
ایک آخری چیخ…
ایک آخری کوشش…
مگر کچھ نہ بچا۔
جیسیکا نے اس کا موبائل اٹھا کر تمام شواہد مٹا دیے…
جسم کو ایک بڑے بیگ میں بند کر کے گاڑی میں ڈالا،
اور ایک سنسان جنگل میں لے جا کر جلا دیا۔
"اب کوئی تمہیں تلاش نہیں کر سکے گا…"
---
🌑 دوسری صبح… جان اور جیسمن کا ضمیر جاگ اٹھا
وہ نیم تاریک کمرہ جہاں جان اور جیسمن رات گزار چکے تھے، سرد اور سنسان تھا۔
در و دیوار خاموش تھے، مگر اندر سے آوازیں گونج رہی تھیں —
ضمیر کی آوازیں۔
"ہم نے یوسف کو سمجھنے میں دیر کر دی،" جان نے تھکی ہوئی آواز میں کہا۔
"اسے ہمیشہ کمزور، بےکار سمجھا… اور روبن کے غرور کو محبت مانتے رہے…"
جیسمن کی آنکھیں نم تھیں۔
"ہمیں یوسف سے معافی مانگنی چاہیے… وہی بچہ جس نے کبھی کوئی شکایت نہیں کی…"
جان نے آہستہ کہا،
"چلو… عبداللہ کے پاس چلتے ہیں… شاید وہ ہمیں یوسف تک لے جائے… ہمیں معاف کر دے…"
---
🌑 عبداللہ کے کمرے میں
عبداللہ اپنے کمرے میں تھا، خاموش، پرسکون۔
یوسف کے انتقال کے بعد اس کی آنکھیں اکثر بھیگ جاتیں۔
اسے وہ آخری سجدہ یاد آتا… وہ نورانی چہرہ… وہ خاموشی جس میں ایک دنیا بولتی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی۔
عبداللہ نے دروازہ کھولا تو سامنے ماں باپ کھڑے تھے —
ٹوٹے ہوئے، ندامت سے بھرے ہوئے۔
"بیٹا…" جیسمن کی آواز بھیگ گئی،
"ہم یوسف سے معافی مانگنے آئے ہیں… ہمیں ہماری غلطی کا احساس ہو چکا ہے…"
عبداللہ کی آنکھوں میں بھی نمی آ گئی۔
"امّی… ابو… آپ بہت دیر سے آئے…
یوسف اب اس دنیا میں نہیں…"
خاموشی چھا گئی۔
جان زمین پر بیٹھ گیا۔
"ہم نے ایک فرشتہ کھو دیا…"
جیسمن سسک پڑی:
"ہمیں کیسے سکون ملے گا؟ وہ تو چلا گیا…"
عبداللہ نے ماں کا ہاتھ تھاما۔
"اگر آپ سچے دل سے پچھتا رہے ہیں… تو رب معاف کرنے والا ہے…
اور میں… میں آپ دونوں کو اللہ کی رضا کے لیے معاف کرتا ہوں۔"
ماں باپ عبداللہ کے قدموں میں گر گئے۔
"ہم تمہارے گناہگار ہیں، ہمیں اپنا لو بیٹا…"
عبداللہ نے دونوں کو گلے لگا لیا۔
"چلو… واپس چلو… یہی تمہارا گھر ہے…"
---
🌑 عبداللہ کی آخری دعا
اُسی رات، عبداللہ نے یوسف کی قبر پر حاضری دی۔
چاندنی رات تھی۔
ہوا ہلکے ہلکے گالوں کو چھو رہی تھی۔
عبداللہ نے سجدے میں سر رکھا،
"اے میرے رب… تُو گواہ ہے…
آج میں نے اُنہیں معاف کیا، جنہوں نے مجھ پر، میرے بھائی پر ظلم کیا…
بس تُو بھی ہمیں معاف کر دے…"
وہ جو دکھتا نہیں، مگر دل میں بستا ہے
ہر دعا، ہر سجدے میں چپکے سے ہنستا ہے
اس کے ہونے کا پتہ صرف دل کو چلتا ہے
کوئی آواز نہیں، بس نور سا لگتا ہے
تنہائی کی راتوں میں جو دل کو چھو جائے
وہ خیالوں میں کبھی خواب سا لگتا ہے
اک سجدہ، اک آنسو، اور پھر سکون ملا
یعنی وہ رب، جو ہر دل میں بستا ہے
یوسف کی آنکھوں میں تھا درد بھی، نور بھی
اک شکستہ سا چراغ، جو اب بھی جلتا ہے
چھوڑ آیا وہ جہاں، مگر باقی ہے یہاں
اس کا سجدہ، اس کا روگ، جو اب بھی روتا ہے
حرفِ آخر
کچھ کہانیاں صرف کاغذ پر نہیں لکھی جاتیں،
وہ دل کی دیواروں پر خود بہ خود ابھر آتی ہیں۔
"وہ جو دکھتا نہیں" بھی بس ایسی ہی ایک کہانی ہے۔
یہ صرف یوسف کی کہانی نہیں تھی،
یہ اُس ہر دل کی داستان تھی جو اندھیرے میں روشنی ڈھونڈتا ہے۔
جو دنیا کی چیخ و پکار کے بیچ، خاموشی میں رب کی آواز سننے کا طلبگار ہوتا ہے۔
یوسف سجدے میں گیا — شاید جسمانی طور پر ختم ہوگیا —
لیکن اصل زندگی تو وہیں سے شروع ہوئی،
جہاں دنیا کے شور ختم ہوئے اور روح نے رب کی پکار سنی۔
میں نے یہ ناول اس لیے نہیں لکھا کہ میں کوئی بڑا لکھاری ہوں،
بلکہ اس لیے کہ میرے اندر کچھ تھا جو کہا جانا ضروری تھا۔
روحانی سفر ہمیشہ آسان نہیں ہوتا،
مگر جو اِسے دل سے اپناتا ہے،
وہ رب کی قربت میں وہ سکون پاتا ہے جو دنیا کے کسی کونے میں ممکن نہیں۔
اگر یوسف کی کہانی نے تمہیں لمحہ بھر کو بھی رُکنے، سوچنے،
یا اپنی زندگی کو نئے زاویے سے دیکھنے پر مجبور کیا،
تو سمجھو مقصد پورا ہوگیا۔
اللّٰہ ہمیں ہمیشہ اُس راستے پر قائم رکھے جو دل کو اُس کی طرف لے جائے۔
آمین۔
دعاؤں کا منتظر
احمد بیگ